تذکرہ شخصیات بھوپال/ شگفتہ فرحت
(Dr Rais Ahmed Samdani, Karachi)
|
تذکرہ شخصیات بھوپال/ شگفتہ فرحت ٭ ڈاکٹر رئیس احمد صمدنی 28مارچ2021 ء اتوارکی شب سوشل میڈیا گروپ’کراچی عروس البلاد‘ جس کے روح رواں جناب اقبال اے رحمن مانڈویا صاحب ہیں کی سربرستی میں ادبی نشست زاہد علی خان صاحب کی رہائش گاہ واقع گلستان جوہر میں منعقد ہوئی۔ علم و ادب کے روشن ستاروں کی یہ تیسری ہنستی مسکراتی، خوشیاں بکھیرتی، ایک دوسرے پر خلوص و محبت کے پھول نچھاور کرتی محفل تھی۔مجھے اقبال صاحب کے توسط سے تیسری بار ایسی ادبی نشست میں شریک ہونے کا اعزاز حاصل ہوا تھا۔ادبی محفل کی روداد یا رپوتاژ اُسی شب تین بجے منظر عام پر آچکی تھی۔ کراچی عروس البلادکی سرگرم رکن گل بانوکی تیزی اور پھرتی کی داد دینی پڑتی ہے کہ تقریب کے اختتام ہونے کے تین گھنٹے بعدتقریب کی خوبصورت منظر کشی فیس بک پر موجود تھی۔ اس سے قبل فیس بک پر اس محفل کو لائیو بھی نشر کیا جا چکا تھا۔ کام کرنے والے ایسے ہوتے ہیں۔ بات کو مختصر کررہا ہوں اس لیے یہاں مقصد ایک کتاب کا تعارف کرانا مقصود ہے۔ تقریب کا اختتامی دور کتابوں کے تحائف دینے کی رسم تھی جس میں مہمانوں کو مختلف احباب کی جانب سے کتابوں کے تحائف سے نوازا گیا اور ان کی تصاویر بھی ساتھ ساتھ بنتی رہیں۔ تحائف وصول کرنے والوں میں خوش قسمت ہم بھی تھے۔اقبال اے رحمن مانڈیا صاحب کراچی کے ماضی پر اپنی کتاب ”اس دشت میں اِک شہر تھا: کراچی کے سنہرے دنوں کی داستان“ ہمیں پہلے ہی عنایت کر چکے تھے اور ہم نے اس خوبصورت تصنیف پر تفصیلی اظہاریہ بھی لکھ ہے۔ یہ کتاب ہمیں اپنے ماضی میں لے گئی اور ہمیں ایسا لگا کہ ہم اس کتاب کے بے شمار حصوں میں اپنے بچپن اور جوانی میں سفرکررہے ہیں۔ تقریب میں شہر کراچی کی ایک معروف ادبی شخصیت اویس ادیب انصاری اور ان کی بیگم شگفتہ فرحت صاحبہ بھی تشریف لائے۔ اویس ادیب انصاری نے جوں ہی ہمیں دیکھا لپک کر گویا ہوئے ’ارے بھئی صمدانی صاحب بھی موجود ہیں انہیں تو کتاب ضرور دینی ہے‘۔ اویس انصاری صاحب بہت ہی محبت اور چاہت سے ملتے ہیں، عزت و احترام ان پر ختم ہے۔ ایک تقریب کا قصہ مختصر کر کے سناتا ہوں۔ اویس انصاری صاحب اور ان کی بیگم نے ادبی فورم ”محبان بھوپال فورم (پاکستان)“کے نام سے بنایا ہوا ہے۔ اس کی چھتری تلے اکثر ادبی پروگرام منعقد کرتے ہیں۔ میں بھی اکثر چلا جاتا ہوں۔ جب بھی دیکھتے ہیں لہک کر ملتے ہیں۔ اس تقریب میں مَیں ایک عام سامع کی حیثیت سے گیاتھا خیال تھا کہ پیچھے بیٹھ کر چند مقررین کو سنوں گا چپکے سے واپسی کی راہ لونگا۔ تقریب شروع ہوئی۔ اویس انصاری صاحب اسٹیج کی جانب جانے لگے تو مجھ پر نظر پڑی بس جناب میرے نام کا نعرہ لگاتے ہوئے میرا ہاتھ پکڑا اور اسٹیج پر جا بیٹھا دیا حالانکہ میں اس تقریب کا مقرر بھی نہیں تھا لیکن اویس انصاری صاحب کی محبت کے سامنے اُف نہ کر سکا اور اسٹیج پر جا بیٹھا۔ تقریب اتنی طویل ہوئی کہ بیٹھے بیٹھے برا حال ہوگیا۔ لیکن اویس ادیب انصاری کی محبت اور ان کا خلوص اس پریشانی کے سامنے کچھ بھی نہیں تھا۔ تقریب کے اختتام پر کتاب تحفہ میں دینے کی آواز لگائی گئی۔ اویس ادیب انصاری صاحب کی بیگم صاحبہ کی تصنیف ”تذکرہ شخصیاتِ بھوپال“ ہمیں بھی دی گئی۔ دیدہ ذیب، ضخامت 920صفحات، کتاب شائع ہوئے کئی سال ہوگئے لیکن کتاب تو جب ہاتھ میں آجائے، اور قاری اس سے مخاطب ہووہ تروتازہ ہوکرہم کلام ہوجاتی ہے۔ بقول شگفتہ فرحت کے بھائی اور استاد نور احمد میرٹھی ”کتاب بھاری اور قیمتی پتھر ہوتی ہے، وہ آدمی کو زندہ رکھتی ہے“۔ پاکستان کے جید شاعروں اور نثر نگاروں نے اس پر اپنے تاثرات کا اظہار کیا ہے ان میں محمد احمد سبزواری، مصطفےٰ تاج، جمیل الدین عالیؔ، ڈاکٹر فرمان فتح پوری، ڈاکٹر عبد القدیر خان جو خود بھی بھوپال سے تعلق رکھتے ہیں۔ پروفیسر سحر انصاری، پروفیسر ڈاکٹر پیرزادہ قاسم اور قمر علی عباسی شامل ہیں۔ بھوپال کی علمی ادبی شخصیات جن کا تذکرہ مصنفہ نے کیا ہے ان کی تعداد 181ہے۔ کسی ایک علاقے سے تعلق رکھنے والوں کا تذکرہ اس انداز سے ترتیب دینے کی یہ انوکھی اور منفرد مثال ہے۔ تذکرہ نگاری اردو ادب کی ایک ایسی صنف ہے کہ جس کی اہمیت اور افادیت روز اول سے ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ اس کی ضرورت اور افادیت کا احساس بڑھ رہا ہے۔ادب میں شعراء، ادباء، ادیبوں اور دانشوروں کے تذکروں کو کلیدی اہمیت حاصل ہے۔ یہ تاریخ بھی ہوتے ہیں اور تنقید بھی۔ اگر تذکرہ نگاری نہ ہوتی تو آج ماضی کے شاعروں اور ادیبوں کے بارے میں حال بے خبر ہوتا، اسی طرح اگر حال کے شاعروں اور ادیبوں کے تذکرے مرتب نہیں ہوں گے تو مستقبل میں آج کے شاعر اورادیب گم نام رہیں گے۔ایسے شاعروں اور ادیبوں کی تعداد بے شمار ہے کہ جن کا کلام طبع نہیں ہوا، نہ ہی ان کی کوئی نثری تصنیف شائع ہوئی، یہ تذکرے ہی ہیں کہ جنہوں نے ایسے گم نام شاعروں اور ادیبوں کو پہچان دی اور انہیں گمنامی سے محفوظ رکھا۔ اردو میں تذکرہ نگاری سے قبل فارسی میں کچھ تذکرے تاریخ میں ملتے ہیں۔تذکرہ سے مراد کسی بھی کتاب یا مضمون میں شعراء و ادبا ء کا ذکریا علیحدہ سے ایسی کتاب جس میں شاعروں، ادیبوں اور محققین و مصنفین کے بارے میں معلومات درج ہوں۔ 1490ء میں دولت شاہ کی تصنیف میں شعرا کے بارے میں معلومات درج ملتی ہیں۔ اردو تذکرہ نگاری میں میر تقی میرؔ کانام سرِ فہرست ہے۔ میرؔ نے اردو شاعروں کا پہلا تذکرہ ”نکات الشعرا“ کے عنوان سے مرتب کیا تھا جو 1751 ء میں منظر عام پر آیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ ا س تذکرے میں ستر یا بھتر(70-72) شاعروں کا تذکرہ تھا۔ تذکرہ نگاری میں میرتقی میرؔ کے علاوہ جو بڑے نام تاریخ میں ملتے ہیں ان میں شفیق اورنگ آبادی، مصحفیؔ، قایم چاندپوری، نواب مصطفیٰ خان شیفتہ شامل ہیں۔ افضل بیگ قاشقال کا تذکرہ ”تحفہ الشعرا‘1752ء، حمید اورنگ آبادی کا تذکرہ ”گلشن گفتار‘1752 ء، فتح علی گردیزی کا تذکرہ ’ریختہ گویان‘1753 ء، میر حسن دہلوی کا تذکرہ ’تذکرہ شعرائے اردو‘، غلام ہمدانی مصحفی کا تذکرہ ’تذکرہ ہندی‘1795ء،مصطفی خان شیفتہ کا مرتب کردہ تذکرہ’گلشن بے خار‘ 1835 ء، قابل ذکر تذکرے ہیں۔ محمد حسین آزاد کی کتاب ”آب حیات“ بھی تذکرہ نگاری کی ایک کڑی ہے۔ لالہ سری رام کی مرتب کردہ پانچ جلدیں ”خم خانہئ جاوید“ کو مشفق خواجہ نے اپنے وقت کے بہترین تذکرہ کہا ہے۔ امروہہ کے شاعر غلام ہمدانی مصحفیؔ کے مرتب کردہ تین تذکرے ”عقدِثریا“، ”تذکرہ ہندی گویا“ اور ”ریاض الفصحا“ تذکروں کی فہرست میں اعلیٰ مقام رکھتے ہیں۔ ہندوستان کی جامعہ موہن لال کھاڑیا یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے صدر ڈاکٹر رئیس احمد نے اپنی تحقیقی کتاب ”اردو تذکرہ نگاری 1835 ء کے بعد“ جو 2011 ء میں شائع ہوئی، ریختہ کی ویب سائٹ پر مکمل متن کے ساتھ موجود ہے میں بہت ہی تفصیل سے اس اچھوتے موضوع کو خوبصورت طریقے سے سمیٹا ہے۔ پاکستان میں بھی اس موضوع پر بہت کام ہواہے، بے شمار تذکرے شعراء اور ادیبوں نے مر تب کیے۔ فیروز سنز نے ”جدید شُعَرَائے اُردُو“ کے عنوان سے کبھی 1125صفحات پر مشتمل بڑے سائز میں تذکرہ شائع کیا ہوگا، اس پر قیمت اٹھارہ روپے درج ہے پر سنہ نہیں لکھا ہوا۔ اس کے چیف ایڈیٹر ’ڈاکٹر عبد الوحید‘ ہیں۔ کتاب کی قیمت سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ تذکرہ کتنا قدیم ہے۔ طویل مقدمہ مشرف انصاری صاحب کا لکھا ہوا ہے۔ سنہ بہت تلاش کیا لیکن کہیں نہیں مل سکا۔ پروفیسر سراج الدین قاضی نے حیدرآباد سندھ کے ادیبوں، شاعروں کے ساتھ ساتھ اساتذہ کا تذکرہ مرتب کیا، محمد خاور نوازش جن کا تعلق ملتان سے ہے نے ”مشاہرِ ادب: خار زارِ سیاست میں“ کے عنوان سے ایک تذکرہ مرتب کیا جسے مقتدرہ قومی زبان نے 2012ء میں شائع کیا۔ اسی طرح بے شمار تذکرے وقت کے ساتھ ساتھ مرتب ہوتے رہے اور منظر عام پر آتے رہے۔ دبستانوں کا دبستان،کراچی ادیبوں، محققین، نقادوں، شاعروں، مصوروں، مورخین، سیاحوں، سماجی اور علمائے دین کا ایک مسلسل تذکرہ ہے جس کی چار جلدیں شائع ہوچکی ہیں۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے احمد حسین اس تذکرہ کی تدوین گزشتہ 13سالوں سے کررہے ہیں۔ اس کی اولین جلد 2003ء میں منظر عام پر آئی تھی۔تذکرہ شخصیات بھوپال سے بات تذکروں کی اشاعت کی جانب چلی گئی اور طویل بھی ہوگئی۔ مصنفہ شگفتہ فرحت بھوپال کی سرزمین سے تعلق رکھتی ہیں جب کہ ان کے شوہر نامدار کا تعلق لکھنؤ کے فرنگی محل خاندان سے ہے۔ بھوپال کی سرزمین کو لکھنؤ اور دلی کے بعد ادب اور زبان کے حوالے سے منفرد مقام حاصل ہے۔ بھوپال میں شاعروں اور ادیبوں کو عزت و احترام سے نوازا گیا، بھوپال تہذیب و ثقافت، زبان ادب کے حوالے سے اپنی ایک الگ شناخت رکھتاہے۔ تذکرہ بھوپال کی مو ئلفہ کو بھوپال کے علمی و ادبی ماحول سے نسبت ہے۔وہ ننھیال و دوھیال دونوں جانب سے بھوپالی ہیں۔ لکھنؤ ی کے عقد میں آگئیں تو علمی و ادبی ذوق میں نکھار تو آناہی تھا۔ تذکرہ شخصیات بھوپال کی تدوین میں بقول مولفہئ کئی سال لگے اس کے باوجود ان کا کہنا ہے کہ بہترین کوششوں کے باوجود بہت سی شخصیات یا ان کے متعلقین سے رابطہ نہ ہوسکا۔ بھوپال جیسے شہر علم و ہنر کی تمام شخصیات تذکرہ میں شامل نہیں۔ مولفہئ نے اس خواہش کا بھی اظہار کیا ہے کہ ممکن ہے کہ وہ کتاب کی دوسری جلد بھی مرتب کریں تاکہ جو احباب علم و دانش اس تذکرہ میں شامل نہ ہوسکے وہ دوسری جلد میں شامل ہوں۔ یہ ایک خوش آئند خواہش ہے اللہ اس کی تکمیل کرائے۔ تذکرہ شخصیات بھوپال کے ابتدائی صفحات میں مختلف دانشوروں کے تاثرات درج ہیں جن سے اس تذکرہ کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ محمد احمد سبزواری نے اپنے تاثرات میں لکھا ”اپنی جنم بھومی سب ہی کو عزیز ہوتی ہے۔ اس لیے اگر بھوپالیوں کو بھوپال سے عشق ہے تو یہ فطری اور نثریاتی عمل ہے۔ انہوں نے فارسی کا یہ شعر بھی نقل کیا ہے۔ حب الوطن از ملک سلمان خوشتر خار وطن از سنبلہ و ریحان خوشتر مصطفےٰ تاج نے شگفتہ فرحت کو بھوپال کا اخبار کہا ہے۔ انہوں نے یہ بھی لکھا کہ واقعی شگفتہ فرحت بھوپالیوں کے لیے رہبر اردو ہیں، پیامبر اُردو ہیں، پرستارِ اُردو ہیں، خادمِ اردو ہیں، ان کا کہنا ے کہ مجھے ان کی لگن دیکھ کر پوری امید بلکہ یقین ہے کہ بھوپال اور بھوپالیوں کو اسی طرح اپنے ادبی آنچل میں سمیٹے اپنی یادوں کا حصہ بنائے رکھیں گی اور اس بات کا بھی یقین دلاتا ہوں کہ بھوپال کی تاریخ اور بھوپالی انھیں کبھی فراموش نہیں کریں گے‘۔جمیل الدین عالی، ڈاکٹر فرمان فتح پوری کے علاوہ ڈاکٹر عبد القدیر خان جو کہ از خود بھوپالی ہیں تذکرہ بھوپال اور مولفہئ کے اس عمدہ کام کو قابل ستائش قرار دیا ہے۔ ڈاکٹر قدیر کا الکھنا ہے کہ ہندوستان کی کسی اور ریاست نے وہ عزت رتبہ علم و تعلیم کے میدان میں حاصل نہیں کیا جو اس چھوٹے سے جواہر پارے کے مقدر میں آیا“۔ ان کے علاوہ تاثرات لکھنے والوں میں پروفیسرؔ سحر انصاری، پروفیسر ڈاکٹر پیرزادہ قاسم صدیقی، قمر علی عباسی شامل ہیں۔قمر علی عباسی نے کتاب اور مصنفہ سے زیادہ ا ویس ادیب انصاری کی خوبیوں کی مالا بیان کی ہے، سچ یہ ہے کہ وہ ہیں ہی بے بہا خوبیوں کے مالک۔ عرصہ تک آرٹس کونسل آف پاکستان میں سرگرم رہے۔ اب اس کی منتظمہ جو کئی برس سے اقتدار میں ہے کو سیدھا راستہ دکھانے کی سعی کرتے رہتے ہیں۔ تذکرہ کی مولفہئ میں علم و ہنر اور ادبی ذوق ورثہ میں ملا ہے۔ان کے نانا شاعر تھے، دیگر قریبی عزیز بھی شاعری اور ادب سے دلچسپی رکھا کرتے تھے۔ اس ذوق و شوق کو اویس ادیب انصاری نے چار چاند لگادیے۔ مجلسی آدمی ہیں پہلے پہل ”بھوپال انٹر نیشنل فورم‘ کی داغ بیل ڈالی اور ادبی و شعری محفلوں کا انعقاد کیا۔ پھر ”محبان بھوپال فورم“ تشکیل دیا اوراس کے سائے تلے کراچی میں ادبی نشستوں کو عام کررہے ہیں۔ آرٹس کونسل آف پاکستان میں عرصہ تک سرگرم رہے۔ شگفتہ فرحت نے بھوپالیوں کو روشناس کرانے کا بیڑا اتھایا، شروع شروع میں تو وہ بھوپالیوں پر مضامین لکھتی رہیں جو روزنامہ ’آفتاب جدید‘ اور روزنامہ ’ندیم‘ بھوپال میں شائع ہوئے۔ پاکستان ہجرت کے بعد ان کے لکھنے کا سلسلہ نہ صرف جاری رہا بلکہ لکھنؤ کے فرنگی محل خاندان سے تعلق رکھنے والے شوہر اویس ادیب انصاری نے ان کی حوصلہ افزائی کی۔ اب ان کی تحریریں کراچی کے اخبارات و رسائل نونہال، تعلیم و تربیت، جنگ، اخبار جہاں، مشرق، نوائے وقت، اخبار خواتین، خواتین ڈائجسٹ،پاکیزہ ڈائجسٹ اور دیگر میں شائع ہونے لگے۔ لکھنے اور چھپنے کا یہی عمل شگفتہ فرحت کو بھوپال کی شخصیات کا تذکرہ مرتب کرنے کی جانب لے آیا۔ تذکرہ مرتب کرنا ایک کٹھن اور صبر آزما کام ہے۔ شخصیات پر لکھنا بہت ہی مشکل امر ہوتا ہے اس کے لیے انتہائی دشوار گزار منزلوں کو عبور کرنا پڑتا ہے۔ میری ذاتی رائے میں زندہ احباب پر لکھنا مشکل تو نہیں ہوتا لیکن جو کچھ چھپ جائے اس پر متعلقہ زندہ شخص کی رائے شاید ہی مثبت ملتی ہو۔ عام طور پرسننے کو ملتا ہے کہ ”میری یہ بات شامل نہیں ہوسکی، یہ بھی شامل ہوتا تو اچھا تھا، بس ٹھیک ہے، یہ جملہ کچھ اس طرح ہوتا تو اچھا تھا، میری وہ تعریف جو فلانے کی تھی وہ تو رہ ہی گئی، وغیرہ وغیرہ“۔ شگفتہ فرحت نے تذکرہ بھوپال میں کس کس کو شامل نہ کیا۔ شاعر، ادیب، کھلاڑی، سانئسدان، استاد، وہ جو اصل میں بھوپالی ہیں، وہ بھی جو ادھر ادھر سے بھوپال میں آبسے وہ بھی جس نے بڑے تالاب کا پانی پی لیا وہ بھی بھوپالی۔ اس تذکرہ سے بہت سے احباب کے بارے میں علم ہوا کہ وہ بھی کسی نہ کسی طرح ہندوستان کی سرزمین بھوپال سے تعلق رکھتے ہیں۔ تذکرہ میں جن احباب کا تذکرہ ہے ان کے بارے میں مختصر ہی لکھنا، یہاں تک کہ ان کے نام لکھنا بھی یہاں مشکل ہے اس لیے کہ یہ 181احباب کا تذکرہ ہے چند احباب میں ڈاکٹر عبد القدیر خان، پروفیسر آفاق احمد افتخار سید، ڈاکٹر بشیر بدرؔ، جان نثار اختر، خوش بخت شجاعت، شاہین صہبائی،صہبا لکھنؤی، عبد الحسیب خان، عبید اللہ علیم، پروفیسر ڈاکٹر عطیہ خلیل عرب، قمر النساء قمر، محسن بھوپالی، محمد احمد سبزواری، ڈاکٹر یونس حسنی اور دیگر شامل ہیں۔مصنفہ کا اسلوب سادہ، سہل الفاظ کا استعمال کرتی ہیں، مشکل اور ثقیل الفاظ سے اجتناب کرتی ہیں۔ گفتگو کا جو انداز ہے تحریر میں بھی وہی انداز نمایاں ہے۔ کتاب کے اختتام پر مشاہیر کا منظوم خراج عقیدت کے عنوان سے متعدد شعرا کا کلام درج ہے۔ذیل میں چند اشعار درج ہیں۔ آخر میں رنگین تصاویر سے تذکرہ کا اختتام ہوتا ہے۔ یہ مساجد کا شہر ہے یہ فصیلوں کا شہر دل ہے ہندوستان کا یہ سات جھیلو ں کا شہر جگن ناتھ آزادؔنے بھوپال کو گہورہئ علم ادب کہا ؎ ہاں تو اے بھوپال! اے گہورہئ علم و ہنر قدس کی تنویر سے روشن ہیں تیرے بام و در رفعت سروش’نے کہا ؎ بیاں کس طرح سے لفظوں میں ہو بھوپال کہاں اشعار کا دامن کہاں تہذیب کی جنت محسن بھوپالی نے خوبصورتی سے بھوپال کو مخاطب کیا ؎ شہر بھوپال۔۔۔۔اے ارضِ دارالسلام! ایک مدت کے بعد آج پھر تجھ سے ہوں ہم کلام سالہا سال کے فاصلے کاٹ کر اپنے یاروں میں ہوں۔۔۔اپنے پیاروں میں ہوں! شہر بھوپال۔۔۔۔اے ارضِ دارالسلام! (یکم اپریل 2021ء) |