مختصر باتیں

پی ڈی ایم میں شامل دو بڑی سیاسی جماعتوں کے لیڈر وں کے ایک دوسرے کے خلاف اختلافی بیانات نے اس وقت بڑی دلچسپ صورتحال پیدا کی ہوئی ہے کل تک اکٹھے جینے مرنے کی قسمیں کھانے والے اب ایک دوسرے کو للکار رہے ہیں سینٹ میں اپوزیشن لیڈر کے لیے پیپلز پارٹی نے جو چال چلی اس سے ن لیگ منہ کے بل زمین پر آگری جسکے بعد مولانا فضل الرحمن گوشہ نشین ہوگئے کیونکہ دونوں طرف انکے محسن ہیں جنہوں نے انہیں کشمیر کمیٹی کا چیئرمین بنائے رکھا تھا اس لیے مولانا صاحب اپنے شدید تحفظات ہونے کے باوجود آصف علی زرداری اور نواز شریف سے کوئی اختلاف نہ کرسکے بلکہ اندر ہی اندر اس دھنگا مشتی پرشائد مسکرابھی رہیں ہونگے جبکہ بلاول بھٹو زرداری اور مریم نواز شریف کے بیانات کی گولہ باری کے بعد جو انکے سیاسی کارکنان نے صورتحال پیدا کی ہوئی ہے وہ بھی بڑی مزے کی ہے کیونکہ ان سیاسی جماعتوں میں کسی کارکن کو اپنے لیڈر سے اختلاف کی جرات نہیں یہ سب کے سب لکیر کے فقیر ہیں کس نے کیا کیا کہا وہ مختصر باتیں لکھنے سے قبل اس تمام صورتحال پر وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے انتخابی اصلاحات کے لیے مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کو کرداراداکرنے کی پیش کش کرتے ہوئے کہا کہ انتخابی اصلاحات کے لیے ایک کمیٹی بنائی جارہی ہے اور تمام سیاسی جماعتوں سے رابطہ کیا جائے گا اگرپہلے انتخابی اصلاحات ہو جاتیں تو سینیٹ الیکشن مذاق نہ بنتا یہی وجہ ہے کہ سینیٹ الیکشن کے بعد سے نون لیگ والوں کا منہ بنا ہوا ہے اپوزیشن نے دواڑھائی سال استعفیٰ استعفیٰ بہت کھیل لیا اب آگے بڑھنے کی ضرورت اپوزیشن وزیر اعظم عمران خان کی بات مانتی تو آج ان کا مذاق نہ بنتا اپوزیشن جماعتوں کو عمران فوبیا سے نکل کر اپنی خامیوں پر توجہ ڈالنی چاہیے اور جب بھی ہم مذاکرات کی بات کرتے ہیں تو یہ حکومت کو کمزور سمجھتے ہیں اپوزیشن کو اپنی سیاست پر نظر ثانی کی ضرورت ہے ۔میں سمجھتا ہوں کہ فواد چوہدری کی بات بلکل درست ہے اگر اپوزیشن ملک وقوم کے ساتھ مخلص ہوتی تو یہ اصلاحات اور قانون سازی کی طرف توجہ دیتی مگر پہلے یہ حکومت کے خلاف کھیلتے رہے اب انہوں نے خود ہی ایک دوسرے کا گریبان پکڑا ہوا ہے اور پی ڈی ایم ایس وقت میدان جنگ کا منظر پیش کررہی ہے مریم نواز نے سید یوسف رضا گیلانی کا سینٹ میں بطور اپوزیشن لیڈر منتخب ہونے پراتنا برا منایا کہ پی ڈی ایم کے سب سے بڑے اتحادی آصف علی زرداری کو یہ کہنے پر مجبور ہوگئی کہ زرداری سب پر بھاری والی بات شرمندگی ہے پیپلزپارٹی کو باپ کے لوگوں نے باپ کے کہنے پر ووٹ دیاجسکے جواب میں بلاول بھٹو زرداری نے انہیں ٹھنڈا پانی اور ٹھنڈی سانسیں لینے کا مشورہ دیا اور پیپلز پارٹی کی سینیٹر پلوشہ خان نے کہا کہ سینیٹ میں پاکستان پیپلزپارٹی اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت تھی، قائد حزب اختلاف کا عہدہ پیپلزپارٹی کا جمہوری حق ہے اس حق کو نہ ماننا کونسی اصول پرستی ہے آئین اور جمہوریت کی جدوجہد میں جیالوں نے آگ اور خون کے دریا عبور کئے ہیں اس لئے برائے مہربانی کوئی بھی ہمیں جمہوریت کا سبق نہ پڑھائے بلکہ مسلم لیگ(ن)والے بتائیں کہ پنجاب میں سینیٹروں کو بلا مقابلہ لانا اگر ملی بھگت نہیں تھی تو کونسا خوف تھا کہ انہوں نے مقابلہ کرنا مناسب نہ سمجھاجبکہ اعظم نذیر تارڑ کو سینیٹ میں قائد حزب اختلاف بنانے کا اسرار بھی سوالیہ نشان ہے۔ پیپلزپارٹی کے سینیٹر ایسے شخص کو قائد حزب اختلاف بنانے کی کیسے حمایت کر سکتی تھی جو محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے قاتلوں کا ابھی تک وکیل ہے جبکہ اسکا سینیٹر بننا بھی ایک معمہ ہے۔ جمعیت علمائے اسلام کے رہنما حافظ حسین احمد نے کہا ہے کہ ہم نے اپنی جماعت نہیں چھوڑی جے یو آئی کو بھی موروثی جماعت بنانے کی کوشش کی گئی بلک پی ڈی ایم نے جمیعت علمائے اسلام کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کیا اور اب تو پی ڈی ایم کا شیرازہ ہی بکھر گیا ہے 2018 کے انتخابات میں مولانافضل الرحمان اور ان کے بیٹے کو قومی اسمبلی انتخابات سے روکا، مولانا فضل الرحمان نے نواز شریف کے کہنے پر انتخابات میں حصہ لیا، اب وہ اپنی ساکھ کو بچانے کے لیے لگے ہوئے ہیں میں اور مولانا شیرانی مولانا فضل الرحمان سے پہلے پارٹی کے رکن بنے تھے اب بھی وقت ہے مولانا صاحب پارٹی میں واپس آجائیں۔پی ڈی ایم کی اس دھنگا مشتی میں خاموش رہنے والے وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار بھی خاموش نہیں بیٹھے اور کہا کہ اپوزیشن نے جو بویا وہی اب کاٹ رہے ہیں، پی ڈی ایم کا غیر فطری اتحاد اپنے انجام کو پہنچ چکا ہے، اپوزیشن نے پاکستان کے مفادات کو دا و پر لگانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تحریک انصاف کی حکومت نے سابق دور کی خرابیوں کو درست کیا ہے، ماضی میں قومی وسائل کو نمائشی منصوبوں کی نذر کر کے ملک و قوم سے ظلم کیا گیا وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں پاکستان اپنا اصل مقام حاصل کرے گا، تحریک انصاف کی حکومت نے مختصر عرصے میں عوام کی فلاح و بہبود کیلئے متعدد اقدامات کیے ہیں، عوام کی خدمت کا ایجنڈا لیکر آئے ہیں۔آخر میں مودی کی دہشت گردانہ پالیسیوں کی بدولت مقبوضہ کشمیر میں بھارتی لاک ڈاون کو 600 دن مکمل ہوگئے، اس دوران بھارتی فورسز نے 323 کشمیریوں کو شہید کردیا قابض بھارتی فورسز نے 600 دن سے مقبوضہ وادی کو دنیا کی سب سے بڑی جیل بنا رکھا ہے، بھارتی لاک ڈاون کے دوران 323 کشمیری شہید اور پر تشدد کارروائیوں میں ایک ہزار 753 کشمیری شدید زخمی ہوئے قابض فورسز نے حریت رہنما سمیت 14 ہزار سے زیادہ کشمیریوں کو گرفتار کر رکھا ہے جبکہ بھارتی غیر قانونی اقدام کے بعد کشمیریوں کے ایک ہزار سے زیادہ مکانات کو نقصان پہنچایا گیا اس دوران وادی میں مسلسل کرفیو کے نفاذ سے نظام زندگی مفلوج ہے اور کشمیری گھروں میں محصورہیں ، کرفیو اور پابندیوں کے باعث اب تک مقامی معیشت کو ایک ارب ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے اور ہزاروں لوگ بے روزگار ہوچکے ہیں۔

 

rohailakbar
About the Author: rohailakbar Read More Articles by rohailakbar: 830 Articles with 613546 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.