وزیراعظم عمران خان کی جانب سے پاکستانیوں کی سہولت کے
لیئے بنایا گیا وزیراعظم سٹیزن پورٹل شہریوں کے لیئے وبال جان بن گیا ہے۔
کئی بار شکایات کے باوجود پورٹل کی کارکردگی ٹھیک نہ ہو سکی۔ پورٹل استعمال
کرنے والے صارفین کا کہنا ہے کہ پورٹل میں کئی کئی روز تک fault رہتا ہے۔
اگر کوئی صارف اپنی شکایت درج کروانے کے لیئے پورٹل کا استعمال کرنا چاہے
تو یہ لکھا ہوا ظاہر ہوتا ہے کہ (کچھ تکنیکی غلطی واقع ہوئی ہے! بعد میں
دوبارہ کوشش کریں۔) یا پھر system is under maintenance جیسے الفاظ لکھے
آتے ہیں۔ پورٹل میں اس کی خرابی یا مسلے کے متعلق فیڈ بیک دینے اور رابطہ
کرنے کا جو آپشن موجود ہے اس پر اگر صارفین شکایت بھیجوا دیں تو بھی پورٹل
انتظامیہ کی جانب سے کوئی ایکشن نہیں لیا جاتا۔ صارفین کی شکایت ہے کہ
پورٹل کے ذریعے کی جانے والی کئی شکایات پورٹل انتظامیہ کی جانب سے سسٹم سے
غائب کر دی جاتی ہیں یا پھر سرکاری محکموں کی جانب سے ان کا جواب موصول
نہیں ہوتا جو کئی کئی ماہ تک پینڈنگ پڑی رہتی ہیں۔ پورٹل استعمال کرنے والے
صارفین کا کہنا ہے کہ پورٹل انتطامیہ کی جانب سے ایسا کوئی ہاٹ لائن نمبر
بھی نہیں ہے کہ جس پر پورٹل انتظامیہ کو اُن کی غلطی کے متعلق شکایت کی جا
سکے۔ وزیراعظم پرفارمینس ڈیلوری یونٹ کا سٹیزن پورٹل ایپ اب عوام کے لیئے
زحمت بن چکا ہے۔ راقم مذکورہ ایپ کی خامیاں کسی بھی پلیٹ فارم پر بتانے کے
لیئے تیار ہے۔ موجودہ حکومت ایسے نام نہاد ایپ بنا کر یہ سوچ رہی ہے کہ وہ
عوام کے مسائل حل کرنے میں پیش پیش ہے مگر حقیقت میں کوئی سرکاری محکمہ
عوام کی شکایات پر خاص عمل درآمد نہیں کرتا۔ صدر، وزیراعظم، وزاء اعلی اور
گورنروں کی معائنہ ٹیمیں بھی لاکھوں انکوائریوں کو دَبا کر بیٹھی ہوئی ہیں۔
کبھی یہ خبر دیکھنے کو نہیں ملی کہ وزیراعظم سٹیزن پورٹل ایپ یا اُن اہم
حکومتی شخصیات کے ماتحت کام کرنے والی انسپکشن ٹیموں نے کسی محکمہ میں ہونے
والی بدعنوانیوں، بے قاعدگیوں، بے ضابطگیوں اور کرپشن کے خلاف کوئی اہم قدم
اٹھایا ہو۔ عوام کی طرف سے تحریری، فیکس اور اِی میل کی جانے والی لاکھوں
درخواستیں التواء کا شکار ہیں۔ اگر ہر ماہ پاکستان کے سرکاری محکموں کی
جانب سے رَدی کی ٹوکری میں پھینکنے والی درخواستیں اگر کباڑی کو بیچ دی
جائیں تو قومی خزانے کو کروڑوں کا فائدہ پہنچے گا کیونکہ عوام کو تو یہ
سرکاری محکمے کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتے۔ پاکستان میں پاک آرمی، ائیرفورس
اور نیوی کو بھیجوائی جانے والی درخواستوں پر کئی حد تک عمل اور کاروائی ہو
جاتی ہے مگر سول سرکاری محکمے اپنے اِن فرائض میں ناکام رہتے ہیں۔ آخر کار
عوام تنگ آکر عدالتوں کا رُخ کرتی ہے کیونکہ عوام کو پاکستان کے سرکاری
محکموں سے اِنصاف نہیں مل پاتا۔ ملک بھر کی عدالتوں میں ایسے لاکھوں کیس
زیر سماعت ہیں جن کی لمبی تاریخیں ہی سہی مگر مرَمرَ کر عوام کو انصاف مل
ہی جاتا ہے۔موجودہ حکومت میں جہاں ہر اہم محکمہ فوجیوں کے حوالے کیا گیا ہے
وہاں وزیراعظم کا سٹیزن پورٹل بھی اگر اُن کے حوالے کر دیا جائے تو شاید
عوام کی شکایات پر بروقت کاروائی ہو سکے۔کیونکہ مشرف دور حکومت میں پاکستان
آرمی کی جانب سے جو مانیٹرنگ ٹیمیں بنائی گئی تھیں اُن کی جانب سے فوری
ایکشن ہوتا مگر تب سے اب تک عوام کی داد رسی و فریاد سننے کے لیئے کوئی
ایسا محکمہ،سیل یا سیکشن قائم نہ ہو سکا جو عوام کی جانب سے ملنے والی
درخواستوں پر عمل درآمد کر ے۔ موجودہ حکومت میں بھاری بھرکم تنخواہ لینے
والے اَفسران سرکاری اوقات کی پابندی کرنے کی بجائے صبح دس بجے تک دفاترمیں
حاضرہوتے ہیں ناشتہ ،چائے ،سموسے ، بسکٹ دفتروں میں کھا پی کر چھٹی کا
انتظار کرتے ہیں۔ پولیس اہلکارں کے مقابلے میں سول محکموں کے سرکاری
ملازمین نو گھنٹے ڈیوٹی کرتے ہیں جبکہ ہفتہ اور اتوار چھٹی مناتے ہیں۔ ملک
کی ساکھ جس تیزی سے خراب ہو رہی ہے اُس کو دیکھ کر تمام سرکاری ملازمین کے
کام کرنے کے اوقات کم ازکم دس گھنٹے ہونے چاہیئے اور ہفتے میں ایک چھٹی
ہونی چاہیئے یہ ایک کالم نویس نہیں بلکہ پورے ملک کی عوام کا مطالبہ ہے جو
سرکاری محکموں کی غفلت اور لاپرواہی کی وجہ سے مشکلات اور عذاب سے دو چار
ہیں۔
|