اس میں کچھ شک نہیں کہ پی ڈی ایم انتہائی غیر فطری اتحاد
تھا جس نے ایک نہ ایک دن عین فطری انداز میں موت کی آغوش میں چلے جانا
تھامگر اپنے قیام کے قلیل عرصہ میں برق رفتاری سے ٹوٹ جانایقنی طور پر PDM
کی بانی قیادت کے لئے تکلیف کا باعث بن چکا ہے۔ PDMغیر فطری اتحاد تھا ، ان
میں کچھ انتہائی مذہبی جماعتیں ، کچھ سیکولرسوچ کی حامل جماعتیں، کچھ لسانی
اور علاقائی نظریات پر مر مٹنے والی جماعتیں شامل تھیں۔PDM بنانے کا اولین
اور آخرین مقصد عمران خان کی حکومت کو گھر بھیجنا تھا جس میں PDMبدترین
ناکامی کا شکار ہوا اور اپنی موت آپ مرگیا، PDM کے جنازہ کو دفنانے کا
اعلان ہونا باقی ہے، وہ اعلان بھی چند ہفتوں کے اندر اندر دیکھنے سننے کو
مل جائے گا۔PDM اتحاد ٹوٹنے کا باقاعدہ آغاز اس وقت دیکھنے کو ملا جب PDM
حکومت کو گھر بھیجنے کیلئے ا پنے آخری معرکہ کی طرف صف آراء ہونے کے لئے
تیاریاں پکڑ رہی تھی تو عین اسی وقت پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک زرداری نے
اسمبلیوں سے استعفیٰ دینے اور اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کرنے کیلئے
نواز شریف کی وطن واپسی کی شرط سامنے رکھ دی، یہ ایسی شرط تھی جس پر PDM
میں شامل تمام جماعتیں ہکا بکا رہ گئی، پیپلز پارٹی کی قیادت کی طرف سے 180
ڈگری کے یوٹرن نے PDM اتحاد میں صحیح معنوں میں دراڑیں ڈال دی۔ PDM میں سب
سے فعال پارٹیاں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن، جمعیت علماء اسلام تھیں، ان
جماعتوں نے PDMکے پلیٹ فارم سے ملک کے بڑے شہروں جلسے منعقد کئے ، گلگت
بلستان میں باہمی رضامندی اور اتفاق کیساتھ اپنی اپنی پارٹی کے انتخابی
نشانات پر الیکشن بھی لڑے، اور سب سے بڑا معرکہ سینٹ الیکشن میں یوسف رضا
گیلانی کا الیکشن بھی لڑا اور جیتا۔ PDM کے پلیٹ فارم پر مسلم لیگ ن اور
جمعیت علماء اسلام کا شروع دن ہی سے جارحانہ انداز رہا اور انکے نزدیک
حکومت وقت کو جتنی جلدی ہوسکے گھر واپسی کا رستہ دیکھا دیا جائے، یہی وجہ
تھی کہ مسلم لیگ کے لیڈران نواز شریف اورمریم نواز شریف اور PDMکے سربراہ
مولانا فضل الرحمان حکومت وقت کو گھر بھیجنے کے لئے ڈیڈ لائن دیتے دیکھائی
دئیے گئے۔کبھی آر پار ہونے کے بلند و بالا دعوے کئے گئے تو کبھی ملک میں
مکمل طور پر لاک ڈاؤن کرنے کے عندیے دیئے گئے۔مگر دوسری طرف پاکستان پیپلز
پارٹی نے بہت ہی نپے تلے انداز میں PDM کی دیگر جماعتوں کو حکومت وقت کے
خلافstep by step کاروائیاں کرنے کے لئے رضامندی کرتی رہی، جس میں بہت حد
تک پیپلز پارٹی کامیاب بھی رہی، اور آہستہ آہستہ اپنے اصل ٹارگٹ یعنی سینٹ
میں اپنی عددی برتری حاصل کرنے کے لئے سینٹ الیکشن تک PDM کی حکومت ہٹاؤ
تحریک کو ملتوی کرواتی رہی۔اب بظاہر تو ایسا ہی لگ رہا ہے کہ شائد پیپلز
پارٹی کا اصل ہدف عمران خان کی حکومت نہیں بلکہ سینٹ میں اپنی عددی برتری
کو حاصل کرنا تھا کیونکہ جیسے ہی پیپلز پارٹی کو سینٹ الیکشن میں PDMکی
جماعتوں کے تعاون سے عددی برتری حاصل ہوئی وہیں پر پیپلز پارٹی نے نہ صرف
حکومت وقت کے خلاف تحریک کو نواز شریف کی وطن واپسی سے مشروط کردیا بلکہ
یکطرفہ طور پر یوسف رضا گیلانی کو سینٹ کا اپوزیشن لیڈر بنوانے لئے حکومت
وقت اور آزاد اراکین سینٹ خصوصی طور پر ـــ’’باپ پارٹی‘‘ کے اراکین کو ساتھ
ملا لیا۔ یوسف رضا گیلانی کی سینٹ میں اپوزیشن لیڈر نامزدگی نے PDM اتحاد
کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دیا۔لیکن مسلم لیگ ن کی قیادت کی طرف سے پیپلز
پارٹی کے موجودہ طرزعمل پر چیخ وپکار کرنے اور سیخ پاء ہونے سے پہلے مسلم
لیگ ن کو اپوزیشن اتحاد میں پیپلز پارٹی کو شامل کرنے سے پہلے پیپلز پارٹی
کی موجودہ قیادت کے ماضی قریب کے طرزعمل کو اچھی طرح جانچ پڑتال کرنا بہت
ضروری تھا۔ کیونکہ عدلیہ بحالی تحریک میں پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین
زرداری نے نواز شریف کے ساتھ ججوں کی بحالی اور دیگر امور پر ہونے والے
معاہدوں کے متعلق کہا تھا کہ یہ کوئی قرآن کے الفاظ یا حدیث تو نہیں ہیں کہ
ان میں بدلتی ہوئی صورتحال کے ساتھ تبدیلی نہ لائی جاسکے۔زرداری نے کہا تھا
کہ سیاسی جماعتوں میں کوئی معاہدے نہیں ہوتے بلکہ مفاہمت ہوتی ہے۔ ان کے
بقول سیاسی مفاہمت میں کبھی پچاس فیصد کامیابی ہوتی ہے تو کبھی کچھ زیادہ
تو بھی انہیں کامیاب مانا جاتا ہے۔میثاق جمہوریت پر دستخط کرتے ہوئے مسلم
لیگ ن کی قیادت نے محترمہ بے نظیر بھٹو کیساتھ جمہوریت بحالی اور عدلیہ
بحالی کی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا، افسوس محترمہ بے نظیر بھٹو کی
زندگی نے وفا نہ کی مگر جو سلوک پیپلز پارٹی نے آصف زرداری کی قیادت میں
میثاق جمہوریت پر دستخظ کرنے والی دوسری جماعت مسلم لیگ ن کیساتھ کیا تھا
وہ بھی تاریخ کا حصہ ہے، لیکن مسلم لیگ ن نے ایک مرتبہ پھر اپنے ماضی سے
سبق حاصل نہیں کیا اور پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت پر اندھا دھند اعتماد
کیا، یہاں تک کہ مسلم لیگ ن کی قیادت نے 27 دسمبر محترمہ بے نظیر بھٹو کے
یوم وفات کے دن گھڑی خدابخش مزارات پر جاکر حاضری بھی دی بلکہ عوام الناس
سے خطاب میں بے نظیر بھٹو کو خراج عقیدت بھی پیش کیا (یہ سب کرنے کا مقصد
شائد مسلم لیگ ن قیادت پر ضیاء دور سے اپنے اوپر لگے داغ کو دھونے کی ناکام
کوشش کرنا تھا) بظاہر پیپلز پارٹی نے PDM سے اپنی راہیں جدا کرکے صوبہ سندھ
کی حکومت کو محفوظ کرلیا ہے، مگر حقیقی معنوں میں ماضی میں چاروں صوبوں میں
وجود رکھنے والی پیپلز پارٹی کو سندھ تک محدود کرلیا ہے، وہ وقت دور نہیں
جب پیپلز پارٹی کو صوبہ سندھ میں اپنی بقاء کو قائم رکھنا بھی دشوار ہوجائے
گا، مگر دوسری طرف پیپلز پارٹی کے ہاتھوں ایک مرتبہ پھر کھلونا بننے والی
مسلم لیگ ن کے موجودہ ردعمل کو انتہائی بچگانہ کہا جاسکتا ہے ، آئے دن مسلم
لیگ ن کی قیادت کی جانب سے دئیے جانے والے ردعمل سے بکھری ہوئی PDMکو
سنبھالا تو دور کی بات PDMکو مزید ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔حال ہی میں ANP نے بھی
PDM سے اپنی راہوں کو جدا کرلیا ہے، الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا پر
مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز، شاہد خاقان عباسی، رانا ثناء اﷲ ، حنا
پرویز بٹ اور بہت سے دیگر سیاسی رہنماؤں کی جانب سے پیپلز پارٹی پر تابڑ
توڑ حملوں نے پیپلز پارٹی کی قیادت کو بھی زبان فراہم کردی ہے، وہ بھی مسلم
لیگ ن کی قیادت پر کھل کر تنقید کرتے ہوئے دیکھائی دے رہے ہیں۔ عمران خان
کی حکومت کو گھر بھیجنے والے اب خود دست و گریبان دیکھائی دے رہے ہیں۔مسلم
لیگ ن کی جہاں اور بہت سی غلطیاں ہیں وہی پر سب سے بڑی غلطی سینٹ میں
اپوزیشن لیڈر کے لئے معروف قانون دان اعظم تارڑ کو نامزد کرنا تھا، چونکہ
پیپلز پارٹی کے نزدیک بے نظیر بھٹوقتل کیس کے حوالہ سے اعظم تارڑ پسندیدہ
شخصیت نہیں تھی ، یقینی طور پر پیپلز پارٹی کی طرف سے مسلم لیگ ن کی طر ف
سے تارڑ کی نامزدگی کو انتہائی ناپسندیدگی سے دیکھا گیا اور پیپلز پارٹی کو
PDM کے پلیٹ فورم سے دور ہونے کا فطری بہانہ مل گیا۔مسلم لیگ ن کے پاس اعظم
تارڑ کے علاوہ بہت سے سنیئر سینٹرز حضرات کی موجودگی میں اعظم تارڑ ہی کو
نامزد کرنا اور پھر اس پر اصرار جاری رکھنا انتہائی نامعقول فیصلہ ثابت
ہوا۔ پیپلز پارٹی کی جانب سے 180 ڈگری کے یوٹرن پر مسلم لیگ ن کی قیاد ت کو
صبر و تحمل کا بھرپور مظاہرہ کرنا چاہئے تھا جس سے پیپلز پارٹی کو اپنے
یوٹرن پر عوام الناس میں مزید تنقید کر سامنا کرنا پڑتا ، ساتھ ہی ساتھ
مسلم لیگ ن کوــ’’ ووٹ کو عزت دو‘‘ کے مقصد کوحاصل کرنے کے لئے پیپلز پارٹی
، اے این پی جماعتوں کو حرف تنقید بنانے کی بجائے خودPDM کے پلیٹ فورم ہی
سے آئندہ کا لائحہ عمل کا اعلان کرنا چاہئے تھا اور اپنے طرزعمل سے ثابت
کرتی کہ انکو پیپلز پارٹی یا کسی اور پارٹی کے سہاروں کی ضرورت بالکل نہیں
ہے۔ اس وقت مسلم لیگ ن کی قیادت کی طرف سے پیپلز پارٹی اور اے این پی پر
تنقید بظاہر اس بچے کی حالت جیسی لگ رہی ہے، جسکو محلہ میں دوسرے بچے پٹائی
کردیں تو وہ رونا دھونا شروع کردیتا ہے۔ مسلم لیگ ن کا رونا دھونا انکے
کمزور ہونے کی نشانی بتارہا ہے۔ دوسری طرف جہاں عوام الناس مہنگائی کی وجہ
سے عمران خان کی حکومت پر کڑی تنقید کرتی دیکھائی دیتی ہے، وہی پر عوام
مسلم لیگ ن سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں پر بھی کڑی تنقید کرتی دیکھائی دے
رہی ہے، عوام یہ کہنے میں بالکل حق بجانب ہے کہ عوام مہنگائی کی چکی میں پس
رہی ہے مگر اپوزیشن ٹویٹر ، فیسبک یا ٹی وی ٹاک شو پروگراموں میں حکومت کے
خلاف زبانی جمع خرچ کرتی ہوئی دیکھائی دیتی ہے، عوام الناس یہ کہنے پر
مجبور ہے کہ موجودہ اپوزیشن نے حکومت وقت کے خلاف مہنگائی کے نام پر کوئی
ایک جلسہ، جلوس، ریلی نہیں نکالی، اگر اپوزیشن کو عوامی ایشوز پر سیاست
نہیں کرنی تو پھر لانگ مانگ یا شارٹ مارچ میں عوام کی آمداور حکومت کی جانب
سے ممکنہ پھینٹی پروگرام میں عوام کی جانب سے پھینٹی کھانے اور جیل یاترا
کی امید رکھنا انتہائی بچگانہ خواب ہی ہوگا۔
|