سپریم کورٹ کی جانب سے بلدیاتی اداروں کی بحالی

سپریم کورٹ نے پنجاب لوکل گورنمنٹ کا سیکشن 3 آئین کے آرٹیکل-A 140 کے خلاف قرار دیتے ہوئے پنجاب کے بلدیاتی اداروں کو بحال کر دیا۔چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے بلدیاتی انتخابات کیس کی سماعت کرتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 140 کے تحت قانون بنایا جاسکتا ہے لیکن اداروں کو ختم نہیں کرسکتے۔یاد رہے کہ پنجاب میں دو سال قبل سابقہ بلدیاتی نظام تحلیل کردیا گیا تھا جس کے بعد تمام میٹرو پولیٹن کارپوریشنز اور یونین کونسلز ختم ہو گئی تھیں۔ نئے بلدیاتی نظام کے تحت ایڈمنسٹریٹرز تعینات کیے گئے تھے۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ اس بات کی کیسے وضاحت دے سکتے ہیں کہ عوام کو منتحب نمائندوں سے دور رکھا جائے، آپ کو کسی نے ایکٹ لانے کا غلط مشورہ دیا ہے، حکومت کی ایک حیثیت ہوتی ہے چاہے وہ وفاقی ہو، صوبائی یا بلدیاتی ہو، اختیار میں تبدیلی کرسکتے ہیں، بنیادی ڈھانچہ بہتر بنایا جاسکتا ہے۔عدالت نے کہا کہ پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ کا سیکشن 3 غیرآئینی ہے، پنجاب کی بلدیاتی حکومتیں بحال کی جائیں، عوام نے بلدیاتی نمائندوں کو 5 سال کے لیے منتخب کیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ ایک نوٹیفیکشن کا سہارا لے کر انہیں گھر بھجوانے کی اجازت نہیں دے سکتے۔سپریم کورٹ پاکستان کے بلدیاتی اداروں کی بحالی کا فیصلہ انتہائی مناسب اور وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کی ترقی میں جہاں دوسرے بہت سے عوامل شامل ہیں وہی پر ان ممالک کے لوکل گورنمنٹ یا بلدیاتی اداروں کی کارکردگی کا بہت ہی زیادہ اہم کردار شامل حال ہے۔ پاکستان کے متفقہ آئین پاکستان جو کہ 1973 سے نافظ العمل ہے، اس میں بہت واضح طور پر بلدیاتی اداروں کی اہمیت اور ضرورت کا بیان کیا گیا ہے۔ آئین پاکستان کے آرٹیکل 32 میں درج ہے کہ:
The State shall encourage local Government institutions composed of elected representatives of the areas concerned and in such institutions special representation will be given to peasants, workers and women.
یعنی: ریاست متعلقہ علاقوں کے منتخب نمائندوں پر مشتمل مقامی سرکاری اداروں کی حوصلہ افزائی کرے گی اور ایسے اداروں میں کسانوں، مزدوروں اور خواتین کو خصوصی نمائندگی دی جائے گی۔اسی طرح آئین پاکستان کے آرٹیکل 140-A میں درج ہے کہ:(1) Each Province shall, by law, establish a localgovernment system and devolve political, administrative and financial responsibility and authority to the elected representatives of the local governments.
(2) Elections to the local governments shall be held by the Election Commission of Pakistan
یعنی: ہر صوبہ، قانون کے ذریعہ، ایک مقامی حکومت کا نظام قائم کرے گا اور مقامی حکومتوں کے منتخب نمائندوں کو سیاسی، انتظامی اور مالی ذمہ داری اور اختیارات فراہم کرے گا۔ بلدیاتی حکومتوں کے انتخابات الیکشن کمیشن آف پاکستان کریں گے۔ 2018 میں پاکستان تحریک انصاف کی وفاق اور تین صوبوں میں حکومتیں قائم ہونے کے بعد کسی کم عقل وزیر مشیر کے مشورہ پر پاکستان تحریک انصاف کی اعلی قیادت نے صوبہ پنجاب کے بلدیاتی اداروں کو تحلیل کردیا۔ اس تحلیل کی واضح وجہ یقینی طور پر یہ تھی کہ صوبہ پنجاب کے بلدیاتی اداروں میں منتخب اراکین کی زیادہ تر تعداد اور زیادہ تر ضلعوں میں پاکستان تحریک انصاف کی حریف جماعت یعنی پاکستان مسلم لیگ ن کے حمایت یافتہ چیرمین براجمان تھے۔ پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کو پتا نہیں کس نے مشورہ دیا دوسرے لفظوں میں اعلی قیادت کو یہ خوف دلایا کہ جب تک بلدیاتی اداروں میں پاکستا ن مسلم لیگ ن کے منتخب اراکین اور چیرمین موجود ہیں تب تک پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو خطرات رہیں گے یا شاید ان اراکین کی موجودگی میں پاکستان تحریک انصاف حکومت کی رٹ قائم نہ رہ سکے گی۔شاید اسی وجہ سے پاکستان تحریک انصاف کی صوبائی حکومت نے صوبہ بھر کی مقامی حکومتوں پر بظاہر شب خون مارا تھا۔ اور اگر حکومت نے بلدیاتی اداروں کو تحلیل کربھی دیا تھا تو چاہئے تو یہ تھا کہ حکومت نئے بلدیاتی انتخابات کروانے میں کوئی دیر نہ کرتی۔کسی بھی جمہوری نظام حکومت میں مقامی حکومیتں بہت اہمیت کی حامل ہوتی ہیں، کیونکہ بلدیانی نظام حکومت مرکزی حکومت کے بوجھ کو کم کرتا ہے، یعنی عوام الناس کو اپنے گلی، محلہ، ٹاؤن یا شہر کے چھوٹے چھوٹے مسائل کے لئے مرکزی وفاقی حکومت یا صوبائی حکومتوں کی طرف نہیں دیکھنا پڑتا۔مقامی حکومتوں کی وجہ سے عوام الناس کے بہت سے بنیادی مسائل بہت جلد ی حل ہوجاتے ہیں۔ پاکستا ن تحریک انصاف کی حکومت کو جہاں پر بہت سے دوسرے عوامی مسائل کی بناء پر تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے وہی پر مقامی حکومتوں کی تحلیل اور بعد میں نئے بلدیاتی انتخابات نہ کروا کر حکومت وقت نے بہت سے بنیادی مسائل کا ذمہ دار بھی خود اپنے آپ کو بنوا لیا ہے۔ اس وقت صوبہ پنجاب کے قریبا تمام شہروں کے مسائل میں سب سے بڑے مسائل گلی، محلہ اور شہر کی صفائی ستھرائی کے معاملات ہیں۔پرنٹ میڈیا، الیکٹرانک میڈیا یا پھر سوشل میڈیا پر آئے روز شہروں کی صفائی ستھرائی کے معاملات زیر بحت رہتے ہیں۔صوبہ پنجاب کے بلدیاتی اداروں کی بحالی انتہائی خوشگوار خبر ہے مگر افسوسناک بات یہ ہے گذشتہ دو سال تک مقامی حکومتوں کی غیر موجودگی میں ہونے والا نقصان ناقابل تلافی ہے۔صوبہ پنجاب کے کسی بھی بڑے شہر کی چھوٹی بڑی شاہراہوں پر جگہ جگہ کوڑے کرکٹ کے ڈھیر لگے نظر آرہے ہوتے ہیں۔بلدیاتی حکومتوں کی بحالی کے لئے دائر اسی مقدمہ کی سماعت کرنے والے سپریم کورٹ بینچ کے معزز رکن جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا تھا کہ بلدیاتی انتخابات کی بات ہو تو صوبے اپنے مسائل گنوانا شروع کردیتے ہیں،پنجاب حکومت نے بلدیاتی ادارے تحلیل کرکے جمہوریت کا قتل کیا، پنجاب حکومت کی بلدیاتی ادارے تحلیل کرنے کی کوئی وجہ تو ہوگی،مارشل لا کے دور میں تو ایسا ہوتا تھا لیکن جمہوریت میں ایسا کبھی نہیں سنا،کیا پنجاب لوکل گورنمنٹ ختم کرنے کا موڈ بن گیا تھا؟۔ جہاں پر موجودہ اپوزیشن جماعتوں نے عدالت عظمی کی جانب سے مقامی حکومتوں کو بحال کرنے کے فیصلہ کو سراہا ہے وہی پر اپوزیشن جماعتوں نے اس فیصلہ کے بعد پاکستان تحریک انصاف کی اعلی قیادت کو حرف تنقید بھی بنایا،مسلم لیگ نون پنجاب کی ترجمان عظمیٰ بخاری نے اعلیٰ عدلیہ کے فیصلے کے بعد وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار سے فوری مستعفی ہونے کا مطالبہ کردیا ہے۔عظمیٰ بخاری نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ سپریم کورٹ کے بلدیاتی ادارے بحال کرنے کا فیصلہ خوش آئند ہے۔اُنہوں نے کہا کہ عثمان بزدار نے پنجاب میں چھوٹی کٹھ پتلی کا رول ادا کرتے ہوئے بلدیاتی سسٹم تباہ کیا، عثمان بزدار نے سیاست میں انٹری کا آغاز ہی لوکل گورنمنٹ سسٹم سے کیا۔عظمیٰ بخاری نے یہ بھی کہا کہ افسوس عثمان بزدار عمران نیازی کے دھوکے میں آگئے اور پنجاب کا بلدیاتی نظام تباہ کردیا۔اُن کا مزید کہنا تھا کہ پنجاب کے 11کروڑ عوام نے بلدیاتی نمائندوں کو پانچ سال کے لیے منتخب کیا، عمران نیازی نے اقتدار میں آتے ہی بلدیاتی حکومتیں پر شب خون مارا۔سپریم کورٹ کی جانب سے مقامی حکومتوں کی بحالی کے بعد اگلا سوال یہ بنتا ہے کہ بحال شدہ ادراوں کی بقایا مدت کو کیسے شمار کیا جائے گا، آیا دو سال معطلی کی مدت کو پانچ سال کی مدت میں شمار کیا جائے گا یا پھر معطلی کی مدت کو شمار نہیں کیا جائے گا؟بہرحال بلدیاتی اداروں کی بحالی انتہائی خوش آئند ہے، اب ضرورت اس امر کی ہے کی پاکستان کی تمام وفاقی، صوبائی اور مقامی حکومتیں صحیح معنوں میں عوام الناس کی خدمت کرنے کی بھرپور کوششیں کریں۔ اللہ کرے کہ اب مقامی حکومتوں اور صوبائی حکومتوں کے درمیان فنڈز کے معاملات میں عدم تعاون یا ایک دوسرے کے اختیارات میں دخل اندازی جیسے معاملات دیکھنے کو نہ ملیں۔اور عوام الناس کے بنیادی مسائل انکے گھر کی دہلیز پر ہی حل ہوسکیں۔آمین ثم آمین
 

Muhammad Riaz
About the Author: Muhammad Riaz Read More Articles by Muhammad Riaz: 181 Articles with 111965 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.