ملک میں جمہوری روایات اور اداروں کی مضبوطی کے حوالے سے
لائحہ عمل طے کرنا ناگزیر ہے، پی ڈی ایم کی سیاسی جماعتوں کے درمیان
اختلافات کی خبریں منظر عام پر آتی رہی ہیں اور ان خبروں کو ہوا دینے میں
حکومتی ترجمانوں نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔ووٹ کو عزت دو سے لے کر نظام
کی تبدیلی تک کا سفر، اے این پی کی پی ڈی ایم سے علیحدگی پر قریباََ ختم
ہوچکا ۔ حالاں کہ سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کو باہمی رابطے اور مکالمے کا
تسلسل برقرار رکھنا چاہیے تھا ، کیونکہ کسی بھی جمہوری نظام میں ایک ایسی
اپوزیشن کی قوی ضرورت رہتی ہے جو حکومتی اقدامات پر گہری نظر رکھے ،
پارلیمان میں آواز اٹھائے ، جہاں ضرورت ہو ، مشورے دے ، جب خامی دیکھے
توتنقید کرے ، اس طرح حکومت ، حزب اختلاف کی مضبوط پوزیشن پر من مانے
اقدامات کرنے سے گریز کرتی ہے ، تاکہ انہیں کسی سخت مداخلت، احتجاج و
مظاہروں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
جمہوریت افہام و تفہیم اور قومی معاملات میں تدبر و حکمت سے عبارت ہونا کا
نام ہے، رواداری اور ادارہ جاتی سوچ کو مستحکم اور مربوط کرنے کے عزم کو
فروغ دینے کی ضرورت اس لئے بھی ہے کہ بعض حلقوں کی جانب سے اداروں کے مابین
تصادم کی جو قیاس آرائیاں و اندیشے ظاہر کئے جاتے ہیں ، وہ اگر چہ سیاست
دانوں کی شعلہ بیانی سے بظاہر حقیقت میں ڈھلتے نظر آتے ہیں بلکہ کئی
دہائیوں کے ملکی سفر میں سیاسی مکالمے اور جمہوریت روایات کا کلچر کو بھی
ابھی تک مضبوط نہیں کیا جاسکا ، یہی وجہ ہے کہ سیاسی ، ریاستی اداروں اور
میڈیا کے افق پر ’’ سب اچھا ‘‘ بھی دکھائی نہیں دے رہا ، کیونکہ منظر تاحال
طلسم ہوشربا ہے اور حقیقت سات پردوں میں چھپی ، ملکی سیاست اصولوں سے زیادہ
جذبات اور مفادات، چنا کے گرداب میں پھنسی ہوئی ہے۔وزیر اعظم ،حزب اختلاف
کو ساتھ لے کر چلتے تو قوم کو مفاہمانہ طرز عمل سے حوصلہ ملتا ، صورت حال
تیزی سے خرابی کی جانب مائل بہ زوال نہ ہوتی بلکہ قوم کو درپیش مسائل کو حل
کرنے کے لئے زیادہ سے زیادہ اشتراک عمل ، سیاسی افہام و تفہیم اور موثر
رابطوں سے داخلی و خارجی محاذ پر ملک دشمن عناصر سے موثر انداز میں نمٹا
جاسکتا ہے ۔
کسی بھی سیاسی جماعت کا اقتدار میں آنے کے بعد اپنی سیاسی پوزیشن کو مضبوط
کرنے اور مخالفین کے خلاف انتقامی کاروائیوں و بیانات پر توجہ مرکوز کرنا
روایت بن چکی ۔ یہ تلخ حقیقت ہے کہ مہنگائی کے ہاتھوں عوام کا معاشی قتل
ارباب اختیار کی نظروں سے اوجھل ہوجاتا ہے ، عوامی مسائل پر تشویش کو
سنجیدگی سے حل نہیں کیا جاتا ، اس بے نیازی کا نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ لاحق
دیگر خطرات اور چیلنجز کے سامنے عوام خود کو کھڈے لائن دیکھتے ہیں ، جبکہ
ان کا دکھ شیئر کرنے کی ضرورت بڑھ جاتی ہے ۔ پی ڈی ایم میں شریک جماعتوں کے
جو بھی سیاسی یا فروعی مقاصد ہوں ، اس سے قطع نظر حزب اختلاف کا باہمی
اتحاد حکومت کے خلاف متفقہ موثر آواز بننا زیادہ ضروری قرار دیا جاتا ہے
لیکن باہمی عدم اعتماد نے سیاسی اتحاد کو نقصان پہنچایا ، عوامی نیشنل
پارٹی نے عجلت میں فیصلہ کیا اور پی پی پی نے موقع کی نزاکت سمجھنے کے
باوجود سربراہی اجلاس میں اپنے اقدامات پر دیگر سیاسی جماعتوں کے تحفظات کو
دور کرنے کی کوشش نہیں کی ، پی ڈی ایم اور حکومت کو بھی ایک صفحے پر لانے
کی ضرورت تھی ، متحدہ حزب اختلاف نہ ہونے سے عوامی سطح پر سیاسی نظام کے
بارے میں بے اعتباریت بڑھتی ہے ، سیاسی جماعتوں و اداروں میں ہم آہنگی اور
آئین و قانون کی حکمرانی کا اعتبار بحال ہونا چاہیے کیونکہ ملکی صورت حال
کے خوش آئند پیش رفتوں کی توقعات کو پورا کرنا کسی ایک سیاسی جماعت کے بس
کی بات نہیں۔
یہ ضروری نہیں کہ پاکستان ڈیمو کرٹیک کے ایجنڈے میں حکومت کے خاتمے کی
حمایت کو ترجیح دی جائے ، اور نہ حکومت ، اداروں ، بشمول میڈیا کو کھلا
میدان دے کر آنکھیں موندھ لی جائیں ، بلکہ عوام کو اس حقیقت سے مایوس نہیں
کرنا چاہیے کہ ان کے مسائل کا حل بار بار چہروں کی تبدیلی کے بجائے کسی نئے
نظام کے تجربے میں ہے۔ حکمراں اور حزب اختلاف اگر سیاسی محاذ آرائی میں
اَنا پرستی میں باہم دست و گریبان رہے تو سیاسی استحکام تو دور کی بات ہے
دشمن اور سیاسی سٹے باز یہ تک بے پر اڑا سکتے ہیں کہ دنیا میں کہیں تہذیبوں
میں تصادم ہو یا نہ ہو ہمارے اداروں میں تصادم ہوا ہی چاہتا ہے۔ وقت کا
تقاضا ہے کہ کثیر جہتی بحرانوں اور معاشی مسائل کا حل ڈھونڈا جائے ، یہ
ہماری بدقسمتی رہی ہے کہ آج بھی سیاست دان تاریخ اور اپنے سیاسی و سماجی
تجربوں سے سبق حاصل نہیں کررہے ، یہ مشق لاحاصل جاری رہی تو صورتحال کی
گھمبیریت اور لغویت ختم ہونے کا کوئی امکان نہیں ۔
تسلسل سے ناتواں پارلیمانی نظام میں ظاہری خامیوں کو دور کرنے کے لئے
محاذآرائی سے بچا جائے ،جو حکومت کے مفاد میں نہیں اور تمام سیاسی اداروں
کو اپنی حدود میں رہ کر کام کرنے کے اصول و قانون کو عمل کرتے بھی نظر آنا
ضروری ہے۔ قومی مفاد میں تمام پارلیمانی جماعتوں کو متفقہ فیصلے کرنے کی
ضرورت بڑھ چکی ہے ، حزب اختلاف کا احترام اور انہیں تسلیم بھی کیا جانا
جائے۔ پارلیمانی تمام جماعتوں کو باہمی تعاون کو فروغ دینے ، مفاہمتی عمل
جاری رکھنے اور مملکت کے خلاف ہر قسم کی سازش ناکام بنانے کے لئے مل کر کام
کرنے پر اتفاق کرنا چاہیے ۔ حقیقت یہی ہے کہ حزب اختلاف کو ساتھ لے کر چلنے
اور پارلیمان کو سپریم بنانے کے مطالبات کوئی نامناسب اور غیر آئینی مطالبہ
نہیں ، این آر او سمیت سارے پنڈورا باکس کی شرلی اس ڈرامے کے ’’ ہیلمٹ ‘‘
ہیں جن کے بغیر سزا و جزا میں انتخاب کو ملحوظ رکھنا مشکل ہوجاتا ہے۔
عوام آج بھی اُن8ہزار این آر او یافتگان کے حوالے سے بلا امتیاز کاروائی
اور ملزمان کو کٹہرے میں دیکھنا چاہتے ہیں ، جن کے بارے اب کوئی ذکر بھی
نہیں کرتا ، کرپشن میں ملوث عناصر قابل تعدیب و سزا ہیں، اقربا پروری ،
رشوت اور نت نئے ایشوز اٹھانے کا سلسلہ قوم و ملک کے مفاد میں نہیں عوام بس
یہی چاہتے ہیں کہ عوام کی حالت بدلنے کی آزادی حاصل ہونا چاہیے ، مگر یہ
مقصد اداروں و سیاسی جماعتوں کے باہم احترام اور انا کی تلوار نیام میں
ڈالے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا ۔حکمراں و حزب اختلاف کی پارلیمانی جماعتوں کو
فہم و فراست سمجھنے کی ضرورت ہے ۔
|