تارکیشور سنگھ کی رہائی :وہ سانحہ کہ جو کل شب ہوا کے ساتھ ہوا

دنیا میں کام کرنے کے تین معروف طریقے ہیں ۔ اول تو چیلنجس اور مشکلات سامنے آئیں ان کا عزم و ہمت اور حکمت و دانشمندی کے ساتھ مقابلہ کرنا ۔ دوسرا جو مواقع پیدا ہوں ان کا بھرپور استعمال کرکے خوب فائدہ اٹھانا اور تیسرا منصوبہ بند طریقہ پر کام کرکے مخالفین کے لیے مشکلات کھڑی کرنا اور اس سے مواقع پیدا کرکے اپنے مقاصد کی جانب پیش رفت کرنا ۔ مذکورہ بالاطریقۂ کار میں سے امت اسلامیہ ہند عام طور پر پہلے طریقہ پر کاربند رہتی ہے۔ اب گیان واپی مسجد کا مسئلہ سامنے آیا ہے تو اس امت کے رہنما حکمت و دانشمندی سے جو فیصلہ کریں گےملت عزم و حوصلہ کے ساتھ اس پر عمل کرے گی ۔ دوسری حکمت عملی سنگھ پریوار بشمول بی جے پی کی ہے ۔ مثلاً انتخابی مہم کے دوران بنگلادیش کے قیام کی پچاسویں سالگرہ کا موقع سادھ کر ڈھاکہ جانا اور اس کی آڑ میں مندورں میں پوجا پاٹ کرکے رائے دہندگان کو رجھانا۔ تیسرا ماو وادیوں کا طریقہ ہے کہ انہوں نے طے شدہ منصوبے کے تحت پہلے امن مذاکرات کی پیش کش کی، پھر حملہ کیا، حفاظتی دستے کےایک جوان کو یرغمال بناکر چھوڑا اور اپنا مقصد حاصل کرلیا۔

ماو نوازوں کے منصوبے کی ابتداء اور انتہا دونوں ہی ان کے لیے فائدہ بخش اور حکومت کے نقصان دہ رہی۔ اس کی شروعات 17 مارچ (2021)کو نکسلیوں نے امن مذاکرات کی پیشکش سے کی ۔ ماو نوازوں کی جانب سے یہ قدم حیرت انگیز ہونے کے باوجود حقیقت ہے۔ ان لوگوں نے ایک پریس ریلیز جاری کرکے کہا کہ عوامی بھلائی کی خاطر وہ چھتیس گڑھ حکومت سے بات چیت کے لیے تیار ہیں۔ماو نوازوں نے مذاکرات کے لیے تین شرائط رکھی تھیں پہلی مسلح حفاظتی دستوں کا انخلاء، دوسرے ماونواز تنظیموں پر لگی پابندی کا خاتمہ اور آخری جیل میں بند رہنماوں کی غیر شروط رہا ئی ۔ یہ شرائط بظاہر سخت نظر آتی ہیں لیکن گفت و شنید اور حسن اخلاق سے انہیں نرم کیا جاسکتا تھا ۔ پہلے حملے کے بعد جو خاصہ ہلکا تھا جب امن مذاکرات کی بابت ریاستی وزیر داخلہ تامر دھوج ساہو سے نامہ نگاروں نے استفسار کیا تو وہ آگ بگولہ ہو گئے ۔

صوبائی وزیر داخلہ نے کہا یہ واردات نکسلیوں کے دوہرےکردار کو اجاگر کرتی ہے۔ انہوں نے الٹا سوال کردیا کہ نکسلی اگر عدم تشدد کے قائل ہیں تو اس طرح کا تشدد کیوں کرتے ہیں؟ وزیر موصوف نہیں جانتے کہ سوال کے بدلے سوال داغ دینا اطمینان بخش جواب نہیں ہوسکتا بلکہ بیشتر اوقات وہ تو راہِ فرار کا چور دروازہ ہوتا ہے۔ ساہو نے یہ نہیں بتایا کہ مذاکرات کا موقع کیوں گنوا دیا گیا؟ بعید نہیں کہ مذاکرات کے دوران درمیان کی ایسی راہ نکل آتی کہ یہ خون خرابہ ٹل جاتا ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ موجودہ مغرور حکومتیں مخالفین سے گفت و شنید کو اپنی پسپائی یا شکست گردانتی ہیں اور مسائل کو بات چیت کے ذریعہ سنجیدگی سے حل کرنے کے بجائے مذاکرات کی آڑ میں سیاست کھیلتی ہیں ۔ کسانوں کی عظیم الشان تحریک کے جائز مطالبات کو منظور کرنے کے بجائے پہلے انہیں پہلے گھمایا ٹہلایا گیا، پھر بدنام کیا گیا اور اب نظر انداز کرکےتھکایا جارہا ہے۔ چین جیسے دشمن سے مذاکرات ۱۱ ماہ سے جاری ہیں لیکن اپنے کسان بھائیوں سے مذاکرات کو تعطل کی نذر کردیا گیا ہے۔

حکومت نے اس کی ان سنی کردی تو 23مارچ کو نارائن نگر میں سرنگ لگادی اس میں حفاظتی دستے کے 5؍ اہلکار ہلاک ہوگئے ۔ وہ تو خیر دھماکے سے قبل انڈوتبت بارڈر فورس کی دو گاڑیاں بحفاظت گزر چکی تھیں اس لیے ورنہ خدا نخواستہ پلوامہ جیسا حادثہ رونما ہوسکتا تھا۔ اس حملے کے بعد بھی وزیر داخلہ اور صوبے کے وزیر اعلیٰ انتخابی مہم میں مصروف رہے تو بیجا پور کے اندر دوسرا شدید تر حملہ ہوگیا ۔ اس حملے میں ۲۲ جوان ہلاک ہوگئے ۔ اس حملے کے بعد وزیر داخلہ امیت شاہ نے انتقام لینے کے عزم اظہار کیا۔ ماو نوازوں نے مذکورہ بیان کو غیر آئینی بتایا ۔ یہ حیرت کی بات ہے ماونواز باغی وزیر داخلہ کو آئین سکھا رہے تھے۔ انہوں نے یہ سوال بھی کیا کہ وزیر داخلہ کس کس سے بدلہ لیں گے ۔
نکسلیوں نے جوانوں کی ہلاکت مرکزی اور صوبائی سرکاروں کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ ماو نوازوں کی مرکزی کمیٹی کے ترجمان ابھئے کمار کی جانب سے جاری کردہ بیان میں مختلف مڈبھیڑوں شہید جوانوں کے اہل خانہ سے ہمدردی جتاتے ہوئےکہا گیا کہ تنظیم کی لڑائی جوانوں سے نہیں ہے۔ سرکار کی جانب ہتھیار اٹھانے کی وجہ سے تنظیم کو ان سے لڑنا پڑ رہا ہے۔ اس بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ پچھلے چار ماہ کے اندر ملک کے مختلف حصوں میں 28ماو نواز مارے جاچکے ہیں ۔ اس سے آگے بڑھ کر ماو نوازوں نے اپنی پریس ریلیز میں حفاظتی دستے کے جوانوں سے اپیل کی کہ وہ ان کی عوامی تحریک میں شامل ہوجائیں اور سرکار کی یلغار کا حصہ نہ بنیں۔ اس بیان میں کہا گیا کہ افسر جبر و استبداد کی حکمت عملی پر عمل کررہے ہیں ۔ ان کی تنخواہ میں عوام کا خون پسنہ ہے۔ یہ وزیر اعظم مودی ، وزیر اعلیٰ بگھیل ، حفاظتی مشیر وجئے کمار اور آئی جی سندراج کا پیسہ نہیں ہے۔

اس پریس ریلیز میں یہ بھی لکھا تھا پچھلے ۷۵ سالوں میں ثابت ہوچکا ہے کہ جئے جوان ، جئے کسان کا نعرہ فریب ہے۔ دہلی میں جاری کسان تحریک میں ۳۰۰ کسانوں کی موت ہوگئی ہے پھر بھی چار ماہ سے تھریک رکی نہیں ہے۔ کسانوں کے بیٹے ہونے کے سبب آپ لوگ (جوان) مسائل کو سمجھتے ہیں۔ اس کے ساتھ ۲۵ ؍اپریل عوامی تحریک کی حمایت میں تشہیر اور ۲۶ ؍ اپریل کو بھارت بند کا اعلان بھی کیا گیا۔ سی آر پی ایف کی کوبرا بٹالین کے جوان راکیشور سنگھ کو پانچ دنوں تک یرغمال بنانے کے بعد ماو نوازوں نے ان کی تصویر جاری کرکے بتایا کہ وہ ان کے قبضے میں محفوظ و مامون ہے۔ نکسلیوں نے سرکار سے مذاکرات کاروں کے تقرر کا مطالبہ کیا تاکہ راکیشور کو واپس کیا جاسکے۔

مذاکرات برائے امن کو نظر انداز کرنے والی حکومت نے پدم شری دھرم پال سینی ، گونڈوانہ رابطہ کمیٹی کے صدر تیلم بوریا، صحافی گنیش مشرا، مکیش چندرا کر اور شنکر کا تقرر کیا اور اپنا وعدہ نبھاتے ہوئے ماونوازوں نے بلا شرط امن و سلامتی کی خاطر جوان کو صحیح سلامت چھوڑتے ہوئے کہا کہ انہیں فوراً گھر بھیجیں اور اہل خانہ کے ساتھ ان کی ایک تصویر ہمیں بھی روانہ کریں ۔ اس پورے معاملے میں یہ شئے قابلِ ذکر ہے کہ کس طرح ماو نوازوں نے اپنی انسانیت نواز دردمندی کی شبیہ ساری دنیا کے سامنے پیش کی ۔ راکیشور کی رہائی جس طرح کی گئی اس سے بھی ان کی ذہانت کا پتہ چلتا ہے۔ راکیشور کی رہائی کے لیے حملے کی جگہ کا انتخاب کرکے انہوں نے انتقام والی دھمکی کی ہوا نکال دی اور بتا دیا کہ اب بھی وہاں کس کابول بالا ہے؟

رہائی سے قبل وہاں ماو نوازوں کی دعوت پر تقریباً ڈھائی ہزار گاوں والوں کا جمع ہونا ظاہر کرتا ہے وہ کس کو چاہتے ہیں ؟ مزاکرات کاروں سے کہا گیا کہ وہ پہلے گاوں والوں کے مسائل کو سنیں اور ان کو حل کرنے کی کوشش کریں۔ اس مجمع کے سامنے رسیوں سے بندھے راکیشور کو لایا گیا اور ان کے کیمروں کے سامنے کھول کر رہا کیا گیا ۔ اس دوران سرکار ، پولس ، فوج اور انتظامیہ خاموش تماشائی بنے رہے۔ سب کچھ ماونوازوں کے منصوبے اور مرضی سے ہوتا رہا ۔ اس طرح انہوں نے ساری دنیا کو یہ پیغام دیا کہ فی الحال اس علاقہ پر ان کا راج ہے اور انہیں سرکار کی فیصلہ کن جنگ کا کوئی خوف نہیں ہے۔ اس طرح ماو نوازوں نے مرکزی حکومت کی شبیہ بگاڑنے کی ایک کامیاب کوشش کی ہے۔

مرکزی اور صوبائی حکومتیں اس سے قبل بھی یرغمالیوں کے معاملے اس طرح کی پسپائی کا مظاہرہ کر چکی ہیں ۔ 1999 میں انڈین ائیر لائنز کے ایک جہازکو178مسافروں سمیت اغواء کرکے قندھار لے جایا گیا اور بدلے میں مولانا اظہر مسعود کے ساتھ جیل میں بند ۳ قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا ۔ وزیر اعظم اٹل بہاری وجپائی نے شرائط مان کر اپنے وزیرخارجہ جسونت سنہا کو قیدیوں کے ساتھ روانہ کرکے مسافروں کو چھڑایا۔ اس کے بعد اٹل جی اور جسونت سنگھ کی جو شبیہ بنی وہی اب مودی جی اور شاہ جی کی بنی ہے۔ اپریل 2012 میں بستر کے سُکما ضلع کلکٹر پال مینن کو ماو نوازوں نےان کے ایس پی او کو ہلاک کرکے اغواء کرلیا تھا ۔ اس وقت بی جے پی کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر رمن سنگھ نے جو کیا تھا وہی فی الحال کانگریس کے بھوپیش بگھیل نے بھی کیا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ جب نازک وقت آتا ہے تو اٹل ہوں مودی اور رمن ہوں یا بگھیل ان کے درمیان کوئی فرق نہیں رہتا لیکن اس میں شک نہیں کہ ماو نوازوں نے کمال ہوشیاری سے اپنے منصوبے پر عمل کر پورے ملک کو چونکا دیا ہے ۔ ایسے میں ماونوازوں کی ترجمانی محبی آصف رشید اسجد کا یہ شعر کرتا ہے؎
چراغ ہنستے ہوئے کہہ رہا تھا پوچھ اُسے
وہ سانحہ کہ جو کل شب ہوا کے ساتھ ہوا
(۰۰۰۰۰۰۰۰۰جاری)
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1449004 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.