ہم سب جمہوریت کا دم بھرتے ہیں،جمہوری رویوں پر چلنے کا
درس بھی دیا جاتا ہے،مگر کیا حقیقت میں ایسا ہی ہے؟یہ بڑا سوال ہے۔ڈسکہ این
اے 75کا ضمنی الیکشن ہوا،پی ٹی آئی اور مسلم لیگ(ن) میں کانٹے کا
مقابلہتھا۔پی ٹی آئی حکومت میں ہوتے ہوئے روائتی انداز میں الیکشن میں جیت
کو اپنے نام کرنا چاہتی تھی،دو افراد جان بحق ہوئے،عملے کو اغوا اور
پریزائیڈنگ افسران ووٹوں کے تھیلوں سمیت فرار ہوتے پکڑے گئے ،نتیجہ الیکشن
کمیشن کو جمع نہ کروایا،دنگہ،فساد،بدمعاشی ،غنڈہ گردہ اور دھونس کا معرکہ
ہوا،کیسے تیسے جیت سمیٹی ،مگر مدِ مقابل نے نتیجہ نہ مانا،معاملہ عدالت اور
پھر الیکشن کمشن میں گیا،دوبارہ الیکشن کا فیصلہ ہوا،لیکن اس تمام عمل میں
انتظامیہ کی نا اہلی اور ہٹ دھرمیکھل کا سامنے آئی ۔دوبارہ الیکشن میں مسلم
لیگ (ن) کی نوشین افتخار نے معرکہ مار کر علی اسجد ملہی کو ہرا دیا۔اگر پی
ٹی آئی پہلے جیت چکی تھی تو پھر دوبارہ الیکشن میں جیت مسلم لیگ (ن) کے
ہاتھ کیسے لگی؟اس کا جواب صاف ہے کہ دھاندلی کی گئی ،پی ٹی آئی کی حکومت جس
کا شور ہر الیکشن میں دھاندلی پرہوتا تھا،انہی کی حکومت نے خود دھاندلی کی
۔
اب حکومت کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ جیت کسی کی بھی ہوئی،مگر اصل میں
جمہوریت جیتی ہے۔یہ بات عوام کی سمجھ سے بالا تر ہے کہ یہ جیت جمہوریت کی
کیسے ہوئی ؟ڈسکہ این اے 75کا الیکشن صرف ایک سیٹ کا تھا،مگر اصل میں یہ دو
بیانیوں کی علیحدہ علیحدہ لڑائی ہے ۔حالاں کہ 1990ء سے یہ حلقہ مسلم لیگ
(ن) کا رہا ہے،مگر ،مسلم لیگ (ن) ایک طرف حکومت کو سلیکٹڈ اوراسمبلیوں سے
استعفوں کی بات کرتی ہے ،مگر ضمنی الیکشن بھی لڑتی ہے۔ حکومت باضد رہی ہے
کہ انہیں کسی بھی حالت میں ڈسکہ کی سیٹ چاہیے،کیوں کہ اپنی مقبولیت ظاہر
کرنا مقصود تھا،یہی رویوں نے جمہوریت کو تباہ و برباد کر رکھا ہے ۔اسی سوچ
کی وجہ سے پی ٹی آئی آہستہ آہستہ کمزور ہوتی جا رہی ہے،کیوں کہ ان میں
جمہوری رویوں کی پاسداری نہیں۔ان کے لیڈر کا سیاست کرنے کا اوّلین فارمولا
’’یوٹرن‘‘ہے،اسی لئے اس میں تمام عناصر اسی فارمولے کی تائید کرتے پائے
جاتے ہیں۔دور اندیشی کا فقدان ہونے کی وجہ سے ان کے اکثر لیڈر ایسی زبان
بولتے ہیں،جس سے پوری پارٹی کو نقصان ہوتا ہے،الٹے سیدھے فیصلے عام روایت
ہیں،یہاں ہر کوئی سیٹ اور اقتدار کی جنگ میں پیش پیش ہے ،شاہ سے زیادہ شاہ
کے وفا دار بنے کی ریس لگی ہے ،لیکن ماضی میں جب جب ایسا رویہ سامنے آیا
ہے،وہ نشان عبرت بنا ہے۔
پاکستان میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ اقوام عالم میں ایک با عزت مقام حاصل
کر سکے،لیکن وزیر اعظم ملکی مسائل کے پریشر کو لے کر تذبذب کی سی کیفیت میں
مبتلا ہیں،رہی سہی کسر ان کے مشیران اور ترجمان پوری کر دیتے ہیں،یہ سب
عمران خان کو امریکہ ، آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک سے مرعوب کرانے اور ان کی
مرضی کے فیصلے کروانے پر معمور ہیں ،حالاں کہ جب تک عمران خان کے پاس
اقتدار ہے یہ ان کے ساتھ ہیں،جیسے ہی حکومت گئی،یہ سب اپنا اپنا بریف کیس
اٹھاکر وطن سے کوچ کر جائیں گے،لیکن کہا یہ جاتا ہے کہ ہم جمہوریت کے لئے
قربانیاں دے رہے ہیں۔
ایک طرف جمہوریت کے دائی ہیں اور دوسری جانب عوام ،جو درد کی اُڑان سے بے
حال ہے،ان کے لئے کٹھن وقت سے سامنا کرنا دشوار ہو رہا ہے،مگر حکمران ہوں
یا حزب اختلاف، ہر کسی کو اپنی جیت اور مفادات کی فکر کھائے جا رہی ہے۔جب
ملک کا وزیر اعظم ہی کہے کہ ہمارا نظام فرسودہ ہے اور اس کو بدلنا مشکل بھی
ہے تو غیور عوام کہاں جائے۔حقیقت یہ ہے کہ ہم جھوٹی شان کے اسیر ہیں،ہم میں
شعور نام کی کوئی چیز نہیں۔ہمارے لیڈران ایک دوسروں کو برا کہتے کہتے 72سال
گزار چکے،ایسا چلتا رہا تو نصف صدی اور گزر جائے گی،اس ملک میں ایسی ہی
باتیں ہوتی رہیں گی۔ماضی کو کوسنا ہمارا شیوا بن چکا ہے،مستقبل میں کیا
کرنا ہے اس تک ہماری سوچ کی پہنچ نہیں ہے،نئے نئے تجربات کیے جاتے
ہیں،ناکامی کی صورت میں ملک میں قرضوں کا انبار لگ چکا ہے،لیکن کسی کو اپنی
غلطی تسلیم کرنے کی ہمت نہیں ،ہم مردہ ہو چکے ہیں،مادیت پرستی میں حد درجہ
گر گئے ہیں،جس کا ملک و قوم کو سو فیصد نقصان ہو رہا ہے۔
ہم نے غلامی کا چناؤ خود کر رکھا ہے ،شخصیت پرستی میں اتنے آگے بڑھ چکے ہیں
کہ اچھے برے کی تمیز ختم ہو کر رہ گئی ہے۔کیا بائیس کروڑ عوام میں صرف یہی
اشخاص رہ گئے ہیں،جنہیں ملک اور عوام کے مستقبل سے کھیلنے کا لائسنس دیا
جاتا ہے۔ہمیں با وفا اشخاص کی تلاش کرنا ہو گی،کسی کے حسب نسب یا قبیلے سے
نہیں بلکہ وہ اخلاقی طور پر کن خصوصیات کا حامل ہے ، اس کے اسلاف کن روایات
کے امین ہیں اور اس سے کون کون سے کارنامے منسوب ہیں ،اس نے کن کن شعبہ
ہائے زندگی میں اعلیٰ کارکردگیوں کا مظاہرہ کیا ہے،ایسا شخص اقتدار میں ہو
گا تب ہی وہ قوم کی نئی نسل کو اسلاف کی اعلیٰ روایات کے مطابق تربیت اور
رہنمائی کا باعث بنے گا۔مہذب اور تعلیم یافتہ معاشروں میں انہیں باتوں کو
ترجیح دی جاتی ہے،وہ شخصیت پرستی کے مرض میں مبتلا نہیں ہوتے،وہ اپنے وطن
سے محبت کرتے ہیں،اسے روز بروز اٹھان کی جانب لے جانے کے لئے ہر فرد کوشاں
رہتا ہے،انہیں اپنے ملک اور قوم سے زیادہ نہ کوئی ملک اچھا لگتا ہے اور نہ
ہی قوم،لیکن کیا ہم من حیث القوم اپنے وطن کی اس طرح قدر کرتے ہیں،جیسے
دوسرے ممالک میں پائی جاتی ہے․․؟ہمارے تو لیڈران غیر ممالک میں پاکستان کی
جو تصویر کشی کرتے ہیں، اس سے ان کی سوچ کی عکاسی کرنا مشکل نہیں ،وہ
پاکستان کو ایک غریب ملک کہتے ہیں،قرضے اور خیرات مانگتے ہیں۔یہ ملک کیسے
غریب ہو سکتا ہے جہاں کوئلہ، گیس، معدنیات، فصلیں ،سونا ،تانبا اور دیگر
عالمگیر قیمت کی حامل قدرتی چیزیں موجود ہوں ،40 فیصد نوجوان ہوں،صلاحیت
قابل رشک ہو،محنتی بھی ہوں،اگر پاکستان غریب تھا تو یہاں کے نام نہاد
لیڈران کے پاس اتنی دولت کہاں سے آئی ہے۔اگر پاکستان کی سیاست میں ایک بار
وزارت مل جائے تو اس کی پشتیں بیٹھ کر کھائیں تو ختم نہیں ہوتا۔سیاست دان
صرف عوامی نمائندے اس لئے بنتے ہیں،کیوں کہ انہیں عوامی نمائندہ بن کر خوب
عوامی دولت لوٹنے کا موقع فراہم ہوتا ہے۔اگر ملک غریب ہوتا تو وزراء لگژری
زندگی کیسے گزار رہے ہوتے،محلات،بڑے کاروبار،ملیں کہاں سے بنتی۔یہ جان
لیجئے کہ ہمارا ملک کسی طور پر غریب نہیں ہے،یہاں رہنے والے مفاد پرستوں نے
اس کا بیڑا غرق کیا ہے۔سوچنے کی بات ہے کہ اگر برطانیہ کا بننے والا ہر
وزیر اعظم 4کمرے کے سرکاری مکان میں رہائش پذیر ہوسکتا ہے تو یہ عیاش پسند
لیڈران اپنی تمکنت کا گھیرا کیوں تنگ نہیں کر سکتے ۔اس لئے انہیں نہ تو
جمہوریت کی فکر ہے اور نہ ہی ملک وقوم کی ۔اس لئے جب تک عوام اپنا قبلہ
درست نہیں کرتے،حالات واقعی نہیں بدلیں گے ۔
|