میں کس سے کہوں اور کیا کیا کہوں ؟

مجھے دو قومی نظریہ کی بنیاد پرعلیحدہ پزیرائی تو مل گئی لیکن آج تک نا تومیری ریاست، نا ہی سیاست، نامیری عدالت،ناکوئی امت کی امامت، ناکوئی میری قومی صحافت اورنا میری معشیت اور نا ہی میری معاشرت آزاد نا ہو سکی 74 سال کوئی تھوڑاعرصہ نہیں ہوتا ایک خواب کی تعبیر کے لئےمندرجہ بالاشعبہ زندگی کو میرے نظریہ اور مقصد کے مطابق عین آزادی دینے کے لئے جس پرمیری عوام کاحق ہے اور جس کو میری عوام کا مقدر بننا تھا ہائے افسوس
تاریخ کے پنوں میں جھانکیں تو پتہ چلتا ہے کہ کبھی ہم ایک ہی سلطنت تھے اورکسی پر اعتبار نے ہمیں اُس ہی کاغلام بنادیا وہ کوئی اور نا تھا برطانوی راج تھاجو ایسٹ انڈیا کمپنی کے نام سے تجارت کی غرض سےآئی اور اس نے معاشی خوشحالی کا خواب دیکھا کر تمام سلطنت کو غلام بنا لیا اوررعایا پر ہرروز ظلم و جبرکرنے لگی اور تمام رعایا کے لئے آزادی ایک خواب بن گی لیکن ایک لمبی فہرست ایسے سر پھروں کی تاریخ میں آج تک موجود ہے جو جذبہ آزادی سے سرشار تھےخؤاہ اُس وقت کی قابض حکومت اُن کو باغی ،دہشت گرد، اورسلطنت کے دشمن کہتی تھی لیکن تاریخ نے ثابت کر دیا کہ وہ جو کل کے حکومت دشمن تھے دراصل تحریک آزادی کے اصل ہیرو تھے اوراُن ہیروں کے خون سے پوری قوم کو ایک سمت اور مقصد آزادی نصیب ہوالیکن انگریزسرکار کی تقسیم سے حکمرانی کی پالیسی نے اُس کا اقتدار تو طویل کردیا لیکن بل آخر بظاہر آزادی دینا اُس کی مجبوری بن گئی جو انتقال حکمرانی تھی ،تقسیم تھی کوئی حقیقی آزادی نا تھی اور اگر کہا جائے کہ یہ ایک معائدہ تھاجس سے کوئی منحرف نا ہوا تو شائید غلط نا ہوگا اورمجھے بنانے کا مقصد دراصل اسی معائدئے کی ایک حقیقت ہے جس کو پانے کےلئے خواب ایک ایسی آزاد اسلامی ریاست کا قیام تھا جس میں مسلمان اپنی زندگی مکمل مذہبی آزادی سے گزارسکیں مجھ سے محبت کرنے والے کل آبادی کا 25 ٪ ہوتے جواکھٹے ہوتے لیکن تقسیم کے بوئے بیج سے کچھ میرے اپنےہی میرے مخالف نکلےجومجھ سے نفرت کرنے والوں کے ساتھ کھڑے تھےجن کاموقف مختلف تھااس خواب کی تعبیر سے اختلاف رکھتا تھااور یہ بے جا نا ہو گا کہ مسلمانوں کی تمام تر تنظیمی قوت مسلمانوں کے خلاف کھڑی تھی لیکن پھر بھی کامیابی میرا مقدر بنی جس میں اللہ کی عطا ، قوم کے نگہبانوں کی بہادری اور جرات ، ملت کے معماروں کی سچی لگن اور ہمت ، میرے اپنوں کی قربانیاں اور تکالیف کی برداشت،دین اسلام کے علمبرداروں اور مسلم قیادت کی پختگی ،اتحاداور فہم وفراست ، نےمجھے آزادی سے ہمکنار کیا اورایک عظیم قربانی کے بعد اسی ماہ مقدس رمضان کی ستائیسوئیں شب کومیں معرض وجود میں آگیا بھلا ہو اُس کا جس نے میرے نام کو آئین کی کتاب میں پوری شد ومد کے ساتھ تحریر کر دیا جو آنے والی نسلوں کو میرا مقصد وجود یاد دلانے میں میری مدد کرتا رہے گا لیکن میں حیران ہوتا ہوں کہ چوری کسی کی بھی ہوبھگتنا مجھی کو پڑتی ہےغلطی کوئی بھی کرئے الزام فورا مجھ پر ہی لگتا ہے قطعی نظر اس کے میں ذاتی طور پرنا تو کچھ کرسکتا ہوں اور نا ہی کچھ کرواسکتا ہوں لیکن میری ایک پہچان ہے میں صرف خاموش تماشائی کی مانند اپنے نام کے ساتھ ہونے والے رویہ کو دیکھ سکتا ہوں اورآج اپنے قارئین کے سامنے بیان کرسکتا ہوں مجھے دو قومی نظریہ کی بنیاد پرعلیحدہ پزیرائی تو مل گئی لیکن آج تک نا تومیری ریاست، نا ہی سیاست، نامیری عدالت،ناکوئی امت کی امامت، ناکوئی میری قومی صحافت اورنا میری معشیت اور نا ہی میری معاشرت آزاد نا ہو سکی 74 سال کوئی تھوڑاعرصہ نہیں ہوتا ایک خواب کی تعبیر کے لئےمندرجہ بالاشعبہ زندگی کو میرے نظریہ اور مقصد کے مطابق عین آزادی دینے کے لئے جس پرمیری عوام کاحق ہے اور جس کو میری عوام کا مقدر بننا تھا ہائے افسوس میری عوام ہی تو ہے جن کو اُن کا حق دلانے کے لئے قربانی بھی اُن کے اپنوں نے ہی دی اور آج تک دیتے چلے آرہے ہیں اور نا جانے کب تک دیتے چلےجائیں گےلیکن عالمی منظر نامہ کی تبدیلی سے پہلے گزیشتہ دنوں سے جو تماشہ میری سرزمین پہ چل رہا ہے کہتے ہوئے شرم آتی ہےکہ اس طرح تو انگریز حکومت نے نا کیا جس طرح اس وقت ہو رہا ہےاپنی تاریخ کویاد کرکے اپنے مخالفین کے ساتھ کھڑے اپنوں کی باتیں یاد آنے لگی جمہوریت کے نام پر بننے والی حکومت برسر اقتدار کیا آئی عوام کو اپنی غلام تصور کرنے لگی جیسے یہ ملک اس نے فتح کیا ہو اور اس نے مجھے بغیر کسی وجہ سے ریاست مدینہ کہنا شروع کردیا ہے اور اس کی حرکات اور سڑک پربہتےخون کو دیکھ مساجد کی بےحرمتی کو دیکھ کرکوئی مجھے بننانا ریپبلک کہہ کر مخاطب کرتا ہے اور جس کے منہ میں جو بھی آتا ہے میرا نام تجویز کردیتا ہے اب میں فہم وفراست کے مالک افراد سے مخاطب ہو کر کہنا چاہتا ہوں کہ میرا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے اور یہی رہنے دو کیونکہ ریاست مدینہ میں بادشاہت ہے اور پاکستان میں کوئی بادشاہ حاکم نہیں ہوسکتا کیونکہ نا تو یہ کسی نے فتح کیا ہے اور نا ہی کسی کو جہیز میں ملا ہے اور نا ہی وراثت میں یہ عوام کا ملک ہےحکومت کو معاہدے کی پاسداری نہیں عوام کو اپنی بات ایوان میں پہنچانے کے لئے تین دھرنے دیںے پڑیں اور پھر ایک معاہدے کے بعدجب ایک جماعتی گروہ امن بحال کرنے کی خاطر حکومت سے معائدہ پورا کرتی ہے اورامن بحال ہوتا ہے تو وہ حاکم سرکاری تقریب میں ایک جماعت کے گن پوائینٹ پر معاہدہ کرنے کا بیانیہ بیان کردیتا ہے اور ریاست کی اصل طاقت بدھوں کی طرح کھڑی دیکھ رہی ہے عوام الناس کو تازہ ترین صورت حال سے اۤگاہ رکھنےکا قانون پر لگی قدغن آزادی صحافت کے نام پر بنے بڑے بڑے ٹی وی چینلز کی یکطرفہ حکومتی موقف کی تشحیراور حکومتی وفاداروں کی تعریف بے شمار سوالوں کو جنم دے رہی ہےجو حقیقی آزادی کا مطالبہ کرنے سے بھی قاصر ہیں الغرض ملک پاکستان میں آئین پاکستان معطل نہیں ہواتو یہ قدغن کس لئے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی حکومت جو مغرب کو بہت خوب جانتی اُس کی رنگینیوں سے لطف اندوزہونے والا آئین پاکستان کے خلاف اسلامی جمہوریہ پاکستان کو ریاست مدینہ کہہ کراپنے آپ کو عاشق رسول اور ملک پاکستان کا سب سے بڑھا خیر خواہ بتا کرریاست مدینہ کی توہین کرنامقصود ہے لیکن اُس کے عاشق رسول ہونے کا پول جس طرح عوام کے سامنے کھلا ہے اور جس بے فکری سے موصوف نے کہا ہے کہ قوم مجھے چھوڑبھی دے میں قوم کو نہیں چھوڑوں گا ملک قوم دشمنی کی اعلان ہے لیکن جناب مغرب کو بڑی اچھی طرح جانتے ہیں اس لئے عوام کو معاشی پابندیوں سے ڈرا کر اگلے سو سال تک تک مزید غلامی کا اعلان سرکاری تقریب میں کرکے پوری قوم کا جنازہ نکال دیا ہے اورابھی بھی قوم کی جان چھوڑنے کے لئےتیار نہیں اور اب نصاب تعلیم سےاسلامی عبارات کو حزف کر کے صرف اسلامیات تک محدود کرنےکی سازیش پر کام کیا جارہا ہے ۔
 
M.Qasim Saleem
About the Author: M.Qasim Saleem Read More Articles by M.Qasim Saleem : 9 Articles with 5110 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.