نکسلی حملہ :جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے

چھتیس گڑھ کے اندر ماو نوازوں نے 23 دن کے اندر تیسرا حملہ کردیا ۔ پہلے والے دونوں حملوں کی الگ الگ حکمت عملی یعنی بارود بچھانے یا گولی چلانے کے بجائے اس بار انہوں نے دھار دار ہتھیار سے حملہ کرکے دوپولس والوں کو ہلاک کردیا ۔ یہ تینوں واقعات سکما ضلع میں وقوع پذیر ہوئے ہیں ۔ اس سانحہ کے متوفی بھیجی پولس تھانے سے منسلک تھے۔ اپنے کیمپ سے نکل کر پونیم ہرین اور دھنی رام کشیپ موٹر سائیکل پر بازار جارہے تھے ۔ نصف کلومیٹر کے فاصلے پر کسی نے انہیں روک کر حملہ کردیا ۔ پولس ذرائع نے تفتیش کا بہانہ بناکر تفصیل نہیں بتائی۔ مقامی لوگوں کا خیال ہے کہ اس حملے کے پیچھے ماونوازوں کا تقریباً دو سے چار افراد پر مشتمل مختصر گروہ ہوسکتا ہے۔ یہ لوگ گاوں والوں کے ساتھ عام باشندوں کی طرح رہتے ہیں اور ان کے اثرو رسوخ کے سبب پہچانے نہیں جاتےمگر پولس کیمپ پر نگاہ رکھتے ہیں ۔ ان متنوع حملوں نے یہ بات ثابت کردی ہے کہ ماو نواز حفاظتی دستوں سے دو قدم آگے چل رہے ہیں اور وزیر داخلہ کی انتقام والی دھمکی کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوا ہے۔

وزیر اعظم کے بارے میں میڈیا نے یہ تاثر قائم کیا تھا کہ ان سے ساری دنیا ڈرتی ہے اور پڑوسی ممالک تو تھر تھر کانپتے ہیں ۔ چین کی لداخ میں در اندازی اور بنگلا دیش کے احتجاج نے اس خیال کو غلط ثابت کردیا ۔ وزیر داخلہ امیت شاہ بھی اس خمار میں تھے کہ سارا ملک ان سے خوفزدہ ہے لیکن نکسلی حملے نے اس خیال کی بھی تردید کردی۔ کورے گاوں بھیما سانحہ کا بہانہ بناکر انہوں نے نامور اشتراکی دانشوروں کو جیل میں ٹھونس دیا گیا۔ جے این یو میں انہیں ٹکڑے ٹکڑے گینگ کا نام دے کر خوب بدنام کیا ۔ دہلی فساد سے لے کر کسان تحریک تک کی آڑمیں بھی ان پر رکیک حملے کرکے یہ سوچ لیا کہ اس طرح انہیں پوری طرح کچل دیا گیا ہے لیکن چھتیس گڑھ میں پے در پے دو حملے کرکے یہ پیغام دیا کہ ٹائیگر زندہ ہے۔ مذکورہ حملے میں ۲۲ جوان ہلاک ہوگئے ایک کو یرغمال بنالیا گیا ۔ اس حملے نے وزیر داخلہ کو آسام کی انتخابی مہم درمیان سے چھوڑ کر دہلی لوٹنے پر مجبور کردیا ۔

وزیر داخلہ امیت شاہ کو4؍اپریل کے دن تین ریلیوں سے خطاب کرنا تھا لیکن ایک کے بعد انہیں خیال ہوا کہ وہ ملک کے وزیر داخلہ بھی ہیں ۔ انتخابی جلسوں میں فرقہ وارانہ خطاب کرنے کےبجائے ملک کی داخلی صورتحال کو قابو میں رکھنا ان کا فرض منصبی ہے۔ آسام سے دہلی لوٹتے ہوئے ان کا جہاز چھتیس گڑھ کے اوپر سے گزرا ہوگا لیکن انہوں نے صلاح و مشورہ کے لیے پہلے دارالخلافہ جانا ضروری سمجھا ۔ وہ دہلی آئے بغیر بھی اگر اس سانحہ کے لیے کانگریسی وزیر اعلیٰ کو ذمہ دار ٹھہرا کر اس کا انتخابی فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے تب بھی میڈیا ان سے سوال پوچھنے کی جرأت نہیں کرتا ؟ میڈیا اگر ایسی غلطی کردے تو وہ سرکاری اشتہارات کے حقدار نہیں رہے گا ۔ ایسا کرنا نمک حلالی کا تقاضہ بھی ہے۔ فی الحال ٹیلی ویژن انڈسٹری اپنی بقاء کی خاطر سرکاری اشتہارات کی بے حد محتاج ہے کیونکہ نجی صنعتیں خستہ حالی کا شکار ہیں ۔ سرکارکی مہربانیسے اڈانی اور امبانی جیسے لوگ تو پھل پھول رہے ہیں مگر وہ بھی حکومت پر تنقید کرنے والوں کو اشتہار دے کر حکومت کی ناراضی کا خطرہ نہیں مول لیں گے۔

دہلی میں غالباً وزیر داخلہ کو کسی نے احساس دلایا کہ انہیں چھتیس گڑھ جاکر فوت ہونے والے جوانوں سے اظہار عقیدت کرنا چاہیے ورنہ انتخابی مہم کے دوران بدنامی ہوسکتی ہے ۔ جگدلپور میں جاکر زخمی فوجیوں سے ملاقات انتخابی فائدے کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ آئندہ صوبائی انتخاب میں اسے بھنایا جاسکتا ہے ۔ اس لیے غالباً انہوں نے چھتیس گڑھ جانے فیصلہ کیا۔ وہاں پر انہوں نے وزیر اعلیٰ بھوپیش بگھیل کے ساتھ بیجاپور کے باس گڑا کیمپ میں افسران سے ملاقات کی اور واپسی میں رائے پور کے اندر زخمیوں سے بھی ملے ۔ وزیر اعلیٰ بھوپیش بگھیل تو پہلے ہی یہ کام کرچکےتھے اور اس کے بعد انہوں نے کہا تھا کہ یہ مڈبھیڑ نہیں جنگ ہوئی ہے ۔ یہ نکسلیوں کی آخری لڑائی ہے ۔ ان کے خیمہ میں گھس کر ہمارے جوانوں نے انہیں مارا ہے۔ یہ وہی لب و لہجہ ہے جو لداخ کے بعد وزیر اعظم نے استعمال کیا تھامگر کسی کی سمجھ میں نہیں آیا ۔

وزیر اعلیٰ سے پہلے مرکزی وزیر امت شاہ نے آسام سے یہ بیان دیا تھا کہ ’چھتیس گڑھ میں نکسلیوں سے لڑتے ہوئے شہید ہونے والے ہمارے بہادر سیکورٹی اہلکاروں کی قربانی کو میں سلام کرتا ہوں۔ ملک ان کی بہادری کو کبھی نہیں بھولے گا۔ میری ہمدردی ان کے اہل خانہ کے ساتھ ہے۔ ہم امن کے ان دشمنوں کے خلاف اپنی جنگ جاری رکھیں گے۔ دعا ہے کہ زخمی جوان جلد ٹھیک ہوں گے‘۔ اس رسمی بیان کے بعد سرچ آپریشن جاری ہونے کے سبب اعدادو شمار کی بابت کچھ کہنے کے بجائے انہوں نے یہ تسلیم کیا کہ دونوں طرف کا نقصان ہوا ہے۔ وہ بولے میں شہدی جوانوں کو خراج عقدہت پشے کرتا ہوں اور ان کے گھروالوں اور ملک کو ین ت دلانا چاہتا ہوں کہ ان جوانوں کا خون ضائع نہں جائے گا ۔ ہماری لڑائی مزیدمضبوطی کے ساتھ جاری رہے گی اور اسے نتجہے تک لے جایا جائےگا۔ سرجیکل اسٹرائیک سے پہلے تو ملک کے عوام اس طرح کے بیانات سن کر مطمئن ہوجاتے تھے لیکن اب ہضم نہیں ہوتے اس لیے اب وہ پوچھتے ہیں گھر میں گھس کر مارنے والے آخر کہاں چلے گئے؟

بیجاپور میں 400 سے زیادہ نکسلیوں نے حملہ کیا تھا لیکن اس مہم میں سرگرم عمل حفاظتی دستوں کی تعداد بھی 800 سے ایک ہزار تک بتائی جاتی ہے۔ اس تصادم میں زخمی جوان بلراج نے نیوز 18 کو بتایا کہ جدید ہتھیاروں سے لیس نکسلی دیسی گولہ بارود سے حملہ کررہے تھے ۔ بلراج کے مطابق ہفتہ کی صبح اپنےہدف کو نشانہ بناکر کے لوٹتے وقت انہیںبہت بڑی تعداد میں نکسلیوں کے پیچھا کرنے کی اطلاع ملی ۔ اس کے بعد جب وہ پوزیشن لے کر آل راونڈ ڈیفنس میں بیٹھ گئے تو کچھ دیر میں نکسلیوں نے حملہ کردیا ۔اس حملے کے جواب میں دستوں نے نکسلیوں کو کئی کلومیٹر پیچھے ڈھکیل دیا ۔ اس دوران دونوں کا نقصان ہوا ۔ بلراج کے برعکس دیو پرکاش نامی جوان نے اسی چینل کو بتایا کہ اس تصادم کے دوران وہ چاروں طرف سے گھر چکے تھے نکسلی گولہ باری کے ساتھ گولے داغ رہے تھے ۔ اس کے بعد ہم ایک طرف فائرنگ کرتے ہوئے آگے بڑھے ، لیکن اس دوران وہ ہمارا پیچھا کررہے تھے ۔ دیوپرکاش نے بتایا کہ نکسلیوں کو بھی بھاری نقصان ہوا، لیکن ان لوگوں نے حفاظتی دستوں کو مہلوکین کی لاشںر اپنے ساتھ لانے کا موقع نہیں دیا ۔

ملک میں ماونواز وں کے حملے نئے نہیں ہیں۔ سال 2013کے اندر چھتیس گڑھ کے جھرم گھاٹی میں انہوں نے کانگریس کےایک معمر رہنما سمیت 30 افراد کو ہلاک کردیا تھا ۔ اپریل 2019 کو بارودی سرنگ کے دھماکے سے بی جے پی کے ریاستی رکن اسمبلی بھیمامنڈاوی اور 5سیکیورٹی اہلکاروں کو ہلاک کردیا تھا ۔ حالیہ حملے سے 10 دن قبل 23 مارچ کو بھی نرائن پور میں سرنگ لگا کر حملہ کیا گیا جس میں5 اہلکارفوت ۱ور 14 زخمی ہوئے۔ اس سے کچھ دیرپہلے اسی سڑک سے انڈو تبت بارڈر فورس کی دو بسیں گزر چکی تھیں اگر مختصر سی تاخیر ہوجاتی تو پلوامہ جیسا حادثہ رونما ہوسکتا تھا ۔ مذکورہ حملے کے بعد بھی وزیر اعلیٰ بھوپیش بگھیل نے کہا تھا کہ نکسلی کمزور ہوگئے ہیں اب پھر یہی کہا ہے حالانکہ ان کے حملے تیز تر ہو گئے ہیں اور اس سے ہونے والا جانی نقصان بھی کئی گنا بڑھ گیا ہے۔

حالیہ حملے کو ماہرین آپریشنل پلاننگ کی ناکامی قرار دیتے ہیں اس لیے کہ 700جوانوں کو گھیر کر تین گھنٹے ان پر گولیاں چلانا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ریسکیوں ٹیم کو لاشوں کےحصول کی خاطر بھی ۲۴ گھنٹے کا وقت لگانا بھی ناقابلِ فہم ہے۔ یہ حملہ اچانک نہیں ہوا بلکہ وہاں پر نکسلیوں کی موجودگی کا پتہ چل چکاتھا اور دس دن قبل حملہ بھی ہوچکا تھا۔ مقامی ماہرین کے مطابق جونا گڑھ جیسے پہاڑی علاقہ میں گوریلا جنگ کی حکمت عملی اختیارکی جاتی ہے ایک ساتھ اتنے سارے فوجیوں کو نہیں روانہ کیا جاتا۔ حملے والے دن روپوش نکسلی فوجیوں کا انتظار کررہے تھے اور جب حفاظتی دستے ان کے نشانے پر تین جانب سے گھِر گئے تو اس کے بعد حملہ کر کے اتنی بڑی تعداد میں جوانوں کو ہلاک کردیا گیا۔

سی آرپی ایف کے سابق ڈی جی پی وجئے کمار اور موجودہ آئی جی نلت پربھات کی ۲۰ دنوں سے موجودگی نے نکسلیوں کو چوکنا کردیا تھا اور اسے بھی حملے کی ایک وجہ بتائی جاتی ہے۔ ماہرین کے خیال میں اس طرح کی صورتحال حکمت عملی میں تبدیلی کا مطالبہ کرتی رہتی ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو ماونوازوں کے لیے حملہ کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ اتنے بڑے آپریشن کے لیے تکنیکی ڈرون کی مدد سے ملی جانکاری کو بنیاد بنانا مناسب نہیں ہے کیونکہ 100-200 نکسلیوں کی نقل و حرکت عام بات تھی۔ یہ رائے بھی ہے نکسلیوں کی بابت معلومات جمع کرنے کے لیے ہتھیار ڈالنے والوں پر انحصار کیا جارہاجبکہ ان کی فراہم کردہ معلومات ۶ ماہ بعد بےسود ہو جاتی ہے۔ ماو نوازوں کے خلاف پانچ طرح کی الگ الگ فورسیز کو استعمال کرنے سے یہ دقت پیش آتی ہے کہ وہ اپنے اپنے انداز میں کام کرتے ہیں اور ان کے درمیان یکسانیت اورتال میل کا فقدان ہوجاتا ہے۔ اس کے برعکس ماو نواز متحد ہوکر ایک کمان کے نیچے کام کرتے ہیں ۔

و زیر داخلہ نے الیکشن کے میدان میں تو اب تک بہت مہارت حاصل کرلی ہے ۔ وہ مختلف ذاتوں و گروہوں کی جوڑ توڑ کے ماہر ہونے کی وجہ سے چانکیہ کہلانے لگے ہیں لیکن یہ تلخ حقیقت ہے کہ اپنی وزارتی ذمہ داریاں کماحقہُ ادا کرنے کے لیے جو صلاحیت درکار ہے اس کی جانب وہ ہنوز توجہ نہیں کرسکے ہیں۔ ان کی قومی ذمہ داری کا تقاضہ ہے کہ پارٹی چلانے کا کام جے پی نڈا کو سونپ کر وہ خود وزارتی کا موں پریکسوئی سے دھیان دیں ۔ ان کے لیے یہ کام مشکل تو ہے مگر ضروری ہےکیونکہ ملک کی سلامتی اور تحفظ الیکشن جیتنے سے زیادہ اہم ہے۔ اب اگر وزیر اعظم اور وزیر داخلہ دونوں ہی اپنی ساری توجہات انتخاب مرکوز کردیں تو ملک کون چلائے گا۔ یہ سانحہ اگر کانگریس کے راج میں رونما ہوا ہوتا تو بی جے پی والے آسمان سر پر اٹھا لیتے اور وزیر داخلہ کا استعفیٰ طلب کرتے یا کم ازکم وزیر اعظم کو سرجیکل اسٹرائیک کی یاد دلاتے لیکن کانگریس نے اگر ایسی غلطی کی تو اس کے وزیر اعلیٰ کو ہٹا کر اسے دیش دروہی قرار دے دیا جائے گا۔ میڈیا کی مدد سے سرکار جو چاہے کرسکتی ہے ۔موجودہ میڈیا پر مولانا حسرت موہانی کا یہ شعر صد فیصد صادق آتا ہے ؎
خرد کا نام جنوں پڑ گیا جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1449667 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.