ملک جن حالات سے اس وقت گذر رہا ہے اس پر مزید بحث
کے بجائے ،آگے کی حکمت عملی تیارکرنے کی ضرورت ہے، لیکن حکمت عملی تیار
کون کرے؟ جن پر آگے کے لئے ایکشن کی ذمہ داری تھی ان کو چنائو سے ہی فرصت
نہیں ہے ۔ میڈیا رپورٹس پر اگر یقین کیا جائے تو مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ
ممتا بنرجی نے الیکشن کمیشن سے اپیل کی تھی کی مغربی بنگال کے بقیہ چنائو
کو ایک ہی مرحلہ میں کرایا جائے، جسکی الیکشن کمیشن کے سامنے بی جے پی نے
مخالفت کی اور الیکشن کمیشن نے بنگال کے چنائو میں کسی طرح کی ترمیم کرنے
سے انکار کردیا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب آسام جیسی حساس ریاست میں
چنائو تین مرحلہ میں ہوسکتا ہے اور کیر0ل و تامل ناڈو جیسی بڑی ریاست میں
چنائو ایک مرحلہ میں ہوسکتے ہیں تو پھر بنگال میں چنائو کو اتنا کھینچنے کا
کیا مطلب ہے؟
اس کا جواب تو الیکشن کمیشن ہی دے گا لیکن ، جس طرح کے سوالات لوگ الیکشن
کمیشن کے طرز عمل پر اٹھا رہےہیں وہ بہر حال جواب کے متلاشی ہیں اور انہیں
آسانی سے اس طرح نہیں نکارا جا سکتا جیسے کہ ہر چنائو کے درمیان بی جےپی
لیڈران کی گاڑی میں ای وی ایم مل جاتی ہے اور اسے محض ایک حادثہ بتا کر ٹال
دیاجاتاہے۔ اس درمیان اچھی خبر یہ ہے کہ کانگریس کے سابق نائب صدر راہل
گاندھی نے بنگال الیکشن میں اپنی تمام مجوزہ ریلیاں رد کردی ہیں ، لیکن
ابھی تک اس طرح کا کوئی اعلان مرکز میں بر سر اقتدار پارٹی کی جانب سے نہیں
آیا ہے۔ خبر یہ ہے کہ وزیراعظم حرکت میں آئے ہیں اور وہ آگے کا ایکشن
پلان تیار کررہے ہیں، لیکن جس طرح سے آکسیجن اور دائوں کی قلت کی خبریں
موصول ہورہی ہیں وہ انتہائی تکلیف دہ ہیں۔ ایسے نازک وقت میں جس طرح کمبھ
میں شاہی اسنا ن ہوا ہے اور وزیراعلیٰ اتراکھنڈ جس طرح سے فرمارہے ہیں کہ
یہ شاہی اسنان کورونا کیلئے تریاق بنے گا، ادھر سائنسداں دکھ کا اظہار کرتے
ہوئے فرمارہے ہیں کہ کہیں کمبھ موت کا میلہ نہ ثابت ہوجائے اور گنگا کا
پانی کورونا کے پھیلائو میں معاون نہ ثابت ہو وہ انتہائی تکلیف دہ ہے۔
وزیراعلیٰ صاحب کی رائے کو کتنی سنجیدگی سے لینا ہے اس پر گفتگو کی ضرورت
نہیں ،لیکن سائنسدانوں کا خدشہ اگر درست ثابت ہوتا ہے تو اس کے بارے میں
سوچ کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔
جس طرح سے تبلیغی جماعت کے لوگوں کے بہانے کورونا کو مذہب سے جوڑ کرکورونا
جہاد جیسے ٹرم بنائے گئےا ور پورے ملک میں مسلمانوں کیخلاف گودی میڈیا نے
نفرت پھیلانے کا کام کیا اللہ کا شکر ہے ابھی تک کمبھ کو لے کر میڈیا کا
ایسا ردعمل دیکھنے کو نہیں ملا ہے اور نہ ہی ملنے والا ہے، کیونکہ جہاد پھر
چاہے وہ لو ہو یا یو پی ایس سی ہو یا پھر کورونا یہ کہاں سیٹ کرنا ہے روگی
میڈیا والوں سے بہتر کون جانتا ہے؟ملک ابھی ببیتا فوگاٹ جی کے اس ٹوئیٹ کو
بھی نہیں بھولا گا جس میں انہوںنے کورونا کو لے کر کہاتھا کہ تمہارےیہاں
چمگادڑوں سے پھیلاہوگا لیکن ہمارے یہاں تو جاہل سوروں سے پھیلا ہے۔ اب
ببیتا جی نے ٹوئیٹ کرکے بھاگوت جی اور کچھ لوگوں کے کورونا پوزیٹیو ہونے پر
تکلیف کا اظہار کیا ہے تو اس کیلئے کون ذمہ دار ہے؟ اس کی بھی جانکاری
یقیناً ببیتا جی کو ہونی چاہئے۔
ماضی کے تلخ تجربات یہ بتاتے ہیں کہ پچھلے کچھ سالوں میں سرکاری ناکامیوں
کوروگی میڈیا نے مذہبی رنگ دے کر ایک خاص مذہب کےلوگوں کو ملک اور سماج کے
سامنے ولن بنا کر پیش کیا ہے۔ اس لئے ہمیں اس سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔
حالانکہ امپار جیسے اداروں کے وجود میں آنے کے بعد جہاد والے ٹرم میڈیا کی
اسکرین سے غائب ہوگئے ہیں او رحال ہی میں قرآن مقدس کے معاملہ میں جس طرح
کے رد عمل کی روگی میڈیا سے امید تھی وہ نظر نہیں آیا اس سے کچھ لوگوں کو
ایسا لگتا ہے کہ شاید روگی میڈیا کے اندر کچھ بدلائو آیا ہے۔ اچھا سوچنے
میں کوئی برائی نہیں ہے ، لیکن لوگوں کو کمفرٹ زون میں جانے کی بالکل ضرورت
نہیں ہے، کیونکہ سانپ کب ڈنک مار دے نہیں کہاجاسکتاہے۔
اس لئے اس مضمون کے ذریعہ میں تمام مساجد اور مدارس کے ذمہ داران سے اپیل
کرتا ہوں کہ وہ آنے والے مصلیوں پر ماسک واجب کردیں ۔ جو بھی مصلی ماسک کے
بغیر آتا ہے اس کی انٹر ی بند کردیں۔ مسجد کے ایگزٹ اور انٹرنس گیٹ پر
ہینڈ سینیٹائزر رکھیں۔ لوگوں کو اپنا مصلیٰ خود لانے کی ہدایت دیں۔ لوگوں
سے کہیں کہ وضو گھر سے کرکے آئیں ۔نماز کے دوران سوشل ڈسٹنسنگ ضروری اور
لازمی کردیں۔ ایسا نہ کرنے والوں سے سختی سے نمٹیں۔ لوگوں سے کہیں کہ اپنے
چپل دور دور نکالیں ، ساتھ ہی فرض نماز کے بعد فوراً گھر چلے جائیں اورسنن
و نوافل گھر پر ہی ادا کریں ۔اکثر نماز کے بعد لوگوںسے اس کی اپیل بھی کریں
کہ وہ کورونا گائڈلائن کی پابندی کریں اور بازار کی زینت کے بجائے گھروں
میں رہ کر قرآن کی تلاوت کریں اور اللہ سے استغفار کریں جیسا کہ نوح علیہ
السلام نے اپنی قوم سے کہاتھا ۔
ایسے لوگ جن کو سردی ، زکام یا نزلہ یا پھر بخار ہے وہ مسجد آنے سے پرہیز
کریں اور گھر پر ہی نماز کی ادائیگی کریں۔ ساتھ ہی جو مریض عمر کی ایک مدت
پوری کرچکے ہیں ان کو چاہئے کہ وہ بھی گھر پر ہی نماز ادا کریں ۔ اگر ہم نے
وقت رہتے خود کو نہیں سنبھالا تو ہمیں یادرکھنا چاہئے کہ ایک بار پھر ہمیں
روگی میڈیا کے ذریعہ ولن بنائے جانے سے کوئی نہیں روک سکتا ہے۔
جس طرح سے ہمارا پورا ہیلتھ سسٹم بری طرح سے چرمرا گیا ہے تو اس کا ٹھیکرا
ذمہ داروں کے سو پھوڑنے کے بجائے کسی کو تو اس کیلئے ذمہ دار ٹھہرائے گا ہی
روگی میڈیا تاکہ اصلی لوگوں کو بچایا جاسکے اور مسلمان اس کیلئے سب سے
آسان اور مناسب چارہ ہیں ۔ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ روگی میڈیا کے
لوگ کمبھ کی تصویریں نہیں دکھائیں گے ۔وہ یہ ضرور دکھائیں گے کہ مسلمان جگہ
جگہ جمع ہوکر کورونا پھیلا رہے ہیں اور ہم کو سماج میں ایک بار پھر الگ
تھلگ کر دیا جائے گا۔ ساتھ ہی مساجد و مدارس کے ذمہ داروں اور ملک کی موقر
شخصیات سے اپیل ہے کہ وہ لوگوں سے اپیل کریں کہ وہ عید کی کوئی خریداری
بالکل نہ کریں ۔ یاد رکھیں ! صحابہ کرام پیوند لگے کپڑے پہننے میں کوئی
قباحت محسوس نہیں کرتے تھے، تو پھر ہم کو قباحت کیوں ؟ جبکہ حالات اس کے
متقاضی ہیں ۔ پیسوں سے لوگوں کی مدد کریں ، ان کو حوصلہ دیں ۔ آپ اس حدیث
رسول کو یاد رکھیں جس میں آقا نے سب سے بہترین انسان کی تعریف کرتے ہوئے
فرمایا’ سب سے بہتر لوگوں میں وہ ہے جو لوگوں کےلئے فائدہ مند ہو‘ ۔اس میں
ذات اور مذہب کی کوئی قید نہیں ہے۔ اس لئے خود کو سماج کیلئے مفید بنائیں۔
اگر ایسا کریں گے تو قرآن کا وعدہ ہے جو چیز لوگوں کیلئے فائدہ مند ہوتی
ہے اللہ اس کو ثبات عطاکرتے ہیں، اس لئے ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم خود کو
سماج کیلئے مفید بنائیں اور روگی میڈیا کے ذریعہ ویلن بنانے کی اس کی چال
کو سمجھیں ۔
|