کڑوا سچ

گزشتہ چند دنوں سے وطن عزیز پاکستان کے گلی کوچوں اور چوراہوں میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ انتہائی افسوسناک اور دردناک ہے۔ ہر درد دل رکھنے والا پاکستانی اس پر پریشان اور ہر پاکستان اور اسلام دشمن خوش ہے۔ اس صورت حال کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ جب سرکاری سطح پر فرانس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ و سلم کی شان میں گستاخی کی گئی تو دنیا بھر کی مسلم تنظیمات کی طرح "تحریک لبیک پاکستان" نے بھی شیخ الحدیث علامہ خادم حسین رضوی رح کی قیادت میں پرزور احتجاج کیا۔ اس احتجاجی دھرنے کے اختتام پر تحریک لبیک پاکستان اور حکومت پاکستان کے درمیان فرانس کے سفیر کی ملک بدری کے حوالے سے ایک تحریری معاہدہ ہوا۔ اس کے کچھ ہی عرصہ بعد علامہ خادم حسین رضوی رح کا انتقال ہو گیا اور مجلس شوری نے تحریک لبیک پاکستان کا امیر ان کے صاحبزادے حافظ سعد حسین رضوی صاحب کو چن لیا۔ ان کی امارت میں حکومت سے بہت اچھے ماحول میں مذاکرات ہوئے۔ خود وزیر اعظم پاکستان عمران خان صاحب نے 20 اپریل تک اس مسئلے کو حل کرنے کی ڈیڈ لائن دی۔ تحریک لبیک پاکستان کی مجلس شوری نے اپنے اجلاس میں اس معاہدہ کی مکمل پاسداری کرتے ہوئے 20 اپریل رات 12 بجے تک کوئی جلسہ جلوس نہ کرنے کا اعلان کیا۔ البتہ معاہدے پر عمل درآمد نہ ہونے کی صورت میں ڈیڈ لائن کے بعد احتجاج کی کال دے دی۔ ہوا یوں کہ اچانک حافظ سعد رضوی کو سڑک پر سے جاتے ہوئے گاڑی سے اتار کر گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ حکومت جانتی تھی کہ حافظ سعد رضوی کو گرفتار کرنے سے کیسے حالات پیدا ہوسکتے ہیں۔ حکومتی خفیہ ادارے بھی حالات ابتر ہونے کی اطلاعات دے چکے تھے۔ لیکن اس کے باوجود ایک خاص مقصد کیلئے حکومت نے خود حالات خراب کروائے۔ وہ مقصد تھا تحریک لبیک پاکستان کو دہشت گرد جماعت ڈیکلئر کر کے اس پر پابندی لگوانا۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ علامہ خادم حسین رضوی رح کے جنازے کےمناظر سے پورا عالم کفر ششدر اور ورطہ حیرت میں تھا کہ توہین رسالت مآب صلی اللہ علیہ والہ و سلم کے مرتکب دہشت گردوں اور منکرین ختم نبوت کو للکارنے والے اس اس مرد درویش کی اس قدر عوامی پذیرائی کیوں ہے۔ یہ کھٹکا بھی لگ گیا تھا کہ کہیں یہ لوگوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ووٹ بینک میں ہی نہ بد جائے کیونکہ سیاسی جماعت تو ان کی پہلے ہی الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ ہے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ دنیا کے جس حصے میں بھی کسی اسلامی تحریک نے سر اٹھانے کی کوشش کی اسے اپنے بیرونی آقاؤں کے ایما پر مقامی خاندان غلاماں کے ارباب اختیار نے کچل دیا۔ مصر، سوڈان اور الجزائر کی ماضی قریب کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ اسی تسلسل میں حکومت پر اس جماعت پر پابندی کیلئے دباؤ تو تھا لیکن قانونی اور عقلی جواز نہ تھا۔ موجودہ صورتحال میں حکومت اگر چاہتی تو مذاکرات کے ذریعے کچھ بہتر رستہ اختیار کرکے قیمتی جانوں کے ضیاع سے بچا جا سکتا تھا۔ حکومت کو یہ بھی معلوم تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ و سلم کی عزت و ناموس کا معاملہ بہت نازک ہے اور اس اہم اشو سے بد عہدی کی صورت میں جو کھلواڑ ہم کرنے جا رہے ہیں اس کا رد عمل بہت سخت ہوگا۔ بعض لوگ سعد رضوی صاحب کی گرفتاری کو حکومت کی حماقت سمجھ رہے ہیں۔ اصل میں حماقت سے زیادہ بیرونی دباؤ کی وجہ سے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت قیمتی جانوں کا ضیاع کیا گیا تاکہ دہشتگردی کی دفعات لگا کر اس سیاسی جماعت پر پابندی کا جواز بن سکے۔ اس میں یہ پیغام بھی ہے کہ اگر کوئی دینی جماعت مقبولیت پانے کی کوشش کرے گی تو اس کا یہی حال ہوگا۔ اپنے ہی ملک میں توڑ پھوڑ، قتل و غارت گری یقینا ایک قبیح فعل ہے جس کی ہم کبھی حمایت نہیں کرتے بلکہ اس کی بھرپور مذمت کرتے ہیں۔ لیکن سوال یہ بھی ہے کہ اگر تحریک لبیک پاکستان پر پابندی قتل و غارت گری کی وجہ سے ہے تو پھر کیا ایم کیو ایم نے کراچی میں سر عام قتل و غارت نہیں کی؟ ان کے اپنے سینکڑوں کارکن میڈیا پر اس کا اعتراف کرچکے ہیں۔ وزیر اعظم پاکستان عمران خان صاحب بھی کئی مرتبہ ببانگ دہل ان پر پابندی کی باتیں کر چکے ہیں۔ پھر حکومتی ادارے کیوں ان کے خلاف ایکشن لے کر اس جماعت پر پابندی نہیں لگاتے۔ یاد رہے یہ جماعت اب بھی وفاقی حکومت کا حصہ ہے۔ پیپلزپارٹی ذوالفقار مرزا اور عزیر بلوچ کے ذریعے لیاری اور پھر کراچی میں کئی مخالفین کو قتل کروا چکی ہے۔ اس پر پابندی کے اقدامات کیوں نہیں اٹھائے جاتے۔ ذوالفقار مرزا کی بیگم فہمیدہ مرزا وفاقی کابینہ کی اب بھی اہم رکن ہے۔ اے این پی نے کراچی میں قتل و غارت کی، شہری اغوا کیے، کراچی کے علاقے بنارس چورنگی میں اردو اسپیکنگ شہریوں پر ظلم کیا، لیکن پھر بھی ان کی جماعت پر پابندی نہیں لگی۔ خود پی ٹی آئی نے سول نافرمانی کی تحریک چلائی۔ پی ٹی وی پر حملہ کیا، 126 دن کے دھرنے کے دوران پارلیمنٹ پر حملہ کیا، لیکن اس پر بھی پابندی نہیں۔ (ن) لیگ نے گلوبٹ، عابد باکسر جیسے دہشت گردوں کے ذریعے بے گناہ لوگوں کو مروایا لیکن ان پر بھی پابندی نہیں۔ ہم ہر طرح کی قتل و غارت گری کی مذمت کرتے ہیں۔ خواہ کوئی جماعت کرے یا فرد۔ یاد رہے کہ راقم کبھی تحریک لبیک پاکستان کا حصہ نہیں رہا لیکن آج تحریک لبیک کو کالعدم قرار دینے کے فیصلے پر تحفظات ضرور ہیں۔ آج سے 4 سال قبل موجودہ حکومت کے وزیراعظم عمران خان اور موجودہ وزیرِ داخلہ شیخ رشید اسٹیج سے حکومتی اور ریاستی رِٹ کو للکارتے رہے ہیں اور وہی کارنامے سرانجام دیتے رہے ہیں کہ جن الزامات کے پیشِ نظر آج تحریکِ لبیک پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا جا رہا ہے۔ موجودہ وزیرِ داخلہ شیخ رشید نے اسی تحریکِ لبیک کو حق اور سچ پر مبنی ناموسِ رسالت صلی الله عليه وسلم کی تحریک قرار دیا تھا اور اس کی مکمل حمایت کر کے سیاسی مفادات کی خاطر خود ہی اپنے آپ کو کو مجاہدِ ختم نبوت کا لقب بھی عطا کیا تھا اور آج وہی شخص اسی جماعت کو ملک دشمن اور کالعدم قرار دینے کا فیصلہ دے رہا ہے۔ مسلم لیگ ن کے پچھلے دورِ حکومت میں پی ٹی آئی نے "ختمِ نبوت اور ناموس رسالت مآب صلی اللہ علیہ والہ و سلم " کو سیاسی ایشو کے طور پر استعمال کیا۔ یاد رہے کہ تحریکِ لبیک نے الیکشن کمیشن کی رجسٹرڈ جماعت کی حیثیت سے قومی اسمبلی سے مجموعی طور پر 22 لاکھ 34ہزار 338 ووٹ حاصل کیے۔قومی اسمبلی کیلئے ڈالے گئے مجموعی ووٹوں میں ٹی ایل پی کو ملنے والے ووٹوں کا تناسب 4.06 فیصد رہا۔ اور یہ 5 ویں بڑی سیاسی جماعت کے طور پر ابھر کر سامنے آئی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی بھی احتجاج میں ملکی اور ریاستی املاک کو نقصان پہنچانا یا عوام کے راستے بند کرنا کسی بھی صورت درست عمل نہیں۔ لیکن افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ موجودہ حکومت اور اس کے وزیراعظم نے خود ہی یہ کلچر متعارف کروایا ہے۔ جس کی مذمت ہم تب بھی کر رہے تھے اور آج بھی کرتے ہیں۔ لیکن اگر اس وقت تحریکِ انصاف کے اُن حرکات کی وجہ سے اسے کالعدم قرار نہیں دیا گیا تو آج تحریک لبیک کو ان بنیادوں پر کالعدم قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اگر آج اس فیصلے کو درست مان لیا جائے تو حکومتی اقدام پر ایک اعتراض یہ بھی بنتا ہے کہ ایسی جماعت کے ساتھ آپ کے وفاقی وزراء نے تحریری معاہدہ ہی کیوں کیا تھا اور اگر وہ معاہدہ کر ہی لیا تھا تو اخلاقی طور پر اس کی پابندی لازم تھی یا کم از کم فرانسیسی سفیر کو بلا کر اپنا احتجاج ہی ریکارڈ کروا دیتے تاکہ اس معاہدے کی حیثیت تو برقرار رہ پاتی۔ اس سارے مسئلے کا حل سیاسی طور پر نکالنا ہو گا۔ ورنہ زور زبردستی ، مار دھاڑ، جبر اور شہریوں کو پابند سلاسل کرنے کے اقدامات منفی اثرات مرتب کریں گے۔ رمضان المبارک کی بابرکت گھڑیوں میں دعا ہے کہ اللہ کریم ہمارے ملک پاکستان کو امن و سلامتی کا گہوارہ اور اسلام کا ناقابل تسخیر قلعہ بنائے۔ آمین

Prof Masood Akhtar Hazarvi
About the Author: Prof Masood Akhtar Hazarvi Read More Articles by Prof Masood Akhtar Hazarvi: 208 Articles with 240809 views Director of Al-Hira Educational and Cultural Centre Luton U.K., with many years’ experience as an Imam of Luton Central Mosque. Professor Hazarvi were.. View More