ہنوز تبدیلی دوراست

عوام چاردہائیوں سے قومی سیاست میں سرگرم چہروں اورچوروں کے ساتھ ساتھ ناکارہ نظام سے بھی مایوس اور بیزارتھے ،سو انہوں نے سوچاشایدتازہ دم کپتان کایاپلٹ دے لہٰذا ء اس سوچ کے تحت پی ٹی آئی کو مینڈیٹ دیا گیا تھالیکن ضروری ہوم ورک کئے بغیر اقتدارمیں آنیوالے کرداروں کے ناپختہ ارادوں اور ناقص تجربات سے پاکستان میں سماجی ،سیاسی اورمعاشی صورتحال مزید ابتر ہوتی چلی گئی ۔عمران خان نے وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد اپنا آئینی" کام" کرنے کی بجائے اپنے پیشرووزرائے اعظم کو"بدنام" کرناشروع کردیا،موصوف کولگتا ہے وہ ابھی تک کنٹینر کی چھت پر ہیں۔کپتان کے دوراقتدارمیں "چور" بندہوئے نہ "چوری" بندہوئی، احتساب میں بری طرح ناکامی کے بعد نیب ریاست پر بوجھ کے سواکچھ نہیں۔راقم نے کئی بارکپتان کومخاطب کرتے ہوئے کہا،اب آپ وزیراعظم ہیں حکومت کریں اورسیاست اپنے پارٹی عہدیداروں پرچھوڑدیں لیکن موصوف نے خود کو منفی سیاست میں الجھا لیا کیونکہ حکومت کرناان کے بس کی بات نہیں ۔جہاں بار بار "حکام" کی تبدیلی کاامکان موجود رہے وہاں سیاسی ومعاشی "استحکام" نہیں آسکتا۔محض ٹیم پلیئرز کی میدان میں بار بارپوزیشن بدلنا کافی نہیں کیوں ناں تبدیلی کیلئے ایک بار کپتان بدل لیاجائے ، میں وثوق سے کہتا ہوں وفاقی کابینہ میں حالیہ تبدیلی کاسفر ابھی اختتام پذیرنہیں ہوا۔پنجاب میں چار چیف سیکرٹری اورچھ آئی جی تبدیلی سرکار کی "عدم برداشت" کانشانہ بنے لیکن پنجاب سے وفاق تک "ہنوز تبدیلی دوراست "والی بات ہے ۔تخت لاہورپربراجمان بزدارکو بدلے بغیر کچھ نہیں بدل سکتا ۔کسی حکمران کی خالی نیت سے کوئی ریاست ٹیک آف نہیں کرسکتی ، اس کیلئے صلاحیت اورسمت درست ہونا ا ز بس ضروری ہے۔کپتان مزید اپنی نیت کے پیچھے نہیں چھپ سکتا ، مسلم لیگ (ن) اورپیپلزپارٹی کے درمیان حالیہ بریک اپ کے بعداب تبدیلی سرکار کے پاس ڈیلیور نہ کرنے کاکوئی جواز نہیں ۔

پاکستان میں اس وقت جمہوریت کی آڑ میں شخصی آمریت کاراج ہے۔آپ اس بات کافیصلہ حکمرانوں کے حالیہ انتقامی اقدامات اوراشتعال انگیزبیانات کی بنیادپربخوبی کرسکتے ہیں۔پاکستان ایک منتقم مزاج شخصیت کی "ضد "کی "زد" میں ہے۔"وفاق" میں بیٹھے چند عاقبت نااندیش عناصرملک میں" نفاق" کابیج بورہے ہیں، شیخ رشید جس کادوست ہواسے کسی دشمن کی ضرورت نہیں ۔حکمران یادرکھیں اپنے ہم وطنوں کے ساتھ ملعون فرعون اورپلید یذید کے لہجے میں بات نہیں کی جاسکتی۔ شہنشاہ بھی اس طرح اپنی رعایا کے ساتھ مخاطب نہیں ہوتے اوران کے ساتھ ایسا سلوک نہیں کرتے جو ناموس رسالتؐ کے پہریداروں کے ساتھ کیاگیا۔اگرحکمرانوں نے جوش کی بجائے ہوش سے کام لیا ہوتا توملک میں حالیہ پرتشدد مظاہرے نہ ہوتے ،مظاہرین توڑپھوڑ اورشہریوں کی گاڑیاں نذرآتش نہ کرتے ۔ پولیس اورمظاہرین کے درمیان تصادم نہ ہوتا ۔ سرفروش اوروردی پوش اہلکاروں سمیت عام شہریوں کی قیمتی جانوں کاضیاع نہ ہوتا۔بدقسمتی سے حکمرانوں میں رواداری ،بردباری ،وضع داری، معاملہ فہمی ،دوراندیشی ، خیراندیشی اورسنجیدگی کافقدان ہے ۔حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ نے فرمایا تھا،"اگر دریائے فرات کے کنارے کتا پیاس سے مرگیا تومجھ سے پوچھا جائے گا"، توپھر جس حکمران کے دورمیں نادارومفلس لوگ بھوک کی خوراک بن رہے ہوں اور بیگناہ انسان ناحق مارے جارہے ہوں ،کیا کپتان کواس جوابدہی کاادراک اوراحساس ہے۔ حالیہ پرتشدد احتجاجی مظاہروں کے دوران پولیس اہلکار گرفتار افراد پرجس طرح بہیمانہ تشدد کررہے ہیں اس سے نفرت کی آگ بھڑک سکتی ہے۔جس طرح ریاست نے ایک ماں کی طرح بلوچستان کے پہاڑوں سے اترنے پرنوجوانوں کوسینے سے لگالیاتھا اس طرح ماہ صیام کاتقدس ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے تحریک لبیک کے حامیوں کو بھی رہاکردے،وہ ہرگزریاست کے باغی یا دشمن نہیں ۔ تحریک لبیک کیخلاف" کریک ڈاؤن" سے تبدیلی سرکار کا"ڈاؤن فال" شروع ہوگیا ۔

تحریک لبیک کے قیام ، خادم حسین رضوی ؒ کی قیادت ،خدمات اور سعدحسین رضوی کی شخصیت بارے باریش افضل قادری کی گفتگو سے ناکامی ، حسد ،جلن اورعداوت صاف عیاں ہے،میں نے سعد حسین رضوی کے چہرے پرکسی قسم کی منشیات کے اثرات نہیں دیکھے ۔اگر کسی جائیدادپرقبضہ کامعاملہ ہے تو اسے عدالت پرچھوڑدیاجاتا ۔ سعد حسین رضوی کی گرفتاری کی طرح تحریک لبیک کورول بیک کرنے کافیصلہ بھی انتہائی عجلت میں اورتعصب کی بنیادپر کیا گیا۔کاش تبدیلی سرکار نے اس عجلت کامظاہرہ فرانس کے سفیر کیخلاف قرارداد پیش کرنے میں کیا ہوتاتوسعد رضوی گرفتاراور پرتشددمظاہرے نہ ہوتے ۔عدالت عظمیٰ ،پارلیمنٹ ،پنجاب اسمبلی اورپی ٹی وی کی عمارت پرحملے ، تحریک نجات کے دوران بزورطاقت بیسیوں بار شٹرڈاؤن،پہیہ جام کروانے، پرتشدد مظاہرے کرنے،بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد توڑپھوڑاورجلاؤ گھیراؤ جبکہ کشمیریوں اورسکھوں کی فہرستیں بھارت کے سپردکر نیوالی کسی جماعت کوآج تک کالعدم قرارنہیں دیا گیاتوپھرماضی میں توڑ پھوڑکرنیوالے کرداراقتدارمیں آنے کے بعدکس طرح تحریک لبیک پر پابندی عائدکرسکتے ہیں ۔کیا موجودہ اور ماضی کے حکمران اپنے اپنے زمانہ اپوزیشن میں پرتشدد احتجاج کی آڑ میں بار بار ریاست کی رٹ چیلنج نہیں کرتے رہے۔تحریک لبیک پر "انتظامی "نہیں "انتقامی" بنیادوں پرشب خون ماراگیا،میں سمجھتاہوں ایک متنازعہ، ناکام اوربدنام حکومت تحریک لبیک پرقدغن لگانے کا انتہائی اقدام کرنے کامینڈیٹ نہیں رکھتی ۔عمران خان کے کسی وزیریامشیر کی زبان توان کے روبرونہیں کھلتی توپھر انہیں اس طرح کے غیرسنجیدہ اورجذباتی مشورے کون دے رہا ہے۔ عمران خان اورڈاکٹرعارف علوی کی متعدد پرانی ویڈیوز ان دنوں سوشل میڈیا پر زیرگردش ہیں اوران میں انہیں ریاست کی رٹ چیلنج کرتے ہوئے صاف دیکھا جاسکتا ہے ،ان میں وہ عوامی طاقت کے بل پاکستان بندکرنے اوراپنے ہاتھوں سے پولیس اہلکاروں کو ڈرا ،دھمکا اورانہیں تختہ دار پرلٹکانے کااعلان کررہے ہیں۔ کیاپی ٹی آئی کاطویل ترین دھرنا اورپرتشدد احتجاج ریاست ،جمہوریت اورمعیشت کی مضبوطی کیلئے تھا توپھرتحریک لبیک کے حامیوں کی توڑ پھوڑ سے جمہوریت کیلئے خطرات کس طرح پیداہوگئے ۔راقم سمیت کوئی باشعور اورباضمیر انسان حالیہ پرتشدد مظاہروں اورکشت وخون کا جواز پیش اوران کادفاع نہیں کرسکتا تاہم ان ہنگاموں کے ڈانڈے اقتدار کے ایوانوں سے جاملتے ہیں ۔پولیس توایک ڈسپلن فورس اورحکمرانوں کے ہرحکم کی پابندہے،حالیہ مظاہروں کے دوران حکمرانوں نے اپنی فرعونیت سے جو نفرت کی فصل بوئی ہے اسے تیارہونے سے پہلے تلف کرناہوگا ۔عاقبت نا اندیش اورمنتقم مزاج حکمرانوں کی بدانتظامی اوربیڈگورننس نے پولیس کوایک بار پھر نفرت وملامت کی علامت بنادیا۔میں سمجھتاہوں سیاسی بصیرت ،انتظامی حکمت اور مصلحت پسندی کے بل پر ریاست کوحالیہ آفت سے بچایاجاسکتا تھا۔سانحہ ماڈل ٹاؤن اورحالیہ کشت وخون میں کیا فرق رہ گیا ہے ۔

ماضی میں پی ٹی آئی کے بیسیوں امیدواروں سمیت شیخ رشیدنے انتخابی مہم کے دوران ناموس رسالت ؐ کارڈکا استعمال کیا لیکن آج تحریک لبیک کانظریہ اور بیانیہ ان کی آنکھوں میں چبھ رہا ہے۔ وہ مٹھی بھر لوگ جوسوشل میڈیا پرتحریک لبیک کیخلاف زہراگل ر ہے ہیں وہ یادرکھیں ان سے قبراورحشر میں عمران خان ،نوازشریف ،بلاول بھٹو یاجمہوریت نہیں بلکہ اﷲ رب العزت،دین فطرت اسلام اور سرورکونین حضرت محمدصلی اﷲ علیہ وآلہ واصحبہٰ وسلم کے بارے میں پوچھاجائے گا۔حضرت انس ؓ روای ہیں،" حضرت سیّدنامحمد صلی اﷲ علیہ وآلہ واصحبہٰ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتاجب تک میں اسے اس کے ماں باپ ،بیوی بچوں اورتمام انسانوں سے زیادہ محبوب نہیں ہوجاتا ۔اﷲ تعالیٰ نہ کرے اگراسلامی تنظیمیں کمزور پڑگئیں توپھر" اسلامی جمہوریہ پاکستان" محض" جمہوریہ پاکستان" رہ جائے گا۔پاکستان کی مضبوطی ، خوشحالی اورتعمیروترقی کارازاسلامی تعلیمات کی آبیاری میں پنہاں ہے۔اگرفلسفہ جمہوریت کے تحت عوام کی واضح اکثریت کافیصلہ ماناجائے تو پھر تحریک لبیک کے حامیوں اورعام پاکستانیوں نے فرانس کے ساتھ ساتھ تبدیلی سرکار کیخلاف اپنا دوٹوک فیصلہ سنادیا ہے ،حکومت تحریک لبیک کورول بیک کرنے کی بجائے عوامی عدالت کافیصلہ تسلیم کرتے ہوئے اسلام دشمن فرانس کے سفیر کواسلام آباد سے نکال باہرکرے۔تحریک لبیک کے" امیر" سعد حسین رضوی جوان دنوں "اسیر" ہیں ،ان کی رہائی کے حق میں آوازاٹھانے اورحکومت کوہوشمندی کے ساتھ کام کرنے کامشورہ دینے کی پاداش میں تحریک جوانان پاکستان کے مرکزی چیئرمین اورمحافظ پاکستان لیفٹیننٹ جنرل (ر)حمیدگل کے باضمیر اورنڈر فرزند عبداﷲ گل کیخلاف دہشت گردی کی دفعات کے تحت ایف آئی آر یقینا آمرانہ اقدام ہے۔ عبداﷲ گل پاکستان کے بیدار اورتعمیر وطن کے صادق جذبوں سے سرشار نوجوانوں کے ہردلعزیزقائد ہیں۔عبداﷲ گل کاسعد حسین رضو ی کی گرفتاری کے بعدملک میں ہونیوالے پرتشدد واقعات سے پریشان ہونا اورحکمرانوں کوجھنجوڑنا کوئی عیب یاگناہ نہیں ۔متعصب فرانس نے سواارب مسلمانوں کے جذبات روندتے ہوئے جوناپاک جسارت کی کیا اس کے بعد وہ کسی نرمی یادوستی کامستحق ہے ۔کیا فرانس کا انتہاپسندانہ ،متعصبانہ اورعاقبت نا اندیشانہ اقدام عالم اسلام پربدترین تشدد نہیں ،کیافرانس کی منتخب حکومت نے دانستہ دہشت گردی کاارتکاب نہیں کیا ۔سچامسلمان ہرحال میں اﷲ رب العزت پرانحصار کرتاہے ،فرانس کے ساتھ سفارتی تعلقات معطل یاختم کرنے سے کوئی بھونچال نہیں آجائے گا۔فرانس ریاستی سطح پرناموس رسالت ؐ پر حملے کرنے میں ملوث ہے ،ملعون ایمانوئل میکرون کسی صورت عالم اسلام سے معذرت یاندامت کااظہار کرنے کیلئے تیار نہیں بلکہ وہاں اسلام دشمن کاروائیوں میں مزید شدت آگئی ہے۔فرانس میں مساجد جبکہ پاکستان میں نمازیوں اورغازیوں پرحملے ناقابل برداشت ہیں۔پاکستان کے حکمران تحریک لبیک کی بجائے فرانس کی مذمت اوراس کیخلاف سفارتی سطح پر مزاحمت کیوں نہیں کرتے ۔

Muhammad Nasir Iqbal Khan
About the Author: Muhammad Nasir Iqbal Khan Read More Articles by Muhammad Nasir Iqbal Khan: 140 Articles with 90136 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.