موجودہ حالات میں یہ بات ہر پاکستانی کے لیے باعث
تشویش ہے کہ حکومت وقت نے حالات کو اس نہج تک پہنچانے میں کلیدی کردارادا
کیا ہے۔یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ یہ معاملہ انا یا کسی کی ذاتی رجنش کا
نہیں تھا۔ فرانس میں حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی شان اقدس میں
نازیبا کلمات کہے گئے۔ کلمات قبیحہ ادا کرنے والا کوئی عام شہری ہوتا تو
بات شاید احتجاج تک محدود رہتی اور حکومت پاکستان فرانس سے سفارتی ذرائع سے
اپنا احتجاج ریکارڈ کرادیتی ۔ مگر اب کی بار مسلمانوں کے دلوں پر چھریوں کے
وار کرنے والا فرانس کا صدر تھا۔ جس نے کہا تھا کہ ہم کارٹونوں کی نمائش پر
پابندی نہیں لگائیں گے۔ جب گستاخی کا ارتکاب کرنے والا اعلی عہدے کا مالک
ہوتو اس کا جواب بھی اسی ٹکر کا ہونا چاہیے تھا۔ لہذا پاکستان سمیت پوری
اسلامی دنیا میں فرانس کے صدر ایمل میکرون کے خلاف بھرپوراحتجاج کیا گیا
اور متوقع ردعمل سامنے آیا۔ اس احتجاج میں تحریک لبیک پاکستان نے ختم نبوت
پر اورمقدس ہستیوں کی شان میں بار بار مغربی دنیا کی نازیبا حرکات پر اپنی
حکومت سے کہا کہ وہ اس کام میں اپنا ریاستی فرض نبھاتے ہوئے فرانس سے
سفارتی تعلقات ختم کرے اور سفارت کار کو اپنے ملک بھیج دے۔ کسی بھی ملک سے
سخت ترین سفارتی زبان میں احتجاج کرنے کا یہ مؤثر ترین ذریعہ سمجھاجاتاہے۔
تحریک لبیک پاکستان جو سال دوہزار اٹھارہ میں مذہبی جماعت ہونے کے ساتھ
ساتھ سیاست میں قدم رکھ کر بائیس لاکھ ووٹ بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی
،ان کامطالبہ دراصل تمام مسلمانوں اور اہل دل انسانوں کے دل کی ترجمانی
تھا۔
پاکستان اسلام کے نام پر بناتھا ۔لاالہ الاﷲ اس ملک کی سرزمین کا سلوگن
تھا۔ البتہ یہ بات مغربی دنیا یا ہمارے ہاں موجو د سیکولر طبقہ ہضم نہیں کر
پاتا۔وہ بار بار پاکستان کو سیکولرازم کی اندھی بٹھی میں جھونکنے کی کوششوں
میں لگار ہتا ہے۔ جس کی وجہ سے ہر دفعہ مغربی دنیامسلمانوں کی مقدس ہستیوں
کو ٹارگٹ کرتی ہے اور ان کی شان میں گستاخیکرکے عالمی قوانین کے منافی کام
سرانجام دیے جاتے ہیں۔یہ لوگ مسلمانوں کے ایمان کی کمزوری کی شہہ رگ پر
ہاتھ رکھ دیتے ہیں۔ جان بوجھ کر مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کیاجاتاہے تاکہ
اسلامی دنیا میں سب سے اونچے درجے پر فائز پاکستان کو انتشار کی طرف دھکیلا
جاسکے۔ دراصل ان کا ایجنڈا پاکستان کی دفاعی صلاحیتوں کو کھوکھلا کرنا ہے۔
وہ نہیں چاہتے کہ پاکستان کی سرزمین اسلام کے نام لیواؤں کا قلعہ بنے۔ اس
لیے وہ ملک میں انارکی فضا پیدا کرکے یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں
کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام ناتواں ہاتھوں میں ہے۔ لہذا اسے واپس کیا جائے
اور پاکستان کو ایٹمی قوت سے محروم کردیا جائے۔
تحریک لبیک پاکستان کے کارکنان اور ریاستی ادارو ں کے درمیان جس جنگ ایسی
صورت پیدا ہوئی اس کو پوری دنیا نے دیکھا اور بہت سوں نے تو اس کو ملکی
دفاعی کمزوریو ں سے تعبیر کیا۔ کئی تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ اس دوران جب
عوام و قانون آمنے سامنے تھے اور ایک دوسرے کا سر پھاڑ رہے تھے ، تب ریاستی
رٹ کا جن بوتل سے باہرنکل کر ناچ رہا تھا۔ کہیں پولیس اہلکار پٹ رہے تھے تو
کہیں ویڈیوز میں تحریک کے کارکنان پر عقوبت خانوں میں انسانیت سوز تشدد کیا
جارہا تھا۔ ظاہر سی بات ہے دونوں طرف سے ایکشن کا ری ایکشن تو آنا تھا۔ اس
سارے عرصے میں نقصان عام عوام کا ہوا۔ بڑے بابوں نے پریس کانفرنسیں کرنے
اور ہائے افسوس کی صدا لگانے کے علاوہ کچھ نہ کیا۔اور حکومت نے سوشل میڈیا
کو بند کرکے یہ ثابت کرنے میں ذرا بھی عار محسوس نہیں کی کہ ایسا فعل آزادی
اظہار پر قدغن ہے۔
حکومت کو تحریک لبیک کے اس انداز کی توقع نہیں تھی۔ مگر جب حالات کو دیکھ
حکومت کو ہاتھ کے طوطے اڑتے ہوئے نظر آئے تو ہمارے ملک کی داخلہ کی کرسی
ہلی اور معاملات کو افہام و تفہیم سے حل کرنے کی بجائے بھپرے کارکنوں کے
غصے پر تیل اس طرح چھڑکاکہ تحریک کو کلعدم قراردے دیا گیا۔ جس عجلت کا
مظاہرہ کرتے ہوئے حکومت نے اپنی ناکامی و انااہلی کو سرخ قالین کے نیچے
چھپانے کی کوشش کی ہے وہ پوری قوم کے سامنے ہے۔ وزارت داخلہ کی کرسی پر
برجمان وزیر صاحب کی تدبیریں بھی تب عروج پر پہنچی ہوئی تھیں۔ جناب کی
تاریخ گواہ ہے کہ جس محکمے کا قلمدان ہاتھ میں لیتے ہیں تو اس کا چاند چڑھا
کر دم لیتے ہیں۔ اس سے پہلے ریلوے کی حالت کی ابتری اور آئے روز کے حادثات
نے ریلوے کو کہیں منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑا تھا۔ اب کی بار وزارت
داخلہ بھی قابل رحم حالت میں ہے۔ حکمراں جماعت کی خاصیت رہی ہے کہ جب بھی
کسی اہم محکمے کا قلمدان تبدیل کیا گیا ہے پہلے والے سے زیادہ نالائق و نا
پختہ افرادکا تقرر کرکے پوری دنیا کو حیران کیا گیا ہے۔ وزارت داخلہ کا اہم
منصب بھی انہی جکڑبندیوں کی لپیٹ میں ہے۔ خدا جانے اس کی جاں خلاصی کب
ہوگی؟
اب آتے ہیں کہ حالات کی سنگینی کا ذمہ دار کس کوٹہرایا جائے۔ حکومت وقت کو
کہ جس نے تحریک سے تحریری معاہدہ کرکے وقت کو دھکالگانے کی کوشش کی۔ یا اس
سارے معاملے میں بے گناہ کارکنوں و اہلکاروں کی شہادت کا مقدمہ سابق وزیر
داخلہ و موجودہ وفاقی مذہبی امور کے خلاف درج کروانا چاہیے کہ انہوں نے
حکومت وقت کوآمدہ طوفان کی خبر کیوں نہ دی۔یا تحریک کے کارکنوں کو قصور وار
کہیں کہ جن کا مقدمہ بھی واضح ہے کہ ہمیں حکومت نے یقین دہانی کروائی تھی
کہ فرانس کے سفیر کو ملک بدر کردیا جائے گا۔ حالات کو دشوار بنانے اور عوام
کو اس تکلیف دہ وقت سے گزارنے میں حکومت نے کسی حد تک متحرک کردار ادا کیا
ہے۔ مختلف زاویوں سے دیکھنے کے بعد نتیجہ ریاست کے خلاف نکلتا ہے۔ اس حوالے
سے وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ بدقسمتی سے دینی اور سیاسی جماعتیں
اسلام کو غلط استعمال کرتی ہیں اور خود کو نقصان پہنچاتی ہیں۔سوال یہ ہے کہ
دینی و سیاسی جماعتوں نے اسلام کا نام غلط استعمال کرکے اپنے پاؤں پر
کلہاڑی تو ماردی ہے،لیکن گزشتہ ایک ہفتے سے حکومت کی غلط پالیسیوں سے ملک
کو کتنا نقصا ن ہوا اور دشمنان اسلام ٹویٹر پر حکومت کو مبارک بادیں دے رہے
ہیں ۔ کیاآپ نے اپنے پاؤں پر کلہاڑی نہیں ماری؟
|