2025-- آزمائش سے اثبات تک

حسیب اعجاز عاشر
سنہ 2025ء پاکستان کے لیے ایسا ہی ایک سال تھا جو نہ خوشیوں سے بھرپور تھا نہ غموں سے نڈھال،.نہ مکمل تاریکی، نہ کامل اجالا، بلکہ ایک ایسا دھندلکا جس میں راستہ دکھائی بھی دیتا رہا اور بار بار اوجھل بھی ہوتا رہا۔ یہ سال پاکستان کے ریاستی ڈھانچے، سیاسی رویّوں، معاشی بنیادوں، دفاعی صلاحیت اور قومی شعور کا ایک ہمہ گیر امتحان تھا۔
سال کے آغاز ہی سے یہ حقیقت پوری شدّت کے ساتھ نمایاں ہونے لگی کہ ریاستِ پاکستان کو درپیش سب سے بڑا خطرہ کوئی بیرونی دشمن نہیں بلکہ داخلی کمزوریاں ہیں۔ مون سون کی شدید بارشوں نے ایک بار پھر سندھ، جنوبی پنجاب اور بلوچستان کے وسیع علاقوں کو سیلاب کی لپیٹ میں لے لیا جسے قدرت پر ڈال پر بری الذمہ نہیں ہوا جا سکتا۔ یہ برسوں کی غفلت، ناقص منصوبہ بندی، ماحولیاتی تبدیلی کے حقائق سے انکار اور انتظامی کوتاہیوں کا منطقی انجام تھا۔ سیلابی پانی گھروں میں نہیں گھسا تھا، دراصل وہ فائلوں، منصوبوں، کمیٹیوں اور وعدوں میں جمع ہو کر باہر آیا تھا۔ کروڑوں روپے کے آبی منصوبے، درجنوں اجلاس اور سینکڑوں دعوے اس وقت بے معنی ثابت ہوئے جب کسان کی فصل اور غریب کی جھونپڑی ایک ہی موج میں بہہ گئی۔ ریاستی اداروں کی امدادی سرگرمیاں قابلِ تحسین ضرور تھیں، مگر اصل سوال یہ تھا کہ ہر چند برس بعد ایک ہی منظر کیوں دہرایا جاتا ہے؟ ہم سانحے کے بعد ہمدردی تو دکھاتے ہیں مگر حکمتِ عملی کیوں نہیں بدلتے؟
اسی برس پاکستان کو مشرقی سرحد پر ایک نہایت نازک امتحان کا سامنا کرنا پڑا۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان پیدا ہونے والی کیفیت محض سفارتی کشیدگی نہ تھی بلکہ لائن آف کنٹرول پر شدید فائرنگ، ڈرون سرگرمیوں، جنگی بیانات اور عسکری نقل و حرکت نے پورے خطے کو ایک بار پھر تصادم کے دہانے پر لا کھڑا کیا۔تاہم مئی 2025ء میں جب بھارت کی جانب سے کھلی جارحیت کی کوشش کی گئی تو پاکستان کی مسلح افواج نے ’’آپریشن بنیان المرصوص‘‘ کے ذریعے ایسا منہ توڑ جواب دیا جس نے خطے میں طاقت کے توازن کو یکسر بدل کر رکھ دیا۔ فضائی معرکے میں بیونڈ ویژول رینج جنگی حکمتِ عملی، جدید دفاعی نظام، HQ-9 ایئر ڈیفنس اور PL-15 میزائلوں کے مؤثر استعمال نے بھارتی فضائیہ کے غرور کو خاک میں ملا دیا۔ رافیل، مگ-29 اور ایس یو-30 جیسے طیاروں کی تباہی نے دنیا کو باور کرا دیا کہ پاکستان تزویراتی برتری بھی رکھتا ہے۔
10 مئی 2025ء کو جنگ بندی کے بعد پاکستان اخلاقی، عسکری اور سفارتی سطح پر فاتح کے طور پر ابھرا۔ اسی فتح کے اعتراف میں آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کو فیلڈ مارشل کے عہدے پر ترقی دی گئی، جو پاکستان کی تاریخ میں ایک غیر معمولی واقعہ تھا۔ بعد ازاں انہیں پاکستان کا پہلا چیف آف ڈیفنس فورسز مقرر کیا جانا ملکی دفاعی ڈھانچے میں ایک تاریخی اصلاح ثابت ہوا۔
اسی برس مغربی سرحد پر افغانستان کے ساتھ تعلقات ایک اور فکری اضطراب کا باعث بنے۔ مذہبی، ثقافتی اور جغرافیائی قربت کے باوجود سرحدی دراندازیاں، دہشت گرد عناصر کی نقل و حرکت اور کابل کی جانب سے زمینی حقائق سے چشم پوشی اس حقیقت کی یاد دہانی بن گئیں کہ ہمسائیگی محض نعروں سے نہیں چلتی۔ پاکستان نے نہ غیر ضروری اشتعال دکھایا اور نہ خاموشی کو کمزوری بننے دیا، مگر یہ واضح ہو گیا کہ مغربی سرحد پر امن اب خیرسگالی نہیں بلکہ ٹھوس اقدامات اور ذمہ دار ریاستی رویّے سے مشروط ہے۔
2025ء خارجہ محاذ پر ایک خاموش مگر فیصلہ کن تبدیلی کا سال تھا۔ پاکستان نے پہلی بار واضح انداز میں یہ عندیہ دیا کہ اس کی خارجہ پالیسی نعروں اور وقتی وابستگیوں کے بجائے ریاستی مفاد پر استوار ہوگی۔ روس کے ساتھ تعلقات توانائی، خوراک اور دفاعی تعاون کی عملی شکل اختیار کرنے لگے۔ امریکہ کے ساتھ تعلقات میں تلخی کے بجائے عملیت پسندی نے جگہ لی۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پاکستانی عسکری قیادت کی علانیہ تعریف، وائٹ ہاؤس میں غیر معمولی دعوتیں اور پاکستان کو خطے میں استحکام کی قوت قرار دینا، واشنگٹن میں ایک نئے بیانیے کی علامت تھا۔
چین کے ساتھ تعلقات میں 2025ء میں نمایاں بہتری آئی۔ سی پیک منصوبوں میں دوبارہ رفتار، سیکیورٹی معاملات پر سنجیدہ اقدامات اور انتظامی رکاوٹوں کے خاتمے نے اس شراکت داری کو نئی روح بخشی۔ تاہم اس بہتری کے ساتھ یہ خاموش تنبیہ بھی موجود رہی کہ اگر داخلی انتشار اور سیاسی عدم استحکام برقرار رہا تو کوئی بھی اسٹریٹجک تعلق دیرپا نہیں رہ سکتا۔ بڑی طاقتیں جذبات نہیں بلکہ کارکردگی دیکھتی ہیں۔
داخلی سیاسی منظرنامہ مگر اس ریاستی سنجیدگی کے ساتھ ہم آہنگ نہ ہو سکا۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان خلیج کم ہونے کے بجائے گہری ہوتی چلی گئی۔ پارلیمان شور و غوغا کا مرکز بنی رہی اور قانون سازی اکثر پس منظر میں چلی گئی۔ عدالتی فیصلے سیاسی بیانیوں کا حصہ بنے اور سیاسی بیانیے عدلیہ پر دباؤ کا ذریعہ۔ ایک مخصوص مائنڈ سیٹ کی حامل جماعتوں اور فکری حلقوں کی جانب سے ریاستی اداروں کے خلاف زبان کا استعمال محض اختلافِ رائے نہ رہا بلکہ اختلافِ ریاست کی صورت اختیار کرتا گیا، جس سے دشمن قوتوں کو براہِ راست فائدہ پہنچا۔
معاشی اعتبار سے 2025ء کسی جشن کا سال نہ تھا بلکہ بقا اور بحالی کا سال تھا۔ مہنگائی، توانائی بحران اور بے روزگاری نے عوام کی زندگی اجیرن بنائے رکھی، مگر اس کے ساتھ ہی یہ حقیقت بھی سامنے آئی کہ پاکستان دیوالیہ ہونے سے بچ گیا۔ افراطِ زر میں تاریخی کمی، جی ڈی پی میں نمایاں اضافہ، شرح سود میں کمی، غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافہ اور اسٹاک مارکیٹ کی غیر معمولی کارکردگی نے اعتماد کی بحالی کا عندیہ دیا۔ ایس آئی ایف سی کے تحت زراعت، معدنیات، آئی ٹی اور سرمایہ کاری میں اہم پیش رفت ہوئی۔
2025ء سائنسی ترقی کے حوالے سے بھی غیر معمولی رہا۔ سپارکو کے EO-1 سیٹلائٹ اور PAKSAT-MM1 نے پاکستان کو خلائی تحقیق میں صفِ اول کے ممالک میں لا کھڑا کیا۔ سپر کمپیوٹنگ میں عالمی اعزاز نے پاکستانی علمی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ کھیلوں میں ارشد ندیم کی عالمی فتوحات، اسکواش اور ہاکی میں واپسی، انڈر-19 کرکٹ میں تاریخی کامیابیاں اور آئی سی سی ایونٹس کی کامیاب میزبانی نے پاکستان کی سافٹ پاور کو نئی جِلا بخشی۔
پاکستان نے 2025ء میں اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی صدارت سنبھال کر تنازعات کے پرامن حل پر مبنی قرارداد منظور کروائی، کشمیر اور فلسطین کے حقِ خودارادیت کے لیے مضبوط سفارتی کردار ادا کیا اور شنگھائی تعاون تنظیم میں فعال شرکت کے ذریعے اپنے علاقائی اثر و رسوخ کو مستحکم کیا۔
2025ء ہمارے لیے ایک سبق بھی بن سکتا ہے اور ایک الزام بھی۔ قومیں خوشی یا غم سے نہیں بلکہ غفلت سے مرتی ہیں۔ اگر ہم نے اس سال کی تلخیوں کو شعور میں نہ بدلا تو آنے والے برس ہمیں مزید سخت لہجے میں یہی سبق دہراتے رہیں گے، اور تاریخ بس اتنا لکھے گی کہ ایک قوم کو بار بار موقع ملا، مگر اس نے خود کو بدلنے میں دیر کر دی۔
Haseeb Ejaz | 03344076757
Haseeb Ejaz Aashir
About the Author: Haseeb Ejaz Aashir Read More Articles by Haseeb Ejaz Aashir: 155 Articles with 162708 views https://www.linkedin.com/in/haseebejazaashir.. View More