انخلا ۔۔ ناٹو کی زلت آمیز شکست

تلسی داس کا ایک جملہ ہے سورج خود بخود کنول کا پھول کھلا دیتا ہے چندرما خود ہی چاندنی پھیلادیتا ہے اور ظلم کرنے والے خود اپنی موت مرجاتے ہیں۔ امریکی صدر باراک اوبامہ نے کھسیانی بلی کھمبا نوچے کی تصویر تھام کر افغانستان سے امریکی فورسز کے انخلا کا اعلان کرکے نام نہاد دہشت گردی کی 10سالہ وحشیانہ جنگ میں ابتدائی شکست کا اعتراف کرلیا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ابتدائی شکست تسلیم کرنے والے بہت جلد شرمناک شکست سے دوچار ہوا کرتے ہیں۔انخلا ئی شیڈول کے مطابق2011 میں10ہزار فوجی جبکہ اگلے سال23 ہزار فوجی کابل سے کوچ کرجائیں گے بقیہ 68 ہزار فوجیوں کی واپسی مرحلہ وار ہوگی اوبامہ نے2014 تک انخلائی عمل مکمل ہوجانے کا عندیہ دیا۔ اوبامہ اور دیگر عہدیداروں نے پاکستان کو انڈر پریشر کرنے کے لئے سلیس زبان میں دھمکیاں دیں۔اوبامہ نے کہا جب تک میں صدر ہوں پاکستان میں القاعدہ کی پناہگاہوں کو برداشت نہیں کرونگا۔ وزیرخارجہ گوری کلنٹن کا فرمان تھا دہشت گردوں کے خلاف ٹھوس اقداماتdo more نہ کئے تو پاکستان کی فوجی امداد روک دی جائیگی۔ رابرٹ گیٹس کا ارشاد ہوا کہ جنگ پاکستان کے بغیر بھی لڑی جاسکتی ہے۔پاکستان کے متعلق امریکی انتظامیہ کے بیانات کسی امید افزا خبر کے ضمن میں نہیں آتے بلکہ انکی باڈی لیگوئنج سے الم نشرح ہے کہ امریکہ پاکستان پر مزید دباؤ ڈالنے کا پروگرام بنا چکا ہے۔امریکی مزاج مفادات اور یک طاقتی نظام کے کارن امریکہ سے اچھی توقعات نہیں رکھی جاسکتی اور نہ ہی پاک امریکہ ریلیشن کے عرصہ میں بعض تلخ تجربات کو نظر انداز کیا جاسکتا ہے۔ امریکی بھیڑچال اور سازشوں کو ناکام بنانے کے لئے فوجی اور سیاسی حکومت کو موجودہ پالیسی کا ازسرنو جائزہ لیکر جامع پالیسی بنانی ہوگی۔ سوویت یونین نے انخلا کے وقت اصرار کیا کہ ڈاکٹر نجیب کی شاہی برقرار رکھی جائے مگر ضیائی ٹولے کا خیال تھا کہ وسیع البنیاد حکومت تشکیل دی جائے۔پاکستان کو امریکہ سوویت یونین مفاہمت سے دور رکھا گیا اور دوسرا ظلم یہ کہ جونہی سرخ اندھی زلت آمیز شکست کا ایوارڈ لیکر واپس گئی تو پاکستان پر پابندیاں عائد ہوگئیں۔1988 کی افغان سوویت جنگ کا بیس کیمپ پاکستان تھا مگر اب چونکہ یہ جنگ پاکستان منتقل ہوگئی ہے اسی لئے اسکا متوقع بیس کیمپ بھارت اور کابل ہونگے۔ سوویت یونین ڈاکٹر نجیب کی حکومت بچاتے بچاتے خود پارہ پارہ ہوگیا۔اب سوال تو یہ ہے کہ28 ارب ڈالر کی خطیر رقم سے بنائی جانیوالی افغان نیشنل فورس کرزئی کے تخت کو بچانے میں کامران ٹھرے گی؟ امریکی ماہرین دانشور تھنک ٹینک اسکا جواب نفی میں دیتے ہیں۔کرپٹ سہل پسند اور خوف زدہ افغان سپاہی فکری اور ذہنی انتشار کا نشانہ بنا ہوا ہے۔اگر امریکہ نے پاکستان اور کابل میں طالبان کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانے اور کمزور بنا کر مذاکرات کی میز پر لانے کی چال چلی تو اسکا رد عمل افغانستان میں خانہ جنگی کی شدت میں جوہری اضافہ کریگا جس کے منفی اثرات پاکستان پر مرتب ہونگے۔ امریکہ اور پاکستان کو گلبدین حکمت یار کے ساتھ مذاکرات با عمل طریقے سے کرنے ہونگے۔ خطے کی بدلتی ہوئی سیاسی صورتحال میں قومی حکومت کا قیام لازم ہے۔ ملاعمر اور طالبان کو ماضی کی ہٹ دھرمی عالمی حالات و واقعات سے یکسر لاعلمی اور کابل پر بلا شرکت غیرے بالادستی کا جنون ختم کرنا ہوگا جو اس طویل خونخوار جنگ کا منطقی نقطہ ہے۔ مکمل انخلا کے بعد افغانستان میں طالبان ہی ریاست کی طاقتور اور سیاسی قوت کے روپ میں موجود رہے گی۔ امریکی ہزیمت دراصل امریکیوں کی ہی فاش غلطی ہے۔ وہ نو سالوں میں افغانوں کا قتل عام تو کرتے رہے مگر وہ عوام کے دل جیتنے میں ناکام ہوئے۔ ناٹو نے افغانوں کا صدیوں سے قائم تہذیبی ثقافتی اور اسلامی سٹرکچر کو ختم کرنے کی حماقت کی۔امریکہ اور اسکے اتحادی طالبان کو ختم تو درکنار انہیں کمزور تک نہ کرسکے۔طالبان کی لیڈر شپ برقرار ہے اور امریکی جرنیل سرعام کہہ رہے ہیں کہ یہ جنگ جیتنا ناممکن ہے۔ امریکیوں کے انخلا کے بعد طالبان کا غلبہ الم نشرح ہے۔نائن الیون کے بعد جب امریکہ نے کابل پر شب خون مارا تو رابرٹ فسک اور جم لوب ایسے بیدار مغز صحافیوں نے کہا تھا امریکی سوویت یونین والی غلطی دہرا رہے ہیں۔جنگ باز تھنک ٹینکس اور بش کے پیروکار دانشوروں نے جواب دیا کہ ہم نے روس کی شکست کا سائنٹفک تجزیہ کیا ہے اور ہم روسیوں والی غلطیاں دہرانے سے گریز کریں گے۔ امریکیوں کا زعم اور تکبر انکی غلطی تھی۔ جنگ شروع کرنا تو آسان میں ہوتا ہے مگر اسکا اختتام ضروری نہیں کہ طاقتور کے پاس ہی رہے۔امریکہ خوش فہمی کا شکار تھا کہ افغان لوگ انکا فاتحین کی طرح استقبال کریں گے کیونکہ طالبان کی کنزرویٹو پالیسیوں سے بیزار تھے۔ افغان قوم کی اکثریت نے امریکیوں کو قابض دشمن ہی سمجھا۔تاریخ میں پہلی بار پشتونوں کو رسوائی کا منہ دیکھنا پڑا کہ انتظامیہ پر تاجک اور ازبک غالب تھے۔اگرچہ طالبان کی عجلت آمیز پالیسیوں سے چند طبقے ناخوش تھے مگر لا اینڈ اڈر کی خوشگوارصورتحال نے افغانوں کو طالبان کا گرویدہ بنادیا۔ امریکیوں کی آمد کے بعد افغانستان پر وار لارڈز ڈرگ سمگلرز اور پوست کے تاجر چھا گئے۔ امریکیوں کے نو سالہ تسلط کے دوران جمہوریت کے نام پر الیکشن منعقد ہوئے۔ کابینہ بنی۔ پارلیمنٹ وجود میں آئی۔ کرزئی کو دو مرتبہ صدر بنایا گیا تاہم سچ تو یہ ہے کہ افغان قوم کی حالت زار کا پرنالہ وہیں رہا جہاں طالبان حکومت کے خاتمے پر تھا۔ امریکی جمہوریت نے افغان قوم کو خون کشت و قتال اور سیاسی انتشار کے علاوہ کچھ نہ دیا۔یوں امریکی امد پر نازاں و رقصاں لبرل افغان حلقوں کی ہمدردیاں بھی مزاحمت کاروں کے ساتھ ہوگئیں۔۔امریکہ اور اتحادیوں کی مشترکہ فوجی قوت مٹھی بھر جنگجوؤں کو شکست دینے میں کامیاب نہ ہوسکی۔بی بی سی کے مطابق امریکہ کے افغان جنگ میں1500فوجی ہلاک اور12ہزار زخمی ہوئے۔امریکہ نے ایک ہفتے میں دو ارب ڈالر کے جنگی اخراجات برداشت کئے۔امریکہ اب تک1500ارب ڈالر خرچ کرچکا ہے۔ امریکہ کو تلسی داس کے محولہ بالہ جملے کی روشنی میں اپنی بقا کی خاطر لاکھوں عراقیوں اور افغان مسلمانوں کو قتل کرنے کا جرم تسلیم کرتے ہوئے دنیا کے ہر کونے میں پھیلائی ہوئی دہشت گردی کو ختم کردینا چاہیے ورنہ وہ بہت جلد فطرت یذداں کی سولی پر لٹکنے والا ہے اور یہ وہ سزا ہے جسکی نشان دہی تلسی داس نے اپنے جملے کے آخر میں کردی ہے ۔ ظالم ایک روز اپنی موت خود مرجاتا ہے۔
Rauf Amir Papa Beryar
About the Author: Rauf Amir Papa Beryar Read More Articles by Rauf Amir Papa Beryar: 204 Articles with 129175 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.