ملا اور مولویت کیخلاف سازش

5 دن قبل صدر مملکت کی جانب سے نواز شریف کو ”مولوی“ کا خطاب دینے کے بعد نواز لیگ نے بھی جوابی حملے کیے ہیں ،جس سے سیاسی فضاء میں تلخی اورکشیدگی شدت اختیار کرگئی ہے۔ صدر مملکت جناب آصف علی زرداری کے اس اقدام سے لگتا ہے کہ وہ مولوی اور ملاؤں کو طعن و تشنیع کا متبادل سمجھتے ہیں ۔گویا انہوں نے اس لفظ کو انتہائی توہین آمیزسمجھ کر حقارت کے ساتھ استعمال کیا۔جوکہ علماءکرام کواپنی سیاسی نوراکشتی میں گھسیٹنے اورانہیں بدنام کرنے کی سازش لگتی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ پی پی کی اعلیٰ قیادت نے تمام ذمہ داران اور عہدیداروں کو میاں برادران کے لیے”مولانا اور ملا“ کے الفاظ استعمال کرنے کے لیے ”گرین سگنل“ دیدیاہے۔ یہی وجہ ہے کہ سندھ اسمبلی کے اجلاس میں بجٹ پر بحث کے دوران پیپلزپارٹی سے وابستہ وزراءنواز لیگ کی قیادت پر برستے رہے۔شرجیل میمن نے کہا کہ مولوی نواز شریف اور مولوی شہباز شریف کے سپریم کمانڈر رانا ثناءاللہ کی جانب سے صدر زرداری کی رہائی کو ڈیل قرار دینے کا الزام قابل مذمت ہے۔ نواز حکومت اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود صدر زرداری پر کوئی الزام ثابت نہیں کرسکی تھی۔شازیہ مری نے زرداری کے خلاف وزیراعلیٰ پنجاب کے بیان کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ مولوی شہباز شریف وفاقی اکائی کے چیف ایگزیکٹو ہیں جبکہ صدر وفاق کی علامت ہیں، ہم مہذب و سیاسی ماحول چاہتے ہیں جبکہ شریف برادران ماضی کی سیاست کو فروغ دے رہے ہیں۔

پی پی سندھ کے وزراءکے بیانات سے محسوس ہوتاہے کہ نواز لیگ کو مشتعل کرنے کے لیے صدر محترم کی ہدایت پر یہ سب کچھ کیاجارہاہے۔ اگر صدر مملکت وفاق کی علامت ہیں تو سوال یہ ہے کہ جس عہدے پر وہ براجمان ہیں کیا اس قسم کے متنازعہ بیانات انہیں زیب دیتے ہیں؟ دعویٰ تو وفاق کی علامت ہونے کا کیا جارہا ہے لیکن بیانات کا جائزہ لیں تو وہ صوبائیت و لسانیت کو فروغ دیتے نظرآتے ہیں۔

بعض مبصرین کے مطابق آیندہ عام انتخابات میں 6 ماہ یا زیادہ سے زیادہ ایک سال کاعرصہ رہ گیا ہے۔ گزشتہ ساڑھے 3 سال کے عرصے میں پیپلزپارٹی کی حکومت کی کارکردگی دعوؤں تک محدود رہی ہے۔ اس دوران مہنگائی کئی گناہ بڑھ گئی ہے۔ غریب، غریب سے غریب تر اور امیر، امیر سے امیر تر ہوتا جارہا ہے۔ جبکہ پیپلزپارٹی جن دعوؤں کے ساتھ برسراقتدار آئی تھی وہ انھیںپورا کرنے میں مکمل طور پر نہ صرف نا کام رہی بلکہ اس نے تو عوام سے روٹی، کپڑا اور مکان تک چھین لیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی بینک نے اپنی تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان کو متعدد مشکلات کا سامنا ہے، غربت میں اضافہ ہورہا ہے۔ ان مشکلات سے نکلنے کے لیے حکومت کو اپنی کارکردگی بہتر بنانا ہوگی۔ عالمی بینک نے کہا ہے کہ حکومت کے لیے اصلاحات کے عمل کی رفتار دوگنی کرنا ضروری ہے۔ تو ہم عرض کررہے تھے کہ آئندہ الیکشن قریب آرہے ہیں۔ جبکہ امریکیوں کو ابھی پاکستان کے لیے آئندہ کے حکمرانوں کے انتخابات کا مرحلہ سر کرنا ہے۔ تو پیپلزپارٹی کے وزراء کی یہ بیان بازی صرف امریکی آقاؤں کے سامنے نمبر بڑھانے کے لیے ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ لوگ نواز شریف کو مولوی، دقیانوسی اور رجعت پسند ثابت کرنا چاہتے ہیں تاکہ امریکا، میاں برادران کو آیندہ اقتدار میں نہ آنے دے اور پی پی کے عہدیدار خود کو الٹرا ماڈرن اور امریکیوں کے وفادار اور موزوں ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگارہے ہیں۔ ورنہ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ان کو گزشتہ ساڑھے 3 سال کے دوران نواز شریف کی مولویت کیوں نظر نہیں آئی؟ اور افسوس ناک بات یہ ہے کہ پی پی اقتدار کے حصول کے لیے نواز لیگ کے طالبان اور القاعدہ سے تعلق جوڑنے پر تل گئی ہے۔ اب پی پی کے رہنما امریکیوں کے سامنے اپنی اپوزیشن پکی کرنے کے لیے ایسے بیانات دے رہے ہیں تاکہ امریکی آقا ان ہی کو دوبارہ اقتدار میں لانے پر غور کریں۔ جبکہ حکومت کی ساکھ اتنی خراب ہوگئی ہے کہ امریکا کے لیے بھی اب پی پی کا دوبارہ انتخاب کرنا آسان نہیں ہوگا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اقتدار کی کرسی کے لیے ایک دوسرے کی ذات پر کیچڑ اچھالنا اور ذاتی نوعیت کے الزامات لگانا درست طرز عمل نہیں ہے۔ بالخصوص ”مولوی اور ملاؤں“ کے الفاظ کو گالی کے متبادل کے طور پر استعمال کرنے کا سلسلہ فوری طور پر بند ہوجانا چاہیے۔ پیپلزپارٹی کے رہنماؤں سے دست بستہ عرض ہے کہ خدارا! اب تو بیانات اور خالی خولی دعوؤں سے ہٹ کر قوم کو ریلیف پہنچانے کے لیے عملی اقدامات کریں۔

اگر آئندہ دوبارہ برسراقتدار آنے کی کچھ زیادہ ہی خواہش ہے تو اس کے لیے باقی رہ جانے والے عرصے میں قوم کے ساتھ مخلص ہوکر ان کی پریشانیاں کم کرنے کے لیے اقدامات کریں بصورت دیگر ناکامی آپ کا مقدر بنے گی۔
Usman Hassan Zai
About the Author: Usman Hassan Zai Read More Articles by Usman Hassan Zai: 111 Articles with 78072 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.