ملک دہشت گردی کے گھٹا ٹوپ
اندھیروں میں ڈوبا ہوا ہے ۔ہر روز ملک کے کونے کونے میں خود کش حملے، بم
دھماکے روز مرہ کا معمول بن گئے ہیں ۔گلیوں اور بازاروں میں سہمے سہمے چلتے
پھرتے لوگ ریاست اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب بے چارگی سے دیکھ
رہے ہیں ۔ ان کی آنکھیں سوال ہیں مگر جواب دینے کے لیئے وقت کسی کے پاس
نہیں ۔دہشت گرد اپنے طے شدہ مذموم مقاصد کو حاصل کرنے کے لیئے قدم بقدم آگے
بڑھتے جا رہے ہیں ۔ پہلے ان کا نشانہ عوام الناس تھے تاکہ ان کے اذہان میں
دہشت کو جا گزیں کردیا جائے۔وہ یہ کام کرچکے اب کا نشانہ عوام الناس کے
ساتھ ساتھ انٹیلی جنس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی ہیں ۔ پولیس
اسٹیشن ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے اہلکار ہیں ۔تھانوں پر مسلسل حملے اس بات
کا واضح ثبوت ہیں کہ اب وہ عوام میں بچا کھچا احساسِ تحفظ ختم کرکے ریاست
اور ان اداروں پر عوام کا اعتماد ختم کرنا چاہتے ہیں تاکہ اس ملک کو انارکی
کے اندھے کنویں میں دھکیل دیا جائے ۔ابھی کل ڈیرہ اسماعیل خان میں تھانہ
کلاچی کا واقعہ ہمارے سامنے ہے ۔دہشت گرد کس شان بے نیازی سے آتے ہیں ۔
تھانوں پر قبضہ کرتے ہیں ۔ پولیس اہلکاروں کو یرغمال بناتے ہیں ، شہید کرتے
ہیں اور پھر کئی گھنٹوں تک عوام کو ذہنی کرب میں مبتلا کرکے اپنے تمام تر
مقاصد حاصل کر لیتے ہیں ۔
اربابِ اختیار کو زبانی کلامی دعوؤں اور طفل تسلیوں سے فرصت نہیں ۔ کوئی
قابل ذکر لائحہ عمل آج تک قوم کے سامنے پیش نہیں کیا جا سکا ! بے حسی کا یہ
عالم ہے کہ قانونِ شہادت میں آج تک ترمیم نہیں کی جا سکی جس کی وجہ پولیس
اور عدلیہ مطلوبہ نتائج نہیں دے پا رہے ۔ اس قانون کو موجودہ حالات کے
تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی شد ضرورت تھی کہ پوری دنیا میں اس کو نائین
الیون کے بعد تبدیل کیا گیا ہے ۔ صرف پاکستان ہی ایک ایسا ملک ہے جس میں اس
پر توجہ نہیں دی گئی اور چلے ہیں اس فرسودہ قانون کی مدد سے دہشت گردی کے
خلاف جنگ لڑنے ؟ جہاں ملکی مفاد ہے وہاں یہ بے حسی اور جہاں اپنا مفاد وہاں
آٹھارویں ترمیم بھی ہو گئی اور انیسویں بھی!۔ یہ دو رنگی پتہ نہیں کیا گل
کھلائے گی؟ پولیس کو سیاسی بنا کر تباہ کر دیا گیا ہے ۔ بھرتیاں سیاسی
بنیادوں پر ، تقرریاں اور تبادلے سیاسی بنیادوں پر! پھر باتیں ملکی مفاد
کی؟ یہ تماشہ کیا ہے؟اور اگر یہ پولیس کسی مشکوک شخص کو روک کر تفتیش کرنا
چاہے تو اہلِ اقتدار میں سے کسی کا فون آ جاتا ہے کہ ان کو ملکی مفاد میں
جانے دیا جائے۔جانے ملکی مفاد کس بلا کا نام ہے؟ ابھی چند دن قبل پشاور
پولیس نے چند مشکوک امریکیوں کو روکا ۔ تلاشی اور تفتیش کا تقاضا کیا جو کہ
جائز تھا کیونکہ ان کی بڑھی ہوئی داڑھیاں ،حلیہ اور حساس مقامات پر ان کی
موجودگی اس کی متقاضی تھی ۔مگر انہوں نے رعونت کے ساتھ تلاشی دینے سے انکار
کیا ۔پولیس بے بسی کی تصویر بنی رہی ۔پھر اعلیٰ حکومتی شخصیت کی مداخلت پر
انہیں ملک کے وسیع تر قومی مفاد میں بن تلاشی جانے دیا گیا ۔ حالانکہ یہ
غالب امکان ہے کہ ملک میں موجودہ دہشت گردی کے پیچھے امریکیوں کا مسلمہ
کردار ہے ۔سوال یہ ہے کہ ان امریکیوں کا یہ رویہ کیوں ہے؟ پولیس بے بس کیوں
ہے؟ اور اگر پولیس کسی مشکوک شخص کی تلاشی نہیں لے سکتی تو ان ناکوں اور ان
پہ موجود پولیس کے کاکوں کا جواز کیا ہے؟ وزارتِ داخلہ چاہے تو جواب دے
سکتی ہے!
اس دن ان پولیس اہلکاروں کی بے بسی کو دیکھ کر مجھے آصف رفیق اور شاھد چدھڑ
بے اختیا ر یا د آ رہے تھے چند برس قبل یہ پولیس آفیسر لاہور میں تعینات
تھے ۔ آصف رفیق تھانہ ملت پارک میں اور شاہد چدھڑ تھانہ غازی آباد میں ۔
دونوں پڑھے لکھے نوجوان تھے جن میں وطن کی خدمت کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا
ہوا تھا ۔اور یہ اپنے اپنے علاقوں کو جرائم سے پاک کرنے میں ہمہ تن مصروف
رہتے تھے ۔ اس سلسلے میں وہ کوئی سیاسی دباؤ خاطر میں نہ لاتے تھے ۔ ایک
دفعہ آصف رفیق نے چند ملزموں کو پکڑا جن کو چھوڑنے کے لیے اس پر کافی سیاسی
دباﺅ ڈالا گیا مگر وہ ڈٹا رہا یہاں تک کہ خود ایک وزیر موصوف میاں اسلم
اقبال ملک کے وسیع تر قومی مفاد میں ان کو چھڑانے خود تھانے جا پہنچے مگر
کامیاب نہ ہوئے اور بات سیاسی دھونس تک جا پہنچی مگر وزیر موصوف کو منہ کی
کھانا پڑی ۔ اور شاہد چدھڑ نے بھی ایک اعلیٰ فوجی آفیسر کی گاڑی کو تلاشی
کے لیے روک لیا تھا اور قانونی کاروائی پوری کی تھی۔ ۔کاش ان دونوں میں سے
کوئی ایک یا ان جیسا کوئی وہاں پر اس وقت موجود ہوتا ۔ کاش!۔پو لیس کو اب آ
صف رفیق اور شاہد چدھڑ جیسے لوگوں کی ضرورت ہے جو افسران بالا کے غیر
قانونی احکامات کو ماننے سے انکار کر دیں اور آئین اور قانون کے مطابق اپنے
فرائض سر انجام دیں ۔پولیس کو بھی بحثیت ادارہ ایسے افراد کی حوصلہ افزائی
کرنا ہو گی۔اور چن چن کر ایسے افراد کو جرائم زدہ علاقوں میں تعینا ت کرنا
ہو گا ۔ پولیس کو اپنی تشکیل نو کرنا ہو گی۔ دہشت گردی سے نپٹنے کے لئے
جدید اور سائنسی بنیادوں پر تربیت حاصل کرنا ہو گی ۔ لوکل پولیسنگ کے نظام
کو مضبوط کرنا ہو گا۔ اور ایسے نام نہاد سیاسی افراد کے غیر قانونی احکامات
ماننے سے انکار کرنا ہوگا جن کا سیاست ، دیانت اور امانت میں کوئی کردار
نہیں ۔ جن کا مستقبل اس وطن سے وابستہ ہی نہیں ۔ جن کے کاروبار، مال ،
اولاد سب اس ملک سے باہر ہیں ۔ جن کو طاغوتی طاقتوں نے اپنے مفادات کے تحفظ
کے لئے ہم پر مسلط کیا ہوا ہے۔عدلیہ کو بھی اس سلسلہ میں اپنا کردار ادا
کرنا ہو گا اور اس بات کو دیکھنا ہوگا کہ کوئی اعلیٰ عہدیدار غیر قانونی
احکامات کیوں دے رہا ہے؟ایسے افراد کے خلاف قانونی کاروائی کے عمل کو تیز
کرنا ہو گااور پولیس کو سیاسی اثرو رسوخ سے آزاد کرنا ہو گا ۔تا کہ پولیس
اصل معنوں میں ملک میں امن قائم کرنے میں اپنا کردار ادا کر سکے۔
آخر میں موبائل سروس کمپنی ٹیلے نار اور ون فائیو پولیس کی توجہ ایک واقعہ
کی طرف دلانا چاہتا ہو ں جو بروز جمعہ میرے ساتھ رونما ہوا۔ جمعہ کو شام
پانچ بجکر چوبیس منٹ پر مجھے ایس ایچ او چونیاں کی کال آئی کہ میرے موبائل
فون سے ایک موٹر سائیکل کی چوری کے بارے میں کال کی گئی ہے۔ میں نے وضا حت
کی کہ میں نے اسطرح کی کوئی کال نہیں کی اور میں تو صبح نو بجے سے پانچ بجے
تک اپنے آفس میں موجود تھا اور میرا فون بھی میرے پاس ہے۔ لہٰذا ایسا ممکن
نہیں ۔ چند منٹ کے بعد ڈی ایس پی چونیاں کے آفس سے ۔ پھر چند منٹ کے بعد ون
فائیو کے آفس سے اور کل پھر تھانہ چونیاں سے مجھ سے اس سلسلہ میں رابطہ کیا
گیا۔ میں دو دن سے اک ایسے فعل کی وضاحتیں دے رہا ہوں جو میں نے کیا ہی
نہیں ۔ متعلقہ اداروں سے گزارش ہے اس ایشو کی تحقیقات کریں اور آگاہ کریں
کہ میرا فون نمبر 03004862860 ون فائیو کی سی ایل آئی پر کیوں ا ٓ رہا ہے
جبکہ میں نے کوئی کال نہیں کی!اس فنی خرابی کو دور کیا جائے تاکہ پولیس اصل
شکائیت کنندہ سے بروقت رابطہ کر سکے ۔اور غیر متعلقہ افراد بلاوجہ پریشان
نہ ہوں۔تاہم ایک بات قابل قدر ہے کہ پولیس نے اس سلسلہ میں بروقت رابطہ
کرنے کی کوشش ضرور کی یہ الگ بات کہ سسٹم کی خرابی کہ وجہ سے غلط نمبر پر۔
نوٹ(قارئین اپنی آراءاور تجاویز کے لئے[email protected]پر ای میل کر
سکتے ہیں یا فیس بک https://www.facebook.com/ShahzadAzhar پر جوائن کر سکتے
ہیں ) |