جتھوں کی یلغار اور حکومتوں کی نا اہلی

پتہ نہیں حقیقت ہے یا افسانہ مگرکہتے ہیں ایک بار ذوالفقار بھٹو نوجوان مرتضی بھٹو کو کسی جلسہ عام میں خطاب کرنے کے لیے ساتھ لے گئے وہاں جا کر مرتضی بھی اسٹیج پر لگی کرسیوں میں سے ایک پر بیٹھ گئے بھٹو کو گفتار کا غازی کا کہا جاتا ہے وہ تقریر سے میلہ لوٹ لیتے تھے اور اکثر ایسی بات کر دیتے جولوگوں کے دماغوں میں ہوتی یا وہ اس وقت وہی کچھ سوچ رہے ہوتے یعنی کہ لوگوں کی نبضوں پر ان کا ہاتھ ہوتا ،جلسے میں لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد موجود تھی بھٹو نے لوگوں کو مخاطب کیا کہ میں کوئی باہر سے نہیں آیا میں تم میں سے ہوں تم جیسا ہی ایک عام انسان ہوں مجھے کبھی اپنے سے الگ نہ سمجھنا مجھے کبھی کوئی خاص مخلوق نہ سمجھنا اسی دورا ن بھٹو صاحب کی نظر میر مرتضی بھٹو پر پڑی اور تقریر کے دوران ہی بھٹو صاحب مرتضی پر برس پڑے کہ تمہیں کس نے کہا کہ تم عام لوگوں کی بجاے اسٹیج پر کرسی پر بیٹھو نیچے اترو او ر ادھر جا کر عام لوگوں میں بیٹھو،مرتضی بھٹو اس اچانک پڑی افتاد سے گھبرا گئے اور شرمندہ سے ہو کر لوگوں میں جا کر بیٹھ گئے بس یہ سننا تھا کہ پنڈال میں بھٹو صاحب زندہ باد کے علاوہ کوئی آواز سنائی نہیں دیتی تھی اور جو کوئی دو چار لوگ اگر بھٹوکے مخالف بھی تھے تو بھٹو کے گن گانے لگے،جلسہ ختم ہوا تو بھٹو صاحب اپنے مصاحبین کے ہمراہ گھر روانہ ہوئے مرتضی بھٹو منہ بسورتے گھر پہنچے اور جا کر سار اماجرہ اپنی والدہ ماجدہ نصرت بھٹو کے گوش گذار کیا اور گلہ کیا کہ آج ڈیڈی نے میری لوگوں کے سامنے سخت بے عزتی کر دی بیگم بھٹو نے سار اقصہ سنا اورکہا بیٹا اس میں ساری غلطی تمہاری ہے تمہیں کیا ضرورت پڑ گئی تھی اسٹیج پر بیٹھنے کی اور آخر میں پوچھاکہ تمہیں کہا کس نے تھا کہ تم نے اسٹیج پر لگی کرسیوں میں سے ایک کر سی پر بیٹھنا ہے مرتضی بھٹو نے جواب دیا امی جان مجھے کسی اور نے نہیں اس کرسی پر بیٹھنے کا حکم چپکے سے ڈیڈی نے ہی دیا تھا،مجھے یہ واقعہ آج کے حالات دیکھ کر یا د آ گیا ،آج ملک کو جس شدید سیاسی و مالی کے علاوہ اخلاقی بحران کا سامنا ہے شاید اس سے پہلے کبھی نہیں تھا حکمرانوں کی مثا ل کاغذ کے پھول سر پر سجا کر چلی حیات نکلی بیرون شہر تو بارش نے آؒلیا والی ہے،نا اہلی ہے کہ انتہا کو پہنچ چکی ہے کل کے ہیرو آج زیر و اور آج کے زیرو آج ہیرو لگ رہے ہیں خود جن بتوں کو تراشتے رہے آج جب وہ بھگوان بنے تو ان ہی حکمرانوں کو برا لگنا شروع ہو گیا کل تک ان لوگوں کی نہ صرف بلائیں لی جاتی تھیں بلکہ ان کے نیک مقاصد کا نام بھی عقیدت سے لیا جاتا تھااس وقت آج کے بڑے معززعہدیداران ان کی ہاں میں ہاں ملاتے تھے اور حکومت کو وارننگ دیتے تھے کہ ایسا نہ ہو کہ سب کچھ بہہ جائے مگر کسی کے لیے کھود اگیا گڑھا آج اپنے لیے کنواں بن گیا ، کل تک جن کو کھانا راشن اور پانی فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ گھر واپس جانے کے لیے زادہ راہ فراہم کی گئی آج وہ شرپسند اور دہشت گرد نظر آنے لگ گئے،یہ جتھوں اور ہجوم کے ساتھ گھیراوکی روایت ڈالی کس نے ،چند سال قبل کس نے ایس ایس پی اسلام آباد عصمت اﷲ پر تشدد کر کے اس کی کمر توڑی کس نے بیسیوں پولیس اہلکاروں کو زخمی کیا کس نے سول نافرمانی کی شہہ دلائی کس نے بل جمع کرانے کی بجائے پھاڑنے پر اکسایا کس نے ٹول ٹیکس اور انکم ٹیکس نہ دینے کے اعلانات کیے، کس نے پورا ملک بند کرنے کی دھمکیاں دیں اور کس نے چار چار ماہ دھرنا دیا اور سپریم کورٹ کی دیواروں پر شلواریں دھو کر لٹکائیں کس نے شاہراہ دستور پر قبریں کھودنے کا ڈرامہ کیاکس نے پی ٹی وی اور پارلیمنٹ کے اندر گھس کر توڑ پھوڑ کی کس نے وزیر اعظم ہاوس میں گھس کر وزیر اعظم کو گریبان سے پکڑکر گھسیٹنے پر اپنے لوگوں کو اکسایا،اور کس نے مارو مار دو گھیراو جلاو آگ لگا دو والے ڈائیلاگ بولے معذرت کے ساتھ جناب اگر ان تمام واقعات کی کھوج لگائی جائے تو کھر ا انہی د وتین لوگوں کی طرف جا نکلتا ہے جو آج اخلاقیات اور گڈ گورننس کا درس دیتے نظر آ رہے ہیں ایک ہیں جناب وزیر اعظم خان صاحب اور ایک ان کے اتالیق شیخ رشید تیسرے کہیں دور ٹھنڈی فضاؤں میں مزے کر رہے ہیں ،جناب والا کاش کہ کل آپ سمجھتے کہ دو غلط مل کر ایک صحیح نہیں ہو سکتا ،غلط ہمیشہ غلط رہتا ہے مگر یہاں سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیے عموما مذہب کو استعمال کیا جاتا ہے اور آپ جیسے ہمنوا بن جاتے ہیں مگر دن بدلتے ہیں تاریخ اپنے آپ کو دھراتی ہے موسم بدل بدل کر آتے ہیں کبھی دن بڑا ہوتا ہے تو کبھی رات اور پھر ہاتھوں سے لگائی گرہیں دانتوں سے کھولنا پڑتی ہیں اور جب دانتوں میں ٹیسیس اٹھتی ہیں تو ایسی ہی چیخ و پکار ہوتی ہے جیسی ہاہاہا کار آج آپ نے مچا رکھی ہے ،مانا کہ اپ کے نزدیک جدید دور میں وعدے قرآن و حدیث نہیں ہوے مگر کیا ضرورت تھی بار باجھوٹے وعدے کرنے اور لارے لگانے کی اور معاہدے بھی وہ جن پر ایک نہیں دو دو وزرائے داخلہ کے دستخط ایک مذہبی امور کے وزیر کے بھی سائن اور جب وقت آیا تو صاف مکر گئے ،اعجاز شاہ ہوں ،شیخ رشید یانورالحق قادری صاحب کوکہ کسی ایسے معاہدے یا تحریر کی جس پر عمل دآمد ممکن ہی نہیں یہ تو ایسا ہی کہ کہ کل کوئی جتھہ اٹھے اور کہے کہ ملک سے سودی نظام ختم کرو اور حکومت فیض آباد ان کے پاس آکر تحریر لکھ دے کہ دو ماہ بعد یہ نظام ختم ہو جاے گا جبکہ کم از کم اس وقت تک تو یہ ممکن ہی نہیں کہ متبادل نظام ہی کوئی نہیں ہمارے قابل بلکہ کابل حکمرانوں کے پاس،باتیں ریاست مدینہ کی مگر محض باتیں ،راستے بند کرنا اور فورسز پر حملے کرنا ہمیشہ سے ہی غلط تھا ہے اور رہے گا مگر ایسا ممکن نہیں کہ ایک چیز جو آپ کے لیے صحیح ہو اور کوئی دوسرا کرے تو قابل گردن زنی ٹھرے،اور حل کیا نکالا کہ لبیک والی جماعت پر ہی پابندی لگا دی گئی ۔اس جماعت پر جو تحریک لبیک کے نام سے الیکشن کمشن کے پاس رجسٹرڈ ہے اورماضی قریب کے الیکشن میں تئیس لاکھ ووٹ لے چکی ہے اور جس کا نعرہ لبیک یا رسول ااﷲ ہے ،یہ ایک اور بلنڈر مار ا نا اہل سرکار نے کہ جس ملک میں ایک گارمنٹس فیکٹری میں دوسو پچاس مزدوروں کو زندہ جلا دینے والی جماعت نہ صرف دھڑلے سے قائم دائم بلکہ تبدیلی کی حکومت میں بھی شامل ہے وہاں کسی ایسی جماعت کو محض اس لیے پابندیوں کی نظر کر دینا کہ گستاخ نبی کی ایک سزا سرتن سے جدا کا مطالبہ کرتی ہے بجاے خود نہ صرف پرلے درجے کی بددیانتی ہے بلکہ منافقت کی بدترین مثال ہے ،ہر معاملے کو سلجھانے اور حل کرنے کا بہترین طریقہ بات چیت اور مذاکرات ہیں کچھ ان کی سنیں کچھ اپنی سنائیں کچھ ان کی مانیں کچھ اپنی منوائیں ،کچھ لو اور کچھ دو کے تحت معاملات کو آگے بڑھائیں ،جہاں تک بات ہے ریاست کی رٹ کی تو اس ملک میں کب اس رٹ کا لحاظ کیا گیا جس کا جب دل چاہتا جہاں چاہتا ہے مذہب یا سیاست کے نام پر ناکہ لگا لیتا اور راستے بند کر دیتا ہے غلط سب کے لیے غلط ہونا چاہیئے ،پولیس ہو یا رینجرز فورسز کو اپنے لوگوں کے خلاف مت استعمال کیجیے اس سے کبھی خیر کا پہلو نہیں نکلے گا نہ یہ فورسز ہی حد سے زیادہ اپنے لوگوں پر تشدد کر سکتی ہیں، ماضی نزدیک میں محمد علی نیکو کاراکی مثال سامنے ہے جس نے نوکری چھوڑ دی مگر عام لوگوں پر لاٹھی چارج سے صاف انکار کر دیا تھا،پیار محبت اور اخلاق سے آپ وہ مقاصد حاصل کر سکتے ہیں تشدد اور مار پیٹ سے جن کا آپ سوچ بھی نہیں سکتے،طاقت اور دھونس کے استعمال سے معاملات اور خراب ہوں گے جو نہ اس ملک کے لیے بہتر ہیں نہ آپ کے لیے ،آگے بڑھیے سابق حکمرانوں کی طرح ڈنگ ٹپاو پالیسیوں کی بجاے واضح اور جامع پالیسی مرتب کیجئے تاکہ کہیں تو لگے کہ واقعی کسی جگہ تو کوئی تبدیلی آئی ،،،،اﷲ ہم سب پر رحم کرے