اس بات سے دنیا کے کسی ذی شعور شخص کو انکار نہیں
ہوسکتا کہ اگر کسی ریاست میں حکومتی رٹ قائم نہ ہو تو وہاں امن و امان بحال
رکھنا ،قانون کی عملداری برقرار رکھنا ،آئین کی پاسداری کرنا مشکل ہی نہیں
ناممکن ہوجاتا ہے ،بلاشبہ ریاست مدینہ جب تشکیل پائی تو اس وقت بھی حکومتی
قوانین بنائے گئے اور ظلم و جہالت سے اٹے پڑے معاشرے کو ایک فلاحی ریاست کے
قومی دھارے میں لانے کے لئے نرم اور سخت دونوں طرح کے اقدامات کئے گئے اور
چونکہ وہاں باقی مملکتوں کی طرح غیر مسلم بھی آباد تھے سو انہیں الہامی
احکامات کے تابع لانا اور عرب کے بدوں کو سب سے مہذب معاشرہ کی شکل میں
پوری دنیا کے سامنے چند سالوں میں مثال بنا کر پیش کرنا تاریخ انسانیت کا
سب سے سنہری ،مثالی اور قابلِ تقلید باب ہے جس کا سبب ہمارے پیارے اور آخری
نبی جناب حضرت محمد رسول اﷲ ﷺ کی ذات بابرکات ہے ۔
یہاں تک تو بات ساری دنیا جانتی اور مانتی ہے اور ہماری موجودہ حکومت کو اﷲ
تعالیٰ نے یہ توفیق دی ہے کہ وہ ریاست مدینہ کی مثالی فلاحی ریاست کو اپنا
آئیڈیل ماننے کی دعوے دار ہے اب یہاں سب سے اہم اور نازک مسئلہ یہ ہے کہ
حکومتی احکامات کی عملداری کے لئے یا حکومتی رٹ کے لئے اسوہ ِ ریاست ِ
مدینہ کیا ہے ؟ریاست مدینہ میں کونسا جرم کتنا سنگین تھا ؟ ریاست مدینہ میں
کس جرم کی کیا سزا تھی ؟ ریاست مدینہ کی رٹ کب چیلنج ہوتی تھی ؟ریاست مدینہ
کے قانون نافذ کرنے والے ادارے حکومتی رٹ کیسے قائم کرتے تھے ؟ان میں کون
کون سی اخلاقیات کا خیال رکھا جاتا ہے ؟یا وہ ہر حد سے گذر جاتے تھے ؟
(جیسا کہ ہمارے ہاں عموماً ہوتا ہے)ریاست مدینہ میں پولیس یا عدلیہ کا
محکمہ اور اس کے اہلکار کن حدود و قیود کے پابند تھے ؟ ریاست مدینہ
شعائراﷲ(حکومتی رٹ) کی پاسداری کے لئے کس حد تک چلی جاتی تھی ؟اور ریاست
مدینہ کے ہوتے ہوئے دنیا کی کوئی بھی طاقت ور یا کمزور سلطنت شعائر اﷲ پر
(نعوذ باﷲ)ہاتھ ڈالنے کی کوشش کرتی تو اس وقت خارجہ پالیسی کیا وضع کی جاتی
تھی ؟ ریاست میں عوامی شکایات کا ازالہ کیسے کیا جاتا تھا ؟انفرادی اور
اجتماعی مسائل کس نہج پر حکومتی سطح میں حل کئے جاتے تھے ؟ ریاست مدینہ کی
حکومتی کونسل کے افراد کن کن خوبیوں سے بہرور ہوتے تھے ؟اداروں کے سربراہان
کے لئے حکومتی قوانین کیا تھے؟حکومت کے منتخب کردہ اداروں کے اہلکاروں کو
عوام کے ساتھ معاملات کرنے کا کس طرح پابند کیا گیا تھا ؟اس کی حکم عدولی
پر حکومتی رٹ کیسے قائم کی جاتی تھی ؟ریاست میں اگر خدانخواستہ عموم بلوا
ہو جاتا تو ان سے بات چیت کرنے یا حکومتی رٹ قائم کرنے ،نظام زندگی کو
معمول پر لانے کے لئے کیا اقدامات کئے جاتے تھے ؟مساجد و مدارس اور ان کے
ذمہ داران کو کس طرح حکومتی سطح پر مینج کیا جاتا تھا ؟عدل و انصاف کی فوری
اور یقینی فراہمی کے ساتھ ساتھ جتنی سزا مقرر ہوتی اس سے ایک قدم آگے یا اس
کی آڑ میں اپنے اہلکاروں کو ذاتی رنجش کا بدلہ لینے پر بے پناہ سختی کیوں
کی جاتی تھی یہ اور اس طرح کے بہت سے سوالات ہیں جو لامحالہ اس حکومت کے
آنے کے بعدبہر حال ذہنوں میں پیدا ہوتے ہیں ۔
اب آتے ہیں قیام ِ پاکستان کے مقاصد پر، ترکی کی اسلامی خلافت ختم ہونے کے
بعد پوری دنیا میں مسلمانوں پر ظلم و ستم ،بربریت کا ایک طوفان شروع ہوا جو
بد قسمتی سے ابھی تک جاری و ساری ہے جس کے اثرات سے برصغیر بھی شدید متاثر
ہوا اور یہاں برائے نام مسلم حکومت مغلیہ سلطنت زوال پذیر ہوئی اور انگریز
اس ملک کے سیاہ و سفید کے مالک بن بیٹھے اور انہوں نے بر صغیر کی برسوں کی
روایات کو روند ڈالا ،مسلم معاشرے کو بالجبر یورپی بے حیائی کے معاشرے میں
تبدیل کرنا شروع کیا،جس کے لئے انسانیت سوز قوانین بنائے گئے ،عدالتی اور
انتظامی قوانین اور اس پر عملدرآمد کا انتہائی انسانیت سوز طریقہ کار
اپنایا گیا ،اگر کہیں کوئی ہلکی سی بھی صدائے احتجاج بلند ہوئی تو اسے
روندنے کے لئے حکومتی رٹ بالجبر قائم کی گئی ،کشت وخون بہایا گیا ،گھروں کے
گھر اجاڑ دیئے گئے ،مسلمانوں میں اندرونی خلفشار کو ہوا دینے اور اتحاد کو
توڑنے کی سازشیں کی گئیں ،مسلمانوں کو ایذاء پہنچانے کے لئے بہت سے اقدامات
کئے گئے تاکہ ان کے اندر سے خود داری اور دین سے محبت بالکل ختم ہوجائے اور
یہ برائے نام مسلمان بھی نہ رہیں ،ان مظالم کے خلاف صدائے احتجاج بلند ہوتا
رہا ،بغاوتیں بھی ہوتی رہیں جنہیں حکومتی رٹ قائم کرکے ختم کیا جاتا رہا ،
قوانین میں سقم اور تبدیلیاں جان بوجھ کر کی جاتی رہیں جس کا مقصد برصغیر
میں کسی مضبوط قوم کی تشکیل یا مہذب قوم کی تعمیر قطعاً نہیں تھا بلکہ
انہیں اپنے احکامات پر عمل کرنے والے انسان نما جانور درکار تھے جو انہیں
اپنا ملجا و ماوی (نعوذ باﷲ)مان کر اپنی تمام صلاحیتیں اور اس خطے کی تمام
سوغاتیں ان کے جنبش ابرو پر نچھاور کرتے چلیں جائیں اور جو کوئی بھی ان کے
اس مذموم مقاصد میں سدسکندری بننے کی کوشش کرتا تو نیا آرڈیننس آجاتا اور
پھر حکومتی رٹ قائم کرنے کے لئے طوفانِ بدتمیزی پیدا کیا جاتا ۔
ہزاروں جانوں کے ضیاع اور تباہ ہوتی معاشرت ، ذبح ہوتے اسلامی قدار ،غیر
انسانی قوانین سے تنگ آکر بالآخر ایک آزاد اسلامی ریاست کی جدو جہد شروع
ہوئی تاکہ مسلمان ان سب خرابیوں سے بچ جائیں جن کا وہ شکار ہورہے تھے یا ان
کی تہذیب وتمدن اور آنے والی نسلیں بگاڑ کا شکار ہونے والی تھیں،یہ جدوجہد
محض انگریز کو خطے سے نکالنے کی نہیں تھی ،محض انگریز کی ریشہ دوانیوں سے
بچنے کے لئے نہیں تھیں بلکہ قائد اعظم اور ان کے رفقا ء خصوصاً علماء کرام
کے پیش نظریہ عظیم مقصد تھا کہ ناصرف خطے کو انگریز تسلط سے نجات دی جائے
بلکہ ان کے قوانین اور تعلیمی ،عدالتی ،ریاستی احکامات کو ریاست مدینہ کی
طرز پر ڈھال کر پوری دنیا کے سامنے نمونہ بنا جائے اور پوری دنیا کے
مسلمانوں کے لئے رہبر و رہنما بنا جائے اس سے بڑھ کر پوری دنیا کے مسلمانوں
کے لئے ایک چھتری کا کردار ادا کیا جائے ۔
اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے لاکھوں گھر اجڑے ،سہاگ اجڑے ،مسلم
بیٹیوں کوعصمتوں کا خراج دینا پڑا، دودھ پیتے بچے نیزوں کی انیوں میں پرو
دیئے گئے ،بستیوں کی بستیاں جلا کر راکھ بنادی گئیں ،تاریخ انسانیت میں اس
طرح کے بٹوارے کی کوئی مثال نہیں ملتی جہاں دنیا کا کونسا ظلم تھا جو روا
نہ رکھا گیا ہو ،کون سا جبر تھا جو آزمایا نہ گیا ہو،کون سی قربانی تھی جو
نہ لی گئی ہو ،خود میرے دادا کی فیملی ان مظالم کا شکار ہوئی ،میرے نانا
نانی کے سامنے ان کے چاہنے والے گاجر مولی کی طرح کاٹ دیئے گئے ،ان سب
قربانیوں کے بعد بھی ان کے جذبے جوان تھے کہ اب ہم نہ صرف خود بھی مظالم سے
بچیں گے ،ایک فلاحی اسلامی ریاست قائم کریں گے بلکہ پوری دنیا کو ایک مثالی
حکومت بن کر دکھائیں گے ،پوری دنیا کے مسلمانوں کی رہنمائی کریں گے ، پوری
دنیا کے مسلمانوں کی اشک شوئی کریں گے،ان کاسہارا بنیں گے یہ سب چیزیں ان
کے وژن اور پروگرام میں شامل تھیں جس کے لئے وہ خون کے دریاعبور کرکے
پاکستان کی بنیاد رکھنے جارہے تھے اور جس کا اظہار قائد اعظم محمد علی جناح
ؒ نے بارہا اپنے خطبات میں کیا اور بارہا قوم کو پیغام دیا ۔
اور اب آتے ہیں ملک عزیز پاکستان کے قیام کے بعد اس کو ایک اسلامی فلاحی
ریاست بنانے ،اس کے باسیوں کو ایک عظیم اور آئیڈیل قوم بنانے اورپاکستان کو
پوری دنیا کے لئے رہبری کے لئے تیار کرنے کی جدو جہد پر۔
ہماری بد قسمتی رہی ہے کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ؒ اور ان
کے رفقاء کے وژن کو ہر حکومت نے پسِ پشت ڈالا جس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے
کہ قیامِ پاکستان سے لیکر آج کی حکومت تک کسی نے بھی ان بنیادی مسائل کو حل
نہیں کیا جن کا شکار یہ ملک پہلے دن سے رہاہے ، اسے اسلامی فلاحی ریاست
بنانے کے بنیادی اقدامات ،اس ملک کے باسیوں کو ایک مضبوط اور آئیڈیل قوم
بنانے کی عملی جدوجہد سے عاری کوششوں نے اس ملک کو پوری دنیا میں ذلیل و
رسوا کردیا ہے ۔
مثال کے طور پر اس ملک کا سپریم لاء قرآن پاک ہے لیکن آج تک کسی حکومت نے
اس کو عملی شکل پر لانے کی کوشش نہیں کی آج بھی جب سود کے خلاف کسی جدوجہد
کا آغاز ہوتا ہے یا اس ملک کی معیشت کو سود جیسی لعنت سے نجات پر کام شروع
ہوتا ہے تو موجودہ معاشی نظام اور اس کو ملنے والا شیلٹر سب سے پہلے رکاوٹ
بنتا ہے ۔دوسری اہم بات ہمارا عدالتی نظام آج بھی اسی انگریز کا قائم کردہ
ہے جس نے اسے وضع ہماری بہتری کے لئے نہیں کیا تھا بلکہ ہمیں محکوم بنانے
کے لئے کیا تھا اس کے ساتھ ساتھ قانون پر عملداری کا نظام جو بہت ہی اہم ہے
وہ بھی انگریز ہی کا قائم کردہ ہے اور وہ نظام بھی اس نے عوامی فلاح و
بہبود کے لئے وضع نہیں کیا تھا بلکہ اپنے بے جااحکامات کی پیروی کروانے کے
لئے کیا تھا بد قسمتی سے آج بھی ہمارا نظام وہی چل رہا ہے جو کہ لامحالہ
انصاف کی بہتر اور یقینی فراہمی میں بہت بڑی حد تک رکاوٹ ہے ،آپ دیکھیں کہ
ہماری عدالتوں میں لاکھوں کیس پینڈنگ ہیں ،اپنا حق مانگتے مانگتے دو نسلیں
گذر جاتی ہیں ،بسا اوقات بیس بیس سال کی سزا کاٹنے کے بعد فیصلہ آتا ہے کہ
یہ بے گناہ تھا ،قاتل عدالتوں سے وکٹری بنا کر نکلتے ہیں ،ملک و قوم کا
سرمایہ لوٹنے والوں کو یہ قانون ہی تحفظ دے رہا ہوتا ہے سو یہ نظام غریب کے
ساتھ کھڑا نہیں ہوتا بلکہ مظلوم طبقہ کو خاموش کروانے کے لئے معاون بنتا ہے
اور ہمارا پراسیکیوشن کا نظام یعنی نظام تفتیش اس میں ریاست مدینہ اور بانی
پاکستان کے نظریات کی دھجیاں بکھیر دی جاتی ہیں،پھر ہمارا ایک بنیادی مسئلہ
زمین کی تقسیم میں بد اعتدالی ہے جس پر ابھی تک کسی بھی حکومت نے غور نہیں
کیا کہ پاکستان کی بے شمار زمین بنجر پڑی ہے ،کچھ خاندانوں کو ہزاروں ایکڑ
زمین الاٹ کردی گئی اور کچھ خاندان آج تک باوجود کاشت کاری کی صلاحیت ہونے
کے ایک انچ زمین کے مالک بھی نہی ہیں ۔ہمارا نظام صحت ،نظام تعلیم
،ٹرانسپورٹ کا نظام ،محکمہ ڈاک ،قانون نافذ کرنے والے ادارے سمیت دیگر بے
شمار محکمے آج بھی بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے وژن میں ڈھالنے
باقی ہیں ۔
ملک عزیزپاکستان کے تمام سرکاری اور پرائیوٹ شعبوں کے بانی پاکستان کے وژن
پر یعنی اسلامی خدوخال میں نہ ڈھالنے کے نقصانات اتنے زیادہ ہیں کہ احاطہ
تحریر میں نہیں آسکتے چند ایک قابل ذکر ہیں ہمارا عصری نظام تعلیم پوری
دنیا کے پہلے ٹاپ ہنڈرڈ میں کہیں بھی نہیں ہے تو یہ نظام تعلیم قوم کے بہتر
لیڈر شپ کیسے فراہم کرسکتا ہے ؟ (مدارس کے نظام تعلیم کو نکال کر کیوں کہ
وہ دنیا کے ٹاپ ٹین میں آتے ہیں )،ہمارا محکمہ صحت دنیا کے ٹاپ ہنڈرڈ میں
کہیں بھی نہیں ہے جس کی وجہ سے ہر گھر میں دو تین افراد مسلسل میڈیسن کھا
رہے ہوتے ہیں،ہمارا نظام قانون و انصاف دنیا کے ٹاپ ہنڈرڈ میں کہیں نہیں
ہے،ہم ایمان داری میں دنیا کے ایک سو سولہویں نمبر پر ہیں یعنی اس میں بھی
ٹاپ ہنڈرڈ میں ہمارا نام نہیں ،ہم بحیثیت ایک منظم اور منتظم قوم کے ٹاپ
ہنڈرڈ میں کہیں بھی نہی ہیں ،ہمارا ٹرانسپورٹ(بحری ،بری،فضائی) کا نظام
دنیا کے ٹاپ ہنڈرڈ میں کہیں نہیں ہے وغیرہ وغیرہ۔
اب آخر میں آتے ہیں ریاست مدینہ اور حکومتی رٹ پر کہ ریاست مدینہ میں
حکومتی رٹ کب چیلنج ہوتی تھی اور اس پر عمل درآمد کیسے کیا جاتا تھا ،ریاست
مدینہ میں جب کوئی سرکاری عہدہ دار یا اہلکار جاری کردہ حدود وقیود میں
تجاوز کرتا تھا تو اسے حکومتی رٹ چیلنج کرنا سمجھا جاتا تھا اور فوراً اس
پر حکومتی رٹ قائم کی جاتی تھی ،اور اگر اس سلسلہ میں کوئی غلط فہمی پیدا
ہوجاتی تو فوراً اس کو دور کیا جاتا تھا جیسا کہ وقت کے خلیفہ اور امیر
المومنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اﷲ تعالی عنہ ایک مرتبہ خطبہ دینے آئے اور
ان کے بدن پر دو چادریں تھیں تو انہیں خطبہ دینے سے پہلے دوچادروں کی وضاحت
دینا پڑی حالانکہ اس معاملہ میں امیر المومنین بالکل حق بجانب تھے اور جب
انہوں نے بتا یا کہ ایک چادر میری ہے اور دوسری میرے بیٹے کی تو پھر خطبہ
شروع کیا گیا،جب کبھی حکومتی احکامات کی عملداری میں ہلکا سا بھی ذاتی رنجش
آنے کا شبہ ہوتا تو فوراً سے پہلے خود کو پیچھے ہٹالیتے جیسا کہ جنگ خندق
میں سیدنا علی المرتضی رضی عنہ کو نبی کریم ﷺ نے تلوار دے کر کافروں کے ایک
دلیر شہسوار کے مقابلہ میں بھیجا جب حضرت علی رضی اﷲ عنہ اسے نیچے گرا کر
اس کا سر قلم کرنے لگے تو اس نے حضر ت علی رضی اﷲ عنہ کے چہرہ مبارک پر
تھوک دیااب حکومتی رٹ قائم کرنے میں ہلکا سا ذاتی غصہ بھی شامل ہوا تو
فوراً اسے چھوڑ دیا ۔
ریاست مدینہ میں کبھی بھی مظلوم کو یہ محسوس نہیں ہوا کہ اسے انصاف کے لئے
دھکے کھانے پڑیں گے ۔اسے کبھی تھانے اور عدالت میں جاتے ہوئے ڈر اور خوف
نہیں آیا ،اگر کبھی دو فریقین میں کسی بات پر اختلاف ہوگیا تو ریاست فوراً
صلح کرواکر معاملہ رفع کردیتی تھی ،ریاست مدینہ میں مظلوم کو انصاف کے حصول
کے لئے اپنی جائیدادیں نہیں بیچنا پڑتی تھیں،ریاست مدینہ کبھی بھی ایسے
محسوس نہیں ہوا کہ سزا میں ریاست یا ریاست کا کوئی کارندہ تجاوز کرے گا اور
اگر خدانخواستہ ایسا ہوا تو فوراً مرکز سے احکامات جاری ہوتے اور اہلکار کی
طرف سے ہونے والی زیادتی کا پورا پورا ناصرف بدلہ دیا جاتا بلکہ اس عہدہ
دار کو معزول کرکے سزا بھی دی جاتی تھی لیکن کیا کبھی ہمارے ہاں ایسا ہوا ؟
ریاست کے خلاف بغاوت کرنے والوں کو کچلا بھی گیا اور معاف بھی کیا گیا لیکن
حد سے تجاوز نہیں کیا گیا ،جس جرم کی جتنی سزا بنتی تھی اتنی دی گئی کم یا
زیادہ کا تصور ریاست مدینہ میں نہیں تھا ،اور ہاں ریاست مدینہ میں جب کوئی
بھوکا سوتا تو ریاست کی رٹ کو چیلنج ہوجاتا تھا اور پھر فوراً رٹ قائم کی
جاتی اور اس کے اسباب کو نوٹ کرکے نیا آرڈیننس جاری کردیا جاتا اور پھر
پوری ریاست میں کوئی زکوۃ لینے والا بھی باقی نہیں رہتا یہ تھی مدینہ کی
ریاست اور یہ تھی مدینہ کی ریاست کی رٹ ،ہمیں مدینہ کی ریاست اور اس جیسی
رٹ قائم کرنے کے لئے ابھی کافی سفر طے کرنا ہے اور اس سفر کی سب سے پہلے
کڑی یا سیڑھی نظام انصاف اور نظام قانون کو اسلامی قوانین میں ڈھالنا ہوگا
،عدل و انصاف کو سستا ،فوری ،موثر اور قابل عمل بنانا ہوگا یہی سب سے بڑی
حکومتی رٹ ہے اور اس رٹ کو چیلنج کرنے والوں کی سرکوبی بھی کرنا ہوگی
کیونکہ معاشرے عدل و انصاف کی فراہمی کے بغیر سانس نہیں لے سکتے ۔
|