مہنگائی سے پسے ہوئے عوام کے لیے یہ خبر شدید حبس کے عالم
میں بارش کے قطروں سے کم نہیں ہے کہ ڈرک ریگولیٹری اتھارٹی نے تمام ڈاکٹر ز
کو نسخے میں ادویات کابرانڈ اور نام لکھنے سے روکنے کے احکامات جاری کردیئے
ڈریپ کی جانب سے ڈاکٹرز کو مراسلۂ ارسا ل کیا گیا جس میں انہیں ہدایت کی
گئی ہے وہ کسی بھی مریض کو نسخے میں دوا کانام اور برانڈز لکھ کرنہ دیں
ڈریپ کی جانب سے ہدایت مراسلے میں ہدایت کی گئی ہے کہ ڈاکڑز مریض کو دیئے
جانے والے نسخے میں صرف دوا کا فارمولا لکھیں گے نجی اور سرکاری سطح پر
ڈاکٹرز بااثر میڈیسن کمپنیوں کا مہنگا نسخہ لکھ دیتے ہیں مراسلے میں کیا
گیا ہے کہ ڈاکٹرز کی جانب سے نسخے میں برینڈ کا نا م لکھنے سے مریض مہنگی
ادویات خریدنے پر مجبور ہوتے ہیں جس سے عام مریض پر بوجھ پڑتا ہے ڈریپ نے
ہدایت کی کہ کہ ڈاکٹرز ادویات کے برانڈ کے نام کے بجائے سالٹ لکھیں گے اور
انہیں صرف ادویات کا فارمولا لکھنے کی اجازت ہوگی نسخے پر کسی بھی کمپنی یا
اس کی دور کا نام لکھنا غیر قانونی اقدام میں شمار کیا جائیگا ڈرک
ریگولیٹری اتھارٹی نے اپنے مراسلہ میں لکھا کہ پرائم منسٹر ڈلیوری پوائنٹ
کو مقصد بار بار اثر میڈیسن کمپنیوں کے برانڈ نام لکھنے کی شکایات موصول
ہوئی تھیں۔آخر یہ مسلۂ کیا ہے اور کسطرح عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالا جاتا
ہے اصل میں جنرک (Genric) اور برانڈ (Brand)نام کے تحت فروخت ہونے والی
ادویات کی قیمتوں میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے یعنی ایک ہی اجزأ والی
دوائی کی قیمت سے بیس گنا تک فرق ہوتاہے یعنی ایک دوائی جنرک کے نام سے اگر
ایک روپے میں دستیاب ہے تو وہی دوائی انہی اجزأ کے ساتھ 20 روپے میں
برانڈکے تحت فروخت ہو رہی ہے جب کوئی دوائی ایجاد ہوتی ہے تو اس وقت جو نام
اسکا رکھا جاتا ہے اسے جنرک یا عام فہم میں اصلی نام کہا جاتاہے اور پھر
مختلف ادارے یاپروپرائٹری (Proprietory)نام کہا جاتا ہے مثال کے طور پر
DIAZAPAMجنرک یا ASPRINEجنرک نام ہے اور اسے NEW ASPRINE-DISPRINE-ASPRO کے
برانڈناموں سے فروخت کیا جاتا ہے اب عام آدمی کو یہ نہیں سمجھ سکتا کہ
VALIUMجو 20روپے کی فروخت ہورہی ہے DIAZAPAM ہے جو ایک روپے میں فروخت
ہورہی تھی اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ بھی اس فرق کو نہیں سمجھ سکتے ہیں یا د
رہے کہ نام کی تبدیلی سے دوائی کی خاصیت کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا تمام
ادویات کے فارمولے ایک کتاب میں درج ہوتے ہیں جسے فارما کوپیا PHARMA
COPOEIA کہتے ہیں ہر ملک کا یا تو اپنا منظور شدہ فارما کوپیا ہوتا ہے یا
کسی اور ملک کا اپنا لیا جاتا ہے مثال کے طور پر پاکستان میں جب تک اپنا
فارما کوپیا تیار نہیں ہوا تھا انگلینڈ کا فارما کوپیا رائج تھا اس میں
درجہ فارمولا اور تیاری کا طریقہ کار اور معیار (Standard) درج ہوتا ہے اس
میں کوئی کمی بیشی نہیں ہوسکتی۔ فارما کو پیا میں درج شدہ فارمولے میں کوئی
تبدیلی نہیں کی جاسکتی اس کے (INGREDIENTS) اجزأ میں کوئی اضافہ یا کمی
ہوسکتی ہے نہ انکی مقدار میں۔اور یہ کہ کونسی دواکی اصل قیمت کیا ہونی
چاہیے ،اس طرح بہت ساری ادویہ سازکمپنیاں اپنے ڈیلرز اور ڈاکٹرز کو نہایت
سستے داموں دوائیں بیچ دیتی ہیں اور ریٹیل پرائس کے مطابق ہی دوائیں بیچتے
ہیں مگر عوام کو اس کا کوئی فائدہ نہیں پہنچ پاتا دوسری طرف جب مارکیٹ میں
کوئی نئی دوا لائی جاتی ہے تو کمپنی کو اس دوا کی مارکیٹنگ یا تعارف کے لیے
بھاری اخراجات کرنے پڑتے ہیں،ڈریپ اس کی قیمت کا تعین کرتی ہے اس پر اگر یہ
ہی دوا کوئی دوسری کمپنی تیا کرتی ہے تو اس کی قیمت زیادہ رکھی جاتی ہے میں
سمجھتاہوں کہ اس مسئلے کے لیے بھی حکومت کو ایک خاص پالیسی ترتیب دینی
پڑیگی،جب ہم ادویہ ساز کمپنیوں کا زکر کرتے ہیں تو پاکستان میں اس وقت
تقریباً700کے قریب کمپنیاں ہیں جن میں مقابلے کی فضا تو قائم رہ سکتی ہے
مگر کسی بھی دوا کی کوالٹی کنٹرول کا کیا بندوبست ہوگا یہ بھی ایک سوال
بنتاہے ، یہی وجہ ہے کہ میزک اسکیم سے نا صرف غیر ملکی صنعت کا دوا ساز
ادارے جنہوں نے دنیا بھر میں بین الاقوامی کسوزشم یا سینڈیکٹ بنا رکھے ہیں
بلکہ مقامی صنعت کار بھی اس اسکیم کی شدید مخالفت کرتے ہیں کیونکہ یہ
معاملہ اربوں کھربوں روپوں کا ہوتا ہے ۔امریکہ میں سینٹ ہیلتھ کمیٹی کے
چیرمین ایڈوارڈ کینڈی نے جنرک اسکیم کی افادیت پر ایک بیان دیا تھا جو
روزنامہ واشنگٹن پوسٹ کی 9مارچ 1994 کی اشاعت میں بعنوان How to Crackdown
high priced drugs to US programmes شائع ہوا تھا اسمیں کینڈی نے واضح کیا
تھا کہ برانڈ ناموں کے تحت فروخت ہونے والی ادویات کی قیمت جنرک ناموں پر
فروخت ہونے والی ادویات سے اوسطاً بیس گنا ذیادہ ہوتی ہے انہوں نے یہ بھی
کہا کہ سرمایہ دار ڈاکٹروں کو بھی مختلف طریقوں سے مرہون منت کرکے ہمنوا
اپنا لیتے ہیں بیان میں اس کی تشریح یوں کی گئی ہے کہ تحفہ کے طور پر رنگین
ٹیلی ویژن ڈاکٹروں کو دیئے جاتے ہیں ڈاکٹروں کی کانفرنسوں کو مالی امداد دی
جاتی ہے پھر جو ڈاکٹر باہر غیر ملکی دوروں پر جاتے ہیں ان کا خرچ برداشت
کیا جاتا ہے،یہاں تک کہ ان شعبوں سے وابستہ وزارتوں کے سیاسی ملازمین کو
خرید کر اپنی مرضی کی پالیسیاں بھی بنوائی جاتی ہے ،حیرت انگیز بات یہ ہے
کہ آج 47سال بعد بھی پاکستان میں بڑی کمپنیوں کی جانب سے ڈاکٹروں کو اسی
طرح نوازا جاتا ہے۔جیسا کہ زکر کیا جاچکاہے کہ یہ سب کچھ تو پچاس سال قبل
امریکا جیسے ملک میں بھی ہورہا تھا،جہاں تک ادویہ ساز بڑی کمپنیوں کی اس
دھوکہ دہی کی بات کی جارہی ہے کہ اس عمل سے عوام کو ایک روپے کی میڈیسن
20روپے میں ٹکا دی جاتی ہے وہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اگرڈ اکڑز مریض
کو دیئے جانے والے نسخے میں صرف دوا کا فارمولا لکھ کر دیگا تو کیا اس سے
عوام کو کوئی ریلیف مل پائے گا۔؟یقینی طور پر ڈرک ریگولیٹری اتھارٹی کی
جانب سے ڈاکٹرز کوجاری کردہ مراسلے کا جومعاملہ ہے وہ روزانہ کی بنیاد پر
ڈاکٹرز کے ہاتھوں لٹنے والے مریضوں کے لیے ایک اچھی خبر ہوسکتی ہے مگریہاں
ایک سوال اور بھی جو میرے زہن میں منڈلا رہاہے کہ ملک کی کتنی فیصد عوام
ایسی ہے جو ان تمام باتوں کو سمجھتی ہے کہ کونسی دوا کس نسخے پر تیار ہوتی
ہے اورکونسی دوا کی اصل قیمت کیا ہونی چاہیے ؟اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ بھی
اس تیز رفتار دور میں دوا کی قیمت کو دیکھنا بھی گوارانہیں کرتے توایک ان
پڑھ آدمی کیسے یہ سب کچھ جان سکتاہے کہ اس کو دوامناسب قیمت پر ہی دی گئی
ہے ۔اس بات پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اگر ادویات کو جنرک پر کردیا
جائے تو کیا سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا؟میں سمجھتا ہوں کہ ڈریپ اگر اس معاملے
میں میدان میں آہی چکاہے تو اسے سب سے پہلے ادوایہ ساز کمپنیوں کے معیار پر
بھی کام کرنا ہوگایعنی درجنوں کمپنیاں اگرایک ہی دوا کو بنارہی ہیں اور ہر
دواکا معیار دوسری دوا سے مشکو ک ہے تو اس میں جو کمپنیاں غیر معیاری
فارمولوں کے ساتھ ادویات بنارہی ہیں ان کی رجسٹریشن کو منسوخ کیا
جاسکتاہے،جبکہ ڈاکٹرز اور فارمسسٹ کومرحلہ وار آڈٹ پر رکھا جائے کہ وہ کس
کس کمپنی کی دوائیاں بیچ رہے ہیں اورکس کمپنی کی ادویات لکھ کر دی جارہی
ہیں۔اس آڈر کے نافذ ہونے کے بعد جہاں پہلے کبھی قیمتوں کا معاملہ ادویہ ساز
کمپنیوں کے ہاتھ میں تھا وہ اب میڈیکل اسٹور والوں کے ہاتھوں میں چلا جائے
گاوہ ہی بات ہے کہ اگر خالی نسخے پر دوادی جائے گی تب وہ میڈیکل اسٹور کا
مالک مریض کو ایک روپے کی دوابیس روپے میں اپنی مرضی سے ہی دے گا تب کس طرح
سے مریض کو معلوم ہوگا کہ اس سے اس دواکی زائد قیمت وصول کی گئی ہے اور جو
دوادی گئی ہے وہ معیاری کمپنی سے ہی تیار کی گئی ہے ۔آخر میں میں یہ ہی
کہونگا کہ موجودہ حکومت اگر یہ کام کرلے اور عوام کو یہ حقیقی ریلیف دیدیں
تو تحریک انصاف کی حکومت کا یہ بہت بڑا کام ہوگایہ سب کچھ جانتے ہوئے کہ
وفاقی حکومت کی پالیسیوں اور مہنگائی کے اس طوفان کی وجہ سے عوا م آگے ہی
بہت پریشان ہے جبکہ میڈیسن کا معاملہ کچھ ایسا ہے کہ ڈپریشن اور پریشانیوں
سے دوچار اور بیمار 22کروڑ عوام کو دواؤں کی ضرورت ہوتی ہے لہذا حکومت کی
اس توجہ سے کراچی تا خیبر تک عوام کو اس کا ریلیف ملے گااس سلسلے میں میں
وزیراعظم پاکستان سے اس تحریر کی توسط سے اپیل کرتا ہوں جو کہ آپ کے لیے
میرا کھلا خط ہے ،کہ وہ اس مسئلے سے پیچھے نہ ہٹیں ۔۔تمام تر دباؤ کے
باوجود ۔۔ہرچند کے سرمایہ داروں فارما سوٹیکل کمپنیوں کادباؤ ہوسکتاہے ۔
|