بلاشبہ ریاست اورسیاست کا چولی دامن کا ساتھ ہے،صدیوں
سے اقتدار کی غلام گردشوں میں شطرنج کی بساط کی طرح سیاست کی بے رحم چالوں
نے غلام ابن غلام اور ذہنی غلامی کی راہیں ہی ہموار کی ہیں اور زیادہ تر
ایک مخصوص طبقے بلکہ چند ایک خاندانوں نے ہی اقتدار کے مزے لُوٹے
ہیں۔سرمایہ دار، وڈیرے(موجودہ بیوروکریسی کی شکل)اورطاقتور مافیانام نہاد
عوامی رہنماؤں کی شکل میں سیاستدانوں کے وہ مہرے ہیں جو ہر دور میں شطرِبے
مہار کی طرح محض اپنے مفادات اور اجارہ داری قئم رکھنے کیلئے سادہ لوح عوام
کابے رحمی سے استحصال کرنے میں ان سیاہ ستکاروں کے معاون کاکرداراداکرتے
چلے آرہے ہیں۔ جب سے جمہوریت کا چورن بکنا شروع ہوا ہے ان تمام مذکورہ
کرداروں کوقدرے مہذب نام دے دئے گئے ہیں، تاہم ان کے چہرے اسی طرح بھیانک
اورکرداروہی منافقانہ ہے۔ دین ِاسلام نے جو سیاست(طرزِحکمرانی ) سکھلائی
تھی،بدقسمتی سے اس کا ہمارے مسلم معاشرے میں سرے سے وجود ہی نہیں۔اسلامی
طرز سیاست میں سیاست اور ریاست میں مسجد کو ایک مرکز کی حیثیت حاصل تھی
لیکن اب ہمارے ہاں مسلم معاشرے میں ہی سیاست کے اس عنوان پر گفتگو کرتے
ہوئے اسلام ، مسجد ، محراب و ممبر کا تذکرہ بہت اجنبی سا محسوس ہو تا ہے۔
اسلامی طرز سیاست کا ایک عملی نمونہ ‘بقول نصیر ملت حضرت پیر نصیرالدین
نصیر رحمۃ اﷲ علیہ،’’ وہ برابری کا توُﷺ نے دیا درس آدمی کو۔۔۔۔کہ غلام
ناقہ پر ہے تو امامؓ چل رہاہے‘‘ کے مصداق بائیس سو مربع میل کے علاقے
پرعادلانہ حکمرانی کرنے والے خلیفۃ المسلمین سیدنا حضرت عمرالفاروق اعظم
رضی اﷲ تعالیٰ عنہ‘ کے اس مشہور واقعہ کی صورت میں تاریخ کے اوراق میں آج
بھی محفوظ ہے ۔سیدنا حضرت عمرالفاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ‘ وہ عظیم ہستی ہیں
کہ آپؓ نے ایک ایسا منصفانہ و عادلانہ سیاسی نظام(نظام ِ حکومت)دیا جو رہتی
دنیاتک ریاست مدینہ کی عملی تفسیر کے طورپر بالخصوص پوری امت مسلمہ کیلئے
اور بالعموم عالم انسانیت کیلئے ایک استعارہ ہے۔مغرب نے تو ’’ عمرزلاء‘‘ کے
عنوان کے ساتھ ایک فلاحی ریاست کے تصور کو اجاگر کرتے ہوئے صحیح معنوں میں
اپنے سیاسی و حکومتی نظام اور گڈ گورنس قائم کرنے اوراس نظام کو اپنی عوام
کیلئے سودمند بنانے کیلئے کئی ترقی یافتہ ممالک میں آج بھی نافذ کر رکھا
ہے،لیکن یہ رہنما اصول و ضوابط جن مسلمانوں کی حقیقی میراث تھے ،وہ عملاً
ان اصولوں اور عادلانہ قوانین کو فراموش کر چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم
ریاست مدینہ کا نام تو بہت شوق سے لیتے ہیں لیکن ہماراایک بھی عمل اپنے اس
دعوے سے مطابقت نہیں رکھتا ۔
یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ ہم نے آج ساڑھے چودہ سوسال بعد ریاست
مدینہ کے تصور کو عملاً خاکم بدہن واپس ریاست ِ یثرب (برائی کی بیماریوں کی
آماجگاہ)میں بدل کر رکھ دیاہے۔آج ریاست مدینہ پکار پکارکر ہم سے سوال کر
رہی ہے کہ کیا یہی ہے وہ ریاست مدینہ ‘ جس میں بانی ءِ مدینہ وجہہ تخلیق
کائینات رحمۃ اللعالمین جناب رسالت مآب حضرت محمدمصطفی کریم خاتم النبیین
صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی عزت و ناموس کی بات کرنادہشت گردی اور انتہا
پسندی قراردے کر جرم بنا دیا گیا ہے۔ شرم سے ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ آج اس
ریاست ِ یثرب کے حکمران جو عملاً صیہونی طاقتوں اور یہودیوں کے غلام بن چکے
ہیں،طاغوت کا مہرہ بنے ہوئے ان مسلط شدہ حکمرانوں کو ریاست مدینہ کا نام
لیتے ہوئے شرم نہیں آتی کہ وہ اپنی نام نہاد جمہوری ریاست میں جو نظریہ
اسلام کی بنیاد پر ایک اسلامی فلاحی ریاست کے عظیم مقاصد کے تحت لاکھوں
جانوں کی قربانیاں دے کر قائم کی گئی تھی‘ میں رسول اعظم خاتم النبیین صلی
اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی عزت و ناموس کی بات کرنے والے نہتے اور بے گناہ
غلامان ِ رسول پرانسانیت سوز تشدد کرتے ہوئے آتش و آہن کی بوچھاڑ کردیں۔تم
نے ایک اسلامی فلاحی ریاست میں رسول ِ اعظم نبی ءِ امن و رحمت صلی اﷲ ولیہ
وآلہ وسلم کے ناموسِ مقدس کیلئے کلمہ حق بلند کرنا ’’قانونی‘‘ جرم
بنادیا‘کیا یہی ہے تمہاری ریاست مدینہ؟نہیں یہ تو یثرب کی ریاست میں بھی
نہیں ہواتھا۔ ہم سلام پیش کرتے ہیں ان غازیان ناموس رسالت ﷺ کو اور اسیران
ِ ناموس رسالت کو‘ جنہوں نے شہادتیں پیش کردیں، جانوں پر ظلم تو سہہ لیا
مگر اپنی ریاست کے خلاف نہیں کھڑے ہوئے۔ہرمسلمان خواہ کتنا ہی گناہگارہو
اپنے نبی پاک صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے ناموس ِمقدس پر کو ئی سمجھوتہ نہیں
کر سکتا،فرانس ہویا کوئی بھی یہودی ،نصرانی ،صیہونی طاقت،مسلمانوں کے دوست
نہیں ہوسکتے، یہ قرآن کریم کا واضح اعلان ہے۔ ہم تمہاری بات مان لیں یا
قرآن کی۔
خیر۔۔۔،ہم بات کر رہے تھے ‘ سیاسی نظام کی۔آزادجموں کشمیرکے تناظر میں
دیکھاجائے تو ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ یہاں بھی ہم نے دوتہائی
اکثریت سے عوامی مینڈیٹ لے کر آنے والی حکومت کو پاکستان کی حکومت سے زیادہ
مختلف نہیں پایا۔راجہ صاحب ۔۔۔! آپ پر بہت سے قرض واجب الادا ہیں،جو وعدے
اور سہانے سپنے آپ اورآپ کے حواریوں نے عوام کو دکھائے تھے، افسوس ہے کہ آپ
نے اس کے بالکل برعکس کیا۔ہمارے ایک دوست نے بالکل درست کہا‘ قریب ہے کہ
مؤرخ لکھے گا،کشمیر کاسوداکرلیاگیا، دریا سوکھ رہے تھے،گلگت بلتستان صوبہ
بن رہاتھا اور مہاراج پلازے بنارہے تھے۔
اب ایک بارپھرانتخابات کا بگل بج چکا ہے، مختلف سیاسی جماعتوں کے اُنہی
پرانے استحصالی وڈیرہ شاہی کی شطرنج کے مہروں نے بھیس بدل بدل کرسادہ لوح
عوام کو چاند تارے توڑ کر لا دینے کے جھوٹے وعدے کرنا شروع کر دئے ہیں
اورریاست بھرکے تمام حلقوں سے طرح طرح کے برساتی مینڈک نمودوار ہو رہے
ہیں۔ہم سمجھتے ہیں کہ عوام کو ہوش کے ناخن لینا چاہئیں اور آزمائے ہوئے
بتوں کو پاش پاش کرتے ہوئے نئی باکردار اور نوجوان قیادت کو سامنے لانا
چاہئے۔ریاستی دارالحکومت کے حلقہ 3سٹی مظفرآبادکی سیاست پر پھرکبھی تفصیلی
بات ہو گی تاہم اتنا ضرور کہیں گے کہ ماضی کی طرح کسی مفاداتی سیاسی کھلاڑی
کے بجائے متوسط طبقے اور عوام کا درد رکھنے والے شیخ اظہر جیسے نوجوان
عوامی رہنما کوآگے لائیں اور اسمبلی تک پہنچائیں‘ جس نے اپنی پارٹی کے دور
حکومت میں ڈپٹی ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے 19ماہ تک بغیر کوئی حکومتی مراعات
لئے اپنی بساط سے بڑھ کر اورقابل تقلید انداز سے شہریوں کے مسائل حل کرنے
کی کوشش کی تھی۔پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت کو بھی چاہئے کہ وہ ایسی ہی
باکردار نوجوان قیادت کو آگے لائے اور انہیں پارٹی ٹکٹ جاری کرے جو عوامی
محرومیوں اور دکھوں کا مداوا کریں۔ اوراگرعوام نے آج بھی اپنی روائتی
مکارانہ و مفاداتی سیاست کو پس پشت نہ ڈالا تو پھر شائد اگلے پچاس سالوں
میں بھی ہم دومرتبہ سنگ بنیاد رکھے جانے کے باوجودشاہ سلطان پل جیسے
انتہائی اہم اور بنیادی نوعیت جیسے تعمیراتی منصوبوں کی تعمیر و تکمیل کا
خواب شرمندہ تعبیر ہوتا دیکھ سکیں۔
|