یہ 14اپریل 1912ءبروز اتوار کا
واقعہ ہے کہ ٹائی ٹینک جہاز شمالی اوقیانوس میں میں برف کے ایک بہت بڑے
تودے سے ٹکرایا یہ دنیا کا سب سے بڑا جہاز تھا اور پہلی مرتبہ سفر پر روانہ
ہوا تھا اس کے متعلق یہاں تک کہا گیا کہ نعوذ باللہ ”خدا بھی اس جہاز کو
نہیں ڈبو سکتا“ یہ جہاز انسانی محنت ، مہارت ، مشقت اور سائنس کا نادر
نمونہ تھا برف کے تودے سے ٹکراتے ہی جہاز میں پانی بھرنے لگا اور یہ ڈوبنے
لگا اس جہاز پر جیک فلپس نام کا ایک افسر لاسکی آلات پر مامور تھا اس نے
فوراً SOS نامی پیغام ایک انتہائی طاقتور آلے کے ذریعے بھیج دیا یہ پیغام
سب سے پہلے”ورجینن“ نامی جہاز کو موصول ہوا یہ جہاز انتہائی تیز رفتاری سے
تباہی کے مقام کی طرف روانہ ہوگیا۔ فلپس متواتر SOSکے پیغامات بھیجتا رہا
اور آخری کشتی کی روانگی تک اس کی تگ ودو جاری رہی ۔
فلپس کی اس جوانمردی کی بدولت 705آدمی پیغام موصول کر کے مدد کےلئے پہنچنے
والے جہازوں نے بچا لیے جنہیں اس نے امداد کےلئے پکارا تھا ۔ ٹائی ٹینک
جہاز کی تباہی کا اہم ترین نتیجہ یہ نکلا کہ برطانوی پارلیمنٹ نے ایک قانون
منظور کیا جس کے مطابق ہر جہاز کےلئے لاسکی کا انتظام لازمی قرار دے دیا
گیا ۔ ۔
قارئین ! ٹائی ٹینک جہاز کو لاسکی آلات سے مزین کرنے والی شخصیت کا نام
گولی ایلمومارکونی تھا ۔ مارکونی نے بغیر تار کے ذریعے پیغامات کو ایک جگہ
سے دوسری جگہ پہنچانے کا کارنامہ 1894میں انجام دیا۔ گولی مارکونی اٹلی سے
تعلق رکھتا تھا اور اس کی ایجادات نے بحری جہازوں کے سفر کرنے والے لوگوں
کی زندگیوں میں ایک انقلاب برپا کر دیا ۔ یہ عظیم شخصیت برطانیہ سے لیکر
امریکہ تک ایک انقلاب برپا کر گئی ۔ اپنی انہیں ایجادات کی بدولت دنیا کے
بڑے بڑے بادشاہ اس سے ملنے کےلئے مشتاق تھے ۔ ان میں زارروس ، قیصر ولیم ،
ملک وکٹوریا، ایڈورڈ ہفتم ، جارج پنجم ، تھیوڈور روز ویلٹ ، ولسن ، اٹلی کے
بادشاہ اور ملکائیں شامل ہیں۔ان لوگوں سے ملنے کےلئے مارکونی نے کبھی خواہش
کا اظہار نہ کیا۔ بلکہ یہ لوگ خود مارکونی سے ملنے کو ایک اعزاز سمجھتے تھے
یہ عظیم سائنس دان 1937ءمیں وفات پا گیا۔
قارئین! اس وقت آزاد کشمیر میں الیکشن کا بحری جہاز بھی طوفانوں کا شکار ہے
۔ پاکستان پیپلزپارٹی ، مسلم لیگ ن ، مسلم کانفرنس ، جموں وکشمیر
پیپلزپارٹی ، جموں کشمیر لبریشن لیگ ، جماعت اسلامی ، نیشنل الائنس ، متحدہ
قومی موومنٹ اور انگنت آزاد امیدوار اپنی اپنی الیکشن کمپین چلا رہے ہیں
اور یہ پہلا موقع ہے کہ آزاد میڈیا کی وجہ سے یہ کہانیاں منظر عام پر آرہی
ہیں کہ ضابطہ اخلاق نامی مقدس دستاویز کو آزاد کشمیر بھر میں پامال
کیاجارہا ہے یہ کس قدر حیرانگی کامقام ہے کہ چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن
کمیشن جو حساس ترین شخصیت اور ادارہ ہیں ان کے پاس اختیارات اور طاقت ایک
سوالیہ نشان ہے ۔ جس مقتدر ادارے نے آئندہ پانچ سال کےلئے آزاد کشمیر کی
قانون ساز اسمبلی کے ممبران اور حکمرانوں کا فیصلہ کرنا ہے ، ووٹرز کے
فیصلوں کو مربوط طریقہ سے شفافیت کے ساتھ مرتب کرنا ہے ان کے پاس انتظامات
اور اختیارات نہ ہونے کے برابر ہیں چیف الیکشن کمشنر حتی الامکان کوششیں کر
رہے ہیں کہ ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسرز اور ہر حلقے کے ذمہ داران آفیسران کے
ذریعے الیکشن 2011ءکو ہر طریقہ سے شفاف بنائیں اور عالمی برادری کو یہ
انگلی اٹھانے کا موقع نہ مل سکے کہ آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کے الیکشن
ایک جیسے ہوتے ہیں اگر کشمیر کیس کو ہم واقعی زندہ رکھنا چاہتے ہیں اور ایک
لاکھ سے زائد کشمیری شہدا کی قربانیوں کو ضائع نہیں کرنا چاہتے تو ہمیں اس
امر کو یقینی بنانا ہوگا کہ آزاد کشمیر میں ہونے والے انتخابات ”پری پول
رگنگ“ ، ”رگنگ “ اور ”پوسٹ پول رگنگ“ سے ہر طرح محفوظ رہیں ۔ اس سلسلہ میں
تمام تر ذمہ داری پاکستان پیپلزپارٹی کے ذمہ دار ترین لوگوں چوہدری
عبدالمجید، لطیف اکبر ، چوہدری یاسین ، بیرسٹر سلطان محمود چوہدری، قمر
الزمان ، چوہدری مطلوب انقلابی ، سردار محمد یعقوب خان اور دیگر تمام
امیدوارانِ قانون سازاسمبلی پرعائد ہوتی ہے پاکستان مسلم لیگ ن کی قیادت اس
وقت سب سے زیادہ آواز اٹھا رہی ہے کہ انتخابات میں پری پول رگنگ ہو رہی ہے
یہ ان کا بھی فرض ہے کہ وہ اس موقع پر اگر ایسے واقعات پیش آرہے ہیں تو ان
کی نشاندہی آزاد میڈیا کے سامنے کرے ۔ گزشتہ روز کوٹلی میں قائد مسلم لیگ ن
میاں محمد نواز شریف نے سالار جمہوریت سردار سکندر حیات خان کی موجودگی میں
بہت بڑے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے سابق ڈکٹیٹر جنرل مشرف کو مسئلہ کشمیر کو
مزید الجھانے کا مجرم قراردیااور اس عزم کا اظہار کیا کہ مسلم لیگ ن آزاد
کشمیر میں مثبت سیاست کو فروغ دے گی ۔ اس مثبت سیاست کو فروغ دینے کا پہلا
ٹیسٹ کیس پاکستان مسلم لیگ ن کا آزاد کشمیر کا پہلا الیکشن ہے اب یہ سردار
سکندر حیات خان ، شاہ غلام قادر، راجہ فاروق حیدر خان، چوہدری طارق فاروق،
راجہ نصیر اور دیگر تمام امیدواران قانون ساز اسمبلی پر منحصر ہے کہ وہ
شفافیت اور پر امن الیکشن کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرتے ہیں یا شرمندہ کرتے
ہیں ۔
قارئین! سب سے بڑھ کر ذمہ داری اس وقت انتشار کی شکار حکمران جماعت مسلم
کانفرنس پر ہے جن پر 2006ءسے لیکر اب تک متواتر یہ الزامات لگائے جا رہے
ہیں کہ انہوں نے گزشتہ انتخابات میں کچھ قوتوں کے ساتھ ملکر سابق ڈکٹیٹر
جنرل مشرف کی آشیرباد سے متنازعہ انتخابات کا انعقاد کروایا اور کئی جیتے
ہوئے لوگوں کو ہروایا ۔ ہم اس الزام کی صحت کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے
لیکن وزیراعظم آزاد کشمیر سردار عتیق احمد خان سے یہ امید ضرور رکھتے ہیں
کہ گزشتہ الزامات کے پیش نظر وہ موجودہ انتخابات کو ہر لحاظ سے شفاف بنانے
کےلئے اپنی ذمہ داری نبھائیں گے یہی وقت کا تقاضا ہے اور اسی سے لاکھوں
کشمیریوں کی زندگیاں آزاد کشمیر میں وابستہ ہیں اور اسی کہ ساتھ پونے دو
کروڑ کے قریب کشمیری قوم کی آزادی کی منزل منسلک ہے ۔
آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے
ایک انگریز پاکستان سیر کرنے آیا ایک پاکستان گائیڈ اسے لاہور کی سیر کرا
رہا تھا ۔ سیر کراتے کراتے وہ اسے ریلوے پھاٹک کی طرف لے گیا ۔ پھاٹک بند
تھا انگریز نے گاڑی کھڑی کر دی اور دیکھا کہ پاکستانی کندھے پر سائیکل
اٹھائے ریلوے پھاٹک کراس کر رہا ہے انگریز نے پاکستانی گائیڈ سے پوچھا کہ
یہ شخص ایسا کیوں کر رہا ہے ۔ اتنا خطرہ کیوں مول لے رہا ہے گاڑی آسکتی ہے
اور اس کی جان جا سکتی ہے ۔ گائیڈ نے کہا کہ پاکستانی قوم کے پاس اتنا وقت
نہیں ہے کہ وہ پھاٹک کھلنے کا انتظار کرے ۔ اس شخص نے یقیناً کوئی اہم کام
کرنا ہے جسے وہ جان پر کھیل کر انجام دے رہا ہے ۔
پھاٹک کھلنے کے بعد جب پھاٹک کراس کر کے وہ آگے گئے تو دیکھا وہی شخص بندر
کا تماشا دیکھ رہا تھا۔
قارئین! ہمیں خطرہ ہے کہ ہم جان پر کھیل کر الیکشن کے اس جہاز سے گزر کر
کہیں بندر تماشے ہی دیکھتے نہ رہ جائیں ۔ |