ہمارے اندر یہ احساس کب پیدا ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟

آج صبح جب اٹھا اور جب اخبار پڑھنے کے لیے نیٹ اوپن کیا تو کشمیر کے انتخابات کی خبریں پڑھیں اور پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے خیالات بھی پڑھے تو لگا اللہ پاک کرم فرمائے آج کچھ ہو نہ جائے اور دل سے اس خیال کو نکالنے کی بے سود کوششیں بھی کیں لیکن ناکام رہا اور یہ سوچ کر سر کو جھٹک دیا کہ ایسے خیالات وہ بھی ان دنوں میں جب پاکستان ایک مشکل مرحلے سے گزر رہا ہے اچھے نہیں ہوتے ۔ اپنے آپ کو ان خبروں سے دور کرنے کے لیے سپورٹس کی خبریں پڑھنا شروع کردیں لیکن دل نہیں مان رہا تھا کہ کیا کروں کیسے ان خبروں سے جان چھڑاؤں ۔

پھر ایک خبر آئی جس نے میری پریشانی کو اور بڑھا دیا وہ تھی متحدہ قومی موومنٹ کی حکومت سے علیحدگی اور اس کے کچھ دیر بعد ایک اور خبر آئی کہ متحدہ قومی موومنٹ کے گورنر جناب عشرت العباد نے استعفی دے دیا ہے میں نے سوچا کہ یہ تو ہونا ہی تھا جب متحدہ حکومت میں نہیں رہی تو عشرت العباد نے تو استعفی دینا ہی تھا سو انہوں نے حکومت پر پریشر بڑھاتے ہوئے یہ کام بھی جلد کردیا اور یوں حکومت اپنا ایک ستون گنوا بیٹھی اب تو اس حکومت کو سہارا بھی پتا نہیں کون دے گا یا دے گا یا نہیں دے گا اور اب تو ماشاءاللہ حکومت کے پاس مسلم لیگ ق کا ساتھ ہے مجھے یہاں تک بھی بات عادی سی لگی کہ یہ تو حکومتوں میں ہوتا ہی ہے کہ کبھی کوئی اتحادی چلا گیا تو کسی اور کو اتحادی بنا لیایہاں تو اتحادی اور مخالف بنیے کی دھوتی کی طرح تبدیل ہوتے ہیں ۔ یہی تو ہمارے پاکستان کی سیاست ہے کہ جس طرح ہماری کرکٹ ٹم پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا اسی طرح ہماری سیاست پر بھی اعتماد نہیں کیا جاسکتا ۔

ایک اور خبر آئی جس نے میرے رونگٹے کھڑے کر دیے وہ تھی گورنر عشرت العباد کی لندن روانگی اور ان کا یہ بیان کہ واپسی کا نہیں بتا سکتا کہ کب واپسی ہوگی یا نہیں ہوگی اگر ہوگی ۔اس خبر کو پڑھنے کے بعد ایسا لگا کہ کوئی پہاڑ میرے سر پر آگرا ہو اور میں سوچوں کے دریا میں گم ہو گیا اور پاکستان کے بارے میں سوچتا رہا کہ کیا پاکستان کا کوئی والی وارث نہیں ہے ؟ کیا پاکستان ان لوگوں کے لیے ایک ساحل سمندر کی طرح ہے ؟کیا یہ لوگ اقتدار سے ہٹنے کے بعد ایک دن بھی پاکستان میں نہیں رہ سکتے ؟میں نے دیکھا کہ شوکت عزیزصاحب آئے اور اقتدار کے مزے لوٹ کر چلے گئے مشرف صاحب آئے اور اقتدار کے مزے لوٹ کر چلے گئے اور ابھی تک ان کا پتا نہیں ہے کہ کب پاکستان میں تشریف لاتے ہیں ۔

اور ہم عوام یہ چاہتے ہیں کہ ہمارا پاکستان ترقی کرے اور دنیا اعلٰی قوموں کی صفوں میں اس کا شمار ہو اور جب پاکستان کا نام آئے تو لوگ اس میں جانے کی تمنا کریں ،اس میں امن و امان ہو ،اس کی معیشت ترقی کرے ، ،اس کا دفاع مضبوط سے مضبوط تر ہو ، کوئی بھی دشمن ہماری طرف میلی آنکھ سے نہ دیکھ سکے ، اس کا تعلیمی معیار ایسا ہو کہ دنیا اس کی یونیورسٹیوں کی ڈگریوں کی قدر کرے اور اس کے ڈگری ہولڈر طلباءکو عزت کی نظر سے دیکھے،اور ہم جب نماز کے لیے مسجد کا رخ کریں تو ہمارے دل خوف خدا کے علاوہ کسی بم دھماکے یا خود کش حملے کا خوف نہ ہو جہاں احتساب ہر کسی کے لیے ہو گا جہاں کسی کو کسی پر فضیلت نہ ہو اور جہاں غریب و امیر کے بچے ایک جیسے سکول سے تعلیم حاصل کریں اور میرٹ کی بنیاد پر کوئی بھی ترقی کر سکے اور یہ سب کب ہوگا ؟

آج یہ صورت حال ہے کہ ہمارے حکمران اقتدار سے علیحدگی کے بعد ایک منٹ بھی پاکستان کی سر زمین پر رہنا پسند نہیں کرتے آخر کیوں ؟

کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ جس عذاب میں انہوں نے عوام کو جھونکا ہے اب اس میں ہمیں بغیر پروٹوکول کے رہنا پڑے گا اس ملک میںجہاں بیس بیس گھنٹے بجلی نہیں ہوتی حالانک درجہ حرارت پچاس ڈگری سے تجاوز کر رہا ہوتا ہےاور بجلی کے بل سو فیصد زیادتی سے آتے ہوں اس ملک میں جب کوئی گھر سے نکلتا ہے تو وہ اپنے ماں باپ اور بیوی بچوں کو ایسی نظروں سے دیکھتا ہے جسیے الوداعی ملاقات ہو اور پتا نہیں واپسی نصیب ہوگی یا کسی بم دھماکے یا خودکش حملے کا نوالہ بن جائے گا اور جہاں انسان کی قیمت ایک گولی سے بھی کم ہو اور ان سب کے ذمہ دار یہ اقتدار پر براجمان طبقہ تو تو کیسے یہ اس ملک میں رہ سکتے ہیں ؟چاہیے تو یہ تھا کہ یہ صاحب اقتدار لوگ اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش کرتے کہ کہیں انہوں نے اقتدار کے نشے میں نہتے لوگوں پر ظلم کے پہاڑ تو نہیں گرائے اور کہیں انہوں نے اس ماں دھرتی کے ساتھ غداری تو نہیں کی ؟ کہیں جو انہوں نے حلف اٹھایا اس کی خلاف ورزی تو نہیں کی ؟

لیکن ہمارے ہاں احتساب بھی تو ایک گالی بن چکا ہے جہاں جج سیاسی بنیادوں پر تعینات ہوتے ہوں جہاں پولیس میں نوکریاں جیالوں کو تھوک کے حساب سے ملتی ہوں جہاں تعلیمی ادارے اسی سے ختم کیے جاتے ہوں کہ وہ کالے دھن کو سفید نہیں کرتے جہاں غریب کو نوالہ نہ ملتا ہو اور اشرافیہ کے گھوڑے سیب کھاتے ہوں جہاں قاتل اور ڈاکو اقتدار پر اقتدار کے لیے منتخب کیے جاتے ہوں جہاں گورنرز اور وزراءکرام پر قتل کے کئی کئی مقدما ت درج ہوں اور جہاں ہمارے بڑے بڑے سیاسدان ایک دوسرے کو رنگ و نسل اور قومیت کے نام سے جانتے ہوں اور ایک دوسرے کاتمسخر اڑاتے ہوں اور جہاں اسلام کی بات کرنا قدامت پسند تصور کیا جاتا ہو اور جہاں ہمارے حکمرانوں کا کھانا امریکہ حکم کے بغیر ہضم نہ ہوتا ہو اور وہ چھوٹی سے چھوٹی بات اور بڑی سے بڑی بات جب تک امریک سفارت خا نے سے ڈسکس نہ کرلیں ان کا دن طلوع نہ ہوتا ہو اور جہاں عدالتوں کے احکامات کو ردی کی ٹوکریوں میںڈال دیا جاتا ہو جہاں میڈیا کے لوگوں کو صرف اس لیے قتل کر دیا جاتا ہو کہ یہ حق کی آواز بلند کرتے ہیں اور جہاں قاتلوں کو گارڈ آف آرنر دے کر رخصت کیا جاتا ہو اور جہاں لوگوں کو اس لیے اٹھا لیا جاتاہو کہ یہ اپنے حقوق کا مطالبہ کرتے ہیں اور جہاں فوج جیسے ادارے کو اس لیے بدنام کیا جاتا ہو کہ یہ ذاتی کام نہیں کرتے تو بھلا وہاں پر احتساب کی بات کرنا اپنے آپ کو خونخوار بھیڑیوں کے جھنڈ میں ڈالنے مترادف نہ ہو گا ؟

مجھے وہ دور یاد آرہا ہے جب ایک بدو نے حضرت عمر ؓ سے بھرے مجمع میں احتساب کا تقاضا کیا تھا اور وہاں پر حضرت عمر ؓ کے بیٹے حضرت عبداللہ بن عمر نے کھڑے ہو کر صفائی پیش کی تھی اور وہ بدو اسی مجلس میں مطمئن ہو گیا تھا ۔

آج ہم سب ہر وقت اس انتظار میں رہتے ہیں کہ کوئی معجزہ ہو اور ہمارے حالات ٹھیک ہو جائیں اور ہم راتوں رات ایک دم دنیا کی حکمرانی کرنے لگ جائیں لیکن ہم اپنے نظام کو سدھارنے کا کبھی نہیں سوچتے ہم یورپی ممالک کو ترقی کرتا دیکھتے ہیں تو چاہتے ہیں کہ ہم ان جیسے بن جائیں اوران جیسی ترقی کریں کیا انہوں نے یہ ترقی راتوں رات کی ہے یا انہوں نے اس پر کئی سال لگائے ہیں؟کیا ان کے بچے گن پوائنٹ کے زور پر امتحان پاس کرتے ہیں ؟کیا ان کے حکمران اقتدار سے الگ ہونے کے ملک چھوڑ کر چلے جاتے ہیں ؟کیا ان کے ہاں قانون کی حکمرانی ہمار ملک کی طرح ہے ؟کیا ان کا صدر ٹریفک سگنل توڑ کر چلا جاتا ہے ؟کیا ان کے حکمران اپنا کاروبار دوسرے ملک میں کرتے ہیں؟کیا ان کے حکمرانوں کے بچے بے مہار اونٹوں کی طرح دوسرے لوگوں کو کچلتے رہتے ہیں؟کیا ان کے ہاں ایجوکیشن کمیشن ایک لونڈی کی حیثیت رکھتا ہے ؟کیا ان کی عدالتیں عدالتی قتل یا این آ ر او کی بنیاد پر فیصلے کرتی ہیں؟

ہماری اس نوبت تک پہنچنے کی وجہ بے انصافی ہے اور جب ہمارے بچے گن پوائنٹ پر اپنے اساتذہ کو یرغمال بناکر پاس ہوں گے تو ہم خاک اپنا تعلیمی معیار بڑھا سکیں گے اگر آج بھی ہم میرٹ کو اپنا شعار بنالیں اور انصاف ہر کسی کےلیے ہو اور جہاں کوئی بھی قانون سے بالاتر نہ ہو اور ہم دوسروں کی بھیک چھوڑ کر اپنی پاؤں پر کھڑے ہو جائیں اسلام کو اپنی زندگیوں پر لاگو کرلیں تو ہم بہت جلد دنیا میں پاکستان کا نام روشن کر سکتے ہیں اس کے لیے ہمیں اپنے محکموں سے سیاسی اثر و رسوخ ختم کرنا ہو گا اور اپنے ملک سے حد سے زیادہ محبت کرنا ہوگی اپنے ملک کو پیکنک پو ائنٹ نہیں ملک سمجھنا ہو گا ۔ہمارے اندر یہ احساس کب پیدا ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟
Muhammad Aslam Raza Al-Azhari
About the Author: Muhammad Aslam Raza Al-Azhari Read More Articles by Muhammad Aslam Raza Al-Azhari: 3 Articles with 3941 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.