18اپریل 2021بروز اتوار پاکستان اور بھارت کے وزرائے
خارجہ متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ شیخ عبد اﷲ بن زیاد النیہان کی دعوت
پر ایک ہی وقت پر دوبئی میں موجود تھے۔ شاہ محمود قریشی 17اپریل اور ایس جے
شنکر 18اپریل کو دوبئی پہنچے ۔ قریشی صاحب نے 17اپریل کو دوبئی میں’’
پاکستان بزنس کونسل کمیونٹی کے ساتھ اکانومک ڈپلومیسی ‘‘ تعمیری سیشن کے
عنوان سے تصاویر خود سوشل میڈیا پر جاری کیں۔بھارت نے کہا کہ جے شنکر دوبئی
میں’’ اکانومک اور کورونا سے متعلق کمیونٹی ویلفیئر ایشوز‘‘ زیر بحث لا رہے
ہیں۔دونوں ممالک کے بیانیہ میں مماثلت ملاحظہ فرمائیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ
کسی ثالث کی ہدایت یادو طرفہ اتفاق کا نتیجہ ہی ہوسکتی ہے۔بھارتی وزیر
خارجہ ایک دن اور شاہ محمود قریشی 17تا19اپریل دوبئی میں رہے۔گلف نیوز کے
ساتھ18اپریل کو انٹرویو میں قریشی صاحب نے کسی’’ نشست‘‘ کا بھی تذکرہ
کیا۔انہوں نے کہا’’ امارات میں بڑی تعداد میں پاکستانی موجود ہیں اور
بھارتی شہری اس سے بھی زیادہ تعداد میں ہیں۔خطے میں امن اور استحکام کے
مفاد کو دیکھتے ہوئے امارات حکومت کا یہ محسوس کرنابجا ہے کہ خطے کے دونوں
کھلاڑی مل بیٹھیں اور اپنے اختلافات پر بات چیت کریں۔‘‘وہ دبے الفاظ میں
خفیہ بات چیت کی تصدیق کر رہے ہیں۔ تا ہم اسلام آباد اور نئی دہلی ان
مذاکرات کو خفیہ رکھنا چاہتے ہیں۔ یہ سمجھایا جا رہا ہے کہ وقت سے پہلے بات
چیت منظر عام پر آنے سے معاملات بگڑ جاتے ہیں۔مشرف دورکے آگرہ بات چیت کا
بھی حوالہ دیا جاتا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان 2003کے سیز فائر
معاہدے پر مکمل عمل درآمد پر اتفاق کے اعلان کے بعد سے کشمیر کی جنگ بندی
لائن، جموں ، سیالکوٹ ورکنگ باؤنڈری اورواہگہ انٹرنیشنل سرحد پر مکمل
خاموشی رہی۔ پاک بھار ت فوج کے درمیان فائرنگ یا گولہ باری کا کوئی تبادلہ
نہیں ہواتا ہم اتوار کے روز بھارت کی سرکاری نیوز ایجنسی یو این آئی نے
سرکاری زرائع کے حوالے سے خبر دی کہ ہفتہ کی صبح پاکستان کے دو ڈرونز
مقبوضہ جموں کے آر ایس پورہ سیکٹر میں داخل ہوگئے۔ جن پر بھارتی فورج نے
فائرنگ کی مگر وہ بغیر کسی نقصان کے واپس لوٹ گئے۔ نیوز اجنسی نے کہا کہ
فوج نے علاقے کو محاسرہ میں لے کر آپریشن شروع کیا اور یہ پتہ لگایا جانے
لگا کہ کہیں ڈرونز نے علاقے میں اسلحہ تو نہیں گرایا۔ اس سے پہلے پاکستان
اور بھارت کے درمیان خفیہ مذاکرات کے کافی چرچے ہوئے۔ متحدہ عرب امارات نے
پاک بھارت ٹریک ٹو دپلومیسی میں ثالث کا کردار ادا کیا۔واشنگٹن میں امارات
کے سفیر یوسف العتیبہ نے سٹینفورڈ یونیورسٹی کے ہوور انسٹی چیوشن میں ورچول
مباحثے میں تصدیق کی کہ متحدہ عرب امارات نے پاک بھارت کے درمیان سیز فایر
پر عمل درآمد، سفارتی تعلقات کی بحالی میں کردار ادا کیا۔ رائٹرز نیوز
ایجنسی نے بھی انکشاف کیا کہ دوبئی میں پاک بھارت انٹیلی جنس اعلیٰ حکام کے
درمیان جنوری2021میں خفیہ مذاکرات ہوئے تا کہ کشیدگی کم کی جائے۔پاک بھارت
خفیہ بات چیت کے لئے کافی دلائل بھی پیش ہوئے۔پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر
جاوید باجوہ کا 18مارچ کو دیا گیابیان کہ اب وقت ہے کہ پاکستان اور بھارت
ماضی کو دفن کریں اور آگے بڑھیں، بھی پاک بھارت بات چیت کی بحالی کی جانب
ایک اشارہ ہے۔
بھارت کی خاموشی اور پاکستانی تردید کے دوران ڈان اخبار میں سینئر صحافی
فہد حسین کی ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ بھارت نے دسمبر 2020میں پاکستان کو
بات چیت کی پیشکش کی تھی۔ جس پر کافی غورو خوص کیا گیا۔یہ پیش کش بھارت نے
لداخ میں چین کی پیش قدمی اور افواج کے درمیان خونی جھڑپوں کے بعد کی۔اس کے
بعد ہی دونوں ملکوں کے سیکورٹی اور انٹلی جنس عہدیدار دوبئی میں بات چیت
کرتے رہے ۔ ڈان کی رپورٹ میں اعلیٰ سرکاری ذرائع کے حوالے سے تصدیق کی گئی
کہ پاک بھارت اینٹلی جنس حکام ہمیشہ سے رابطے میں رہے ہیں۔وزیر خارجہ شاہ
محمود قریشی نے بھارت کے ساتھ کسی خفیہ بات چیت کا کھل کر اعتراف یا انکار
نہیں کیا۔ ڈان رپورٹ کے مطابق سرکاری حلقوں نے تصدیق کی کہ بھارت نے تناؤ
کو کم کرنے کے لیے دسمبر 2020 میں جموں و کشمیر سمیت تمام دیگر امور پر بیک
چینل مذاکرات کی پیش کش کی اور پاکستان نے اس کی بھرپور حمایت کی تھی۔بھارت
نے چین کے دباؤ کو کم کرنے کے لئے یہ پیشکش کی ۔ بھارتی پیش کش پر پاکستانی
قیادت کے درمیان تبادلہ خیال ہوا اور تنازعات کے پرامن حل کے لیے تمام
آپشنز کو بروئے کار لانے کا فیصلہ کیا گیا۔عمران خان صاحب کا ایک اہم بیان
آیا ہے کہ قومیں بمباری یا جنگوں سے نہیں کرپشن سے تباہ ہوتی ہیں۔ پی ٹی
آئی کے یوم تاسیس پر وزیراعظم کے پیغام میں یہ بات کہی گئی ہے۔ اس کا ایک
تاثر یہ ہے کہ عمران خان ملک میں کرپشن کے خاتمے کے لئے بھارت کے ساتھ بات
چیت کو ترجیح دیتے ہیں۔ بھارت نے پیش کش میں تجویز پیش کی تھی کہ جامع بات
چیت میں تمام مسائل ایک جگہ زیر بحث لانے کے بجائے دونوں ممالک تمام متنازع
معاملات پر بات چیت شروع کریں۔یہ جامع مذاکرات پہلے بھی ہوئے ہیں۔مگر یہ سب
بے نتیجہ رہے۔ پاکستانی قیادت نے ان تمام آپشنز پر اتفاق کیا تھا جو تناؤ
کو کم کرنے کا باعث بن سکتے ہیں۔شاید پاکستان نے اسے ایک مناسب موقع سمجھا
کہ اسٹریٹجک توقف کریں، تشدد سے دور ہو کر داخلی معاملات پر توجہ دی
جائے۔ڈان کے مطابق ذرائع نے تصدیق کی کہ بیک چینل مذاکرات دونوں ممالک کی
انٹیلی جنس کمانڈرز کے مابین ہو رہے ہیں۔ نئی دہلی کا موقف ہے کہ کسی سیاسی
پلیٹ فارم کے بجائے خفیہ مذاکرات ہونے چاہیے اور اسلام آباد نے اس پر اتفاق
کیا ۔بھارت ثالثی پالیسی کی مخالفت کرتا رہا ہے۔ مگر خفیہ ثالثی اس کے زیر
غور رہی ہے جس سے عوام کو پاکستان کے ساتھ دوستی کا پتہ نہ چلے کیوں کہ
بھارتی حکمران اپنے عوام کو بیوقوف اور گمراہ کرتے ہوئے پاکستان کے خلاف
نفرت پھیلا کر ہی اقتدار پر پہنچتے ہیں۔
ابتدائی مرحلے میں پاکستان کی بنیادی دلچسپی یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی
ریاستی حیثیت پر بحال کی جائے اور بھارت متنازع علاقے میں آبادیاتی
تبدیلیوں کو نہ لانے پر متفق ہو۔ دونوں حکومتوں نے ابھی اس اقدام میں کسی
تیسری پارٹی کو شامل نہ کرنے پر اتفاق کیا ہے۔جب کہ بھارت پہلے ہی آبادیاتی
تبدیلیاں کر چکا ہے۔لاکھوں غیر کشمیری ہندو باشندوں کو مقبوضہ کشمیر کی
شہریت دی گئی ہے۔ان کے حق میں ڈومیسائل جاری کی جا چکی ہیں۔بھارت کے قوانین
اب مقبوضہ کشمیر کی اسمبلی میں زیر بحث لائے بغیر ہی نافذ کئے جا رہے ہیں۔
مقبوضہ ریاست جسے دو بھارتی مرکز کے زیر قبضہ علاقہ قرار دیا گیا ہے ، میں
کشمیر کا پرچم اتار دیا گیا ہے۔ سرکاری عمارات پر اب بھارتی ترنگا لہرا رہا
ہے۔ گو کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے پاکستان اور بھارت دونوں نے اپنے مفاد
میں براہ راست اور بالواسطہ پالیسیاں اپنائیں اور ناکام ہوئے ہیں۔پاکستان
سمجھتا ہے گو کہ بات چیت کا راستہ قدرے پیچیدہ ہوگا لیکن اگر ہم اس پر قائم
رہے تو ہم اپنے مقاصد تک پہنچ سکتے ہیں۔بیک دوڑ بات چیت کو اس وقت دھچکا
لگا جب وفاقی کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) نے بھارت سے چینی
اور گندم کی درآمد کا اعلان کیا لیکن کابینہ نے فیصلے کی منظوری نہیں
دی۔وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سمیت چند وزرا نے اس اقدام کی مخالفت کی
تھی۔ اس الجھن کا خفیہ مذاکرات پر منفی اثر پڑا تھا اور حکومت پر سخت مؤقف
اپنانے پر دباؤ ڈالا گیا تھا۔تاہم ڈان ذرائع کا کہنا ہے کہ ’دھچکا‘ عارضی
تھا۔نئی معلومات سے پتا چلتا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے مابین ابتدائی بیک
چینل رابطے 2017 میں ہوئے تھے۔ڈان ذرائع کے مطابق متعلقہ سینئر بھارتی
عہدیداروں نے بات چیت شروع کرنے کے لیے پاکستانی انٹیلی جنس اور فوجی قیادت
کو ایک خفیہ پیغام پہنچایا تھا۔اس وقت کے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے اس
بیک دوڑ مذاکرات کو آگے بڑھایا جو پھر بتدریج جاری رہا تاہم دسمبر2020 میں
بات چیت میں غیرمعمولی اضافہ ہوا۔اس کے بعد سے اعتماد سازی کے متعدد
اقدامات ہوچکے ہیں جس میں سیز فائر لائن پر جنگ بندی معاہدہ بھی شامل
ہے۔رپورٹ کے مطابق کہا جاتا ہے کہ پاکستانی سول اور فوجی قیادت بھارت کے
ساتھ مذاکرات کے معاملے میں ایک ہی پیج پر ہیں۔
ماضی میں فوج کی بھارت کے ساتھ پالیسیوں پر منتخب قیادت سے اختلاف رائے
تھا۔ حکام اب کہتے ہیں کہ فوجی ہائی کمان جنوبی ایشیا میں قیام امن چاہتی
ہے۔ایک عہدیدارنے کہا کہ 'جنگ سے کبھی بھی مسائل کا حل نہیں نکالا اور دو
ایٹمی طاقتیں تنازعات کے متحمل نہیں ہوسکتیں'۔شاید وزیر اعظم کے جنگ کے
بارے میں بیان کو اسی تناظر میں لیا جا رہا ہے۔ان کا مؤقف ہے کہ فوجی قیادت
امن کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہوگی کیونکہ اب جنگ آپشن نہیں ہے۔کرپشن کو جنگ
پر ترجیح مل چکی ہے۔ پاکستان آج سرحدوں پر تصادم کی صورتحال میں پھنس جانے
کے بجائے صحت، تعلیم، بنیادی ڈھانچے اور آبادی پر قابو پانے جیسے معاملات
پر توجہ دینے کی ضرورت کو اہم سمجھتاہے ۔ ڈان نے اپنی رپورٹ کسی اہلکار کے
حوالے سے کہا کہ ہم ہمیشہ کے لیے تنازعات کا شکار نہیں رہ سکتے۔اسلام آباد
میں یہ بھی سمجھا جا رہا ہے کہ اگر ہم تاریخ کو دیکھتے رہے تو پرانے زخموں
کو دوبارہ کھولتے رہیں گے، بہت سے لوگ آج بحث کرتے ہیں کہ اگر ہم ماضی کی
غلطیوں کے یرغمال بنے رہیں تو آگے بڑھنا ناممکن ہوگا۔اب پاکستان کو مقبوضہ
کشمیر کے عوام، جنہیں مسائل اور تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے، انہیں راحت
فراہم کرنے کو یقینی بنانے پر توجہ دینی چاہیے۔ڈان کی یہ رپورٹ نئی اندازوں
کو جنم دیتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ایک عہدے دار نے بتایا کہ بعض اوقات ایک
قدم پیچھے ہٹنے سے دو قدم آگے بڑھ سکتے ہیں۔ سرکاری ذرائع اب اعتراف کرتے
ہیں کہ ہم 'جہادی' ثقافت سے دور ہورہے ہیں۔کوئی بھی جس پر ریاست قابو نہیں
رکھ سکتی وہ اثاثہ نہیں ہے وہ ایک ذمہ داری ہے۔عہدیداروں نے زور دے کر کہا
کہ ریاست معاشرے سے عسکریت پسندی کا خاتمہ اور پاکستان کو ایک ’عام‘ ریاست
بنانا چاہتی ہے۔
پاکستانی قیادت اب تنازعات کے حل اور خطے میں معمول کے حصول کے لیے پرعزم
ہے۔ قیادت کسی بھی قیمت پر پیچھے نہیں ہٹے گی۔وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی
نے ترک نیوز ایجنسیکے ساتھ انٹرویو میں اسی کی عکاسی کی ہے کہ پاکستان کے
بھارت کے ساتھ دیرینہ مسائل ہیں مثلاً کشمیر، سیاچن، سرکریک، پانی اور دیگر
معمولی مسائل اور اس پر آگے بڑھنے کا واحد راستہ مذاکرات ہیں۔وہ بھی کہتے
ہیں کہ ’’ہم جنگ کی طرف جانے کے متحمل نہیں ہوسکتے، آپ جانتے ہیں یہ دونوں
کے لیے خودکش ہوگا اور کوئی سمجھدار فرد اس نوعیت کی پالیسی کی حمایت نہیں
کرے گا، اس لیے ہمیں مل بیٹھنے اور بات کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘ پاکستان نہیں
بلکہ بھارت ہے جس نے پلوامہ حملے کے بعدبات چیت سے فرار اختیار کی اور جامع
مذاکرات کو معطل کردیا۔یوم پاکستان پر بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے
وزیر اعظم عمران خان کو خیر سگالی پیغام کا حوالہ دیا جا رہا ہے کہ اس کا
پاکستانی وزیر اعظم نے مثبت جواب دیا۔
بھارت کی بدترین ریاستی دہشتگردی اور کشمیریوں کے قتل عام کو پاکستان میں
ساس بہو کی لڑائی نہیں سمجھا جا نا چاہیئے۔ جب بھی پاکستان اور بھارت کے
درمیان بات چیت کی خبریں آتی ہیں، مقبوضہ ریاست میں بھارتی مظالم بڑھ جاتے
ہیں۔ بات چیت اور امن کی سب سے زیادہ ضرورت کشمیریوں کو ہے کیوں کہ وہ
جنگوں اور کشیدگی کے بری طرح شکار ہوئے ہیں۔ تا ہم بھارت چاہتا ہے کہ کشمیر
میں قبرستان جیسا امن ہو اور کشمیری سرینڈر کریں۔ عمران خان حکومت اگر
کرپشن کے خاتمے لئے بھارت سے بات چیت کے حق میں ہے تو یہ سب کشمیریوں کی
قیمت پر نہ ہو۔ اگر موجودہ حکومت سمجھتی ہے کہ وہ اس تنازعہ کو حل کرنے کی
پوزیشن میں نہیں یا ابھی اس کا موزون وقت نہیں تو وہ نئی دہلی کے ساتھ ایسا
کوئی معاہدے کرنے کا بھی نہ سوچے جو پاکستان اور کشمیریوں کے مفادات کے
منافی ہو۔پاکستان سیز فائر لائن اور سرحدوں پر جنگ بندی معاہدہ پر عمل سمیت
مقبوضہ کشمیر میں بھارت کو کشمیریوں کے خلاف جنگ بندی پر آمادہ کرنے کی طرف
بھی توجہ دے۔ جب بھی بھارت پر عالمی یا علاقائی دباؤ پڑتا ہے یا اس کی
پوزیشن کمزور ہونے لگتی ہے تو وہ ایک حکمت عملی کے تحت پاکستان کے ساتھ بات
چیت کی تشہیر کرتا ہے۔ مگر دباؤ ختم ہوتے ہی وہ نام نہاد بات چیت کے دروازے
بند کر دیتا ہے۔ پاکستان اس سلسلے میں بھارت کی کٹھ پتلی جیسا کردار ادا
کرتا ہے۔ اسلام آباد بھارت کی طے شدہ پالیسی کو سمجھنے کے بجائے جال میں
پھنس کر کشمیر میں اقوام متحدہ کے زیر اہتمام رائے شماری کے موقف سے بہت
دور چلا جاتا ہے۔اس میں عمران خان یا جنرل باجوہ کاکیا قصور ہے، گزشتہ
دہائیوں میں یہ سب عیاں ہوا مگر پھر بھی ارباب اقتدار نے ریاستی پالیسی کے
بجائے اپنی زاتی پالیسی تشکیل دینے میں ہی دلچسپی دکھائی اور نتیجہ وہی
نکلا جس کا خدشہ تھا۔ اسلام آباد کو افراد یا شخصیات کے بجائے پارلیمنٹ
سمیت مختلف نوعیت کی پر مغز اور سنجیدہ بحث کے بعد ریاست کی متفقہ پالیسی
تشکیل دے کر اس ہدف کا تعاقب کرنے پر غور کرنا چاہیئے۔بھارت خفیہ بات چیت
اس لئے کرتا ہے کہ وہ مسلہ کشمیر کے انٹرنیشنلائز ہونے سے گریز کرتا ہے۔
اگر بھارت سنجیدہ ہوتا تو وہ چھپ چھپ کر بات نہ کرتا۔ وہ پاکستانی
سفارتکاری کو ان خفیہ مذاکرات میں دفن کرنا چاہتا ہے۔پاکستان کو جس دنیا پر
بھروسہ ہے وہ یہاں جنگی حالات سے ہی اپنا زنگ آلود اسلحہ فروخت کرنے میں
دلچسپی لیتی ہے۔جنگی حالات چین یاکسی بیرونی سرمایہ کاری کے لئے مفید نہیں
مگر ایک فائدہ یہ تھا کہ دنیا بھارت پر بات چیت کے لئے دباؤ ڈال رہی تھی۔
پاکستان یہ حقائق سامنے لا کر دنیا کو خبردار کرسکتا ہے کہ بات چیت عالمی
گارنٹی میں مسلہ کشمیر کے حل پر مرکوز ہوتو نتیجہ خیز ہو سکتی ہے،خفیہ یا
دو طرفہ بات چیت وقت گزاری کا حربہ ہے، نئی دہلی اکھنڈ بھارت کے لئے کشیدگی
بڑھا کر ایٹمی جنگ کی خواہاں ہے،جس سے پوری دنیا متاثر ہو گی۔
|