میں ایک غیر ملکی ناول کا مطالعہ کر رہا تھا۔مصنف
کے انداز بیان اور طرز تحریر سے لگتا نہیں تھا کہ وہ باتیں کسی دوسرے دیس
کی کر رہا ہے۔ افراد، کردار، شہر ، قصبے،واقعات ، مذہب اور بہت کچھ مختلف
ہونے کے باوجود دکھ، درد اور تکلیفیں بہت سانجھی تھیں۔استعصال، طبقاتی
کشمکش، امیر اور غریب کا فرق، انصاف دینے کی بجائے انصاف بانٹنے والی
عدالتیں جو مختلف افراد کے ساتھ مختلف رویے پالتی اور اپنی مرضی کا انصاف
دیتی ہیں،فوجیوں کے اپنے مخصوص مفادات، بیوروکریسی کا عام آدمی کو کیڑے
مکوڑے جان کر برا سلوک، سیاستدانوں کے عوام کودھوکے اور فریب اور عوام کا
چند پیسوں کے وقتی حصول کے لئے ووٹ کا غلط استعمال، بڑے لوگوں کے سامنے
جھکنا بلکہ زیادہ بڑے نظر آئیں تو لیٹ لیٹ جانا، سب کچھ ایک جیسا تھا۔اس کے
ہر فقرے میں میرے معاشرے کا درد سمایا تھا، اس کی کہی ہر تکلیف لگتا تھا
شاید یہ میں بھی سہتا رہا ہوں اور سہہ رہا ہوں۔ اس کابیان کردہ ہر دکھ مجھے
اپنا لگا۔ شاید یہ پسماندہ ملکوں کا مشترکہ المیہ ہے کہ وہاں چند لوگ حکومت
کرتے ہیں باقی محکوم ہوتے ہیں۔جبر کا نظام بھی سب جگہ ایک جیسا ہی ہے۔
انصاف ان سب ملکوں میں طبقاتی ہے۔ با اثر لوگ اسے چھین لیتے ہیں اور غریب
کے مقدر میں دھکے ہی ہوتے ہے جو وہ مقدر سمجھ کر کھاتا اور پیتا ہے۔ ایسی
کہانیاں شاید مشرق کے ان تمام انسانوں کی ہیں، جہاں غربت اور جہالت اب تک
ڈیرے ڈالے ہیں۔ جہاں ایسی نام نہاد جمہوریت ہے کہ ووٹ ڈالنے والے کو خود
بھی احساس نہیں ہوتا کہ اپنے ووٹ کو اپنے خلاف ہی استعمال کر رہا ہے۔ہم بھی
مشرق کے اسی پسماندہ خطے کے بد قسمت لوگ ہیں۔
مصنف ایک جگہ لکھتا ہے ، جس ملک میں مچھر بھی زندگی کا لازمی حصہ ہوں وہاں
یہ انکشاف کرنے کی ضرورت نہیں کہ مچھر خون بھی چوستے ہیں اور بیماری بھی
پھیلاتے ہیں۔ کتنی سچی بات ہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ ہم خود مچھر پالتے اور
خود اپنا خون ان کو چوسنے کے لئے پیش کرتے ہیں اسی لئے ہمیں قلق نہیں ہوتا۔
ہمیں محسوس ہی نہیں ہوتا کہ ہم نے خود پر کیا ظلم کیا ہے۔شہروں میں لوگوں
کو پھر بھی شعور ہے، تھوڑا پسماندہ علاقوں میں چلے جائیں، وہاں لوگ فقط
خواب دیکھتے ہیں۔ پیروں میں جوتی اور کچھ بہتر کپڑے تو دور کی بات لوگ دو
وقت کی روٹی کو ترستے ہیں۔ پیٹ بھر کر کھانا مل جانا ان کے لئے بڑی بات
ہے۔مگر اپنے مچھروں کو پالتے ہیں۔ بڑی معمولی اور گھٹیا ضرورتوں کے لئے
اپنا مستقل تباہ کر دیتے ہیں۔مغرب اور ہماری صورت حالات میں بہت فرق ہے ۔پورے
یورپ میں حال ہی میں کرونا کی وجہ سے لاک ڈاؤن میں گھر میں بیٹھے ہر شخص نے
جینے کا ہر سامان حکومت سے وصول کیا اور حکومتوں نے بھی دل کھول کر لوگوں
کی مشکل گھڑی میں ان کا ساتھ دیا۔ہماری حکومتیں نہ تو اتنے وسائل رکھتی ہیں
اور نہ ہی ذہنی طور پر اتنی سوچ رکھتی ہیں۔ہمارے زیادہ لیڈر ہمارے پالے
ہوئے مچھر ہیں جن سے بھلائی کی توقع ہی غلط ہے۔
کرونا کے حوالے سے لوگوں کی مشکلات کا سوچتے مجھے یاد آیا، چند دن پہلے ایک
خاتون سے ملاقات ہوئی، صاف ستھرا لباس، بڑا باوقار انداز مگر وہ گھر کا
کوئی بھی کام کرنے کو تیار تھی، ہمہیں گھر میں صفائی والی عورت درکار تھی
اور وہ اسی بات کا سن کر کسی حوالے سے آئی تھی۔ انکار سن کر وہ رونے لگی کہ
خدا کے لئے کام دے دیں میرے گھر میں سوائے بھوک کے کچھ بھی نہیں۔میں نے
بھیجنے والے سے پوچھا کہ یہ عورت کون ہے، بہت ضرورت مند لگتی ہے تو پتہ چلا
کہ بیوہ ہے، دو بچے ہیں۔ سکول ٹیچر ہے۔ سکول سے آخری تنخواہ ملے عرصہ گزر
چکا۔میں نے اسے کہا کہ بتاؤ کونسا سکول ہے ۔ تنخواہ نہ دینے کے جرم میں
حکومت کو مالکان کے خلاف کاروائی کا کہتے ہیں۔بتانے لگی کہ میرے قریب ہی
گاؤں میں ایک چھوٹا سا سکول ہے جس کی مالک، اس کی دو بیٹیاں اور ہم تین
دوسری استاد مل کر اسے چلاتے ہیں۔ سکول عرصے سے بند ہیں۔ بچوں کے غریب ماں
باپ خود مسائل کا شکار ہیں ٍبچوں کی فیسیں دے نہیں سکتے۔سکول کی مالک خود
سکول بلڈنگ کا کرایہ نہیں دے سکی۔ مالک مکان نے سامان ایک کمرے میں بند
کردیا ہے اور سکول کے کمرے کسی اور کام کے لئے استعمال ہو رہے ہیں، کہتا ہے
کہ جب سکول کھلے گا، ہمیں کرایہ ملے گا تو سکول کی جگہ کی بات کرنا۔سکول
مالک خاتون کا حال بھی مجھ جیسا ہے میں اس کی پریشانیوں میں اور کیا اضافہ
کروں۔ اس ٹیچر کی داستان الم سن کر سوچتا ہوں ہمارے لیڈروں کو کبھی ریاست
میں لوگوں کی بلائی کا خیال ہی نہیں آیا۔ وہ مچھروں کی طرح صرف خون چوس
سکتے ہیں یا بیماری پھیلا سکتے ہیں۔تعلیم تو حکومتی ذمہ داری ہے۔ ایسے
حالات میں سکول میں اساتذہ کی تنخواہ بھی مملکت کو ادا کرنا ہوتی ہے۔اساتذہ
تو مانگ بھی نہیں سکتے، کیا کریں۔کس کو ان زندہ مزاروں کا خیال آتا ہے۔
پچھلے ستر سال یہی سوچتے گزر گئے اب جو امید نظر بھی آئی تھی وہ بھی دھندلی
ہوتا جا رہی ہے۔پتہ نہیں مافیاز زور پکڑ رہے ہیں یا نا اہلیوں کا کمال ہے
یا شاید ڈینگی پھر زور پکڑ رہا ہے۔
|