آخر کار 11ماہ کے طویل سسپنس اور
زندگی اور موت کے درمیان کشمکش ختم ہو گئی اور صومالی بحری قزاقوں کے نرغے
میں آنے والے 22افراد 23جون کو کراچی پہنچ گئے اس معاملے کو جس طرح بحسن و
خوبی پاک نیوی نے نپٹایا اس پر ہر طرف سے ان کیلئے صدائے تحسین بلند ہو رہی
ہے خصوصاََاس سلسلے میں میڈیا ،انصار برنی اورآئی ایس آئی چیف جنرل شجاع
پاشاکی بروقت اور پر خلوص کوششوں کو بھارت سمیت پوری دنیا میں سراہا گیا۔اس
واقعے نے جہاں ''دہشت گرد''پاکستان کا انسان دوست چہرہ دنیا کو دکھایا وہیں
''عظیم ترین جمہوریت''کے لبادے میں چھپا بھارت کا مکروہ چہرہ بھی ان نام
نہاد دانشوروں کے سامنے ننگا ہو گیا جو اس بنئے سے ''امن کی آشا''لگائے
ہوئے ہیں جس نے اپنے ہی ملک کے باسیوں کی رہائی کیلئے کوشش تو دور کی بات
ان کیلئے ایک دمڑی تک خرچ نہ کی ۔جب پی این ایس کی کراچی آمد پر گورنر سندھ
عشرت العباد اور پاک نیوی کے اعلیٰ افسران بنفسِ نفیس پورے عملے کے استقبال
کیلئے موجود تھے۔جبکہ یہاں بھی بھارتی حکومت کی طرف سے اخلاقی دیوالیہ پن
کا مظاہرہ اس وقت دیکھنے میں آیا جب بھارتی شہریوں کی دہلی ائر پورٹ آمد پر
کسی ادنیٰ وزیر کو بھی ائر پورٹ پر آنے کی توفیق نہ ہوئی البتہ بازیاب
ہونیوالے افراد کے اہلِ خانہ کی جانب سے پاکستان کیلئے بھرپور تعریفی کلمات
ادا کرنے کے ساتھ ساتھ ایسے بینربھی ضرور دیکھنے میں آئے جن پر پاک بحریہ
اور انصار برنی کے حق میں نعرے درج تھے اس موقع پر سب سے اہم بات ایک
بھارتی خاتون سمیتا آریا نے کہی جن کے شوہر رویندر سنگھ بھی اس قافلے میں
شامل تھے ائر پورٹ پر اس نے انتہائی جذباتی اور بےباکانہ لہجہ اختیار کرتے
ہوئے کہا''بھرتی شہریوں کے حوالے سے بھارت سرکار نے کوئی کردار ادا نہیں
کیا ہماری مدد پاکستان نے کی اس نے مزید کہا کہ میرے دادا نے ایک بار کہا
تھا کہ'' ایک سچے مسلمان کی دوستی سے بڑھ کر اس دنیا میں کوئی تحفہ نہیں
اور آج یہ سچ ثابت ہو گیا''
دلچسپ بات یہ ہے کہ جس روز پاکستانی کوششوں سے ان افراد کی واپسی ہوئی اس
سے ٹھیک ایک روز بعد پاکستان اور بھارت کے مابین ایک بار پھر مزاکرات سٹیج
کئے گئے جو حسبِ معمول ناکامی سے دوچار ہوئے کیوں کہ مزاکرات کے بعد جو
اعلامیہ جاری ہوا اس کے مطابق ایک دوسرے کے خلاف منفی پروپیگنڈہ
روکنے،انسدادِ دہشتگردی کیلئے تعاون،دوستانہ وفود کے تبادلوں اور نیو کلیئر
اور روائتی طاقت کے شعبوں میں ایک دوسرے کے ساتھ معلومات کے تبادلے پر تو
اتفاق کیا گیا لیکن دونوں ملکوں کے تعلقات میں رکاوٹ کی سب سے بڑی وجہ
مسئلہ کشمیر پر کوئی پیش رفت نہ ہو سکی جب اس بارے میں بھارتی سیکرٹری
خارجہ نرپما راﺅ سے سوال کیا گیا تو انہوں نے یہ گل افشانی کی کہ''بندوقوں
کے سائے اور دہشتگردی کی فضا میں ایسے دیرینہ اور حساس موضوع پر پیش رفت
ممکن نہیں ''لیکن افسوس اس موقع پر کسی زبان نے ان سے یہ سوال نہ پوچھا کہ
کس نے کشمیر میں 20سال سے بندوقوں کے سائے میں ظلم و ستم ،دہشتگردی کا
بازار گرم کر رکھا ہے ۔پاکستان کو امن کا درس دینے والی نروپما راﺅ سے کسی
نے یہ کیوں نہ پوچھاکہ بھارتی فوج کے ہاتھوں کم و بیش ایک لاکھ سے زائد
کشمیریوں کی شہادت،ہزاروں نہتے کشمیریوں کی معذوری ،بے شمار افراد کی
گمشدگی ،سینکڑوں عفت ماٰب بہنوں کی عصمت دری اور درجنوں مساجد کی شہادت کس
قسم کے امن کو ظاہر رہی ہے ؟لیکن ظاہر ہے کہ لاکھوں کی کشمیریوں کی قربان
گاہ پر دوستانہ وفود کے تبادلوں کی صورت میں ''×××× خانہ''تعمیر کرکے ''امن
کی آشا''کا خواب دیکھنے والوں کی زبانوں کو ایسے ''انتہا پسندانہ''سوالات
زیب نہیں دیتے لیکن خدا کا قانون ہے کہ سچ کبھی چھپتا نہیں اسکو جتنا مر ضی
چھپاﺅ ایک دن سامنے آکر ہی رہتا ہے جیسا کہ گزشتہ دنوں ایک بھارتی دانشور
رام جیٹھ ملانی نے مقبوضہ کشمیر کے دورہ کے دوران کشمیریوں پر ہونے والے
مظالم کا بھانڈہ ان الفاظ میں پھوڑا''بھارت فوج کشمیر میں نازی طرز کا ظلم
کررہی ہے کٹھ پتلی حکومت لوگوں کے ساتھ ناانصافیاں کر رہی ہے انہوں نے کہا
کہ کشمیر میں غیر ضروری طورپراحتیاطی گرفتاریوں کے قوانین رائج ہیں جن کا
غلط استعمال کیا جاتا ہے اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو لوگ ''متبادل''راستوں
کا انتخاب کرنے پر مجبور ہوں گے'' یہاں پر ایک اہم نقطعہ یہ بھی ہے کہ
امریکی صدر اوبامہ نے الیکشن کمپین میں مسئلہ کشمیر حل کرنے کا وعدہ کیا
تھا اور برطانیہ بھی اپنے ہی پیدا کردہ اس مسئلے کے حل کیلئے اہم کردار ادا
کرسکتا تھا لیکن بھارت نے اپنی کامیاب سفارتکاری کے ذریعے دونوں ملکوں کو
اس بات پر رام کرلیا ہے کہ کشمیر بھارت کا اندرونی معاملہ ہے جسے ہم خود ہی
''جمہوری'' سے حل کر لیں گے۔ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان سب سے
پہلے پوری دنیا میں تعینات سفیروں کو خصوصی ٹاسک دے کہ دنیا کے سامنے بھارت
کا اصلی روپ پیش کریں اور اقوامِ متحدہ سمیت تمام بڑے اداروں میں کشمیر کے
حوالے سے پاکستان کے اصولی موقف کو سامنے لائیںخصوصاََاقوامِ متحدہ میں
بھارت کی مستقل نشست حاصل کرنے کی کوششوں کی بھرپور مزاحمت کی جانیکی اشد
ضرورت ہے کیوں کہ اگر بھارت سلامتی کونسل کا مستقل رکن بن گیا تو پھر مسئلہ
کشمیر ہمیشہ کیلئے سرد خانے کی نظر ہو سکتا ہے۔ |