کٹ مرا ناداں خیالی دیوتاﺅں کیلئے
سکر کی لذت میں تو لٹواگیا نقد حیات
دنیا میں انسان کواللہ کی حکمت و قدرت کے تحت اس میں اتارا گیا بلکہ حقیقت
تو یہ ہے کہ دنیا انسان کیلئے ہی بنائی گئی تھی کہ انسان کو اس میں داخل
کرکے ایک امتحان سے گزارا جائے تاکہ ملعون ابلیس و شیطان ذلت کا طوغ پہنے
برباد رہے ، وہ اک نافرمانی جو ابد تک کیلئے ابلیس و شیطان بنادی تو کیسے
گوارہ تھا اس شیطان کو کہ وہ انسان کو چھوڑ بیٹھے، رب العزت سے مان لی مہلت
تا قیامت کہ بہکاﺅنگا، گمراہ کرونگا ہر طرف سے کہ انسان بھی چین نہ پائے
آسانی سے ، رب الکائنات نے فخر کیا اپنے نائب پر کہ ہونگے ایسے انساں جن پر
ناز کریں گے کروبیاں، مانا کہ کچھ بہکے گے تو جلیں گے نار میں ، جو تیرے
چال میں نہ آئیں گے پائیں گے جنت میں ۔۔۔۔۔پھر انساں اتارا گیا دنیائے فانی
میں ، لگ گیا پیچھے شیطاں بہکانے میں، کبھی قدم لرزتے تھے تو کبھی ڈگمگاتے
تھے، جب پکارا انساں نے رب کو سنبھالا خود کو، سبق ملا پیغمبروں سے راہ ِ
ہدایت کا، منزل کا اور کامیابی کا، کہ جام پی لے شہادت کا، پھیلا دے امن
پیغام اسلام کا، کہ ہے سب سے نفیس و اعلیٰ یہ مذہب اسلام ، کہ دیتا ہے ہر
انساں کو عزت و مقام ۔۔۔۔۔۔مختصراً یہ کہ لگ بھگ ایک لاکھ انبیاءکرام اس
دنیا میں اللہ کی حکمت و دانائی اور انسان کو پیغام یاد دلانے آئے کہ انہیں
کس مقصد کیلئے اس جہاں میں بھیجا گیا ہے لیکن ان میں کسی نے مانا اور کسی
نے نہ مانا جس نے مانا وہ فلاح پاگئے اور جس نے انکار کیا وہ گمراہ ہوکر
جہنم رسد ہوئے ۔۔۔۔ آخری نبی کریم ﷺ نے انسان کے ہر پہلوﺅں کو اجاگر کرتے
ہوئے عملی طور پر بتایا کہ انسان مقصد حیات کو سمجھ لے اور ابلیس و غبیث کے
چنگل میں نہ پھنسے، آپ ﷺ کی تربیت و اصلاح تمام نبیوں سے اعلیٰ ترین تھی
اسی لیئے آپ کے صحابہ کرام نبی کریم ﷺ کے نقش قدم پر سختی سے عمل پیرا رہے
اور آپ ﷺ کی تربیت کا یہ اثر تھا کہ سیاست میں اعلیٰ ترین مصلحت، منطق،
تدبیر، سچائی، حکمت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، خلفائے راشدہ کے دور میں
تربیت محمدی نظر آتی ہے نظام حکومت کا ایسا دور ہے کہ ایک جانور بھی بھوکا
نہیں سوتا، خلیفہ شب بھر سجود و استغفار میں اور دن بھر خدمت الناس میں ،نہ
حفاظت کیلئے پاسباں تو نہ سواری کیلئے سہولتیں ، تھا خوف صرف اور صرف اللہ
سے، بندوں سے کیا ڈرنا ۔۔۔۔۔!! گو کہ خیال یہی رہتا تھا کہ کہیں سرزشت نہ
ہوئے حقوق العباد میں ، معاف نہ کریگا رب بعد عباد کے،گر گئے حکومت اعلیٰ
سیاسی حکمتوں سے ، نہ جھوٹ بولا، نہ حق ضبط کیا، نہ مکر وفریب کا سہارا لیا
، نہ منافقت کا لبادہ اوڑا، نہ غلامی میں کی بسر حکومت، صرف اللہ سے تقویٰ
رکھا تو پھر دیا رب نے انعام اسی دنیا میں بھی دیا کہ نام بھی اعلیٰ ، مقام
بھی بلند، زمین زیر کردی ، آسمان بھی جھکا ڈالا،ریاست کو پھیلا دیا ، امن
کا گہوارا بنادیا، تہذیب بھی شرماتی، ادب بھی جھکتا کہ ہے مقام یہ فرشتوں
سے اعلیٰ۔۔۔۔۔۔ پاکستان اسلامی جمہوری مملکت ہے لیکن یہاں کہیں بھی اسلام
کی اصل روح نظر نہیں آتی، عوام الناس میں مادیت پرستی کا رجحان بڑھتا جارہا
ہے اسی لیئے یہ اسلام اور اس کی روح سے روح گراں ہورہے ہیں ، اللہ کا فرمان
ِ عالیشان ہے کہ جو مجھے یاد رکھتا ہے میں اسے اچھے محفل میں یاد رکھتا ہوں
اور جو میرے احکام پر عمل پیرا ہوتا ہے تو میں اس کو انعام و اکرام سے
نوازتا ہوں ، جو مجھ سے ڈرتا ہے میں اس کی حفاظت کا ذمہ لیتا ہوں اسی لیئے
علامہ اقبال رحمة اللہ علیہ نے کہا :
وہ اک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدوں سے دلاتا ہے آدمی کو نجات
حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان میںلیاقت علی خان کے بعد جمہوریت کا جنازہ نکل
گیا تھا صرف جمہوریت کا نام ہے لیکن آمریت سے بھی زیادہ بد تر سیاسی نظام
رائج ہے ، پاکستان میں لاشوں کی سیاست ایک فیشن کا روپ دھار چکی ہے ، بغیر
عوام کی بھینٹ کے کوئی بھی بات نہیں کی جاتی، مسئلہ اگر درپیش آجائیں تو
سیاسی لیڈران بند کمروں میں بیٹھ کر حکم صادر کرتے ہیں اور معصوم لوگوں کی
لاشوں پر گنتی ،اپنے عیش و تعائش کی خاطر عوام الناس پر ٹیکسوں کو بوجر اس
قدر لاد دیتے ہیں کہ غریب خود کشی پر اتر آتا ہے، کچھ سیاسی لیڈروں کی پشت
پناہی میں چھوٹے علاقوں میں غریب لڑکیوں کی عزت تار تارکرڈالتے ہیں اب تو
بڑے شہروں میں بھی معصوم بچیاں وحشی درندوں کی بھینٹ سے بھی بچ نہیں پاتیں
کیونکہ اس مجرموں کی پشت پناہی سیاسی لیڈران کے ساتھ ساتھ پولیس اور عدلیہ
میں فروخت ہونے والا قانون ہے۔ عرصہ دراز سے پاکستانی عوام اپنے لیڈران کو
غیر سنجیدہ دیکھ رہے ہیں ان کے قول و فعل میں مکمل تضاد پایا جاتا ہے ہر
بار جھوٹے وعدے اور ایک دوسرے کی خامیوں پر تنقید ان کی علامت بن چکی ہے،
یکجا ہوکر ملک و قوم کی فلاح کیلئے کیونکر سوچیں، اگر ایسا کریں گے تو عوام
خوش حال ہوجائے گی یہ گوارا نہیں لیڈران پاکستان کو کہ عوام الناس کو چھوٹے
چھوٹے مسائل میں الجھاتے رہو ، عوام اپنے مسائل کو حل کرنے میں جت جائیں
اور یہ لیڈران قومی خزانے کی پائی پائی کو چرا ڈالیں کہ نہ ہو زر کبھی بھی
قومی خزانے میں ،کہ نہ کام آئے عوام کے معاشرے میں۔در حقیقت پاکستان میں
الیکشن نہیں سلیکشن کا نظام رائج ہے ، یہاں عوام الناس کے ووٹوں سے لیڈران
کامیاب نہیں ہوتے بلکہ کہیں اپنی طاقت سے،تو کہیں معاہدہ سے منتخب ہوتے ہیں
، پاکستان الیکشن کمیشن کا نظام انتہائی فرسودہ اور ناکارہ ہے، اس نظام میں
تبدیلی نا گزیز ہوچکی ہے ، اسے ان دس نکات کے تحت عمل پیرا ہونا پڑیگا وہ
دس نکات یہ ہیں :
٭پہلا مرحلے میں ۔۔۔۔
الیکشن کمیشن شمارہ جات کو کمپوٹرائز فارم مہیا کرے جو نادرا کے ڈیٹا سے
مطابقت رکھتا ہو
٭دوسرے مرحلے میں ۔۔۔۔
ڈیٹا کو ری چیک کیلئے ایک بار فائلیں عوام کو دکھائی جائیں
٭تیسرے مرحلے میں ۔۔۔۔
فائنل کے بعد اس ڈیٹا کو انٹری کردیا جائے
٭چوتھے مرحلے میں ۔۔۔۔
تمام ووٹرز کی اسکینگ ڈیٹا تیار کرے، اس اسکینگ ڈیٹا میں ووٹرز کی آنکھ،
چہرہ، انگوٹھا کی اسکینگ ہو
٭پانچویں مرحلے میں ۔۔۔۔
الیکشن کے دن ہر بوتھ پر کمپیوٹرائز سسٹم لگایا جائے پہلے سے موجود ووٹرز
کا ڈیٹا اور اسکین موجود ہو۔
٭چھٹے مرحلے میں ۔۔۔۔
بوتھ پر کمپیوٹرائز میں اس حلقہ کے امیدوار کا انتخابی نشان، تصویر کے ساتھ
موجود ہو اور سامنے کلک کا نشان دیا گیا۔
٭ساتویں مرحلے میں ۔۔۔۔
پولنگ آفیسر اپنے کمپیوٹر سے (جس میں اس حلقہ کے ووٹر کا ڈیٹاموجودہے ) ری
چیک کرے۔
٭آٹھویں مرحلے میں ۔۔۔۔
اسسٹنٹ پریزائیڈنگ آفیسر اپنے کمپیوٹر سے (جس میں اس حلقہ کے ووٹر کااسکین
موجودہے جس میں انگوٹھے کااسکین، آنکھ کا اسکین اور چہرے کا اسکین شامل ہے
) کو ری چیک کرے، اور ووٹر کو ووٹ ڈالنے کی رہنمائی بھی کرے۔
٭نویں مرحلے میں ۔۔۔۔
پریزائیڈنگ آفیسر وقت کے اختتام پر کمپیوٹر سے ڈیٹا کی کاپی پرنٹ کریگا جس
میں دن بھر سے ڈالے گئے ووٹوں کی گنتی آٹو میٹک سسٹم سے کی ہوئی ہوگی۔
٭دسویں مرحلے میں ۔۔۔۔
پریزائیڈنگ آفیسر کمپیوٹر سے ووٹنگ ڈیٹا کی پرنٹ پر تمام امیدواروں کے
نمائندوں سے دستخط لیکر نتیجہ کا اعلان کریگا۔
اس کمپیوٹرائز نظام کی تشہیر اور تربیت کیلئے الیکشن کمیشن مختلف پوائنٹ
بناکر عوام الناس کو روشناس کرانے کے ساتھ ساتھ ان میں ووٹ کی اہمیت کا
شعور بھی بیدار کریگا تاکہ ایوانوں عوام الناس کے ہی منتخب نمائندگان آئیں
اور دھاندلی کا بازار ہمیشہ کیلئے ختم ہوجائے اور پاکستان نئے عزم، نئے
لیڈران کے ساتھ روشن مستقبل کی جانب گامزن ہوسکے ایسا پاکستان جہاں سیاسی
تماشے نہ ہوں عوام الناس کو بےوقوف بنانے کیلئے۔۔۔۔۔!!ممکن ہے اس نظام سے
تمام سیاسی پارٹیاں متفق ضرور ہونگی کیونکہ تمام پارٹیوں کو الیکشن میں
دھاندلی کا خدشہ رہتا ہے ، اس نظام میں کہیں کوئی بظاہر لچک تو نہیں دکھتا
پھر بھی سسٹم اینالسٹ یعنی کمپیوٹر کے ماہرین اس کو اعلیٰ شکل پیش کردیں
گے۔ |