یہ ایک تاریخی اور بد نما حقیقت ہے کہ مغرب کی جانب سے
اسلام کے تشخص کی غلط تشریح کی جاتی رہی ہے ، جدید تعلیم سے آراستہ و ترقی
یافتہ ہونے کے باوجود مغرب کی سوچ وقیانوسی ، قدامت پسند و تعصب پر مبنی ہے
۔ اسلام کے نام لیواؤں کو اسلام فوبیا کی عالمی صور ت حال کے نشیب و فراز
،مختلف النوع چیلنجز اور پابندیوں کے اعصاب شکن عذاب کا سامنا رہتا ہے ،
ملت مسلمہ میں خصوصی طور پر پاکستان کو نشانہ بنا یا جاتا ہے ،شعائر اسلام
بالخصوص نبی آخر الزماں حضرت محمد ﷺ کی شان میں گستاخیوں کو اظہار رائے کی
آزادی قرار دے کر فسطائیت کے مظاہرہ کیا جاتا ہے۔
یورپی یونین نے اپنی معتصبانہ سوچ کے تناظر میں پاکستان پر دباؤ بڑھانے کے
لئے ایف اے ٹی ایف اجلاس سے قبل ایک بار پھر گھناؤنا وار کرتے ہوئے توہین
مذہب کے قانون کے خلاف زمینی حقائق کے برخلاف قراداد منظور کی اور بیرون
ملک بر آمدات کے لئے ترجیحی اسٹیٹس ’جی ایس پی پلس‘ پر نظرِ ثانی یا ختم
کرنے کا مطالبہ کردیا ۔ یورپی یونین کی قرار داد میں حقائق کے برخلاف توہین
مذہب کے قانون کی غلط تشریح بیان کی گئی ۔ قراداد میں توہین مذہب کے قانون
295-C , B کے خاتمے کے لئے دباؤ ڈالا گیا ، یورپی یونین سمیت اقوام عالم کو
مسلم امہ کی جانب سے بارہا، باور کرایا جاتا ہے کہ امت مسلمہ میں اسلام ،
قرآن کریم ، حضرت محمد مصطفی ﷺ اور مقدس ہستیوں سے عقیدت و احترام اپنی جان
سے بڑھ کر کیا جاتا ہے ، جہاں تک پاکستان میں توہین مذہب کے قانون کی بات
ہے تو عملی طور پر مغرب ، قانون کی عملدرآری کے آگے ہمیشہ رکاؤٹ بن جاتا ہے
، اس سے انکار نہیں کہ کسی بھی قانون کا غلط فائدہ ، غلط لوگ ہی اٹھاتے ہیں
، لیکن اس سے یہ ثابت نہیں کیا جاسکتا کہ قانون غلط ہے ۔
یہ امر قابل غور طلب ہے کہ یورپی یونین کی قرار داد ایک ایسے وقت لائی گئی
ہے جب کہ ایف اے ٹی ایف پر پاکستان مکمل عمل درآمد کررہا ہے اور ممکنہ جون
2021کے اجلاس میں گرے لسٹ سے نکالنے کا حتمی فیصلہ بھی متوقع ہے۔ پاکستان
کو گرے لسٹ سے رہنے کی سعی میں اس بار فرانس نے کلیدی کردار ادا کیا ،
حالاں کہ بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ، منی لانڈرنگ ، انتہا
پسندی سمیت سنگین جرائم کے ناقابل تردید شواہد موجود ہونے کے باوجود کوئی
کاروائی نہیں کی جاتی ، بلکہ بھارتی لابنگ کے نتیجے میں مسلسل پاکستان کو
گرے لسٹ میں رکھ کر دباؤ ڈالا جاتا ہے ، فرانس کے سفیر کو ملک بدر کرنے کے
حوالے سے پاکستانی پارلیمان میں قرار داد کا معاملہ حکومت ڈیل کرنے کی کوشش
کررہی ہے ، اس حوالے سے اہم اقدامات بھی اٹھائے گئے ہیں ، تاہم ہر گستاخ
رسول ﷺ کی حمایت کرنا اور انہیں بے گناہ قرار دے کر یورپی ممالک میں پناہ
دینے کا سلسلہ ایک عرصے سے جاری ہے ، کئی واقعات میں دیکھاچکا ہے کہ ہجوم
کو مشتعل کیا جاتا ہے اور نا خوشگوار واقعات بھی رونما ہوجاتے ہیں ، لیکن
اس کا بھی کچھ محرک بنتا ضرور ہے ، اگر فرانس سمیت دیگر یورپی و مغربی
ممالک سمیت امریکہ میں توہین اسلام کے واقعات نہ ہو ں اور تمام مذاہب کی
طرح اسلام ، قرآ ن اور رحمت العالمین ﷺ کا احترام کیا جائے تو ناخوشگوار
واقعات رونما نہ ہوں ، بالخصوص پاکستان میں ایسے واقعات کو بڑھا چڑھا کر
اشتعال انگیزی تک لے جانے میں ملک دشمن ایسے عناصر ملوث پائے گئے ہیں جو
فرقہ وارانہ، مسلک و نسلی و لسانی بنیادوں پر خانہ جنگی کرانا چاہتے ہیں ۔
یورپی یونین کو دراصل ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے قرار داد لانی چاہیے
، جس میں تمام مذاہب کا احترام ، تمام انسانوں کے لئے یکساں قرار دیا گیا
ہو، تمام مذہبی شخصیات اور شعائر کی توہین کرنے کو عالمی جرم قرار دیا جائے
لیکن یورپی یونین نے اسلام مخالف جذبات رکھنے والے رکن کی قرارداد کی
منظوری کرکے اقوام عالم کو دو بلاکوں میں واضح طور پر تقسیم کردیا ،
پاکستان میں اشتعال انگیز واقعات کی آڑ میں جو ذاتی مقاصد حاصل کرنے کی
کوشش کی جاتی ہے اس کی حقیقت بھی سامنے آجاتی ہے ، مملکت عالمی برادری کی
خواہشات کے مد نظر اپنے قوانین پر کماحقہ عمل درآمد کرنے میں دونوں جانب سے
دباؤ کا سامنا بھی کرتی ہے ، ایک دباؤ عوام کی جانب سے اور دوسرا دباؤ
مغربی ممالک کا ہوتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ آج تک کسی بھی توہین مذہب کے مجرم
کو سزائے موت نہیں دی جاسکی ۔ یورپی یونین نے بار بار جن دو افراد کا ذکر
کیا ہے اور توہین مذہب کا حوالہ دیا ہے ، اس پر عدلیہ کا فیصلہ آچکا۔ اسلام
دشمنی کی شکل ہوگی کہ جس کی جو مرضی ہو ، وہ اسلام ، قرآن کریم ،نبی اکرم
حضرت محمد ﷺ ، و مقدس شخصیات کے خلاف (نعوذ باﷲ ) کہتا رہے ، اسے نام نہاد
آزادی اظہار رائے کا نام دے ، ضمانت کروائے ، بیرون ملک پورے خاندان کے
ہمراہ غیر ملکی شہریت حاصل کرے۔
کیا غیر مسلم دنیا یہ نہیں جانتی کہ دنیا میں دہشت گردی ،انتہا پسندی کے
خلاف جنگ میں سب سے زیادہ نقصان مسلم اکثریتی ممالک کا ہوا ، جانی نقصان
بھی مسلمانوں کا زیادہ ہوا ہے ، خانہ جنگی و فرقہ وارنہ چپقلش بھی عالمی
قوتوں کی پراکسی وار کی وجہ سے عام مسلمانوں پر مسلط کی گئی ہے ، بالخصوص
پاکستان انتہا پسندی سے جتنا نقصان اٹھا چکا ، اس پر ہونا تو یہ چاہیے تھا
کہ انتہا پسندی کے خلاف جنگ میں کامیابی کے لئے یورپ ، مغرب و امریکہ
پاکستان کی حوصلہ افرائی کریں اور ایسے عفریت سے نمٹنے کے لئے ریاست کی مدد
کرتے، لیکن جب بھی ایف اے ٹی ایف کے اجلاس قریب آتا ہے یا پھر عالمی قوتوں
کو اپنے ہی پیدا کرنا بحران سے نکلنے کی کوئی سبیل نظر نہیں آتی تو وہ
پاکستان پر دباؤ ڈالنے کے لئے ایسے حربے استعمال کرتے ہیں جس کی شرم ناک
مثال یورپی یونین کی قرارداد سے سمجھی جا سکتی ہے کہ توہین مذہب کے قانون
کو سمجھے بغیر یکطرفہ اقدامات سے مسلم امہ میں اپنے لئے نفرت کو فروغ دے
رہے ہیں ،یورپی یونین کو زمینی حقائق کے مطابق قرار داد پر ردعمل دینا
چاہیے تھا ، کیونکہ اس سے اقوام عالم کو اسلام فوبیا کے خلاف اقدامات کو
سمجھنے میں مدد ملتی۔
|