تقریبا چھ ماہ پابند سلاسل رہنے کے بعد میاں شہباز شریف
کی لاہور ہائیکورٹ سے ضمانت ممکن ہوسکی، ضمانت سے متعلق لاہور ہائی کورٹ نے
فل بینچ کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیاہے۔ جسٹس علی باقر نجفی، جسٹس شہباز
رضوی اور جسٹس عالیہ نیلم پر مشتمل 3 رکنی بنچ نے 27 صفحات پر مشتمل فیصلہ
جاری کیا،عدالتِ عالیہ کے تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پراسیکیوشن سے
اخلاقیات کے اعلیٰ معیار کے مظاہرے کی توقع کی جاتی ہے۔عوامی نمائندے پر
کرپشن کے الزامات سے سیاسی نقصان پہنچتا ہے جو شکست کی ایک قسم ہے، پبلک
آفس ہولڈر کو سو فیصد مسٹر کلین ہونا چاہیے، فرد کی آزادی کے بنیادی اصول
مدِنظر رکھنا ہماری ذمے داری ہے، عوامی عہدے پر کرپٹ شخص آ جائے تو جمہوری
نظام پر عوام کا اعتماد چکنا چور ہو جاتا ہے، آزادی کے بنیادی اصولوں کی
بنا پر ضمانت منظور یا مسترد کی جاتی ہے۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ نیب نے
اعتراف کیاکہ شہباز شریف پر کک بیکس یا ناجائز رقم وصول کرنیکا الزام نہیں
ہے، درخواست گزار کے ذرائع آمدن بھی معلوم کرنے کیلئے تفتیش نہیں کی گئی،
شہباز شریف کے اکاؤنٹ میں ٹی ٹیز آنے کا کوئی ثبوت نہ دیا گیا، عوامی
نمائندے پر کرپشن کے الزامات سے سیاسی نقصان پہنچتا ہے۔ تفصیلی فیصلے میں
کہا گیا ہے کہ ضمانت بعد از گرفتاری میں آزادی کے اصولوں پر آنکھیں بند
نہیں رکھ سکتے،شہباز شریف کیس مزید انکوائری کا متقاضی ہے، شہباز شریف کے
اکاؤنٹ میں ٹی ٹیز آنے کا کوئی ثبوت نہ دیا گیا۔شہباز شریف کے فیملی ممبرز
کا ان کی کفالت میں ہونے کا براہِ راست ثبوت نہیں دیا گیا،عدالتی تفصیلی
فیصلے میں ضمانت منظور کرنے کیلئے 5 اہم فیصلوں پر انحصار کیا گیا ہے،
پراسیکیوشن کے شہباز شریف پرمنی لانڈرنگ کے الزام کو بطور ناقابل تردید سچ
نہیں مانا جاسکتا ہے،ہم صرف ضمانت کا فیصلہ دے رہے ہیں۔شہباز شریف کے خلاف
ثبوت ابھی آنا باقی ہیں، پراسیکیوشن نے ٹرائل کورٹ میں 110 گواہان کی بنیاد
پر ابھی شہباز شریف کے خلاف اپنا کیس قائم کرنا ہے میاں شہباز شریف کو سزا
سنائے جانے یا انکے بری ہونے کے برابر امکانات ہیں۔ بے دلی سے شہباز شریف
کو مجرم ثابت کرنیکی کوشش کے باوجود نیب ثبوت دینے ذمہ داری سے بری نہیں
ہوسکتا، الزام کو ثابت کرنے کا سارا بوجھ ہمیشہ پراسکیوشن پر ہوتا
ہے۔،عدالت متفقہ طور پر سمجھتی ہے کہ سنجیدہ وجوہات کے باعث شہباز شریف شک
کا فائدہ دیئے جانے کے اہل ہیں،شہباز شریف کے خلاف عدم ثبوت پر بنچ جسٹس
سردار محمد سرفراز ڈوگر کے ضمانت دینے کے فیصلے سے متفق ہے۔
دوسری طرف لند ن میں شہباز شریف کی جانب سے اخبار ڈیلی میل اور انکے صحافی
ڈیوڈ روز کے خلاف مشہور زمانہ ہتک عزت کے دعوی ٰ میں اخبار اور صحافی کے
وکلاء نے عدالت میں ثبوت پیش کرنے کے لئے مزید چار ماہ کی مہلت کی درخواست
دائر کردی ہے۔انکے بقول Covid 19 کی بناء پر ثبوت اکٹھا کرنے میں تاخیر
ہورہی ہے جس بناء پر وہ مقررہ تاریخ تک عدالت میں ثبوت پیش نہ کرسکے۔لندن
ہائی کورٹ کے جسٹس سر میتھیو نِکلن نے فروری 2021 کے پہلے ہفتے میں ایک
ٹائم لائن طے کی تھی، جس میں اخبار کو اپریل 2021 کے آخر تک ثبوت پیش کرنے
کے لئے کہا گیا تھا۔ سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور ان کے داماد علی
عمران یوسف کے وکلاء جو ڈیلی میل کو ثبوت اکٹھا کرنے کے لئے مزید وقت دینے
پر راضی ہوگئے۔ تاہم شہباز شریف کے وکلاء نے اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے کہ
ڈیلی میل تاخیر کا حربہ استعمال کر رہا ہے۔یاد رہے ڈیلی میل میں صحافی ڈیوڈ
روز کے آرٹیکل میں لکھا تھا کہ شہباز شریف نے اپنے دور اقتدار میں برطانیہ
کے ادارے کی جانب سے زلزلہ زدگان کی بحالی کے لئے دی گئی امداد میں خوردبرد
کی ہے۔، مگر جب شہباز شریف نے لندن کی عدالت میں کیس دائر کیا تو وہاں پر
ڈیلی میل اور صحافی ڈیوڈ روز کو منہ کی کھانی پڑی اور انکو یوٹرن لینا پڑا
اور یہ کہنا پڑا کہ کرپشن کا براہ راست کوئی ثبوت انکے پاس نہیں ہیں لیکن
چونکہ شہباز شریف اور انکی فیملی کے رہن سہن اور پرتعاش زندگی کو سامنے
رکھتے ہوئے یہ آرٹیکل لکھا گیاتھا۔اسلئے وہ سمجھتے تھے کہ کرپشن کی گئی ہے،
اور مزید ثبوت پیش کرنے کے لئے عدالت سے کچھ وقت مانگ لیا۔
پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب کی تاریخ کے سب سے زیادہ متحرک وزیراعلیٰ
شہباز شریف جس کو چین والے ”پنجاب سپیڈ“ کا خطاب دیا کرتے تھے۔ انکے خلاف
لگائے گئے کرپشن کے سنگین الزامات اور مقدمات خود اپنی موت آ پ مر رہے ہیں۔
پاکستان کے اندر اور پاکستان کے باہر کرپشن کے الزامات کی حقیقت کیا ہے درج
بالا مقدمات کے ضمنی فیصلوں ہی سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ان دونوں
مقدمات میں الزام لگانے والوں کے پاس عدالت میں پیش کرنے کے لئے ثبوت ہی
موجود نہ تھے۔یعنی کرپشن کا کوئی ثبوت نہیں لیکن مقدمات اور آرٹیکلز پہلے
درج کردئیے گئے جنکی بناء پر مخالفین کوبدنامی کے بدنما داغوں کا سامنا اور
جیلوں کی ہوائیں کھانی پڑی۔ڈیلی میل کے آرٹیکل پر پاکستان میں حکومت وقت کی
جانب سے صحافی ڈیوڈ روز کو بہت شاباش دی گئی اور شب و روز ٹی وی چینلز پر
بیٹھ کر ڈیوڈ روز کے آرٹیکل کو من و عن تسلیم کیا گیا۔ جبکہ حقیقت اسکے
بالکل برعکس نکلی۔ اور برطانوی صحافی ڈیوڈ روز سابق وزیراعلی شہباز شریف کے
خلاف عدالت میں کرپشن کا ایک بھی ثبوت اب تک پیش نہ کرپایا۔
یہ کیسا احتساب ہے یہ کیسے کرپشن کے راگ ہیں جو صبح و شام ٹی وی سکرینوں،
پریس کانفرنسوں میں کاغذ ہلا ہلا کر الاپے گئے۔وہ ایک محاورہ ہے جو کہ
شہباز شریف پر بالکل فٹ بیٹھتا ہے کہ ”بد سے بدنا م بُرا“۔ جتنا میڈیا
ٹرائل شہباز شریف کا ہوچکا اور جتنی جیل یاترا شہباز شریف کے حصہ میں آئی
ہے اسکی مثال دیکھنے کو نہیں ملتی۔اس تمام سٹوری کا افسوسناک پہلو یہ بھی
ہے کہ بغیر ثبوتوں کے کسی پر بھی الزامات کی بوچھاڑ کردی جائے اور صبح و
شام ٹی وی چینلز پر بیٹھے ہوئے ہرکاروں کے ذریعہ سے ٹی وی چینلز پر ہی
عدالت لگالی جائے اور کرپٹ بھی ثابت کردیا جائے۔ اور جب حقیقی عدالت میں
عدم ثبوت کی بناء پر جیل میں پڑے ہوئے قیدیوں کو کوئی ریلیف ملے تو پھر
بکاؤ عدلیہ جیسے گھٹیا الزامات اور ٹویٹر ٹرینڈ چل جاتے ہیں۔بہرحال اس تمام
ڈرامہ بازی میں اک مقبول عوامی لیڈر کے لئے نفرت کے بیج اک تن آور درخت کی
صورت اختیار کرچکے ہوتے ہیں۔ پھر جب عدالتوں سے کوئی ریلیف ملتا ہے تو
پاکستانی نوجوان جنکی شب و روز کرپشن راگ سے ذہن سازی ہوچکی ہوتی ہے تو اس
عدالتی ریلیف کو ماننے کے لئے تیار ہی نہیں ہوپاتے۔ نئے پاکستان میں
اپوزیشن رہنماؤوں کے خلاف کرپشن کا کوئی ایک مقدمہ بھی عدالت سے ثابت نہ
ہوپایا اور نہ کوئی کرپشن سے لوٹی ہوئی رقم قومی خزانے میں واپس لائی جاسکی۔
ضرورت اس امر کی ہے حکومت وقت کو 90 کی دہائی والی سیاست سے نکلتے ہوئے آگے
بڑھنا چاہئے اور کرپشن راگ (جوکہ بہت ہی زیادہ حد تک ناکام اور نامراد
ہوچکا ہے) کو ختم کرتے ہوئے ملکی مسائل کو حل کرنے کے لئے اپنی بھرپور
توانائیاں صرف کرنی چاہئے، اسی میں مملکت خداداد پاکستان کی بھلائی ہے۔ |