بدلتا عالمی منظرنامہ اور خارجہ پالیسی کے خدوخال
پچھلے دو کالوں میں ہم نے خارجہ پالیسی کے بنیادی خدوخال اسکے تصورات اور
خارجہ پالیسی کے تجزیاتی عناصر کا عمیق جائزہ لیا تھا ۔ اس کالم میں ہم
خارجہ پالیسی میں تبدیلی کی وجوہات پر نظر ڈالنگے ۔ بسا اوقات ریاستیں اپنی
خارجہ پالیسی میں غیر معمولی تبدیلی لاتی ہیں جسکی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں
۔ انفرادی، ریاستی اور بین الاقوامی سطح تجزیہ کو بروے کار لاتے ہوئے ہم
پالیسی میں تبدیلی کو بخوبی سمجھ سکتے ہیں ۔ انفرادی سطح تجزیہ میں دو
عوامل ، قیادت کا تجربہ اور قیادت میں تبدیلی خارجہ پالیسی میں تبدیلی کا
باعث بنتے ہیں ۔ قیادت کا تجربہ اس حوالے سے اہم ہے کیونکہ ملکی قیادت اپنے
تجربات و مشاہدات سے استفادہ کرتے ہوئے ریاستی پالیسی میں تبدیلی لاتی ہے ۔
ایک وجہ انکے پیشرو رہنماؤں کے تجربات بھی ہوتے ہیں ۔ پاکستان میں قیادت کی
تبدیلی کا اثر واضع طور پر خارجہ پالیسی میں پڑا ۔ ن لیگ کے دور حکومت میں
بھارت کیساتھ نرم خارجہ پالیسی رکھی گئی جبکہ حالیہ پی ٹی آئی قیادت نے
بھارت کے لئے خارجہ پالیسی میں برابری کی بنیاد پر کئی تبدیلیاں کر دی ہیں
۔ پیشرو رہنماؤں کے تجربات سے متعلق اہم مثال امریکہ کی ہے ۔ پہلی جنگ عظیم
کے بعد امریکی صدر فرینکلین روزویلٹ نے محسوس کیا کہ غیر جانبداری کی
پالیسی کی وجہ سے سابقہ صدر وڈرو ویلسن امریکہ کو لیگ آف نینشز کا مستقل
حصہ بنانے میں ناکام رہے جسکی وجہ سے امریکہ کو کئی خطرات کا سامنا تھا
لہذا امریکہ نے اٹلی،جرمنی اور جاپان کی طرف سے مزید خطرات کا مقابلہ کرنے
کے لئے اپنی غیر جانبدارانہ پالیسی کو ترک کرکے بین الاقوامی قومیت کی
بنیاد رکھی ۔ اس سے امریکہ دیگر اقوام کیساتھ مل کر خطرات کا مقابلہ کرنے
اور قیام امن کے لئے کردار ادا کرنے کا اہل ہوگیا ۔ قیادت میں تبدیلی سے
خارجہ پالیسی اہداف بھی تبدیل ہوتے ہیں ۔ سویت روس کے رہنماؤں جوزف اسٹالن
سے لینواڈ برزہنیو تک نے عسکری قوت کا استعمال کرکے مشرقی یورپ کے کئی
علاقوں پر اپنی عملداری کو قائم رکھا ۔ مگر 1985 سے 1988 کے درمیان میخائل
گوربیچیو نے اس پالیسی کو تبدیل کرکے پولینڈ اور ہنگری جیسے ممالک کو آزاد
حیثیت سے تسلیم کر لیا ۔ ریاستی سطح تجزیہ میں بھی دو عوامل یعنی مقامی
قیادت کی تبدیلی اور این جی اوز خارجہ پالیسی میں تبدیلی کا باعث بنتی ہیں
۔ کسی بھی ریاست کی سیاسی و انتظامی قیادت میں تبدیلی پالیسی پر بھی
اثرانداز ہوتی ہے ۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے دوران جرمن حکمرانوں قیصر
ویلیم اور ایڈلوف ہٹلر نے جرمنی کو عسکری تنازعات میں دھکیلا جسکی وجہ سے
کئی مغربی ممالک جیسے کہ فرانس و برطانیہ کے ساتھ ہمیشہ مخاصمت رہی ۔ مگر
اسکے بعد جرمنی اس پالیسی کو ترک کرکے لیگ آف نینشز اور نیٹو جیسے اہم
اتحاد کا حصہ بن گیا ۔ یوں فرانس و برطانیہ کے ساتھ اسکے تعلقات مستحکم
ہوگئے ۔ جرمنی نے فرانس کیساتھ مل کر اسرائیل کو یہودی ریاست تسلیم کیا
جبکہ آج یورپی یونین کا حصہ بھی ہے ۔ ریاستی سطح تجزیہ میں پالیسی میں
تبدیلی کا دوسرا عامل غیر حکومتی تنظیمیں یعنی این جی اوز ہیں ۔ یہ تنظیمیں
ریاستی جغرافیائی حدود سے ماوراء پوری دنیا میں اثرورسوخ رکھتیں ہیں ۔ این
جی اوز انسانیت کے خلاف جرائم کو خطوط ، رپورٹز،اشتہارات اور میڈیا کے
ذریعہ اجاگر کرکے متعلقہ حکومتوں پر دباؤ کا باعث بنتی ہیں ۔ یہ دیگر مسائل
پر بھی آواز اٹھاتی ہیں ۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ ، ورلڈ وائلڈ لائف اور اقوام متحدہ کی
ہیومن رائٹس کونسل کئی ممالک کی خارجہ پالیسی میں تبدیلی کا باعث بنی ہیں ۔
میانمار میں قائم ہونے والی حالیہ آمریت اور جمہوریت پسندوں کے قتل و
غارتگری کے سدباب کے لئے یہ این جی اوز متحرک ہیں ۔ بین الاقوامی سطح تجزیہ
میں بھی دو عوامل، بیرونی جھٹکے یا خطرات اور ملکی مجموعی قوت میں تبدیلی
خارجہ پالیسی کی تبدیلی کا باعث بنتی ہے ۔ بیرونی جھٹکوں سے مراد عالمی
منظرنامے میں رونما ہونے والے وہ واقعات ہوتے ہیں جسکے اثرات دوسرے ممالک
تک بھی پہنچیں ۔ اس کی مثال 11/9 کے حملے ہیں جس نے امریکہ کو شدید نقصان
سے دوچار کر دیا ۔ جوابا امریکہ نے دہشتگردی کے خلاف عالمی جنگ کا اعلان کر
دیا یوں پاکستان سمیت کئ ممالک جو ان حملوں کے براہ راست اثرات سے محفوظ
تھے اس جنگ میں شامل ہوگئے ۔ جسکا نتیجہ پاکستان میں شدید دہشتگردی کی صورت
میں برآمد ہوا ۔ ملکی مجموعی قوت سے مراد معاشی و عسکری برتری ہے ۔ طاقتور
اقوام دنیا کے امن کے حوالے سے زیادہ فکر مند رہتی ہیں ۔ امریکہ نے اسرائیل
کو تسلیم کیا اور اسکا حامی و مددگار بھی دہا ہے مگر تصادم سے بچنے کے لئے
فلسطینی ریاست کے قیام پر بھی زور دیتا ہے تاکہ مشرق وسطی عسکری تصادم سے
محفوظ رہے ۔ چین بھی آج ایک تسلیم شدہ عالمی قوت بنتی جارہی ہے لہذا وہ بھی
کئی معاملات میں اپنی خارجہ پالیسی پر نظرثانی کرتا ہے تاکہ عالمی امن قائم
رہ سکے ۔ خارجہ پالیسی اور اسکے تمام بنیادی تصورات پر مشتمل کالموں کا یہ
سلسلہ آج اختتام پذیر ہوا ۔ توقع کرتا ہوں کہ میری یہ کاوش عالمی منظرنامے
کی بھول بھلیوں کو سمجھنے میں سود مند ثابت ہوگی ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ
وطن عزیز پاکستان کے لئے بھی ایسی خارجہ پالیسی تشکیل دی جائے جو ہماری
مذہبی، سماجی اور ثقافتی اقدار سے ہم آہنگ اور ملک کو بین الاقوامی برادری
کے درمیان باعزت مقام دلانے کے لئے کوشاں ہو ۔
ختم شد
|