عید نامہ: نادر تحفہ

للن مشرا نے دور سے ہی آواز لگائی عید مبارک ہو بھائی صاحب ۔
کلن شیخ نے کہا آو یار میں بڑی بے چینی سے تمہارا انتظار کررہا تھا ۔
انتظار تو ٹھیک ہے لیکن بے چینی سے کیوں ؟ شک تھا کیا ؟
جی نہیں یقین تو تھا کہ تم آوگے لیکن تمہارا کیا ہے ؟ سیلانی آدمی ہو راستے میں کوئی الجھ گیا تو سمجھو دوچار گھنٹے نکل گئے۔
اب کیا کریں پرانی عادت ہے ۔ غلط بات ہم سے برداشت نہیں ہوتی اور سامنے والے آسانی سے مانتے نہیں ۔ کریں تو کریں کیا؟ اور بولیں تو بولیں کیا؟
یار للن تمہارا مسئلہ یہ کہ صحیح اور غلط کا فیصلہ تم خود کرتے ہو اور اسے منوائے بغیر مانتے نہیں ہو۔ تمہاری یہ خاصیت تو بالکل پردھان سیوک جیسی ہے۔
بھائی کلن عید کے دن سیاست چھوڑ واور یہ بتاو کہ بے چینی سے انتظار کی ضرورت کیسے آن پڑی؟
ارے بھیا تمہاری بھابی نے کہا کوئی مہمان آئے تو شیرخورمہ پلاوں ۔ اب کورونا کے ڈر سے کوئی مہمان آ ہی نہیں آرہا تھا خیر تم آگئے میرا کام ہوگیا ۔
ہاں بھائی کلن ہر طرف سناّٹا پسرا ہوا ہے۔ لوگ اپنے گھروں میں دبکے بیٹھے ہیں۔ یقین کرو پورے راستے ایک آدمی بھی سلام دعا کے لیے نہیں ملا ۔
چلو اچھا ہوا۔ اس بہانے کم ازکم تم جلدی تو آگئے اور یہ دیکھو تمہارے آنے سے شیرخورمہ کے ساتھ سیویوں اور نہ جانے کیا کیا آگیا۔
ارے بھائی اتنا سارا ؟ یہ تو سوانار اور ایک بیمار والی بات ہوگئی ۔ کھلا کھلا کر مار دو گے کیا؟
کلن نے کہا جتنا کھاسکتے ہو کھاو ۔ باقی چھوڑ دینا کوئی زبردستی تھوڑی نہ ہے ۔
مجھے پتہ ہےلیکن تم تو جانتے ہم براہمنوں سے کنٹرول نہیں ہوتا۔ ہم لوگ کھا کھا کر بیمار ہوجائیں گے لیکن ایک دانہ ضائع نہ کریں گے۔
اچھا خیر یہ بتاو کہ پنچایت چناو کا کیا حال ہے؟ آج کل تو خریدو فروخت زوروں پر ہوگی۔
جی ہاں اس میں تو کوئی نئی بات نہیں لیکن یقین کرو اس بیچ ایک انوکھا چمتکار ہوگیا ؟
اچھا بھائی کہاں ہوگیا یہ چمتکار ؟
اپنی رام کی نگری ایودھیا میں اور کہاں؟ اس طرح کی عجیب و غریب باتیں وہیں رونما ہوتی ہیں؟
ہاں مجھے معلوم ہے ۔ پہلے تو مندر کے ستون ریت میں دھنسنے لگے تھے اب کیا ہوگیا؟
اب الٹا ہوگیا۔
کلن نے سوال کیا الٹا ہوگیا ! کیا مطلب؟
اس بات جمہوریت کا ستون مضبوطی سے قائم ہوگیا ۔ ایسی مضبوطی سے کہ دیکھنے والوں کی آنکھیں پھیل گئیں ۔
اب پہیلیاں ہی بھجواوگے یا اس رازکو بھی کھولوگے؟
ارے بھائی دھیرج رکھو اگر بولنا نہ ہوتا اسے چھیڑتا کیوں ؟ لیکن پہلے بھابی کے بنائے ہوئے لذید پکوان کا تو حق ادا کرنے دو۔
جی ہاں وہ بھی درست ہے لیکن کھاتے کھاتے بھی تو بول سکتے ہو۔
دیکھو بھائی میرے خیال میں ایودھیا کے راجن پور سے عظیم الدین کا پردھان چن لیا جانا ،اس عید کا سب سے بڑا تحفہ ہے۔
ارے اس میں کون سے بڑی بات ہے؟ ہر مسلم اکثریتی گاوں میں پردھان انہیں میں سے چنا جاتا ہے ۔
لیکن بھیا وہ مسلم اکثریتی گاوں نہیں بلکہ وہاں تو صرف ایک ہی مسلمان خاندان ہے۔
اچھا تو وہ باہو بلی ہوگا ۔ فی الحال اپنے پردیش میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا رواج ہے ۔ اب لاٹھی تو کسی کے بھی ہاتھ آسکتی ہے ۔
مجھے پتہ ہے، لیکن حافظ عظیم الدین کسان ہے اور ایک مدرسے میں دس سال تک درس و تدریس کی ذمہ داری بھی ادا کرچکے ہیں۔
اچھا تو کیا صفا چٹیوگی کے یگ ُ میں ایک داڑھی ٹوپی والا جیت گیا ؟
یہی سمجھ لو اسی لیے تو میں اسے چمتکار مانتا ہوں ۔
اچھا کہیں لوگوں نے کسی وجہ سے الیکشن کا بائیکاٹ تو نہیں کردیا اور حافظ صاحب نےچپ چاپ چانس مارلیا ۔
نہیں کلن بھیا آج آپ کے سارے اندازے غلط نکل رہے ہیں۔ وہاں پر ۶ دیگر امیدوار تھے جن میں سے ایک مسلمان تھا ۔
اچھا تو کیا گاوں والوں نے انتخاب میں دلچسپی نہیں لی ؟
جی نہیں گاوں میں جملہ ۶۰۰ رائے دہندگان تھے ۔ ان میں سے ۴۰۰ ووٹ پانچ لوگوں میں بنٹ گئے اور ۲۰۰ووٹ پاکر حافظ جی جیت گئے ۔
اچھا تو دوسرے نمبر پر آنے والے کو کتنا ووٹ ملا؟
میں نے سنا ہے وہ بیچارہ ۱۳۵ ؍پر سمٹ گیا۔
لیکن تم تو کہہ رہے تھے اس گاوں میں صرف ایک مسلمان خاندان رہتا ہے ۔ تو کیا وہ جمبو پریوار دو سو افراد مشتمل ہے ؟
نہیں بھائی اتنا بڑا خاندان کہاں ہوتا ہے۔ حافظ جی کے سارے دور قریب کے رشتے داروں کو ملا لیا جائے تب بھی صرف ۲۷ بنتے ہیں ۔
اچھا تو باقی ۱۷۳ ؍ووٹ کہاں سے آگئے ؟ کہیں حافظ جی نے ای وی ایم کا کھیل تو نہیں کھیل دیا ؟
اوہو کلن کیا آپ اب تک نہیں جانتے کہ ای وی ایم تو صرف کمل کے اشارے پر ناچتی ہے۔
دیکھو للن کوئی نہ کوئی بات ضرور ہوگی جس کا ہمیں علم نہیں ہے ورنہ بنا کارن ایسا نہیں ہوسکتا۔
ارے بھائی جن کے خاندان کا کوئی امیدوار نہیں تھا ان سب نے حافظ جی کو ووٹ دےدیاہوگا۔
لیکن پانچ پانچ ہندو امیدواروں کو چھوڑ کر ایک مسلم امیدوار کو کامیاب کردینا کمال ہے ۔ کیا اس گاوں میں سارے ملحد رہتے ہیں ۔
گاوں کاشیکھر ساہوتو کٹر ہندوہے لیکن وہ مذہب کی بنیاد پر ووٹ نہیں دیال۔اس نے سیکولرزم پر یقین کے سبب مسلم عالم دین کو اپناسرپنچ چنا ہے۔
تب تو حافظ جی بہت خوش ہوے ہوں گے۔
کیوں نہیں۔ انہوں نے اس کامیابی کو عید کا تحفہ قرار دیا ۔ ویسے گاوں کے ہندو انہیں بہت چاہتے ہیں ۔
یہ تمہیں کس نے بتایا ؟ اس بیچ جمن خان نے سلام کیا اور دونوں سے عید مل کر بیٹھ گئے ۔
کلن نے جمن سے کہا ہم لوگ راجن پور کی بات کررہے تھے ؟
جمن نےجواب دیا آج کل ہر کوئی راجن پور کی بات کررہا ہے ۔ آپ پوچھ رہے تھے گاوں کے ہندو حافظ صاحب کو چاہتے ہیں، یہ کیسے پتہ چلا؟
جی ہاں لگتا ہے للن شرما کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں ہے۔
لیکن میرے پاس ہے ۔ میں ایک ماہ قبل راجن پور گیا تو وہاں حافظ جی کی کامیابی کے لیے گاوں والے سندر کانڈ کا پاٹھ کررہے تھے ۔ اب بولو کیا کہتے ہو؟
کلن نے کہا اچھا ! تو کیا کسی نے ان کو ہرانے کے لیے ہندو مسلم کارڈ نہیں کھیلا ؟
للن مشرا بولے یہ کیسے ہوسکتا ہے ؟ کارڈ تو کھیلا گیا لیکن اس بار وہ نہیں چلا۔ یہ سمجھ لو کہ پٹ گیا ۔
لیکن اب جیتنے کے بعدبیچارے حافظ جی ، کریں گے کیا؟
حافظ عظیم الدین کا کہنا ہے کہ اب وہ علاقے کی ترقی کے لیے کام کرنا چاہتے ہیں اور ساری سرکاری مدد عوام کے فلاح و بہبود پر خرچ ہوگی۔
اچھا تو کیا ان کو اپنی جیت کا یقین تھا ؟ مجھے تو حیرت ہے انہوں نے انتخاب لڑنے کی ہمت کیسے کردی؟
للن نے کہا حافظ صاحب کے مطابق انہیں امید کم تھی لیکن اس الیکشن کے انتخابی نتیجہ نے ایک الگ ہی تاریخ رقم کر دی ہے۔
جمن بولا اندر کی بات یہ بھی ہے کہ گاوں میں ذات پات کا بڑا جھگڑا تھا۔
للن نے کہا ایسا کون سا گاوں ہے ذات پات میں منقسم نہیں ہو۔ یہ بیماری تو کورونا سے زیادہ پھیلی ہوئی ہے۔
جمن بولا اور ہاں اس کا تو ویکسین بھی نہیں ہے۔ اس لیے راجن پور والوں نے کسی مخصوص ذات کو ناراض کرنے کے بجائے غیر ذات کو ترجیح دے دی ۔
ارے یہ تو اچھا حل ہے کہ ایسے کو ووٹ دو جو ذات پات کے جھگڑے سے باہر ہے لیکن کیا یہ ماںملہ واقعی اتنا سنگین ہوتا ہے ۔
جمن بولے ہاں ہاں کیوں نہیں؟ کیاآپ کو پرتاپ گڑھ ضلع کے لال گنج میں ہدیراہی گاوں کا سانحہ کی خبر نہیں ملی؟
کیوں وہاں کیا ہوگیا ؟
وہاں پر ذات پات کی رنجش کے چلتے میں دو ہفتہ قبل پردھان امیدوارورون تیواری کو گھر لوٹتے ہوئے مخالفین نے گولی مار دی۔
ارے بھائی اپنے یوپی میں گولی وغیرہ کا چلنا تو عام بات ہے۔
لیکن وہ بیچارہ تو کانپور کے ایک اسپتال میں فوت ہوگیا ۔
للن مشرا نے افسوس کے ساتھ کہا جب سے یوگی آیا ہے سسرا ہم براہمنوں کا جینا دوبھر کررکھا ہے۔ کسی ٹھاکر نے مار دیا ہوگا ؟
بھئی پولیس ننےی لال ورما سمیت دو ملزمنے کو گرفتار کر جیل بھیج دیا اور پانچ فرار ہیں ۔
وہی تو میں کہہ رہا ہوں ۔ ان ٹھاکروں کی غنڈائی ختم کرنے کی خاطر اب مسلمانوں اور براہمنوں کو ساتھ آنا ہوگا ورنہ ان سے نجات مشکل ہے ۔
جمن بولا دیکھو بھائی راجن گاوں کے لوگوں نے تو یہ راستہ دکھا دیا ہے اب دیکھنا ہے کہ بات آگے کہاں تک جاتی ہے؟
للن مشرا نے کہا جمن اور کلن کان کھول کر سن لو اگر اگلی عید دھوم دھام سے منانا چاہتے ہو تو ہمیں ابھی سے ایک ساتھ مل کر کام کرنا ہوگا۔
جمن نے تائید میں کہا جی ہاں وقت بہت کم ہے ۔
سو تو ہے لیکن چلو آج بہت وقت ہوگیا ۔ عیدکے بعد اس پر بات کرتے ہیں ۔ اب ہمیں پورے صوبے کے لیے عید کے تحفے کا بندو بست کرنا ہے۔
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1448173 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.