اکیسوی صدی میں جہاں پاکستان میں کورونا کی تیسری لہرنے
تباہی مچای ہوئی ہے وہاں ملکی معیشت بیساکھیوں کے سہارے چل رہی ہے۔
اس تناظر میں وزیراعظم اپنے وزرا کے ہمراہ سعودی عرب کے دورے پر
ہیں۔اپوزیشن کی بڑی سیاسی جماعتیں اس دورے کو دورہ کشکول قرار دے رہی
ہیں۔اگر ہم سعودی عرب میں کام کرنے والے پاکستانی افراد پر نظر دوڑایں تو
معلوم ہوتاہے کی تقریباْستائیس لاکھ سے زائد افراد سعودی عرب میں بسلسلہ
روز گار مقیم ہیں۔یہ افراد نہ صرف اپنے اہل خانہ کی کفالت کرتے ہیں بلکہ
پاکستانی معیشت کے لیے سہارا بھی ہیں۔پاک سعودیہ یہ رشتہ مذہبی ہونے کے
ساتھ معاشی بھی دکھائی دیتا ہے۔پاکستانی حکمران طبقہ سعودی عرب کے دورے سے
مختلف فوائد حاصل کرنا چاہتا ہے۔جیسا کہ پاکستان چین اقتصادی سی پیک منصوبہ
میں سعادی سرمایہ کاری۔مگر اس خطے میں موجود ایران کو جو سعودی عرب کا بڑا
حریف سمجھا جاتا ہے سی پیک منصوبہ سے محروم نہیں رکھا جا سکتا کیونکہ یورپ
اور وسطی ایشیا کی ریاستوں تک زمینی رسائی ایران کے بغیر معکن نہیں۔یہ ایک
عالمی منظر نامہ ہے ، دیکھے حقیقت کیا ہے۔اسی کی دہائی میں روس افغانستان
کے راستے گرم پانی کا متلاشی رہا جو امریکہ کے جہادیوں کے ہاتھوں ماسکو تک
محدود ہو کر رہ گیا۔وقت کے ساتھ حالات تبدیل ہو گئے۔پاکستان اور روس کے
تعلقات اسی کی دہائی جیسے نہیں رہے۔روس بھی پاک چین اقتصادی راہداری میں
شامل ہونا چاہتا ہے۔امریکہ اور یورپ کے اپنے مفادات ہیں۔حال ہی میں یورپی
پارلیمنٹ نے پاکستان کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزی،مذہبی عدم رواداری
اور توہین رسالت کت قوانین کو بنیاد بنا کرپاکستان کے خلاف سفارشی قرارداد
منظور کی۔جس سے پاکستان کی یورپ میں برآمدات متاثر ہو سکتی ہیں۔یہ قرارداد
پاکستان کے ارباب اختیار کے لیے لمہہ فکریہ ہے۔پاکستانی حکام بالا اس سلسلہ
میں برسلز کے نمائندوں سے رابطے میں ہیں تاکہ مسلہ کے حل کی طرف بڑھا جا
سکے۔یاد رہے پاکستان کو جی پی ایس کی سہولت۲۰۲۲تک ہے اور یورپ ۲۰۲۲ کو جی
پی ایس سٹیس برقرار رکھنے یانہ رکھنے کا فیصلہ کرے گا۔ایک خبر کے مطابق
پاکستان ۱۳ ارب ڈالر کی ٹیکسٹایل مصنوعات برآمد کرتا ہے جس میں چھ ارب ڈالر
یورپ کا حصہ ہے، اگر یہ چھ ارب ڈالرکم ہو جاتا ہے تو ملکی معشیت پر گہرے
اثرات مرتب ہو سکتے ہیں اور بے روزگاری میں اضافہ ہو سکتا ہے۔پاکستان ایک
متوازن خارجہ پالسیی اپنا کر ان مسائل سے نمٹ سکتا ہے
|