حسن کی شاہکار نظم جو انہوں نے ایک ایسے موضوع پر کہی ہے جو ایک کی توجہ کا مرکز بنتا ہے۔ بچے، جوان، بوڑھے، مرد وزن سبھی ایک سی ارادت اور عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔یہ موضوع جو سرحدوں کا تابع نہیں، رنگ ونسل کا محتاج نہیں، مذہب و مسلک کا پابند نہیں اور نہ ہی جنسی تفریق کا قائل ہے۔یہ موضوع ایک ایسی ہستی سے متعلق جس سے ہر انسانی جان محبت بھی کرتی ہے اور ادب واحترام بھی، میری مراد ”ماں“ کی ہستی سے ہے۔ محسن علی نے اس ”ماں“ کے عنوان سے جو نظم لکھی ہے وہ دل کو مو لینے والی ہے۔اس نظم کا ایک بندنذرِ قارئین کیا جارہا ہے۔۔۔۔ |
|
|
قسط دوم ’جانِ پُر سوز‘ اور محسن علی آرزوؔ:ایک مختصر تعارف افضل رضوی ۔ آسٹریلیا محسن کی شاہکار نظم جو انہوں نے ایک ایسے موضوع پر کہی ہے جو ایک کی توجہ کا مرکز بنتا ہے۔ بچے، جوان، بوڑھے، مرد وزن سبھی ایک سی ارادت اور عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔یہ موضوع جو سرحدوں کا تابع نہیں، رنگ ونسل کا محتاج نہیں، مذہب و مسلک کا پابند نہیں اور نہ ہی جنسی تفریق کا قائل ہے۔یہ موضوع ایک ایسی ہستی سے متعلق جس سے ہر انسانی جان محبت بھی کرتی ہے اور ادب واحترام بھی، میری مراد ”ماں“ کی ہستی سے ہے۔ محسن علی نے اس ”ماں“ کے عنوان سے جو نظم لکھی ہے وہ دل کو مو لینے والی ہے۔اس نظم کا ایک بندنذرِ قارئین کیا جارہا ہے۔ جس کوخالق نے محبت کی اجازت دی ہے جس کے رشتے نے تعلق کو عقیدت دی ہے جس کی ممتا نے گھرانوں کو سجاوٹ دی ہے جس کی تعلیم نے قوموں کو قیادت دی ہے جس کے قد موں میں ہے جننت، وہ حقیقت ماں ہے جس سے ملتا ہے خدا، ہاں! وہ عبادت ماں ہے مذکورہ بالا نظم اس لیے بھی اہمیت کی حامل ہے کہ اسے امسال(2020)کے یومِ امہات کے موقع پر بھارت کے معروف گلوکار نے نہ صرف گایا بلکہ اس کی ویڈیو گرافی بھی کی گئی ہے۔یوں محسن علی نے اس نظم کے ذریعے ہر بیٹے کی آوازبن کر ”ماں“ کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے جس پر وہ داد وتحسین کے حق دار ہیں۔ محسن آرزوؔ نے ایک دہائی سے زائد عرصہ آسٹریلیا میں گزارا ہے جس سے ان کا اشیاء کو دیکھنے کا زاویہ وسیع ہوا ہے اور وہ دورِ حاضر کے معاشرہ سے بخوبی واقف ہیں۔آج ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ وہ سراب کے پیچھے دوڑ رہا ہے۔حقیقت کی تلخیوں کا سامنا کرنا انتہائی دشوار ہورہا ہے اور ردِ عمل کے طور پرزندگی گھٹن کی شکار ہے،اس کی رنگینی ماند پڑ رہی ہے اور رونق ناپید ہورہی ہے۔تصنع، بناوٹ اورریاکاری ایسے تلخ حقائق ہیں جن سے مفر ممکن نہیں؛ اس کے باوجود محسن کی کی ”ایک خواہش“ ہے کہ: ایک خواہش کہ شب گزیدہ ہے جس کے لفظوں کی لرزہ خیزی پر آہ پر، اور غم انگیزی پر زیست کا اعتبار قائم ہے ایک خواہش کہ جس کا حاصل کُل دولتِ قرب اور وصال نہیں زیست بہ صورتِ جمال نہیں ہاں مگر بے خودی جو دائم ہے نظم ”آگہی“ میں محسن نے پیدائش سے سفرِ عدم تک کو نہایت خوب صورتی قلم بند کیا ہے۔ نظم ایک ردھم اور تسلسل کے ساتھ آگے بڑھتی جاتی ہے اور اختتام پر پہنچ کر محسن آرزوؔ کی یہ”آگہی“ ایک عذاب بن کر انہیں تڑپانے لگتی ہے تو وہ پکار اٹھتے ہیں: سفر کا مقصد و حاصل نظر میں آتا نہیں بھنور ہے زیست تو ساحل نظر میں آتا نہیں کوئی تو مجھ کو حقیقت شناسیاں دے دے شعور و فہم کی باہم نشانیاں دے دے میں آرزوؔ یہ سہوں کیسے آگہی کا عذاب کہ جیسے آگ لگی ہو کہیں پہ زیرِ آب نظم”حالاتِ حاضرہ“ میں محسن آرزوؔ کو تنہائی کا شدت سے احساس ہے اور وہ یہ خیال کرتا ہے کہ انسان اپنے سائے سے بھی خوف کھاتا ہے۔کبھی اسے اخلاقی ا قدار کی کمی ستانے لگتی ہے تو کبھی جدید مغربی مادی تہذیب کے زیرِ اثر پنپنے والی نئی ثقافت کا خوف آگھیرتا ہے تو لفظ اس کے خیالات لبادہ اوڑ کر کچھ یوں صفحہئ قرطاس پر بکھر جاتے ہیں۔ اس دور پریشاں میں ہر سمت ہے تنہائی انسان سے ڈرتی ہے انسان کی پرچھائی ہر سمت اندھیرا ہے ہر اوڑ اداسی ہے نہ سر پہ دوپٹہ ہے نہ ہاتھ میں راکھی ہے محسن علی آرزو ؔ کی شاعری کے مطالعے سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ شاعر کے خیالات نہ صرف پختہ ہیں بلکہ شستہ بھی ہیں۔بایں ہمہ وہ کہیں کہیں قنوطیت کا شکار نظر آتے ہیں لیکن یہ یاسیت دائمی نہیں بلکہ عارضی ہے تاہم اس یاسیت کا تعلق ان کی وطنِ مولود سے محبت کی وجہ سے ہے کیونکہ جب وہ اپنے شہر کراچی کو دہشت وبربریت کا شکار دیکھتے ہیں تو قنوطیت کے سیاہ بادل انہیں اپنے پنجوں میں جکڑ لیتے ہیں؛لیکن وہ جلد ہی اس چنگل سے باہر نکل کر رجائیت کا دامن تھام لیتے ہیں۔دیکھیے ایک نظم میں کراچی کی حالتِ سوزاں پرنوحہ کناں ہیں: آج فضا خاموش کیوں ہے؟ درختوں پہ جو رونق تھی ہواؤں میں جو بادل تھے گلابوں میں جو شبنم تھی فضاؤں میں جو ہلچل تھی۔۔۔کہاں ہے؟ کہاں ہے؟ کہاں ہے؟ کہاں ہے؟ ”احساسِ محرومی“میں آرزوؔ کے یہاں مایوسی اس قدر گہری ہے کہ وہ اس سے کسی طور اپنے آپ کو جدا نہیں کرسکتا۔ اس کی نظریں خوشی کی ایک جھلک تک دیکھنے کو ترستی ہیں۔دیکھیے ان احساسات کا کس خوب صورتی اظہار کیا ہے۔ خوشی کی ایک جھلک کو نظر ترستی ہے غموں کی دھوپ میرے راستوں میں پھیلی ہے کسی نظر میں نظاروں کا کوئی نام نہیں میرے چمن میں بہاروں کا کوئی نام نہیں قدم دیارِ مسرّت سے آشنا ہی نہیں ذہن خیالِ مسرت کو جانتا ہی نہیں آسماں پہ کوئی اُمید کا بادل بھی نہیں میری کشتی کے لیے دور کا ساحل بھی نہیں محسن آرزو ؔ کے دل میں وطن کی بے پناہ محبت ہے۔یہی وجہ ہے کہ جب ”پردیس“میں انہیں وطن کی یاد ستاتی ہے تو لفظ ان کے دلی جذبات کا عکاس بن کر کچھ یوں صفحہئ قرطاس پر بکھر جاتے ہیں: چلتے چلتے ہوا کے سائے دل میرا مرجھائے یاد وطن کی آئے مجھ کو یاد وطن کی آئے ہنستی ہنستی آنکھوں سے اِک آنسو چھلکا جائے بارش کے اجلے پانی میں تن من دھلتا جائے وقت کے پچھلے پہر کی کروٹ نیند اڑا لے جائے جن گلیوں میں بچپن گزرا انکی یاد ستائے وطن کی یاد کے ساتھ ساتھ محسن علی آرزوؔکو اپنا بچپن یاد آتا ہے تو وہ بے قرارہو جاتے ہیں اوراپنے”بچپن کے حسین لمحے“یاد کرکے ان کے لوٹ آنے کی تمنا کرتے ہیں۔ذیل میں چھوٹی بحر کے پانچ مصرعوں میں آرزوؔ کا مدعا ملاحظہ کیجیے۔ وہ لمحے امیدیں ہیں اے کاش کہ بر آئیں سب رنج مٹا جائیں اک روز یہ چپکے سے بچپن میرا لے آئیں مذکورہ بالانظموں کے علاوہ”تبصرہئ شہید“،”حاصل“،”خواہش“،”تجزیہ“،”فیصلہ“،”شبنمی وفا“،”خواب وصال“،”نوجوانی کا خواب“، ”آنسو“،”ناریل“،”احساسِ محرومی“، ”میں خیالِ شبِ تنہائی ہوں“،”خواب سراب“ اور حالاتِ حاضرہ وغیرہ بھی قابل ذکر نظمیں ہیں۔ محسن آرزوؔ کی شاعری میں کلاسیکی رچاؤ،جدت و ندرت،فنی سلیقہ مندی،سلاست وسادگی جیسی خصوصیات موجود ہیں جن کی بدولت ان کی شاعری محض لفظوں کا ہیر پھیر نہیں بلکہ مقصدیت کی طرف گامزن معلوم ہوتی ہے۔محسن آرزو ؔ کا کلام اپنے زمانہ اور ماحول سے سچی وابستگی اور زندگی کی حقیقی صداقت کا اظہار ہے، جسے بجاطور پر ان کی شاعری کی پہچان کہا جاسکتا ہے۔ محسن علی آرزوؔ کی نظموں کی طرح غزلیں بھی معیاری ہیں۔اس کی غزلوں کا ایک مخصوص وصف طنزیاتی عنصر ہے۔ان کے لیے انسانوں کی ایک دوسرے سے دوری،محبت کی کمی اور تفرقہ بازی تکلیف دہ ہے۔ دیکھئے آج کے بے ضمیر،خود غرض اور مفاد پرست معاشرہ پر انہوں نے کس اچھوتے انداز میں چوٹ کی ہے۔ نیرنگء دنیا میں محبت کی کمی ہے! نہ درد کی قیمت ہے، نہ آنکھوں میں نمی ہے خانقاہ میں ملی ہے مجھے مد ہوش شریعت ساقی تیرے مے خانے میں کیا کوئی ولی ہے مذہب نہیں اب قوم کی پہچان کا باعث ملّت کئی اقسام کے نعروں میں بٹی ہے انسان اشرف المخلوقات ہے اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اسے سربستہ رازوں تک رسائی دی ہے۔وہ اپنی عقل وفہم کے ادراک سے مشکل سے مشکل اور پچیدہ سے پچیدہ مسائل کا حل نکالنے کی صلاحیت اور قدرت رکھتا ہے۔محسن نے انسان کے اسی وصف کو اپنی ایک غزل میں بیان کیا ہے۔ دلِ مومن خداوندا! تجھے پہچان سکتا ہے یہ پُتلا خاک کا ہر اِک حقیقت جان سکتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
|