پچھلے دنوں اپنے ایک دوست سے ملنے کے لیے میرپور آزادجموں
و کشمیر جانے کا اتفاق ہوا۔ اس دوران میں، منگلا ڈیم دیکھنے کا موقع بھی
میسر آیا۔ ہر ڈیم کے لیے ایک مصنوعی جھیل (water reservoir) بنائی جاتی ہے
جہاں پانی ذخیرہ کرکے ایک دباؤ کے ساتھ پانی کو بجلی پیدا کرنے کے لیے
ٹربائین سے چھوڑا جاتا ہے۔ یہ مصنوعی جھیل عموماً ایک وسیع و عریض علاقے پر
مشتمل ہوتی ہے۔ منگلا ڈیم ایک بہت بڑا ڈیم ہے ۔ اس کے لیے بنائی گئی جھیل
بھی بہت بڑی ہے۔ اس سفر میں مجھے منگلا ڈیم کی جھیل میں پیدل جانے کا اتفاق
ہوا۔ یہ اس لیے ممکن ہوسکا کہ اِن دنوں منگلا ڈیم کی جھیل کے پانی کی سطح
نیچے آگئی ہے ۔ یہاں تک کہ جھیل کے اندر کچھ عمارات پانی سے باہر نمودار ہو
گئیں ہیں جیسے وہیل مچھی اچانک پانی سے باہر نمودار ہوجاتی ہے۔ چونکہ میں
منگلا ڈیم کی تعمیر کی تاریخ سے ناواقف تھا، اس لیے میرے لیے یہ امر قابل
تعجب تھا کہ جھیل میں یہ عمارات کہاں سے آگئیں۔ میرے میزبان دوست عامر
فاروق جاوید صاحب نے جنہیں مَیں احترماً " عامر بھائی " کہتا ہوں، مجھے
بتایا کہ 'جس جگہ یہ جھیل واقع ہے، وہاں اصل میرپور شہر واقع تھا جسے اب 'پرانا
میرپور' کہا جاتا ہے۔
منگلا ڈیم کی بنانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
1947میں برصغیر پاک و ہند کی غیر منصفانہ تقسیم کے بعد ،آب پاشی کے لیے
دریاؤں کے پانی کو بھی غیر منصفانہ انداز میں تقسیم کیا گیا۔ جس سے دونوں
ملکوں کے درمیان پانی کا تنازعہ اُٹھ کھڑا ہوا۔ اس تنازعے کو حل کرنے کے
لیے 1960عالمی بنک (World Bank)کی وساطت سےفریقین کے درمیان ایک معاہدہ طے
پایا جسے Indus Water Treaty کہتے ہیں۔ اس معاہدے کے مطابق تین مشرقی
دریاؤں سُتلج ، بیاس اور راوی پر بھارت کو حقوق حاصل رہے گے۔ اور تین مغربی
دریاؤں سندھ ، چناب اور جہلم کے پانیوں کو استعمال کرنے کے حقوق پاکستان کو
حاصل رہیں گے۔معاہدے کے تحت دو ڈیموں (تربیلا اور منگلا) ، پانچ بیراجوں
اور آٹھ لنک نہروں پر مشتمل 'انڈس بیسن پروجیکٹس' پر کام کیا جانا تھا،
منگلا ڈیم کی تعمیر اسی پراجیکٹ کے تحت عمل میں لائی گئی۔ 1962 سے 1967 کے
درمیان منگلا ڈیم پر کام ہوتا رہا ۔ اس دوران میں شہر کی آبادی کو دوسرے
مقام پر منتقل کرنے کا کام بھی جاری رہا ۔یہ مقام جہاں اس آبادی کو منتقل
کیا گیا، آج کل' نیو میر پور سٹی' کہلاتا ہے۔ جب ساری آبادی منتقل ہوگئی
اور ڈیم کی تعمیر بھی مکمل ہوگئی تو بالآخر ،16 جولائی 1967 کو جب دریائے
جہلم کا پانی چھوڑا گیا تو میر پور شہر اور اس کے قرب و جوار کے 260 دیہات
زیر آب آگئے۔
ثقافتی ورثے بھرپور شہر کے ڈوبنے کا منظر:
پرانے میرپور شہر کی ساری آبادی اور اس کے گرو نواح میں 260 دیہات کے
مکینوں نے پاکستان کے تابناک مستقبل کی خاطر ایک بہت بڑی قربانی دیتے ہوئے
اپنے آبائی گھروں ، گلی کوچوں، بازاروں ، مندروں ، گردواروں، اپنے تاریخی
ورثے ،یہاں تک کے اپنے عزیز و اقارب کی قبروں اور بزرگوں کے مزارات کو بھی
پانی میں ڈوبے کے لیے چھوڑ دیا۔ میرے دوست کے دادا میرے پورشہر کے تحصیلدار
تھے ، وہ بھی اُن لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے اپنے ماضی کو پاکستان کی
معیشت کی خاطر منگلا ڈیم کی جھیل میں غرق ہوتے ہوئے دیکھا۔ آج ہم جو بجلی
حاصل کررہے ہیں، وہ ان لوگوں کی قربانیوں کی بدولت حاصل کررہے ہیں۔ دریائے
جہلم کا پانی پرانے میرے پور کے مکانات، گلی کوچوں، بازاروں، مدرسوں ،
مسجدوں، گوردواروں میں ٹھاٹھے مارتے سمندری طوفان کی طرح داخل ہوا، اُ سے
کے سامنے جو بھی شئے آئی ، وہ اُسے اپنی لپیٹ میں لیتا گیا۔ گھروں کے
دروازوں ، کھڑکیوں اور روشن دانوں سے پانی انتہائی تیز پھوار کی طرح داخل
ہونے لگا۔ اس پانی میں اتنی طاقت تھی کہ اس نے ان کھڑکیوں اور دروازوں کو
توڑکر ریزہ ریز ہ کر دیا۔ جس طرح دیو ہیکل ٹائیٹینک جہاز(titanic) کے
درودیوار سے پانی داخل ہورہا تھا اور مسافروں کی شیخ و پکار سے فضا انتہائی
غمگین تھی۔ میر پور شہر کے درودیوار اپنے مکینوں سے خالی تھا ، اس لیے
لوگوں کی آہ و بکا کی آوازیں سنائی نہیں دے رہی تھیں ۔ البتہ لوگ اس غمگین
اور افسردہ منظر کو دیکھنے کے لیے اور اپنے شہر کو پانی میں غرق ہوتے
دیکھنے کے لیے اور اپنے پیاروں کی ارواح کو الوداع کہنے کے لیے اس مصنو عی
جھیل کے کناروں پر کھڑے تھے ، اور ان کی آنکھیں نم تھیں۔ اگرچہ حکومت
پاکستان نے انہیں متباد ل مکانات اور زمینیں الاٹ کر دی تھیں۔ لیکن ان کی
خوبصورت یادوں کے گلدستہ کو واپس نہیں کیا جاسکتا تھا۔ پرانے میر پور شہر
اور گردونواح کے 260 دیہاتوں کے قبرستانوں میں مدفون لوگوں کے جسد خاکی
کوبھی پانی میں ڈوبنے کے لیے چھوڑ دیا گیا۔ اس شہر میں واقع مزارات، مندر،
گودوارے ، مساجد بھی پانی میں ڈوب گئے۔ یہ ایک کرب ناک منظر تھا۔
پانی میں ڈوبا ہوا شہر دوبارہ نمودار ہوگیا!
1968 کے موسم سرما میں، جھیل کے پانی کی سطح کم ہونے لگی۔ جنوری ، فروری
اور مارچ تک پانی انتہائی کم ہوگیا ۔ یہاں تک کہ پرانے میرے پور شہر نے
دوبارہ سے نمودار ہونا شروع کر دیا۔ اس کے گلی کوچے نمایاں ہونا لگے، ان کی
قبریں ابھر آئی۔ یہ میرپور کی پرانی آبادی کے لیے انتہائی خوشی کا مقام تھا
۔ وہ اپنی نئی نسل کو پرانی یادوں اور ورثے سے روشناس کرانے کے لیے اس جھیل
میں اترنے لگے ۔ جو کافی حد تک خشک تھی۔ کچھ مصنوعی جزیرے بھی نمودار ہونے
لگے۔ وہ اپنے اعزہ کی قبروں کی دیکھ بھال اور فاتحہ خوانی کے لیے جارہے تھے
، ان کی آنکھیں آب دیدہ تھیں ، خوشی اور غمی کے ملے جلے جذبات تھے۔گھر تو
ان کے تباہ ہوگئے تھے ۔ وہ اپنے گھروں کا بہت سے ملبہ پہلے ہی لے جاچکے
تھے۔ البتہ کچھ قبریں آج بھی پا ئی جاتی ہیں۔ میں کچھ مکانات کی چھتیں
اوندھی پڑی دیکھیں تھیں۔
پُرانا میر پور شہر ہر سال اپنی تاریخ دہراتا ہے:
اب قبروں کی دیکھ بھال کی یہ رسم ہر سال دہرا ئی جاتی ہے۔ خاص طور پر کچھ
عقیدت مند اس جھیل میں موجود چند مزارات کی دیکھ بھال اور خراج عقیدت پیش
کرنے کے لیے ہر سال موسم بہار میں جھیل کا رُخ کرتے ہیں ۔ ان مزارات تک
پہنچنے میں بعض مقامات پرگہر پانی بھی ہوتا ہے۔ ایسے مقامات پر لوگ کشیتوں
میں سوار ہوکر مزار تک پہنچتے ہیں۔سید عبد الکریم اور میران شاہ غازی کے
مزارات کی عمارات پانی میں ڈوبنے کے باوجود قائم و دائم ہیں انہیں بہت
تھوڑا نقصان پہنچا ہے۔ زائرین اور مجاور ان مزارات کی تزئین و آرائش کرتے
ہیں ۔ ان مزارات کے علاوہ اس جھیل میں سکھ مت کا ایک گوردوارہ " رگھوناتھ
مندر "بھی ابھر آتا ہے جو کافی خستہ حالت میں ہے۔ لیکن یہ رونق چند ماہ ہی
قائم رہتی ہے۔ چند ماہ بعد جب مقبوضہ کشمیر کے پہاڑوں کی برف پگھلنا شروع
ہوتی ہے تو آہستہ آہستہ پانی کی سطح بلند ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ جولائی اور
اگست تک منگلا ڈیم کی جھیل پوری پانی سے بھر جاتی ہے اور یہ تمام تاریخی
عمارات دوبارہ سے زیر آب آجاتی ہیں۔ لوگ اپنے شہر ، اپنی یادوں کو دوبارہ
سے ڈوبتا دیکھتے ہیں، اور ان کی آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔ البتہ اب نئی نسل اس
قربانی کو بھول چکی ہے۔ وہ نئے میرپور شہر میں اپنے کاروبارزندگی میں مصروف
ہیں۔ کچھ لوگ جھیل کا رُخ کرتے ہیں لیکن وہ جانوروں کے لیے چارہ کاٹنے کے
لیے وہاں جاتے ہیں ۔ اس جھیل میں خود رو چارہ اور گندم وافر مقدار میں اُگ
آئی ہے۔ پرانے میر پور کو دیکھنے اب دیگر شہروں سے آنے والے سیاح ہی آتے
ہیں۔ لوکل آبادی یہاں سے گندم اور چارہ کاٹ کر لیجاتی ہے۔ اس طرح تاریخ
بھُلا دی جاتی ہے۔ اس حوالے کسی نے کیا خوب کہا:
کوئی چیز کبھی نظروں سے اوجھل نہیں ہوتی ، جب تک ہم اس کی یاد کا دیا اپنے
دل میں جلائے رکھتے ہیں۔
“Nothing is ever really lost to us as long as we remember it.”
(L.M. Montgomery)
|