فلسطین پراسرائیلی درندگی کا کھلے عام مظاہرہ ۰۰۰ عالمِ اسلام کے57ممالک بے بس

صیہونی ظالم درندوں نے جس طرح معصوم ، بے قصور، نہتے فلسطینی مسلمانوں کو رمضان المبارک سے اب تک خطرناک فضائی حملوں کے ذریعہ نشانہ بنارہے ہیں اسکا نظارہ دنیا کررہی ہے ، ظالم اسرائیلیوں کے خلاف اقوام متحدہ ، او آئی سی اوربعض مماملک کی جانب سے سوائے بیان بازی اور مذمتی بیانات کے کچھ نہیں کیا گیا۔57اسلامی ممالک کے حکمراں ایک ظالم اسرائیلی حکومت کے سامنے بے بس دکھائی دے رہے ہیں اتنی بڑی طاقت و قوت سمجھے جانے والے کچھ کرنے کے قابل نہیں ہے اگر قابل ہے بھی تو ہمت نہیں کرپارہے ہیں کہ اس ظالم قابض صیہونی ریاست کے خلاف کارروائی کرنے کی ۔مظلوم فلسطینیوں کا درد نہیں تو ان پر یہ فرض ہے کہ وہ قبلۂ اول کی حفاظت کیلئے قدم اٹھائیں۔ مسجد اقصیٰ اور اسکے اطراف جس طرح ظالم اسرائیلی فوجیوں اور سیکوریٹی فورسز نے نہتے عبادت کے لئے آنے والے فلسطینیوں پرفائرنگ کی اور دیگر کارروائی کے ذریعہ اس کے تقدس کو پامال کیا ہے اس پر تو کم از کم عالمِ اسلام کے حکمرانوں کو متحدہ طور پر سخت رویہ اپناتے ہوئے اسرائیلی ظالمانہ کارروائیوں کو روکنے کیلئے عالمی سوپر پاور طاقتوں پر دباؤ ڈالنا چاہیے تھا۔ کیونکہ عالمِ اسلام کے بڑے اور اہم ترین ممالک کھربوں ڈالر کے عوض ہتھیار ان ممالک سے خریدتے ہیں ۔امریکہ کے بشمول 25ممالک نے اسرائیل کی تائید کا اعلان کیا جس پر اسرائیلی وزیر اعظم نتین یاہو نے ان کا شکریہ ادا کیا۔ عالمِ اسلام کے اُن ممالک کو جنہوں نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کئے ہوئے ہیں انہیں چاہیے تھا کہ وہ اسرائیل کو ان ظالمانہ کارروائیوں سے روکنے کی کوشش کرتے ۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کو وارننگ دینے کے بجائے حماس سے کہا ہیکہ وہ اسرائیل پر راکٹ حملے کرنا بند کریں ورنہ فلسطین کو دی جانے والی امداد یعنی جو پراجکٹس فلسطین میں چل رہے ہیں وہ بند کردیئے جایں گے۔ بے شک بعض نام نہاد اسلامی ممالک یا حکمرانوں کا اس کے پیچھے مفاد ہوسکتا ہے تو بعض اس سے ڈرے ہوئے ہیں کہ کہیں اس کے خلاف کسی قسم کی کارروائی کی جاتی ہے یا کچھ خلاف کہا جائے گا تو اسرائیلی درندے ناراض ہوکر ان پر ہی کوئی حملہ نہ کردیں جبکہ ایک مسلمان ہونے کے ناتے مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی اور فلسطینی مسلمانوں کو اس میں عبادات کرنے سے روکنے کی صورت میں آواز اٹھانا ضروری ہے۔ عالمِ اسلام کے57 ممالک سوپر پاور ممالک پردباؤ ڈال سکتے ہیں کہ اسرائیل کو فوراً ظالمانہ کارروائی کرنے سے روکیں اور فلسطینی مسلمانوں کی املاک پر ہر آئے دن قبضہ کرنے والے یہودیوں سے کہیں کہ وہ اس سے رک جائیں۔ماہ صیام کے آخری عشرہ میں خصوصی طور پر 10؍مئی سے شروع ہونی والی اسرائیلی درندگی نے حماس کو مجبور کردیا تھا کہ وہ اسرائیل کے خلاف کارروائی کریں ،اور اسی کا نتیجہ ہے کہ حماس نے اسرائیل پر راکٹوں کی بارش کردی۔ ظالم اسرائیلی حملوں میں دوسو سے زائد فلسطینی بشمول 60سے زائد بچے شہید ہوچکے ہیں۔ جبکہ بتایا جاتا ہیکہ حماس کے حملوں میں دو اسرائیلی بچوں سمیت دس افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ اسرائیل کے لئے ایک اسرائیلی فرد یا ایک اسرائیلی فوجی کی ہلاکت یا قید ایک ہزار فلسطینیوں کی ہلاکت یا قید کے برابر تصور کی جاتی ہے ۔ جس کی مثال 2006میں ہونے والے اس معاہدے سے لی جاسکتی ہے ۔ بتایا جاتا ہیکہ ’’قیدی ایکسچینج پروگرام ‘‘ کے تحت حماس نے سنہ 2006میں مغوی اسرائیلی فوجی گیلاد شالت کو رہا کیاتھا اور اس کے بدلے میں ایک ہزار فلسطینیوں کو رہا کرایا گیا۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہیکہ اسرائیل کے پاس ایک فوجی کی قیمت ایک ہزار فلسطینیوں کے برابر ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہیکہ کیا اسرائیل کی طرح ہی دیگر نام نہاد مسلم حکمراں فلسطینیوں کی حیثیت اسرائیلیوں کی طرح تصور کرتے ہیں؟ اسرائیلی فضائی حملوں کے نتیجے میں شہید و زخمی ہونے والے ان ننھے معصوم بچوں کے جسموں کو دیکھا بھی نہیں جاسکتا کیونکہ ان کے جسموں کے جس طرح سے پراخچے ہوگئے ہیں اﷲ اکبر !بیان کرنے سے قاصر ہے، ظالموں نے ضیف اور نہتے فلسطینیوں کو بھی نہیں بخشا انہیں بے رحمانہ طریقہ سے فائر کرکے شہید کردیاگیا۔یہاں تک کہ اسرائیلی طیاروں نے بمباری کرتے ہوئے غزہ میں ’الجزیرہ‘ اور امریکی خبررساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس(اے پی) کے دفاتر کو بھی تباہ کردیا، میڈیا کے دفاتر جس عمارت میں قائم تھے وہ غزہ کی دوسری بلند ترین عمارت تھی جس میں رہائشی فلیٹس بھی موجود تھے۔اسرائیلی حملوں میں حماس کو نشانہ بنانے کی بات کہی جارہی ہے کہ لیکن اسرائیل کئی عام شہریوں کے گھروں کو نشانہ بنایا ہے ۔ غزہ کے الشانتی کیمپ کے ایک ہی گھر سے 10 شہیدوں کے جنازے اٹھائے گئے اسرائیلی بمباری میں گھر مکمل طور پر تباہ اور مکین شہید ہوگئے تھے۔اسی طرح ایک چھ سالہ لڑکی سوزی اشکنتانہ کی آنکھ غزہ کے ہسپتال میں کھلی جہاں انہیں ان کے گھر کے ملبے سے نکال کر لایا گیا تھا۔ اسرائیلی حملے میں سوزی کی والدہ اور چاروں بہن بھائی ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ والد بھی زخمی ہیں۔سات گھنٹے تک ملبے تلے دبی رہنے والی یہ بچی غزہ کے شفا ہسپتال میں اپنے والد سے ملی جہاں ان کے زخموں کا علاج کیا جا رہا تھا۔زخمی لڑکی کے والد ریاض اشکنتانہ کا کہنا ہے کہ وہ سمجھتے تھے کہ ان کا خاندان محفوظ ہے کیونکہ اسی عمارت میں ڈاکٹر رہتے تھے اور انہوں نے بچوں کو اس کمرے میں رکھا ہوا تھا جس کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ وہ ایک محفوظ کمرہ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ میں نے اپنے بیٹے زین کو پکارتے ہوئے سنا: ’ڈیڈی ، ڈیڈی‘ لیکن میں ایسا پھنسا ہوا تھا اور مڑ کر اس کی طرف دیکھ بھی نہیں سکتا تھا۔اپنی بیٹی کے بازو ہسپتال کے بستر پر لیٹے، ریاض کہتے ہیں کہ میرے اندر شدید غصہ اور مایوسی بھری تھی اور میں مرنا چاہتا تھا لیکن جب میں نے سنا کہ میری ایک بیٹی زندہ ہے تو میں نے اﷲ کا شکر ادا کیا کیونکہ اس بیٹی کی مسکراہٹ میں میری ہلاک ہو جانے والے بچوں کی مسکراہٹیں بھی زندہ ہیں۔زخمی ہونے والے مظلوم فلسطینیوں کی آہ و بکا خالی نہ جائے گی انشاء اﷲ ظالم اسرائیل تباہ و برباد ہوجائیں گے۔ اسرائیلی حملوں میں معاشی طور پر بھی غزہ پٹی تباہ و برباد ہوگئی۔کئی مکانات ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہوچکے ہیں جبکہ بجلی اور پانی کی ترسیل بھی منقطع ہوچکی ہے ۔ عرب ذرائع ابلاغ کے مطابق غزہ شہر کے میئر یحییٰ السراج نے بتایا کہ اسرائیل منظم طریقے سے انفراسٹرکچر کو نشانہ بنا رہا ہے، الشفا ہسپتال کو جانے والی گلی سمیت دیگر گلیوں کو تباہ کیا گیا ہے جبکہ سینیٹیشن اور پانی کا نظام بھی متاثر ہوا ہے۔انہوں نے بتایا کہ غزہ شہر میں پانی کی صفائی کا ایک ہی پلانٹ ہے جو گرد و نواح کے علاقوں پر اسرائیلی میزائل حملوں کے باعث ناکارہ ہو گیا ہے اور پلانٹ تک رسائی بھی مشکل ہو گئی ہے، جبکہ بجلی کی بند ہونے کی وجہ سے گھروں تک پانی کی ترسیل متاثر ہوئی ہے۔بجلی کی کمپنی کے ترجمان محمد تھابت کے مطابق غزہ شہر میں 120 میگا واٹ بجلی پہنچانے والی 10 میں سے چھ ترسیلی لائنیں تباہ ہو گئی ہیں، جبکہ واحد پاورا سٹیشن کو ایندھن کی کمی کا بھی سامنا ہے۔

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے اتوار کو اسرائیل اور فلسطین کے درمیان تشدد فوری روکنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ جاری لڑائی پورے خطے کو ’ناقابل کنٹرول‘ بحران میں مبتلا کر سکتی ہے۔ گوتریس نے لڑائی کو ہولناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ ناقابل کنٹرول سکیورٹی اور انسانی بحران پیدا کر سکتا ہے جو کہ نہ صرف مقبوضہ فلسطین اور اسرائیل میں بلکہ پورے خطے میں تشدد کو بڑھاوا دے گا۔گوتریس نے کہا کہ انہیں اسرائیل کے فضائی حملوں میں فلسطینیوں کی ہلاکت پر صدمہ ہے۔ انہوں نے جاری تشدد سے اسرائیل میں ہونے والی ہلاکتوں پر بھی افسوس کا اظہار کیا۔اقوام متحدہ صرف لڑائی روکنے کا مطالبہ کرنے کے بجائے اسرائیل کو سختی سے وارننگ دے کہ وہ فلسطینی علاقو ں پر مزید قبضہ کرنے سے رک جائے اور مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی نہ کریں۔

ذرائع ابلاغ کے مطابق روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے اسرائیلی وزیر اعظم نتین یاہو کو وارننگ دی ہے کہ روس اسرائیل کے خلاف اعلان جنگ کرسکتا ہے ۔ برطانوی اخبار کے مطابق روسی صدر پیوٹن نے غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت پر جنگ بندی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل اور فلسطین میں ہونے والے پُرتشدد واقعات کو فوراً روکا جائے جن میں بچوں سمیت بڑی تعداد میں پرامن افراد کی جانیں گئی ہیں، مسئلے کا حل اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کی روشنی میں تلاش کیا جائے۔ترکی کے صدر رجب طیب اردغان نے اسرائیل کو دہشت گرد قرار دیا ہے انہوں نے امریکی صدر جوبائیڈن کی جانب سے اسرائیل کی حمایت کرنے پر کہا کہ جوبائیڈن کے ہاتھ فلسطینیوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ ہم نے دیکھا ہیکہ جوبائیڈن نے اسرائیل کو ہتھیار فروخت کرنے کی ڈیل پر دستخط کئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اب ہم مزید خاموش نہیں رہ سکتے اور ہم فلسطین کی حمایت سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے۔ادھر چین نے بھی امریکہ سے اسرائیلی حملوں کو رکوانے کیلئے اپنا کردار ادا کرنے کامطالبہ کیا ہے، چینی وزارتِ خارجہ کے ترجمان ژاؤلی جیان نے پریس کانفرنس میں کہا کہ اسرائیل اور فلسطین کے مابین اس وقت 2014کے بعد سے اب تک کا سب سے بڑا تنازعہ پیدا ہوا ہے جس کے حل کے لئے امریکہ کو اپنی ذمہ داریاں نبھانی چاہیے، اسرائیل کو تحمل سے کام لیتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف تشدد، دھمکیوں اور اشتعال انگیزی کا سلسلہ بند کرنا چاہئیے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق بتایا جاتا ہے کہ چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے فلسطینی متاثرین سے متعلق کہا کہ انہیں امداد کی اشد ضرورت ہے اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر تمام ممالک مل کر فلسطینی عوام کے دکھوں کا مداوا کریں ۔پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشینے بھی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہیکہ پاکستان چاہتا ہیکہ اسرائیل مقبوضہ وادیوں سے مکمل انخلاء کرے، فلسطین کے عوام کے بنیادی حقوق بحال کئے جائیں اور ہجرت کرنے والوں کو واپس لاکر آباد کیاجائے۔ مسئلہ فلسطین کا حل مشرق وسطیٰ میں دیرپا امن کی کنجی ہے، اس کو حل کئے بغیر امن نہیں ہوسکتا۔او آئی سی کے مستقل ارکان اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر مل کر جنرل اسمبلی کا ہنگامہ اجلاس بلانے کا مطالبہ کرینگے۔شاہ محمود قریشی ترکی پہنچ گئے ہیں ، وہ ترک اور فلسطینی وزراء خارجہ کے ہمراہ پیرس پہنچے گے اور جمعرات کو جنرل اسمبلی میں مسئلہ فلسطین کے لئے آواز اٹھائیں گے۔سعودی وزیر خارجہ فیصل بن فرحان نے کہا کہ سب سے پہلے فلسطین میں تشدد کے خاتمے اور پھر امن و امان کے قیام کیلئے اورحتمی حل کیلئے سنجیدہ بات چیت کرنا ہوگی اور یہ حتمی حل فلسطینی ریاست کا قیام ہے جس کا دارالحکومت مقبوضہ بیت المقدس ہو۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق فرانسیسی صدر ایمینوئل میکخواں کے دفتر سے جاری پیغام کے مطابق فرانس نے تجویز پیش کی ہیکہ وہ مصر اور اردن کے ساتھ مل کر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اسرائیل اور فلسطین کے تنازعہ کے حوالے سے جنگ بندی کی قرارداد پیش کرینگے۔ بتایا جاتا ہے کہ فرانسیسی صدر اور انکے ہم منصب مصری صدر عبدالفتح السیسی اور اردن کے شاہ عبداﷲ دوم کے ساتھ ہونے والی گفتگو میں قرار داد پیش کرنے پر اتفاق کیا گیا۔ اب دیکھنا ہے کہ اسرائیل حماس سے کھائے زخم کا درد بھلانے کیلئے اپنی ہٹ دھرمی سے ہٹتا ہے یا نہیں۔ ویسے حماس نے جس طرح راکٹ حملوں کے ذریعہ اسے اپنی اوقات دکھادی ہے اس کا غم اسرائیل تادیر ہوتا رہے گا۰۰۰

عالم ِ اسلام کے نام نہاد حکمرانوں کا سر شرم سے جھک جانا چاہیے
عالمِ اسلام کے حکمرانوں سے تو بہتر یہ اٹلی کے غریب، مظلوم فلسطینیوں کو چاہنے والے کارکن ہیں جنہوں نے اپنے ان مظلوم فلسطینیوں کیلئے کسی نہ کسی طرح سے مدد کرنے کا حق ادا کررہے ہیں۔ایسا ہی ایک واقعہ ان دنوں پیش آیا۔ذرائع ابلاغ کے مطابق بتایا جارہا ہے کہ یورپی ملک اٹلی کی بندرگاہ پر کام کرنے والے کارکنوں نے اسرائیل کیلئے اسلحہ لے جانے والی شِپمنٹ لوڈ کرنے سے انکار کردیا۔ اِطالوی شہر لیورونوکی بندرگاہ کے ورکرز نے فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کامظاہرہ کرتے ہوئے شپمنٹ لوڈ کرنے سے انکار کردیا جو اسرائیل کیلئے اسلحے پر لے جانے والی تھی۔ بندرگاہ انتظامیہ کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ ان کی بندرگار فلسطینیوں کے قتلِ عام میں حصہ دار نہیں بنے گی۔ بتایا جارہا ہے کہ اٹلی کے شہر ٹسکان سے اسرائیل کی اشدود بندرگاہ کیلے یہ اسلحے کی کھیپ جانی تھی۔ ورکرز کے انکار کے بعد اسلحے کی اس کھیپ کو لیوور نو بندرگاہ سے ہٹاکر نیپلز کی طرف روانہ کردیا گیا ہے، امید کی جارہی ہے کہ حکام کو وہاں کے کارکنوں کی طرف سے بھی ایسی ہی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔یہ ان کارکنوں کا جذبہ انسانیت ہے جسے دیکھ کر عالمِ اسلام کے ان نام نہادشاہوں اور حکمرانوں کو سبق لینا چاہیے۔کاش ایسا ہوتا۰۰۰
ٌٌٌ***
 

Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid
About the Author: Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid Read More Articles by Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid: 352 Articles with 210250 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.