اتر پردیش کے ضلع بارہ بنکی میں واقع رام سنیہی گھاٹ شہر
میں مقامی انتظامیہ نے تقریباً 100 سال قدیم مسجد غریب نواز کو شہید کر دیا۔
یہ مذموم حرکت 24؍ اپریل 2021 کوالٰہ آباد ہائی کورٹ کے ایک فیصلہ کی خلاف
ورزی ہے جس میں کہا گیا تھا کہ 31؍ مئی 2021 تک کورونا کے سبب کوئی انہدامی
کارروائی نہیں کی جائے لیکن یوگی کی اندھیر نگری میں اس کے باوجود مسجد پر
بلڈوزر چلا دیا گیا۔ اترپردیش انتظامیہ کی اس ظالمانہ کارروائی پر آل
انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈکے قائم مقام جنرل سکریٹری نے سخت رنج کا اظہار
کرتے ہوئے بغیر کسی اطلاع کے یکطرفہ طور پر ضلع افسران کے اس ظالمانہ قدم
کی مذمت کی اور مطالبہ کیا کہ حکومت مسجد کے ملبہ کو وہاں سے منتقل نہ کرے
اور مسجد کی زمین پر کوئی دوسری تعمیر کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔ اس غیر
قانونی حرکت کا ارتکابکرنے والے افسران کو معطل کیا جائے اور ہائی کورٹ کے
برسرکِار جج کے ذریعہ اس واقعہ کی تحقیق کرائی جائے، نیز یہ حکومت کا فرض
ہے کہ وہ اسی جگہ پر مسجد تعمیر کرواکےمسلمانوں کے حوالہ کرے۔مسجد کمیٹی
میں شامل مولانا عبدالمصطفیٰ کے مطابق یہ عبادتگاہ سینکڑوں سال قدیم ہے اور
ہزاروں لوگ اس میں پنج وقتہ نماز کے لیے روزانہ آتےتھے۔
ضلع مجسٹریٹ آدرش سنگھ کا کہا ہے کہ ’’میں کسی مسجد کے بارے میں نہیں
جانتا۔ مجھے بس یہ پتہ ہے کہ وہاں غیر قانونی تعمیرات تھی۔ اتر پردیش ہائی
کورٹ نے بھی اسے غیر قانونی کہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ریجنل سینئر ضلع مجسٹریٹ
نے کارروائی کی۔ میں مزید کچھ کہنا نہیں چاہتا۔‘‘آدرش سنگھ کے بیان کو پڑھ
کر اناو کے ایس ڈی ایم کی ویڈیو یاد آتی ہے۔ اس میں کیمرہ مین جائے واردات
ندی سے بہہ کر آنے والی لاشوں کو دکھا کر پوچھتا ہے کہ یہ کس کی ہیں؟ اور
کہاں سے آئیں؟؟ تو سرکاری افسر جواب دیتا ہے یہاں کوئی لاش نہیں ہے۔ یہ
دیکھ ناظرین سوچنے لگتے ہیں کہ یہ خود اندھا ہے یا ہماری آنکھوں میں دھول
جھونک رہا ہے؟ خیر مسجد کے تعلق سے کذب گوئی کی حقیقت یہ ہے کہاترپردیش سنی
وقف بورڈ میں مسجد غریب نواز کا اندراج موجودہے۔اس سے متعلق کسی قسم کا
فرقہ وارانہ تنازع بھی نہیں ہے۔ امسال18؍ مارچ کے مہینے میں ایس ڈی او (رام
سنیہی گھاٹ) نے مسجد کمیٹی سے کاغذات طلب کئے تھے۔ اس نوٹس کے خلاف ہائی
کورٹ سے رجوع کیا گیاتو کورٹ نے پندرہ دن کے اندر جواب داخل کرنے کی مہلت
دی۔ یکم اپریل کو جواب داخل کردیا گیا اس کے باوجودکسی قانونی جواز کے بغیر
رات کے اندھیرے میں پولیس نے یہ ظالمانہ حرکت کردی ۔
اتر پر دیش کے ضلع بارہ بنکی میں ہیڈ کوارٹر سے ۴۵؍کلو میٹر دور تحصیل رام
سنیہی گھاٹ کے احاطہ میں قائم مسجد خواجہ غریب نواز کا معاملہ ۱۹؍مارچ کی
شب تشدد کے سبب خبروں میں آیا ۔ برطانوی حکومت کے دور سے قائم اس مسجد
میںزیادہ تر تحصیل عملہ اور آس پاس کے بنی کوڈر موضع کے لوگ نماز پڑھتے
تھے ۔ سنی سینٹرل وقف بورڈ کی تولیت سرٹیفکیٹ میں مسجد کا راستہ ایس ڈی ایم
کے رہائشی بنگلہ سے ہو کر جاتا ہوا بتایا گیا ہے اور مسجد کےمالکانہ حقوق
کی بابت بطور سند اتر پردیش الکٹرسٹی بورڈ کا بجلی کنکشن موجود ہے جو تصدیق
کے بعدہی بحال کیا جاتا ہے۔ اس تنازع سے متعلق مدرسہ مخدومیہ رودولی کے
مولانا عبد المصطفیٰ نے اس وقت نمائندہ انقلاب کو بتایا تھا کہ :’’ سی او
صاحب کا انکے پاس فون آیا ہے کہ وہ امام کو نماز پڑھانے کے لئےبھیج
دیں۔اسکے تھوڑے وقفہ بعد پھر انکا فون آیا کہ مسجد کو شہید کرنے کی
تیاریاں ہو رہی ہیں ،پتہ کریں اورپھر پتہ چلا کہ وہاں پولیس اورعوام میں
تصادم ہوگیا ہے۔‘‘
عوام کی جانب سے زبردست پتھراوکے جواب میں پولیس کے لاٹھی چارج ، آنسو گیس
اور ربڑ بلٹ کے استعمال کی بھی خبرآئی مگر پولیس کے اعلیٰ افسران نےصرف
آنسو گیس کا اعتراف کیا ۔رپورٹ کے مطابق ہائی کورٹ نے وقف بورڈ میں درج
انتظامیہ کمیٹی کومسجد اراضی کی ملکیت کے حقوق ثابت کرنے کے کیلئے ۱۵؍ دن
کا موقع دینے کی ہدایت کی تھی ۔ تحصیل اور ضلع انتظامیہ جمعہ کی نماز کو
روک کر پنج گانہ نماز شروع کرانے پر راضی ہو گیا تھا لیکن پھر مسلمانوں کی
گرفتار یوں کا سلسلہ چل پڑا اور ۳۹؍ افرادکے خلاف فساد، بدامنی اور ناجائز
اسلحہ برآمدگی کے مقدمات درج کئے گئے۔نامزد۳۹؍ افرادمیں سے۲۲؍ کی گرفتاری
توپولیس نے ۲۰؍ مارچ کی رات ہی کر لی ۔ علاوہ ازیں مسجد کے متولی مشتاق علی
کے خلاف رام سنیہی گھاٹ کے ایگزیکٹیو انجینئر الکٹرسٹی بورڈ نے ایک لاکھ۳۷؍
ہزار ۹۴۵؍ روپے بجلی محکمہ کے بقایا اور بجلی چوری سے چلانے کا مقدمہ درج
کرا دیا ۔ اسی کے ساتھ تحصیل کی چہار دیواری جیل کی مانند اونچی کرکےچاروں
طرف سی سی ٹی وی کیمروں کو نصب کر دیا گیا ۔
پولس کارروائی کے بارے میں یہ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ یوگی حکومت اور
انتظامیہ نے الہ آباد ہائی کورٹ کے غیر قانونی مذہبی مقامات کو ہٹانے کے
حکم پر عمل در آمد کی کارروائی ہے۔ ضلع انتظامیہ عام طور پر سڑکوں پر
موجود مذہبی مقامات کے خلاف کارروائی کر تا ہے لیکن رام سنیہی گھاٹ تحصیل
کمپلیکش میں واقع مسجد نہ تو سڑک پر تعمیر کی گئی ہے اور نہ ہی اسے ہٹانے
کا کوئی حکم دیا گیا تھا ۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تحصیل انتظامہ نے مسجد
کا راستہ بند کرنے سے قبل جو نوٹس چسپاں کیا تھا اس میں مسجد کی ہمسایہ
رہائش اور بیت الخلا کو غیر قانونی قرار دیا گیا تھا ۔مسجد انتظامیہ نے یہ
پیشکش کی تھی کہ اگر وہاں کےمکینوں کو دقت ہے تو دروازہ الگ کر دیں۔اس کے
برعکس پولیس نے تحصیل کالونی کمپلیکس میں مسجد کو عبادت کا کمرہ کہہ کر اس
میں بیرونی افراد کے داخلے پر پابندی عائد کرنے کی بات کرتا تھا ۔
2009ء میں سپریم کورٹ نے جب غیر قانونی عبادتگاہوں کو ہٹانے کےا حکامات
دیئے تو بہوجن سماج پارٹی کی صوبائی سرکار نے ایک سروے میں پایا کہ
اترپردیش میں ۴۰ ہزار غیر قانونی عباتگاہیں ہیں ۔ پچھلے دس سالوں کے اندر
اس میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ جون 2016میں الہ باد ہائی کورٹ نے جنوری
2011سےبعد والی ایسی غیر قانونی عبادتگاہوں کو ہٹانے کا حکم دیا جو عوامی
زمینوں پر بنائی گئی ہیں ۔ یوگی سرکار نے امسال مارچ سے جنوری2011ء کے بعد
سڑکوں یا اس کے کنارے بنائی جانے والی عبادتگاہوں کو ہٹانے کا فیصلہ کیا
اور پہلے والی عمارتوں کو 6ماہ کے اندر نجی جائیدادوں میں منتقل ہوجانے کا
نوٹس دیا ۔ اس بابت مبصرین نے وزیر اعظم نریندر مودی کا حوالہ دیا کہ جب وہ
گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے تو انہوں نے سنگھ پریوار کی مخالفت کے علی الرغم
جو کارروائی کی تھی ، اب یوگی کو اس کی پیروی کرنی چاہیے۔ مودی کی کارروائی
کسی مخصوص مذہب کے خلاف نہیں تھی لیکن یوگی کا معاملہ مختلف ہے۔ ویسے بارہ
بنکی کی غریب نواز مسجد 2011ء سے پہلے کی ہے ۔ وہ سڑک پر رکاوٹ نہیں ہے اور
قانونی عبادتگاہ ہے اس لیے الہ باد ہائی کورٹ کے تمام انہدامی کارروائی پر
روک کے باوجود مجدے کی شہادت کھلی دھاندلی ہے ۔ سنی وقف بورڈ کا ایسے میں
عدالت سے رجوع کرنا اور پرسنل بورڈ کا مسجد کی تعمیر نو نیز خاطی افسران کو
سزا دینے کا مطالبہ عین تقاضائے عدل ہے۔
پچھلے سال تنگاپنہ میں سکریٹریٹ کی تعمیر نو کے وقت دو مساجد اور ایک مندر
کو منہدم کیے جانے پر ڈپٹی وزیراعلیٰ محمد محمود علی نے تیقن دیا تھا کہ
نئے کامپلکس کے ساتھ مساجد بھی دوبارہ تعمیر کی جائیں گی۔ آگے چل منافقت
کا مظاہرہ کرتے ہوئے سہی صوبائی وزیر اعلی ’’کے سی آر‘‘ نے کم ازکم شرمندگی
اور دکھ و افسوس کا اظہار کرتے ہوئے معافی مانگی تھی ۔ کے سی آر اس حرکت
کاارتکاب کرنے والوں کی سرزنش کا وعدہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسی احاطے میں
سرکاری خزانے سے کشادہ مسجد اور مندر دونوں تعمیر کیے جائیں گے۔ یوگی سے یہ
توقع کرنا تو فضول ہے لیکن الہ باد ہائی کورٹ اپنے حکم سے مسجد کو تعمیر
کرواسکتی ہے۔ ماضی قریب میں تو اس کا رویہ خاصہ بے لچک رہا ہے اس لیے امید
ہے کہ وہ مبنی بر انصاف فیصلہ سنائے گی ۔
ہائی کورٹ نے ابھی حال میں اتر پردیش کے اندر کورونا وائرس کی دوسری لہر سے
متاثر نظام صحت اور طبی سہولیات کی ناکامی پر تنقیدکرتے ہوئے کہا کہ اتر
پردیش میں سب کچھ ’رام بھروسے‘ ہے۔ عدالت کا کہنا ہے کہ جب عام دنوں میں
طبی ضروریات پوری نہیں ہو سکتیں تو وبائی مشکلات کا سامنا کیا ہوگا۔ یہ ایک
تلخ حقیقت ہے کہ حالیہ پنچایتی انتخاب میں بی جے پی 20 فیصد مقامات پر بھی
واضح کامیابی نہیں حاصل کرسکی لیکن وہ انتخابی مہم کورونا کا سُپر سپریڈر
ضروربن گئی ۔ کورونا کا شکار ہونے والوں میں بی جے پی وزراء اور ارکان
اسمبلی بھی شامل ہیں ۔ زعفرانی بھکت سرکاری بدانتظامی کا شکار ہو کر دم توڑ
رہے ہیں ۔ موہن بھاگوت کے مطابق جانے والے تو جسم کا پیراہن چھوڑ کر چلے
گئے لیکن اگر ان کے پسماندگان نے یہ سوچنا شروع کردیا کہ ان کو ڈبل انجن کی
سرکار کے باوجود کیا ملا؟ اور ایسی سرکار کا کیا فائدہ کہ آندھی آتے ہیں
اس کے انجن دور دور جاپڑیں اور پٹریاں اکھڑ جائیں۔ اس لیے کیوں نہ کمل چھاپ
ریل کاڑی کے بجائے ہاتھی چھاپ سائیکل پر سواری کی جائے۔
یہ سوچ اگر ای وی ایم گھس جائے یوگی جی کا الیکشن کے بعد جیل جانالازمی
ہوجائے گا اور ان کو چھڑانے کے لیے امیت شاہ بھی آگے نہیں آئیں گے۔
کورونا کی تیرتی لاشوں کے درمیان ان کی سرکار ڈوب جائے گی ۔ اتر پردیش
ہندوستان کا پہلا صوبہ ہے جہاں وزیر اعظم مودی نے 19 فروری 2017 کو فتح پور
میں منعقدہ ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا، ’’اگر گاؤں میں
قبرستان بنتا ہے تو شمشان بھی بننا چاہیے۔‘‘ آج کورونا نے یہ حالت کردی ہے
کہ شمشان میں لکڑی نہیں ہے اوروہی گنگا لاشوں سے اٹی پڑی ہےجس نے کسی زمانے
میں مودی جی کو گجرات سے بلا نے کی بھول کی تھی ۔ اترپردیش کے صوبائی
الیکشن سر پر ہیں ۔ لوگ شمشان کے بجائے ندی کنارے لاشیں دفنانے پر مجبور
ہوگئے ہیں ۔ بعید نہیں کہ وہ بنگال کی مانند کمل کو بھی ندی کنارے دفنا دیں
یا گنگا میں بہا دیں ۔ اس لیے بی جے پی کو مسلمانوں کی مساجد کے پیچھے پڑنے
کے بجائے عوامی فلاح و بہبود پر توجہ دینی چاہیے نیز مسجد غریب نواز کی
تعمیر نو میں رکاوٹ پیدا کرنے کے بجائے تعاون کرنا چاہیے۔
|