محمد اشرف خان صحرائی شہید کی یاد میں

تحریک آزادی کے سرکردہ رہنما، مایہ ناز ونڈر حریت پسند،سید علی شاہ گیلانی کے جانشین و دست راست اور تحریک حریت کے چیئر مین محمد اشرف خان صحرائی کو 5مئی2021بروز بدھ حراستی قتل کرنے کے بعد ان کے دو بیٹوں کو قابض بھارتی انتظامیہ نے گرفتار کر لیا ہے۔78سالہ صحرائی صاحب12جولائی2020سے کالے قانون پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت جموں کی بدنام زمانہ جیل کوٹ بھلوال میں غیر قانونی طور محبوس تھے۔ جیل میں شدید علالت کے باوجود انہیں علاج و معالجہ سے محروم رکھا گیا۔ اہل خانہ کو بھی ان سے ملاقات کی اجازت نہ دی گئی۔ صحرائی صاحب کے ایک بیٹے عبد الرشید کے مطابق انہوں نے شہادت سے دس روز قبل کسی طرح گھر والوں کو مطلع کیا کہ ان کی صحت کافی بگڑ چکی ہے ، کمزوری کی وجہ سے حرکت تک نہیں کر سکتے مگر جیل حکام طبی معائینہ کرانے سے انکاری ہیں۔ پھر پولیس نے ان کی شہادت سے ایک دن پہلے منگل کے روز گھر والوں کو ٹیلیفون پر بتایا کہ انہیں جیل سے میڈیکل کالج جموں منتقل کیا گیا ہے اور وہ سانس لینے میں دقت محسوس کرتے ہیں۔ جب کے بیٹے مجاہد اشرف بدھ کو جموں پہنچے تو انہیں بتایا گیا کہ صحرائی صاحب انتقال کر چکے ہیں۔ ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ ان کی آکسیجن سطح 65تک گر چکی تھی ۔ انہیں جیل میں نمونیہ ہو اتھا۔ ان کا کووڈ 19ٹیسٹ نگیٹو تھا۔ اودھمپور جیل کے سپرینٹنڈننٹ ہریش کوٹوال نے بھی تسلیم کیا کہ صحرائی صاحب علالت کی وجہ سے کافی کمزور ہو چکے تھے۔ مگر اس کے باوجود انہیں طبی امداد نہیں دی گئی۔
اہل خانہ کی جانب سے علاج و معالجہ سہولیات بہم پہنچانے ، انہیں مناسب دیکھ بال کے لئے سرینگر جیل میں منتقل کرنے، کنبے کے افراد کی ملاقات کے لئے ہائی کورٹ میں تین درخوستیں دائر کی گئیں۔مسلسل بیمار رہنے سے ان کی حالت بگڑ گئی تھی۔ مگر عدالت نے کوئی ریلیف نہ دی۔ جیل حکام صحرائی صاحب سمیت حریت پسند قیدیوں کو ذہنی ٹارچر کا شکار بناتے رہے۔ ناقص غذا اور علالت کے دوران میڈیکل چیک اپ نہ کرنے سے اکثر قیدی جسمانی اور زہنی طور پر مفلوج ہو چکے ہیں۔ صحرائی صاحب جیل حکام کے ٹارچر کا ذکرکرتے رہے۔ اہل خانہ نے پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت حراست کالعدم قرار دینے کے لئے ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی ، مگر کوئی شنوائی نہ ہوئی۔ مقبوضہ کشمیر کے جیل خانہ جات محکمہ نے بھی صحرائی صاحب کی بگڑتی صحت اور طبی سہولیات کی عدام موجودگی سے متعلق محکمہ داخلہ کو مکتوب ارسال کیا۔ مگر کوئی نہیں جانتا کہ یہ فائل کہاں گم کر دی گئی۔ آخر شہادت سے ایک دن قبل جب ان کی حالت غیر ہوگئی تو جیل حکام نے انہیں نیم مردہ حالت میں علامتی طور پر ہسپتال منتقل کیا جہاں انہوں نے بروقت علاج نے ہونے کی وجہ سے دم توڑ دیا۔

صحرائی صاحب کا جسد خاکی جموں ہسپتال میں ان کے بیٹے محمدمجاہد صحرائی کو رات کے وقت حوالے کیا گیا۔ جموں سے سرینگر 300کلو میٹر دور ہے۔ سرینگر کے مزار شہداء میں ان کے کفن دفن کی تیاریاں کی جا رہی تھیں۔ مگر قابض حکومت نے مزار شہداء سرینگر میں تدفین کی اجازت نہ دی۔ ان کے اہل خانہ کو تدفین کپواڑہ میں آبائی علاقہ ٹکی پورہ ،وادی لولاب میں کرنے کو کہا گیا۔ فورسز نے اہلخانہ پر دباؤ ڈالا کہ ان کی نماز جنازہ میں 25سے زیادہ لوگ ہوئے تو جسد خاکی ان سے چھین کر جنگ بندی لائن پر واقع مژھل سیکٹر میں پہنچائی جائے گی۔مژھل سیکٹر دریائے نیلم کے اس پار واقع علاقہ ہے جہاں 2010میں بھارت فوج ایک فرضی معرکے میں تین کشمیری نوجوانوں کو قتل کر دیا تھا۔ جنازے میں عوام کی بھاری شرکت کے خدشے کے پیش نظر قابض حکومت نے لوگوں کے داخلے پر پابندی عائد کر دی۔ مقامی آبادی کو بھی جنازے میں شرکت کی اجازت نہ دی گئی۔ اہل خانہ نے ان کی تدفین ٹکی پورہ میں کی۔انہیں مقامی مزار شہداء میں سحری کے وقت سپردخاک کیا گیا۔جہاں پابندی کے باوجود ایک سو سے زیادہ عزیز و اقارب موجود تھے۔ شہید کے پسماندگان میں ان کی بیوہ، تین بیٹے اور دو بیٹیا ں ہیں۔ ایک بیٹا حزب الجاہدین کا ڈویژنل کمانڈر رہا اور گزشتہ برس لڑتے لڑتے شہید ہو گیا۔صحرائی صاحب نے خود شہید بیٹے کی نماز جنازہ پڑھائی اور اسے لحد میں اتارا۔

صحرائی صاحب کی ولادت قیام پاکستان سے تین سال قبل1944کو وادی لولاب کے ٹکی پورہ علاقہ میں شمس الدین خان کے ہاں ہوئی۔ان کے دو بڑے بھائی بھی جدوجہد آزادی میں سرگرم کردار ادا کرتے ہوئے اﷲ کو پیارے ہو گئے۔ ان میں محمد یوسف خان کا شمار تحریک اسلامی کے بانیوں میں ہوتا تھا جو 2016کو انتقال فرما گئے۔ دوسرے بھائی لولاب میں جماعت اسلامی کے متحرک رہنما تھے۔ وہ 2009کو وفات پا گئے۔محمداشرف خان صحرائی نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی علاقہ میں حاصل کی۔ میٹرک وادی لولاب کے سوگام علاقے سے پاس کیا۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے بی اے آنرس کیا۔ 16سال کی عمر میں جب وہ 10ویں میں زیر تعلیم تھے، سوپور کی ایک درسگاہ میں تدریسی خدمات انجام دینے کا آغاز کر چکے تھے۔ وہ ایک شعلہ بیان مقرر تھے۔ سید علی شاہ گیلانی کی رفاقت میں شروع سے ہی تحریک آزادی سے وابستہ ہوگئے۔1960میں جماعت اسلامی کے رکن مقرر ہوئے۔ انھوں نے شروع ہی سے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔وہ پہلی بار 13مارچ1965کو گرفتار ہوئے ۔ اس وقت ان کی عمر21سال تھی۔ جب شیخ محمد عبداﷲ نے مقبوضہ کشمیر میں موئے مقدس مجلس عمل کے پرچم تلے کانگریس کا بائیکاٹ کرنے کی کال دی مقبوضہ ریاست کے وزیراعظم سید میر قاسم نے بائیکاٹ کی حمایت کرنے والوں کو گرفتار کر نے کا حکم جاری کیا۔ صحرائی صاحب کو 20ماہ تک سنٹرل جیل سرینگر میں قید رکھا گیا۔ تب سے انھوں نے 16سال کا عرصہ بھارت کی مختلف جیلوں اور انٹروگیشن سنٹرز میں گزارا۔ وہ جماعت اسلامی میں گیلانی صاحب کے رفیق کار رہے۔ جماعت کے جنرل سیکریٹری، نائب امیر اور سیاسی شعبہ کی سربراہی کی۔ وہ ادب اور صحافت کے ساتھ بھی گہراہ شغف رکھتے تھے۔ ان کی نظمیں سرینگر سے شائع ہونے والے جریدے اذان اور طلوع میں چھپتی تھیں۔ 1969میں سوپور سے ایک جریدے طلوع کا آغاز کیا۔ جریدے میں’’ صفحہ پاکستان ‘‘ شروع کیا جس میں پاکستان کے حالات و واقعات کا تذکرہ شامل ہوتا۔مگر اسے 1971میں بند کر دیا گیا۔ جب 2003میں گیلانی صاحب نے جماعت اسلامی کو خیر آباد کہتے ہوئے تحریک حریت قائم کرنے کا فیصلہ کیا تو صحرائی صاحب نے ان کے شانہ بشانہ نئی حریت پسند جماعت میں شمولیت اختیار کی۔ 19 مارچ 2018کو تحریک حریت کے تنظیمی انتخابات میں صحرائی صاحب کل 433ووٹوں میں سے 410ووٹ لے کرکامیاب ہوئے اورتحریک حریت کے تین سال کے لئے چیئر مین منتخب ہو گئے۔ گیلانی صاحب نے تحریک حریت کی باگ دوڑ صحرائی صاحب کے ہاتھوں میں دیتے ہوئے کہا کہ صحرائی صاحب کا وسیع تجربہ، سیاسی سوجھ بوجھ اور طویل جدوجہد تحریک مزاحمت کے لئے مفید ثابت ہو گا۔ اس لئے تحریک حریت سے وابستہ لوگ ان کے ساتھ بھر پور تعاون کریں۔اس دوران صحرائی صاحب کے ایک بیٹے جنید صحرائی نے حزب المجاہدین میں شمولیت اختیار کرتے ہوئے کلاشنکوف اٹھا لی اور مسلح جدوجہد کا راستہ اختیار کر لیا۔ وہ سرینگر میں بھارتی فورسز کے ساتھ ایک معرکے میں شہید ہو گئے۔ اس کے دو ماہ بعد قابض فورسز نے صحرائی صاحب کو 12جوالائی2020کو پی ایس اے کے تحت گرفتار کر لیا۔ جیل میں وہ شدید علیل ہوئے مگر انہیں طبی سہولیات سے محروم رکھ کر قتل کیا گیا۔ اس طرح تحریک ایک مخلص اور دیانتدار رہنما سے محروم ہو گئی۔
صحرائی صاحب نے شاعرعالم علامہ اقبالؒ کے اس شعر کے تناظر میں اپنا تخلص صحرائی رکھا ۔
فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی
یا بندہ صحرائی یا مرد کوہستانی

وہ بھی فطرت کے مقاصد کی نگہبانی کرتے ہوئے شہادت کے اعلیٰ منصب پر فائز ہو گئے۔ تحریک آزادی جموں و کشمیر ایک مخلص، نڈر، سنجیدہ اور بے باک لیڈر سے محروم ہو گئی ہے۔ان کی درویش صفتی، معاملہ فہمی، دور اندیشی، عاجزی و انکساری، شعلہ بیانی تا دیر یاد رکھی جائے گی۔کشمیر کاز پر گہری نگاہ رکھنے والے مبصرین کہتے ہیں کہ وہ ایک کہنہ مشق مورخ، بدترین حالات میں بہترین رہنما، دوٹوک انداز میں بات کرنے کے عادی، ایک متقی مربی اور دوسروں کے غم بانٹنے میں اپنی تکالیف چھپانے کے ماہرتھے۔ نظریاتی طور پر باشعور، اخلاقی لحاظ سے بلند پایہ اور سیاسی طور پر پختہ اور زرخیز ذہن رکھنے والے صحرائی صاحب گلستان حریت کو اداس کر کے ہمیشہ کے لئے ہم سے دور چلے گے۔سرکردہ صحافی اسلم میر کہتے ہیں کہ نظریاتی اختلاف کے باوجود شیخ عبداﷲ بھی آپ کی صلاحیتوں کے معترف تھے۔1980 کی دہائی میں گاندر بل سے گزریال تک لوگوں کی بڑی تعداد آپ کے خطابات اور سیاسی جلسوں میں تقاریر سننے کے لئے دیوانہ وار پہنچ جاتی تھی۔تقاریر میں قرآن اور احادیث کے ساتھ ساتھ جس طرح آپ اقبالیات کو پیش کرتے تھے، یقین مانیں آپ سے بڑا اقبال ؒکی شاعری اور فلسفے کو سمجھنے والا دور دور تک نظر نہیں آتا تھا۔مظفرآباد میں ہمارے دوست نے 1994 میں ڈاکٹر غلام قادر وانی شہید سے جب پوچھا کہ کشمیر میں اقبالؒ کو سب سے زیادہ کس نے سمجھا تو ڈاکٹر صاحب نے شہید اشرف صحرائی صاحب کا نام لیا۔ ڈاکٹر شہید وانی نے مزید کہا کہ ضلع کپواڑہ کو علمی، سیاسی اور عالمی سطح پر متعارف کرانے والوں میں مولانا انورشاہ کشمیریؒ، مقبول بٹ شہید، عبد الغنی لون شہید اور اشرف صحرائی شامل ہیں۔ ڈاکٹر وانی شہید صحرائی صاحب کو ایک عالم با عمل سمجھتے تھے۔ فلاح عام ٹرسٹ کے سابق ناظم تعلیمات اور دانشور حبیب اﷲ وانی اکثر کہا کرتے تھے کہ علم و دانش کی الجھی گھتیوں کو سلجھانے کا ہنر صرف صحرائی صاحب کو آتا تھا۔ وہ انہیں الفاظ کا سمندر کہا کرتے تھے بلکہ وہ صحرائی صاحب کے اردو تلفظ اور اردو اشعار کی ادائیگی کے دیوانے بھی تھے۔۔ سچ پوچھئے، وہ اپنی تقاریر میں ایسے الفاظ کا چناو کرتے تھے جن کو وہ ایک گھنٹے کی تقریر میں دوبارہ نہیں دہراتے تھے۔ پر و فیسر عبد الغنی بٹ صاحب نے ایک دن کہا کہ اقبالؒ کی فارسی شاعری کو صحرائی صاحب سے زیادہ کو ئی اور نہیں سمجھ سکتا۔وہ خود بھی فارسی زبان کے ایک بڑے دانشور ہیں لیکن وہ صحرائی صاحب کو فارسی زبان کی روح کو سمجھنے والے استاد مانتے تھے۔وہ کہا کرتے تھے کہ جب صحرائی صاحب بولتے ہیں تو یوں لگ رہا ہوتاہے کہ الفاظ ان کے سامنے رقص کرتے ہیں۔ حق مغفرت کرئے عجب آزاد مرد تھا۔ اﷲ ان کی آنے والی منازل کو آسان فرمائے۔ آپ کی تحریکی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ مقبوضہ کشمیر کی ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن ان کی شہادت کو حراستی قتل قرار دیتے ہوئے شفاف اورغیر جانبدار تحقیقات کا مطالبہ کر رہی ہے۔ مگر قابض بھارت تحریک آزادی میں نمایاں خدمات اور کردار ادا کرنے والوں کو منصوبہ بندی سے قتل کر رہا ہے۔

کشمیریوں کی نسل کشی اور حراستی قتل کو بھارت جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ مگر انسانی حقوق کے عالمی ادارے بھارت کے سنگین جنگی جرائم کے سامنے بے بس ہیں۔ بھارت کو ماورائے عدالت کشمیریوں کے قتل کی کوئی پروا نہیں۔ ملیشیا کی ایک تنظیم ملیشین مشاورت کونسل نے اقوام متحدہ سے محمد اشرف خان صحرائی کے حراستی قتل کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔مقدس ماہ رمضان کے آخری عشرے میں صحرائی صاحب کو پیرانی سالی کے باوجود اپنے موقف پر چٹان کی طرح قائم رہنے اور جدوجہد آزادی کو منظم کرنے کی پاداش میں زیر حراست قتل کیا گیا۔ سیکڑوں کشمیریوں کو اس وقت جیلوں اور انٹروگیشن سنٹرز میں بدستور ذہنی اور جسمانی تشدد کا شکار بنایاجا رہا ہے۔ ان کی زندگی کو خطرہ لاحق ہے۔ بھارت کشمیری قیدیوں کو رہا کرنے کے مطالبات نظرانداز کر رہا ہے۔ بھارتی عدالتوں سے کسی انصاف کی توقع نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عدالت نے صحرائی صاحب کو شدید علالت کے باوجود علاج کے لئے عبوری ضمانت پر بھی رہا نہ کیا۔عقوبت خانوں میں کشمیریوں کے قتل عام میں بھارتی عدلیہ بھی حکومت کے اشاروں پر عمل کر رہی ہے۔ صحرائی صاحب کے دو بیٹوں محمد مجاہد صحرائی اور عبد الرشید صحرائی کے خلاف اپنے والد کی آخری رسومات میں شرکت اور آزادی کے حق میں نعرہ بازی پر مقدمات قائم کئے گئے۔ یہ بھارت کا کشمیریوں کے خلاف بدترین فاشزم اور غیر انسانی سلوک ہے۔کشمیریوں سے بھارت کے جابرانہ اور ناجائز فوجی قبضے کے خلاف آواز بلند کرنے کا انتقام لیا جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل اور دیگر آزاد اداروں کو اس کا نوٹس لینا چاہیئے۔
 

Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 485941 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More