اسرائیلی وزیر اعظم کی مرضی کے خلافجنگ بندی ہوگئی۔ نتن
یاہو بار بار ایک طویل المدت جنگ کی بات کررہے تھے ۔ ان کی خواہش تھی یہ
معاملہ طول کھینچے تاکہ ان کے حریف اگلی سرکار نہ بناسکیں ۔ جنگ کے سائے
میں انتخا بی مہم چلا کر وہ آئندہ الیکشن جیت لینا چاہتے تھے ۔ امریکہ میں
اگر ڈونلڈ ٹرمپ صدر ہوتے تو ممکن ہےپچھلی مرتبہ کے طرح یہ جنگ 50 دن سے
زیادہ چلتی لیکن بائیڈن رکاوٹ بن گئے۔ اپنے رائے دہندگان کو بیوقوف بنانے
کی خاطر وہ اسرائیل کی پرزورحمایت کرتے رہے لیکن مصرو قطر کی مدد سے پس
پردہ حماس کو جنگ بندی کے لیے راضی کیا اور پھر اسرائیل کو اسے قبول کرنے
پر مجبور کردیا۔ اس طرح نیل سے فرات تک کے سہانے سپنوں کے ساتھ صدی کا
معاہدہ بھی ڈھیر ہوگیا ۔ سچ تو یہ ہےکہفلسطینی مجاہدین کی شجاعت و دلیری نے
غاصب اسرائیل کو ناکوں چنے چبوا دئیے۔ شدید بمباری کے باوجود آخری
48گھنٹوں میں بھی 600 راکٹ پھینک کر فلسطینی مجاہدین نے دشمن کے دانت کھٹے
کردیئےاوراسے ناک رگڑ کر جنگ بندی پرآمادہ ہونا پڑا۔ اپنی شرائط پر یہ
معاہدہ قیصرا لجعفری کی اس پیشنگوئی کا اشارہ ہے؎
کھلیں گے مسجد اقصیٰ کے بند دروازے
تمہاری ساری خدائی ، خدا کی زد پر ہے
اسرائیلی کابینہ کے وزیر نے جنگ بندی کو جہاں متفقہ منظور ی کا نام دیا
وہیں حماس نے اسرائیل کی جانب سے سیزفائر کے اعلان کو فلسطینی عوام کی
’فتح‘ اورنیتن یاہو کی شکست قرار دیا ۔ فلسطینیوں نے جشن منایا اور یہودی
سوگوار ہوگئے۔ حماس کے ایک معمر رہنما نے بتایا کہ اسرائیل نے 'شیخ جراح
اور مسجد الاقصیٰ سے اپنا ہاتھ اٹھانے' کا وعدہ کیا ہےجبکہ اسرائیل نے ایسے
کسی بھی معاہدے کی تردید کی ہے۔ اس جنگ بندی پر تبصرہ کرتے ہوے حماس کے
ترجمان سمیع ابوزہری نے کہا اسرائیل جارحیت کے ذریعہ اپنا کوئی بھی ہدف
حاصل نہیں کرسکا اور بالآخر مزاحمت کے آگے پسپا ہوکر میدان سے بھاگ کھڑا
ہوا۔ یہ اور بات ہے اپنی بزدلانہ کارروائی میں اس نے 232 فلسطینیوں کو شہید
کیا جن میں 65بچے ، 17بزرگاور 39خواتین شامل ہیں ۔ اس جنگ میں 1700لوگ زخمی
بھی ہوے لیکن اسرائیل کے بھی کئی لوگ مارے گئے اور زخمی ہوے جنہیں پوشیدہ
رکھا گیا۔
فلسطینیوں کے خلاف اس اشتعال انگیزی میں اپنی حکومت کی شکست کا اعتراف کرتے
ہوئے یاہو کے حریف ائیرلیپڈ نے نامہ نگاروں سے کہا تھا ’’ آج ہرکوئی سوال
کر رہا ہے کہ پچھلے گیارہ دن کی کاروائی میں اسرائیل نے کیا حاصل کیا؟‘‘۔
حکومت سازی کی جوڑ توڑ کے بیچلیپڈ نے یہ بھی کہا کہ غزہ میں آپریشن کو ختم
کرنے سے متعلق امریکی صدر جو بائیڈن کے مطالبے کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا
نیز اعتراف کیا کہ حماس نے اسرائیلی حکومت کے خلاف مغربی میڈیا کی جنگ جیت
لی ہے۔ ساری دنیا کے ذرائع ابلاغ پر قابض ہونے کا دعویٰ کرنے والوں کے
متوقع وزیر اعظم کا یہ اعتراف کسی معجزہ سے کم نہیں ہے۔ حالیہ تصادم میں
حماس کی جانب سے روزانہ کی بنیادپر صہیونی شہروں راکٹوں کی بارش سے
اسرائیلیوں کے اندر خوف وہراس کی زبردست لہر دوڑ گئی اور جان کے لالے
پڑےگئے۔ فی الحال میڈیا کے اندرسرکاری عہدہ دارجنگ میں شکست کا اعتراف کرر
ہے ہیں اورایسی خبریں بھی آرہی ہیں کہ خوشحال یہودیوں کی بڑی تعداد ہوائی
اڈوں کے کھلنے کی منتظر ہے تاکہ اپنا بوریہ بستر لپیٹ کر راہِ فرار اختیار
کرسکے ۔
ایسا پہلی بار نہیں ہورہا ہےبلکہ2001 میں دوسرے مسلح انتفاضہ کے بعد
تقریباً90سرمایہ دار اپنی کمپنیوں سمیت اسرائیل سے لندن اور نیو یارک چلے
گئے تھے۔ اسرائیلی سیاحت کی صنعت بری طرح متاثر ہوئی تھی اور کھیل کے
مقابلے بھی منسوخ کرنے پڑے تھے اس لیے کہ عدم تحفظ کی وجہ سے دنیا بھر کے
کھلاڑیوں نے تل ابیب میں کھیلنے سے انکار کردیا تھا ۔ فی الحال حماس کے
4000راکٹوں نے جو دہشت پیدا کی ہے اس سے پھر ایک بار اسیمنظرنامہ کا اعادہ
ہوسکتا ہے۔ اسرائیل کے معروف اخبار ہاریٹز کے تجزیہ کار آلوف بن نے بھی غزہ
کی حالیہ جنگ میں حماس کے آگے تل ابیب کی شکست کا اعتراف کیا ہے۔ انہوں
موجودہ جنگ کو اسرائیل کی تاریخ میں بدترین شکست قرار دیا ہے۔ انہوں نے غزہ
کے خلاف اسرائیلی فوج کی شکست کے آثار ظاہر ہونے پر نیتن یاہو کو اپنی اسے
قبول کرکے وزارت عظمیٰ کے عہدے سے دستبردار ہونے کا مشورہ بھی دیا تھا ۔
عبرانی اخبار یدیؤتھ آہرونٹ کے نامہ نگار ، یوسی یہوشوع نے صہیونی حکومت پر
حماس کی طاقت کا اندازہ لگانے میں انٹیلی جنس کی ناکامی کا الزام لگایا ۔
اس کو افسوس ہے کہ حماس کے سینئر رہنماؤں کا قتل کرنے میں تل ابیب کیوں
ناکام رہاہے۔ اسی شکست کی جانب سے توجہ ہٹانے کی خاطر رہائشی علاقوں پر
وحشیانہ حملہ کیا گیا۔ نہتے فلسطینی شہریوں کے خلاف اس جارحیت نے پوری دنیا
میں صیہونیوں کے خلاف نفرت کی لہڑ دوڑ ادی ہے۔وہ اسلامی ممالک جو اسرائیل
کی جانب پینگیں بڑھا رہے تھے اس کی مذمت کے لیے مجبور ہوگئے ہیں۔ سرکاری
مخالفت کے باوجود مختلف شہروں میں بڑے بڑے مظاہرے ہوچکے ہیں ۔اس جنگ نے
ٹرمپ کی صدی ڈیل کے بھی پرخچے اڑا دیئے جس کے تحت قدس اور مقبوضہ علاقوں کی
زمین ، مہاجرین کی واپسی کے حق اور مزاحمتی تحریک کے تمام حقوق کو سلب کرنے
کی مذموم کوشش کی گئی تھی ۔ قدس یعنی یروشلم دراصل فلسطینی ریاست کی
دارالحکومت ہے اور اس سرزمین پر غاصب اسرائیل کا نہیں بلکہ فلسطینی قوم کا
حق ہےجو اپنے علاوہ میں اسرائیل کے ناپاک وجود کو تسلیم نہیں کرتے ۔
فلسطینیوں کو وطن واپسی کے مقدس حق کو کوئی دنیا کی طاقت نظرانداز نہیں
کرسکتی ۔انہوں نے اپنی آزادی کے حصول کی خاطر مزاحمت کا راستہ منتخب کیا ہے
۔
ٹرمپ کا نام نہاد امن معاہدہ یعنی صدی ڈیل کا مؤثر طریقہ سے مقابلہ کرنے کی
خاطر حماس نے قومی سطح پر اتحاد قائم کرکے جدوجہد کا آغاز کیا ۔ یہی وجہ
ہے کہ اس بار کوئی بھی طبقہ اس مزاحمت کی مخالفت کرنے کی جرأتنہیں کرسکا ۔
اس ڈیل کے خلاف سہ جہتی دورس حکمت عملی بنائی گئی اور یہ حملہ اس کا ایک
حصہ تھا۔حماس کے رہنما صالح العاروری نے پچھلے سال جنوری(۲۰۲۰) میں اقصی
چینل پراپنی ہمہ جہت حکمت کے خدو خال بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس کا پہلا
مرحلہ میدانی ہے جس میں عوامی ، فوجی اور نیم فوجی دستوں پر مشتمل مزاحمت
کو مضبوط کیا جائے گا۔ ڈیڑھ سال کی تیاری کے بعد حاصل ہونے والی حالیہ
کامیابی اس کا ثمر ہے۔ دوسرے مرحلے میں قومی سطح کے معاہدے پیش نظر تھے ۔
اس بابت فتح کے ساتھ مل کر کافی پیش رفت ہوئی اور قومی انتخابات کا اعلان
بھی ہوگیا مگر اسرائیل کے دباو میں آکر محمود عباس نے انہیں ملتوی کردیا ۔
اب نئے حالات میں انہیں اپنے فیصلے سے رجوع کرنا پڑے گا ورنہ وہ اور ان کی
تحریک داستان پارینہ بن جائے گی۔ اس کے تیسرے مرحلے میں فلسطینی افواج کا
ہم خیال عرب، اسلامی اور عالمی سیاسی طاقتوں کے ساتھ اشتراک عمل پیش
نظرہے۔مذکورہ بالا اہداف پر نظر ڈالیں تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ حماس نے
اپنا مرحلہ کامیابی کے ساتھ عبور کرکے دوسرے میں قدم رکھ دیا ہے۔
فلسطین کے سیاسی حالات پر گہری نظر رکھنے والے محقق خلیل شاہین نے موجودہ
صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوے کہا کہ اس مہم سے مزاحمت کی روایت کو تقویت ملی
ہے۔ 2014 کے بعد یہ فرق واقع ہوا کہ جب غزہ سے مزاحمت کا آغاز ہوتا ہے تو
اس کو غرب اردن سے حمایت ملتی ہے۔ اسی کے ساتھ 2017میں جب مسجد اقصیٰ میں
الیکٹرانک دروازے لگائے گئے تو اس کے خلاف شروع ہونے والی تحریک میں غزہ
والوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ یہ یگانگت اور یکجہتی نہایت کوش آئندہے۔
خلیل شاہین کے مطابق غرب اردن میں موجودہ بیداری غیر منظم ہونے کے باوجود
متاثر کن ہے کیونکہ اس میں نوجوانوں نے بڑے پیمانے پر شامل ہورہے ہیں ۔ یہ
مزاحمت کاجذبہفلسطینی اتھارٹی کے دبائے جانے کے باوجود پروان چڑھے گا۔ سڑک
پر مظاہرہ کرنے والے نوجوانوں کے عزائم اور فلسطینی اتھارٹی کے درمیان ایک
بہت بڑی خلیج بن گئی ہے ایک روایتی طریقہ پر اٹل ہے دوسرا نئی راہ تلاش
کررہا ہے۔ ایسے میں فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے رکاوٹ اس کے تئیں بغاوت کی
صورتحال پیدا کردے گی۔
خلیل شاہین کے مطابق محمود عباس کا اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ کرنے کی
خاطر اپنوں کی مخالفت کرنا انہیں بیگانہ بناد ے گا۔ اس حقیقت کا اعتراف
محمود عباس کے دستِ راست اور فتح کے معمر مرکزی رہنما حاتم عبدالقادر نے
بھی کیا ہے ۔ انہوں نے کہا موجودہ مزاحمت نے فلسطین کی جدو جہد اور یروشلم
کے حالات کی بابت عالمی سطح پر ایک زبردست بیداری پیدا کی ہے۔حاتم نے کہا
کہ غزہ کو اس بار جبرو استبداد کا نشانہ بناگیا اس کے باوجود نفس مسئلہ
یروشلم ہے اور اسرائیل کا غاصبانہ قبضہ ختم ہونے تک یہ جدوجہد جاری رہے گی
۔ مسجد اقصیٰ اور شیخ جراح اس مہم کے اہم ترین نکات ہیں ۔ انہوں بتایا 28
رمضان سے پہلے اور بعد کا یروشلم یکسربدل چکا ہے۔ یہ عوامی بیداری اسرائیلی
جارحیت کے خلاف صبرو ثبات سے لبریز ہے۔ یہی عزم و حوصلہ ایک اس روشن مستقبل
کی دلیل ہے جس کی بابت رفعت سروش نے کہا تھا ؎
مظلوم بھی جاگ اٹھے ہیں یلغار کریں گے،دست حق و انصاف کے باطل سے لڑیں گے
کہہ دو یہ ممولوں سے کہ اب آتے ہیں شاہین،اے ارض فلسطین! اے ارض فلسطین!
|