این آر سی سے کورونا اور لاک ڈاؤن تک ……دُنیا دجّال کے دور میں داخل ہوچکی ہے

نا اتفاقی کا شکار عالم اسلام غزوۂ ہند کے لئے کمر کس لیں
یہودیوں اور فرقہ پرستوں کے منصوبے پر عمل پیراں مسلمانوں کو سوشل میڈیا پر چیخنے چلّانے کے بجائے عملی اقدامات اور تھینک ٹینک کے فارمولے کو اپنانا ضروری

چاہے کونسا بھی دور ہو ہر دور میں عالم اسلام کے خلاف سازشیں ہوتی رہی ہیں اور آگے بھی ہوتی رہیں گی، قرب قیامت سے قبل عالم اسلام کا پرچم پوری دنیا پر لہرائیں گا لیکن اس سے قبل جو حالات اور واقعات عمل میں آنے والے ہیں اس کی پیشن گوئی اﷲ رب العزت نے نبی کریم ﷺ کے ذریعہ بیان فرما دی ہے باوجود اس کے دُنیا میں امامت کے لئے بھیجا گیا مسلمان ان پیشن گوئیوں کے پس منظر میں اپنی تیاری کرنے کے بجائے اُن لغوات میں اُلجھتا جارہاہے جس میں منصوبہ بند طریقہ سے اسے الجھایا جارہا ہے کیونکہ قرآن و حدیث کی روشنی میں جن چیزوں پر عمل پیراں مسلمانوں کو ہونا چاہئے اس کے برخلاف قرآن و حدیث کی روشنی میں یہودی اور فرقہ پرست اپنی تیاریاں اور اپنا دفاع کرتے نظر آرہے ہیں جس کی زندہ مثال گذشتہ دو ہفتے قبل امریکی نومنتخب صدرجوبائیڈن کا وہ بیان کہ ہم کورونا بیماری کا علاج قرآن کی روشنی میں تیار کریں گے جب کہ اس کے برخلاف چاہے وہ ہندوستان کا مسلمان ہوں یا کہیں کا بھی ، ریمڈیسیویر کے چکر میں پڑا دکھائی دیتا ہے جب کہ اﷲ رب العزت جس نے اپنے کلام قرآن مجید کی سورۃ حم السجدہ (۴۴)، سورۃ الشعراء(۸۰)، سورۃ بنی اسرائیل (۸۲)، سورۃ النحل(۶۹)، سورۃ یونس (۵۷) ، سورۃ توبہ (۱۴)میں فرمایا ہے کہ قرآن مجید میں شفاء ہے باوجود اس کے ہم تلاش کرنے کو تیار نہیں ہے۔ یہ بات اور ہے کہ جو بائیڈن کا وہ بیان مسلمانوں کو گمراہ کرنے والا بھی ہے جس کے پس منظر میں جانا ضروری ہے افسوس آج اس بات کا ہے کہ جس قوم کو دُنیا کی اِمامت کی ذمہ داری دی گئی ہے جسے تحقیق کرنے اور تحقیق کو پھیلانے کا ذمہ دیا گیا ہے وہ قوم آج قرآن و حدیث کی روشنی میں ان چیزوں پر کام کرنے کے بجائے سوشل میڈیا پر بکواس کرتے ہوئے خود کو ملت پرست اور قوم شناس ثابت کرنے میں دکھائی دے رہاہے۔ صرف ڈھکوسلے بازی اور دکھلاوے کی قیادت میں مسلمانوں کو کمزور کرکے رکھ دیاہے اور اس کی ذمہ داری ہم سب پر عائد ہوتی ہے کیونکہ جن چیزوں کی تعلیم ہمیں ہونی چاہئے ہمیں اس سے دور کرنے کی منصوبہ بند سازش ہورہی ہے۔ قرآن مجید جو ناکہ صرف عبادت کا ذریعہ ہے بلکہ صراط مستقیم اور ہمارے دنیاوی طریقہ کار کا رہنماء بھی ہے اس سے ہمیں منصوبہ بند طریقے سے دور کیا جارہا ہے ا س کے لئے وہ کتابیں آگے کی جارہی ہے جو ضروری ہے لیکن اتنی بھی نہیں کہ اسے بلند درجہ دے دیا جائے۔ آج ہمارے پاس مباحثہ ختم ہوچکے ہیں دینی و عصری تعلیم صرف روزگار کے لئے ہوگئی ہے، عصری تعلیم ہوتے ہی نوکریوں کی تلاش تو دینی تعلیم ختم ہوتے ہی مدرسوں کا آغاز ! ایسا معاملہ ہمارا ہوکر رہ گیاہے۔ اور سب سے بڑی چیز ہمارا تقویٰ بالکل ہی نہیں کے برابر ہوچکا ہے جس کا نظارہ ہمیں گذشتہ دو لاک ڈاؤن سے دیکھنے کو بھی مل رہاہے۔ بحر حال مسلمانوں کو یہ بات تسلیم کرنی ہی ہوں گی کہ ہم وہ کررہے ہیں جو ہم سب دشمنان اسلام کرانا چاہتے ہیں، ہمارے مفتیان کے فتویٰ کے خلاف سالگرہ منائی جارہی ہے ، ہمارے مفتیان کے فتویٰ کے خلاف ٹک ٹاک اور سوشل میڈیا کے ویڈیوز بنائے جارے ہیں، ہمارے مفتیان کے فتویٰ کے خلاف قومی یکجہتی کے نام پر مسلمانوں کو دوکان شرک کی جانب کی جارہی ہے۔ مفتیان کے فتویٰ کے خلاف جمہوریت کے نام پر شریعت کا جنازہ نکالا جارہاہے، مزید کمیٹیوں کی ذمہ داری سود خوروں کے ہاتھ میں دکھائی دے رہی ہے، مشوروں میں ان لوگوں کو فوقیت دی جاتی ہے جو سب سے زیادہ چندہ دیتاہے۔ اور یہ لوگ غیر قانونی کاروبار اور کالابازاری کرنے والے ، نمبر دو کے دھندے کرنے والے دکھائی دیتے ہیں ان تمام چیزوں کی روشنی میں سوچا جائے تو کیا ہم یہودیوں اور فرقہ پرستوں کے منصوبوں پر عمل پیراں نہیں ہے ؟ کیا آج مسلمان اپنے کسی بھی مسئلوں کو سوشل میڈیا پر ڈال کر مطالبہ کرتا دکھائی نہیں دے رہا؟ اس کے برعکس ہونا تو یہ چاہئے کہ مسئلہ جہاں کا ہے وہاں کے عہدیداران کو میمورنڈم دے کر اپنی شکایت درج کرائیں لیکن ایسا نہ ہوکر ہمارا چیخنا اور چلانا زیادہ ہوکر رہ گیاہے۔ ہماری لڑائی صرف مورچوں اور مظاہرے کے حد تک ہوکر رہ گئی ہے۔ مصلحت پسندی کے نام پر ہم نے بزدلی پیدا کردی گئی ہے یہی وجہ ہے کہ ہم سے بابری مسجد چھین لی گئی اور ہم دیکھتے رہ گئے جب کہ ایمانداران طور پر دیکھا جائے تو جس وقت بابری مسجد کو دھکا لگایا گیا اسی وقت سے ہم پر جہاد لازم ہے لیکن باوجود اس کے ہم لاک ڈاؤن اور کورونا کا مسئلہ کو بابری مسجد سے جوڑکر یہ کہتے دکھائی دے رہے ہیں کہ اﷲ بابری مسجد کا بدلہ لے رہاہے۔ بے شک اﷲ اپنے گھر کی حفاظت خود فرماتا ہے کیا آپ نے قرآن مجید کی سورۃ ایلاف قریش نہیں پڑھی جس میں اﷲ رب العزت نے کس طرح کعبہ بیت اﷲ کی حفاظت ابابیلوں کے ذریعہ فرمائی اس کا بیان فرمایا ہے ، مسلمان یہ بھول چکا ہے کہ مسلمان کو اﷲ کی ضرورت ہے اﷲ کو مسلمان کی نہیں! باوجود اس کے ہم گنہگاروں کو ہر مرتبہ اﷲ کی مدد رہی ہے کیونکہ وہ اپنے بندوں سے ۷۰؍ماؤں سے زیادہ محبت کرتاہے تو تمہیں بے یار و مددگار کیسے چھوڑیں گا۔ مگر شرط یہ ہے کہ آج ہمیں غور و فکر کرتے ہوئے شرعی حدود میں کام کرنے اور قرآنی تعلیمات پر عمل پیراں ہوتے ہوئے اﷲ رب العزت کی بارگاہ میں سربسجود ہونے کی ضرورت ہے کیونکہ آنے والا دور سنگین ہوتا جائیں گا۔ جس کی پیشن گوئی آپ ﷺ نے آج سے ۱۴۰۰؍ برس پہلے ہی فرما دی ہے ۔ ہر آنے والا روز مسلمانوں کے لئے کٹھن ہوں گا ایسے ایسے فتنے آئیں گے جس پر ایمان متزلزل ہونے کا اندیشہ بڑھتا جائیں گا، قیامت کے قریب سب سے بڑا فتنہ دجال کا ہوگا جو مسلمانوں کا سب سے بڑا امتحان سمجھا جائیں گا نعوذ باﷲ دجّال کی جانب سے ہونے والا خدائی کا دعویٰ ایمان کے تقاضوں کو جھنجوڑ دیں گا اور یہ سب چیزیں ایک مقررہ وقت میں نہیں بلکہ اس کا احاطہ صدیوں کا بھی ہوسکتا ہے اور سالوں کا بھی کیونکہ جس طرح دجال کے فتنے کے تعلق سے قرآن و حدیث میں آیا ہے اس کی روشنی میں تحقیق کرنے پر بہت سی چیزیں سامنے آتی ہیں کیونکہ دجال کو ماننے والے اور کوئی نہیں بلکہ یہودی ہوں گے۔ اور وہ اس کی آمد کی تیاریاں آج سے نہیں بلکہ صدیوں سے کررہے ہیں جس کی سب سے اہم مثال مسلم ممالک کو جنگ بندی کے نام پر کمزور کرنے اور عالمی قوانین کے نام پر باندھے رکھنے کے لئے تیار کی گئی اقوام متحدہ سمجھی جا سکتی ہے جس کا قیام ۱۹۴۳؍۴۴ میں عمل میں آیا تاہم اس کی منصوبہ بندی ۱۷۲۳ سے شروع ہوئی تھی ، ڈاکٹر منظور عالم جنہیں مسلم تھینک ٹینک کا ایک اہم ستون بھی سمجھا جاتاہے انہوں نے ۱۹۹۴ء میں اپنی شائد کردہ کتاب دجال میں اقوام متحدہ کے تعلق سے کھل کر تحریر کیا ہے اور اسی کے ساتھ ہی جن ممالک کا تعلق دجال کے دور سے آئیں گا اس کے تعلق سے بھی اور ان کی حکومتوں کے تعلق سے بھی کھل کر بیان کیا ہے۔ ۱۷۲۳ء میں تیار کی گئی منصوبہ بندی میں جہاں پر اقوام متحدہ کے نام پر تمام ممالک کو عالمی قوانین کے تحت باندھنا اور وقت ضرورت عالمی جنگ بندی کے قوانین کا استعمال کرنا اس کا نظارہ ہمیں عراق اور افغانستان کی جنگ میں دیکھنے کو ملا جہاں پر عالمی قوانین کی دہائی دیتے ہوئے امریکہ کی خاطر افغانستان اور عراق کو ہوائی حدود کی پابندی اسلحہ کے استعمال کی پابندی و دیگرپابندیوں سے دو چار ہونا پڑا جس کا نتیجہ ہمیں دیکھنے کو ملا۔ ۱۷۲۳ء کی میٹنگ میں سب سے پہلا مدعہ یہودیوں کے ان ۱۲؍خاندانوں کو یکجا کرنا تھا جو عذاب الٰہی کے دوران منتشر ہوچکے تھے۔ کڑی محنت کے بعد انہیں ۱۸۳۱ء میں ۱۱؍واں قبیلہ ملا جو ہندوستان میں برہمنوں کے نام سے آباد ہے اوراس کے بعد ۱۲؍ویں قبیلہ کی تلاش نرسمہہ راؤ کے دور میں ختم ہوئی اور میل ملاپ اٹل بہاری واجپائی کے دور میں عمل میں آیا۔ یہودیوں کا یہ بارہواں قبیلہ بھی ہندوستان میں آباد ہے اوراسی بارہویں قبیلہ کے ذریعہ یہودیوں نے ہندوستان میں اپنی اگلی حکومت کی بنیاد رکھنے کی کوشش کی اور یہ بنیاد این آر سی کی شکل میں ہیں کیونکہ یہودیوں کا یہ بارہواں قبیلہ کوئی اور نہیں بلکہ پی اے سنگما کا بوڈولینڈ ہے، جو آسام ، میزوروم، میگھالیہ، اور مشرقی ہندوستان میں بستاہے اور آپ کو یاد ہوگا کہ این آر سی کا مسئلہ سب سے پہلے آسام میں اٹھا، یہیں سے ہندوستانی مسلمانوں کو گھس پیٹھیہ قرار دینے کی کوشش ہوئی، مسلمانوں پر بربریت کی گئی، فسادات کئے گئے، اور یہی علاقہ پہلے برما سے بھی منسلک تھا جہاں آج کا مسلمان بے یار و مددگار ہوکر رہ گیا ہے۔ ۱۷۲۳ء کی اُس میٹنگ میں جو دیگر امور طئے ہوئے تھے اس میں دجالی عالمی حکومت کا قیام جسےOne World Order & One World Nation کا نام دیا گیا اور اس کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے کس طرح دجال پوری دنیا پر حکومت کریں گا اس کے لئے اس طرح پہلے سے ہی ماحول تیار کیا جائے اس پر فارمولے طئے کئے گئے، جس کا پہلا فارمولہ ورلڈ بینک کا قیام تھا جس کے ذریعہ دُنیا کی پوری کرنسی اور آمدنی کا نظام ان ۱۲؍یہودی خاندانوں کے ہاتھ میں رکھنا اور وقت ضرورت پڑنے پر دنیا کو معاشی غلام بنانا ہے۔ جب کہ دوسرا فارمولہ یہ طئے کیا گیا کہ جیسے جیسے دور بڑھتا جائے گا ویسے ویسے آبادی میں اضافہ ہوں گا اور دجال کے ودر تک دنیا کی آبادی ساڑھے ۷؍ تا ۹؍عرب تک پہنچ سکتی ہے ایسے میں ایک فرد کے پوری دنیا پر حکومت کرنے میں دشواریاں پیدا کرسکتاہے اس لئے آبادی کو کم کرنا اور بچی ہوئی آبادی کو غلام بنانا ہے اور اس کی پیشن گوئی بھی نبی کریم ﷺ نے اپنی احادیث مبارکہ میں کی ہے کہ دجال کی آمد سے قبل ایسی وبائیں آئیں گی جو جھوٹ پر مبنی رہیں گی لیکن اسے حقیقت میں بناکر اس طرح پیش کیا جائے گا کہ انسان اسے قبول کرنے پر مجبور ہوجائیں گا۔ غور کیجئے آج جس بیماری سے ہم دوچار ہے جس وباء کا ہم سامنا گذشتہ دو سال سے کررہے ہیں کیا وہ وباء آج تک ثابت ہوسکی ہے۔ کیا اس بیماری کے جراثیم کو صحیح طریقے سے پڑھ لیا گیاہے ؟ اور کیا اس کا علاج موجود ہے؟ جسے ہم کورونا کے نام سے جان رہے ہیں ، افسوس کی بات تو یہ ہے کہ جس کورونا سے ہندوستان ہی نہیں بلکہ دنیا ۲۰۔۲۰۱۹ء سے واقف ہوئی اسے کورونا کے نام سے امریکہ اور چین ۱۹۷۴ء سے سوئٹ کیس بناتے ہیں جس کی تصویر بھی ہم اس آرٹیکل کے ساتھ پیش کررہے ہیں جب کہ مضحکہ خیز بات تو یہ ہے کہ جو ڈاکٹر آج چاہے سینئر ہو یا جونئر کورونا کا علاج کررہاہے وہ ۱۹۹۰ء کے بعد سے بارہویں کے سیلیبس میں کورونا کو پڑھا رہاہے باوجود اس کے اس کا علاج آج تک نہیں ڈھونڈ سکا اور نہ ہی اس کی ویکسن بنا سکتاہے۔ کورونا دراصل جھوٹ پر پھیلائی گئی بیماری کا نام ہے اصل میں 5Gٹاور کے ریڈیئشن نے یہ تباہی پھیلائی ہے جسے کورونا کانام دیا جارہاہے۔ دراصل یہ وباء اور حالات منصوبہ بند طریقے سے عمل میں لائے گئے ہیں ، کیونکہ دو چیزوں پر اس وقت غور کرنا ضروری ہے۔ نمبر ایک ۲۰۲۳ء میں ترکی کا معاہدہ کا اختتام اور ۲۰۲۳ء کے بعد کے حالات کے تحت یہودیوں کی منصوبہ بندی، ۲۰۲۳ء کے معاہدے پر روشنی ڈالنے کے لئے آپ کو ارطغرل سیرئل دیکھنا ہوں گا جس کے پہلے سیشن کے ۳۴؍ویں حصے کو دیکھنا ہوں گا جس میں یہیودی قائی قبیلے میں وباء پھیلانے کی خاطر کس طرح جراثیم کش دوا کا استعمال کرتے ہیں اور بر وقت علم ہوجانے کے باوجود یہ وباء بد احتیاطی کے سبب قائی قبیلے میں پھیلتی ہے جس کے چلتے قائی قبیلے کو اس وقت سوشل ڈسٹنسنگ کا کا استعمال کرنا پڑتاہے اور متاثرہ لوگوں کو چھوڑ کر ہجرت کرنی پڑتی ہے۔ یہاں پر اس کا ذکر اس لئے کیا جارہاہے کہ وبائیں آتی ہیں اس سے بھی انکار نہیں لیکن وبائیں لائی جارہی ہے اس سے بھی انکار نہیں اور یہ وباء ٔسلطنت عثمانیہ کے کے قیام کے قبل آئیٹس کے ذریعہ لائی گئی تھی، اسی طرح سے ۲۰۱۹ء میں پھر ایک وباء یہودیوں کے ذریعہ لائی گئی ہے اور یہ وباؤں کے آغاز کی افتتاحی وباء ہے کیونکہ اس کے ذریعہ یہودی اور دشمنان اسلام بہت سی چیزوں کی جانچ کررہے ہیں کہ آگے کس طرح اور کیسا معاملہ کیا جائے ۔ بالکل اسی طرح جس طرح یہودیوں نے ایک اور فارمولہ ۱۷۲۳ء میں تیار کیا تھا جس میں مسجد اقصیٰ کو شہید کرنے اور ہیکل سلیمانی کی تعمیر کی خاطر دنیا کے مسلمانوں کا تاثر دیکھنے کے لئے کسی ایک ایسی مسجد کو نشانہ بنانا اور اس کے بعد ہونے والے تغیرات کی جانچ کرنا اور اس کے لئے انہوں نے تختہ مشق ہندوستان کی قدیم تاریخی بابری مسجد کو چنا تھا ، دراصل حقیقت میں بابری مسجد بابری مسجد نہ ہوکر شرقی مسجد ہے جسے راجہ جونپوری نے بابر کی پیدائش سے ۲۸؍سال قبل تعمیر کیا تھا اور بابر اپنے دور اقتدار میں اس مسجد میں ۱۰؍کلومیٹر دور سے گذرا تھا جس نے اس وقت کے قوانین کے مطابق اپے سپہ سالار کو بھیج کر ایودھیا علاقہ کی مساجد کی توسیع کرائی تھی جس میں شرقی مسجد بھی شامل تھی اور اس کا خطبہ بھی ۱۹۲۴ تک آج بابری اور اس وقت کی شرقی مسجد کے ماتھے پر کنندہ تھا اور یہ خطبہ آج بھی لندن کے میوزیم میں موجود ہے اور اس کا تمام ثبوت مرحوم راشد سلیم کے پاس موجود تاریخ ہند میں تھا آج وہ کتاب کہاں ہے اس کی تلاش کی ضرورت ہے۔ بحر حال کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یہودی ہر چیز کی منصوبہ بندی کرتے ہیں ، اپنا منصوبہ صحیح جارہاہے یا نہیں اس پر تجربہ کرتے ہیں، پھر اس پر عمل پیراں ہوتے ہیں جس طرح یہودی مسجد اقصیٰ کی شہادت کے لئے بابری مسجد کا تجربہ کرچکے ہیں اسی طرح دجالی حکومت کے قیام کے لئے بھی وہ تجرباتی دور میں ہے اور جس طرح انہوں نے مسجد اقصیٰ کے تعلق سے ہندوستان کو تختہ مشق بنایا اسی طرح کورونا کے تعلق سے بھی دوسرے یا تیسرے دور میں وہ ہندوستان پر ہی محنت کریں گے۔ کیونکہ یہودیوں کے پاس اسرائیل کے پاس سب سے بلند مقام اگر ہیں تو وہ ہندوستان ہے ۹۹؍فیصد لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اسرائیل کے بعد امریکہ ہی یہودیوں کے لئے سب کچھ ہے جو سراسر غلط ہے، کیونکہ یہودیوں کے پاس اسرائیل کے بعد سب سے بلند مقام ہندوستان کا ہے۔ کیونکہ غزوۂ ہند ہی نہیں بلکہ اسلام کی آخری بڑی جنگ بھی ہندوستان میں ہی لڑی جانے والی ہے اور آخری یہودی بھی ہندوستان میں ہی قتل ہونے والا ہے۔ اس کی تفصیلات اگلے حصوں میں آئیں گی ، اس بات سے انکار نہیں کرتاہوں کہ طوالت ہورہی ہے مضمون بڑھتا جارہاہے لیکن جو حقائق ہے ، جو آنے والے حالات ہے اسے پیش کرنا بھی ضروری ہے ۔ کیونکہ ہم خود یا ہماری ایک یا دو نسلوں میں سے کسی نہ کسی کو دجالی دور سے گذرنا ہی ہوں گا اور یہ دور نزدیک سے نزدیک ہوتا جارہاہے جو حالات روزبہ روز سامنے آرہے ہیں اس کی روشنی میں بہت کچھ سوچنا ضروری ہوگیاہے۔ کیونکہ اﷲ رب العزت نے صرف ہمیں نمازیں پڑھنے کے لئے دنیا میں نہیں بھیجا بلکہ ہر اس طریقے سے اپنے ایمان کو تازہ رکھنے اور اس کا دفاع کرنے کے لیے بھی بھیجا ہے ورنہ باپ آدم ؑ اور ماں حوّا کی تو بہ کو قبول کرنے والا اﷲ رب العزت ہمیں جنت میں بھی رکھ سکتا تھا لیکن دنیا میں اس نے ہمیں اشرف المخلوقات بناکر بھیجا ہے ، اس لئے شریعت، ایمان، اور عبادت کے تعلق سے مسلمانوں کو ہر دم چوکنا رہنا ہے اور اس کا دفاع بھی کرناہے۔ کیونکہ قیامت سے قبل آپ اور ہم کو دجالی فتنہ سے دوچار ہونا ہی ہے اور ایسا لگتاہے کہ یہ فتنہ شروع ہوچکاہے۔ ساحر لدھیانوی کے اس شعر کے مصداق کے
دنیانے تجربات اور حوادیث کی شکل میں
جو کچھ مجھے دیا ہے وہ لوٹا رہاہوں میں
آپ کو یاد ہوں گا کہ ہم نے چند ماہ قبل یہودیوں کو چھپانے والے غرقد درخت کے تعلق سے روشناس کرایا تھا جو آپ کے اور ہمارے شہر میں آج بھی موجود ہے اس کے لئے ذیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں ، تارہ پان سینٹر کے سامنے آپ کو یہ درخت نظر آجائیں گا یہ بھی یہودیوں کی منصوبہ بندی کا ایک نظارہ ہے۔ کورونا کے تعلق سے جو واقعات جو حالات سامنے آئے ہیں، اس پر غور کرنا ضروری ہے۔ آپ کو یاد ہوں گا کہ کورونا بیماری کا آغاز ۲۰۱۹ء میں چین سے ہوا اور آج پوری دنیا میں اس کا پھیلا ؤدیکھا جارہاہے تو پھر اس سوال کا جواب دیجئے کہ جس بیماری کا آغاز ۲۰۱۹ء میں ہوا اس بیماری کی جانچ کے کٹ ورلڈ بینک فروری ۲۰۱۸ء میں پوری دنیا کی ممالک میں کیوں بانٹتاہے؟ اور اس کے بعد جب بیماری عروج پر پہنچتی ہے تو وہی ورلڈ بینک پوری دنیا کو بیماری سے بچاؤ کے لئے ہزاروں کروڑ کا لون دیتاہے۔ اب ۲۰۱۸ء میں ہم اس جانب آتے ہیں جس میں یہودیوں کے اُن بارہ خاندان جس میں ہندوستان کے برہمن اور بوڈولینڈ کے بھی لوگ شامل ہے کی میٹنگ میں ویکسینیشن کی تیاریاں پر غور و فکر ہوا۔ دراصل ۱۹۷۴ء میں لندن میں ہوئی ایک میٹنگ میں یہ طئے گیا تھا کہ ایک ایسی چپ دریافت کی جائے جو انسان کے ذہن کو پڑھ سکے اس اس پر کام کرنے کی ذمہ داری مائیکروسافٹ کے بل گیٹس کو دی گئی تھی اور اسی بل گیٹس نے ۲۰۱۸ء کی اسی میٹنگ میں اعلان کیا تھا کہ ہم نے وہ چپ دریافت کرلی ہے جو انسان کے ذہن کو پڑھ کر ہمیں پورا علم دیں گی کہ وہ کیا چاہتاہے اور نعوذ باﷲ ہم مسلمانوں کو ان کے خدا سے دور کرنے کا کام کریں گے۔ آپ کو اس وقت اس حدیث پر بھی غور کرنا چاہئے جس میں آپ ﷺ نے فرمایا تھا کہ دجال کا فتنہ اتنا سنگین ہوں گا کہ لوگ نعوذ باﷲ خدا ماننے لگیں گے۔ ایک جگہ سے دجال کا گذر ہوگا وہاں ایک نوجوان کے والدین فوت پائے ہوں گے اور وہ اپنے ذہن میں یہ سوچ رہاہوں گا کہ کاش میرے والدین زندہ ہوجاتے تو میں اپنے رب کی اس طرح عبادت کروں گا ایسا کروں گا ویسا کروں گا دجال واپس آکر اس نوجوان سے کہیں گا نعوذ باﷲ میں خدا ہوں مجھے سجدہ کر میں تیرے والدین کو زندہ کرتاہوں، اس بات پر وہ نوجوان پہلے والدین کو زندہ کرنے کی درخواست کریں گا جس پر دجال کے تابع شریر جن اس نوجوان کے والدین کے جسم میں داخل ہوکر اُٹھ کھڑے ہوں گے اور اس کے والدین کی شکل میں اس نوجوان سے کہیں گے کہ یہ خدا ہے (نعوذ باﷲ) اسے سجدہ کر ۔ کیا ۱۴۰۰؍سال پہلے کہی گئی یہ حدیث بل گیٹس کے بیان کی تصدیق نہیں کرتی کہ کس طرح دجال کا فتنہ پھیلایا جائیں گا۔ بل گیٹس نے اس میٹنگ میں یہ بھی کہا تھا کہ کوئی بھی اس طرح سے چپ اپنے جسم میں داخل نہیں کرائیں گا اس کے لئے کسی چیز کا بہانہ کرنا ہوں گا اور آپ ﷺ نے ۱۴۰۰؍سال قبل کہی ہوئی بات کہ جھوٹی وبائیں آئیں گی وہ بھی ۲۰۱۸ء میں ثابت ہوتی نظر آئی جس میں وباؤں کے لائے جانے پر منصوبہ بندی کی گئی اور ان ہی وباؤں کے ذریعہ ویکسن کی شکل میں چپ جسم میں داخل کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی۔ کورونا تو اتفاقیہ چیز نہیں ہے لیکن منصوبہ بندی میں بھی یہ ان کے لئے اتفاق ہی ثابت ہوا، کیونکہ جس طریقے سے وہ بیماریوں کے ذریعہ بہت سے چیزوں پر کام کرنا چاہ رہے تھے اسے درمیان 5G کا ریڈئشن چین میں کھڑا ہوا جس کا فائدہ اٹھا کر یہودیوں نے اپنے فارمولے پر دوسرا نام دے کر یعنی کورونا کے نام سے عمل آوری شروع کردی۔ 5G کا ریڈیئشن جہاں سے شروع ہوا وہاں مشترکہ طور پر امریکہ اور چین کام کررہے تھے ، اوہان کی جس لیب کو کورونا کی لیب قرار دیا گیا وہاں پر دراصل 5Gکے ریڈیشن کے اثرات کی جانچ جاری تھی جسے کورونا کا نام دیا گیا۔ دراصل دجالی حکومت کے قیام کے منصوبہ میں نمبر ایک پہلے ان لوگوں کو ختم کردینا ہے جو جسمانی طور پر کمزور ہے اور کسی کام نہیں آسکتے آپ غور کیجئے کورونا کا شکار وہ لوگ ہورہے ہیں جن کی قوت معدافت کم ہے جسے Immunity Power کے نام سے جانا جارہاہے اس کے بعد جو لوگ بچ جائے گے انہیں معاشی طور پر غلام بنانا ان کا منصوبہ ہے تو پھر لاک ڈاؤن کس چیز کا نام ہے اس پرغور کرنا ضروری ہے۔ تیسری اہم چیز اس پر بھی غور کیا جانا ضروری ہے کہ پہلے دور یعنی ۲۰۲۰ء میں امریکہ نمبر ایک پر تھا اور ۲۰۲۱ء میں ہندوستان نمبر ایک پر ہے اور دونوں کا تعلق اسی اسرائیل سے آتا ہے جہاں سے یہ سب منصوبہ بندی ہورہی ہے۔ پوری دنیا کورونا سے پریشان ہے اور اسرائیل کورونا سے آزاد ہوکر فلسطین پر مظالم ڈھا رہاہے، یہ چیزوں پر غور کرنا ضروری ہے ناکہ ہماری گھر کو دس دن سے پانی نہیں آرہا، ہمارے لیڈر کیا جھک مرا رہے ہیں، ہماری نالیاں صاف نہیں ہورہے ہیں، ہمارے راستے نہیں بن رہے ہیں، لاک ڈاؤن کے نام پر مسلمانوں کے ساتھ تعصب پرستی کی جارہی ہے مسلمانوں کو جان بوجھ کر نشانہ بنایا جارہاہے۔ تم کو تو نشانہ بنایا ہی جانے والا ہے کیونکہ نہ تمہارے باپ دادا بچے تھے اور نہ تمہاری اولادیں بچیں گی۔ لیکن اس سے بچاؤ کے لئے نبی کریم ﷺ قرآن و حدیث کی روشنی میں ہمارے سامنے بہت سے باتیں پیش کی ہے جس پر نہ غور کررہے ہیں نہ عمل کررہے ہیں ، ہماری سنت صرف داڑھی رکھنے، مونچھ کٹوانے، ٹخنوں سے اوپر پاجامہ پہننے تک ہی رہ گئی ہے۔ یہاں تک کہ افطار کے اوقات کے تعلق سے بھی ہم نے من مانا طریقہ کار اپنا لیا ہے اور گنجائش پیدا کرلی ہے، تو پھر دجالی فتنہ اور غزوۂ ہند کے تعلق سے بھلا ہمیں کیا فکر ہوں گی کیونکہ ہم تو مرنے والے ہیں ، یہ دور ہمارے اولاد کے سامنے آئیں گا وہ دیکھ لیں گے، یہ طریقہ کار ہم نے اپنا لیا ہے، جو اپنے ایمان سے دھوکے کے برابر ہے اور جو اپنے ایمان سے دھوکہ کرتاہے وہ اسلام کو ماننے والا اور مسلمان نہیں ہوسکتاہے۔ کیونکہ ایمان جب تک مسلم نہیں ہوگا تب تک عبادت بھی قبول نہیں ہوتی اور دجال کے فتنے سے بچنا اور غزوۂ ہند میں شامل ہونا یہ ایمان کا تقاضہ ہے جو کسی بھی وقت آپ کے سامنے آسکتاہے ۔کیونکہ ہم دجالی دور میں داخل ہوچکتے ہیں اس کا سب سے بڑا ثبوت کورونا وباء اور لاک ڈاؤن ہے۔ یہاں پر بہت سے لوگوں کو یہ سوال ستارہاہوں گا کہ کورونا بیماری، دجالی فتنے ، غزوۂ ہند اور این آر سی کا ایک دوسرے سے کیا تعلق ہے تو اس پر آپ کو چاہئے کہ آپ علماء حق سے اس کے سوالات کریں، ان کی صحبت میں بیٹھیں ، مفتیان کرام سے بھی سوالات کریں اس تعلق سے راقم الحروف کی بیڑ کے قدآور مفتی حضرت طاہر نعمانی صاحب سے ہوئی بات چیت کی روشنی میں کچھ معاملات آپ کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، وہ یہ کہ این آر سی کا دجالی حکومت سے تعلق کیا ہے؟ تعلق یہ ہے کہ این آر ایس اس لئے نافذ کی جارہی ہے کہ ہندوستان سے مسلمانوں کو بے دخل کرتے ہوئے ہندوراشٹر قائم کیا جائے اور یہی ہندو راشٹر دجال کے قتل کے بعد یہودیوں کی دوسری حکومت یعنی کے نیا مرکز رہیں گا۔ وہ کیسے تو جب حضرت عیسیٰ ؑ اور حضرت مہدی کا لشکر دجال کا قتل کرنے کے بعد یہودیوں کا قتل عام کریں گا تو ان ہی یہودیوں کے بارہ خاندان کے ۷۲؍لوگ ایک ہوائی جہاز میں ایک سمت میں اُڑ جائیں گے اور ایک رنوے پر ان کا جہاز اتریں گا (طوفان کی تباہی پر بنائی گئی ہالی ووڈ کی فلم ۲۰۱۲ء کا آخری سین دیکھئے یہودیوں کے بھاگنے کا فلسفہ سمجھ میں آجائیں گا) اور یہ رنوے کہیں اور نہیں بلکہ شملہ میں بنایا جاچکاہے اور اسی کے تحت ہندوستانی حکومت نے آج کشمیر کے دو حصے کردئیے ۔ اور یہ یہودی خاندان جب ہندوستان میں آئیں گے تو انہیں ایک پناہ گاہ پہلے سے تیار کی ہوئی دی جائیں گی، جو نینتال میں بنائی جاچکی ہے اور یہاں آنے کے بعد ان یہودیوں کے ہاتھوں میں حکومت دے دی جائیں گی۔ اور اس حکومت کو قائم کرنے کے لئے آج سے ہی ہندو راشٹر کے قیام کا فلسفہ عمل میں لایا جارہا ہے۔ کیونکہ ہندوراشٹر کے نافذ ہونے کے بعد ۴؍ہزار سال پہلے کا منوسمرتی (سمرتی ایرانی نہیں) قانون نافذ کردیا جائے گا جس سے برہم اور بوڈولینڈ کو چھوڑ کر ہندوستان کا ہر مذہب ، ہر شخص متاثر ہوں گا۔ یہاں پر ایک غلط فہمی یہ ہے کہ ہندوستان میں اسلام کا زوال ہوگا اور مسلمان مظالم کا شکار ہوں گے۔ بے شک مسلمان مظالم کا شکار ہوں گے لیکن اسلام کا یہاں پر زوال نہیں بلکہ عروج ہوگا کیونکہ ہندوراشٹر اصل میں بہ مخالف اسلام ہے جس کے چلتے ہندو راشٹر قائم ہونے پر مسلمان تو اپنا دفاع کریں گے ہی جو پہلے سے کررہے ہیں لیکن بقیہ اقوام ، برادری وہ اس تلاش میں ہوں گی کہ ہماری نوکریاں چلی گئی، ہم سے عبادت کا حق چھین لیا گیا ، ہمیں آزادی چاہئے تووہ اس کی تلاش میں نکلیں گے تو انہیں مسلمان نظر آئیں گے جو ہر حالت میں اپنے ایمان پر قائم رہتے ہوئے اپنی عبادتیں کرتے نظر آئیں گے چاہے ان پر مظالم کے پہاڑ کیوں نہ توڑ ے جارہے ہوں جس کو دیکھ کر ہندو راشٹر کے سبب متاثر ہونے والے لوگ بھی اسلام کی جانب دوڑے چلے آئیں گے۔ ہندوستان کے مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کی روشنی میں غزوۂ ہند کے بعد بات سامنے آتی ہے لیکن غزوۂ ہند کا دور چھوٹا ہوگا یا بڑ ا اس پر غور کرنا بھی ضروری ہے۔ کیونکہ بقول مفتی طاہر نعمانی اور دیگر محقیق اسلام کے جب یہودیوں کا قتل عام شروع ہوگا دجال مارا جائیں گا اس کے بعد یہودی ہندوستان میں پناہ گزیں ہوں گے اور ان کے ہندوستان آنے کے بعد بوڈولینڈ اور برہمن بھی یہودی ہوجائیں گے۔ وہ ہندوستان پر حکومت کریں گے اور انہوں نے اپنے بچاؤ کے لئے پورے ملک میں غرقد کے درخت لگارکھے ہیں یہ اس بات کی دلیل دیتے ہیں کہ آخری یہودی ہندوستان میں ہی مارا جائیں گا۔ کیونکہ یہ بارہ خاندانوں کے ہندوستان آجانے کے بعد اور حکومت سنبھالنے کے بعد مسلمانوں پر ظلم کی انتہاء ہوجائیں گی جس کی اطلاع حضرت عیسیٰ ؑ اور حضرت مہدی کو ہوں گی اور ان کی قیادت میں ہندوستان پر ایک لشکر حملہ آور ہوں گا ماریں گا یہ غزوۂ ہند ہے جو اسلام کی آخری اور بڑی جنگ قرار دی جائیں گی۔جس کے لئے مسلمانوں کو بالخصوص ہندوستانی مسلمانوں کو تیار رہنا ضروری ہوگیا ہے۔ کیونکہ غزوۂ ہند ہندوستان میں ہوگا، مظالم ہندوستان کے مسلمانوں پر ڈھائے جائیں گے جس کا دفاع ہمیں ہی کرناہے اور اس کے لئے ہمارے نبی کریم ﷺ نے ہمیں ۱۴۰۰؍سال پہلے ہی پیشن گوئیاں فرما دی ہے، قرآن بھی دجال کے فتنے کی آگاہی دیتاہے لیکن باوجود اس کے ہم ہے کہ اس کو سمجھے کو تیار ہیں ہے ، آج کورونا اور لاک ڈاؤن کے نام پر One World Orderپر کام شروع ہوچکاہے، کمزوروں کو مارنے کا فارمولہ اپنایا جارہا ہے۔ لاک ڈاؤن کے نا م پر معاشی طور پر کمزور کرنے کا کھیل شروع ہوچکاہے، بیماری کی دوا کے نام پر ویکسن ہوسکتاہے کہ یہ اسی چپ والی ہو یا پھر آئندہ دور میں وہ چپ آسکتی ہے ، دینے کی کوششیں شروع ہوگئی ہے۔ جس کے برخلاف مسلمان کو چاہئے کہ وہ اپنا دفاع تیار کریں۔ قرآن و حدیث ہمارے ، نبی ﷺ ہمارے، لیکن ان کی تعلیمات پر عمل پیراں یہودی اور فرقہ پرست ہورہے ہیں جو ہمارے لئے ڈوب مرنے کی بات ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ آج ہم نے ہمارے سائنس دان تک نہیں رکھے جو اس طرح کی وباؤں کو جھوٹ ثابت کرسکتے۔ ہم نے ہماری نسلوں کو وہ تعلیم نہیں دی جو آنے والی دور میں دجالی فتنے اور غزوۂ ہند کے تعلق سے دفاع تیار کرسکتے، ۹۹؍فیصد لوگوں کو تو دجال اور غزوۂ ہند کے تعلق سے کچھ پتہ نہیں، ہمارے بیانات روایت پر مبنی ہوچکے ہیں، جمعہ کا بیان سمجھ میں نہیں آتا پھر بھی دیا جاتاہے، ہم آنے والے نسلوں کا مستقبل بنانے کے بجائے عالیشان مسجدیں اور درگاہیں بنارہے ہیں۔ بھوکوں کو کھانا کھلانے کے بجائے اپنے ماننے والے اور اپنے ہم خیالوں کو کھانا کھلاتے نظر آرہے ہیں، اسلام کی اصل تعلیم اور اس کی روشنی میں آنے والے حالت کی دفاع کی تعلیم کے بجائے چندہ حاصل کرنے والی تعلیم اور نوکری حاصل کرنے والی تعلیم پر زور دیا جارہاہے۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں اپنے دفاع کے طریقہ کار سکھلانے کے بجائے ہم پلاٹنگ کا کاروبار، مارک آؤٹ، لے آؤٹ یہی سکھلانے میں مصروف نظر آرہے ہیں، جمہوریت کے نا م پر شریعت کا جنازہ نکال رہے ہیں۔ خود کو ملک پرست ثابت کرنے کی خاطر اﷲ سے شرک کررہے ہیں، مورتی پوجا، غیروں کے پروگراموں میں شرکت ، ہر وہ حرام کام ہم کررہے ہیں، جس کی اجازت ہمارا مذہب اور ہمارے علماء مفتیان نہیں دیتے۔ آج کوئی بھی مسئلہ ہمارے ساتھ آتاہے تو ہم فیس بک اور وھاٹس اپ پر چیخ پکار مچا دیتے ہیں ،جن کو ابھی تک دھونا نہیں آتی، اردو اور مراٹھی لکھنا نہیں آتی ان کی جانب سے بڑی بڑی پوسٹیں دکھائی دیتے ہیں، بیاض خوریں اس طرح سے باتیں کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ جیسے ان سے بڑا مفتی کوئی نہیں ہے، ہمارے پاس مشورے کے آداب ختم ہوچکتے ہیں،مشوروں میں دانشور کون ہے؟ اس کی تمیز ہمیں نہیں ہے، جو زیادہ چندہ دیتاہے اسے مشورے میں بلایا جاتاہے۔ جو دانشور کے ساتھ ساتھ علماء کرام مفتیان کرام کو بھی کراس کرتا نظرآتا ہے، سیمڑے پوٹٹے خود کو اس طرح پیش کرتے ہیں کہ پوری امت کی ذمہ داری ان ہی کی ہے، اپنے باپ کی نہ سننے والے قوم کو اتحاد کا درس دیتے ہیں ۔ یہ سب کچھ ہواہے اور ہورہاہے اور اس کو روکا نہیں گیا تو جس کا خمیازہ ہمیں آنے والے وقت میں غزوۂ ہند اور دجال کے فتنے کے وقت بھگتنا ہوگا۔ کیونکہ جو حالات ابھی اوپر بیان کئے گئے ہیں وہ بھی منصوبہ بند طریقے سے ہم پر تھوپے جارہے ہیں ہم وہی کررہے ہیں جو یہودی اور فرقہ پرست ہم سے کروانا چاہتے ہیں ۔ آپ خود دل پر ہاتھ رکھ کر سوچئے کہ کیا ہم ہمارے مسائل کے تعلق سے راستوں پر اتر کر کام کرنے کو تیار ہے، کیا ہم آپسی اتحاد کے تعلق سے اپنی نااتفاقی کو دور کرنے کو تیار ہے، ہم تو چھوڑئے ہمارے سے زیادہ تنازعہ ہمارے سرپرست یعنی علماء کرام میں نظر آتے ہیں، ہماری دو جمعیتہ ہے ہماری دس جماعتیں ہیں، ہمارے ۷۲ ؍ کے قریب فرقہ بنتے جارہے ہیں۔ جب کہ ہمارا اﷲ ایک ہے، ہمارا نبی ﷺ ایک ہے، ہماری نماز ایک ہے، ہمارا صراط مستقیم بتلانے والا قرآن ایک ہے، باوجود اس کے ہم تفرقہ میں پڑے ہوئے ہیں، ہم پر یہودی حملہ آور ہوتے ہیں، فرقہ پرست حملہ ہوتے ہیں، وہ ہمیں شیخ ، سید، پٹھان، انعامدار، مومن، انصاری ، منیار، عطار، ہے کہہ کر نہیں مارتے ہیں صرف اس لئے مارتے ہیں کہ ہم مسلمان ہے۔ آپ کو پوری دنیا مسلمان سمجھتی ہے اور ہم ہے کہ خود کو مسلمان سمجھنے کو تیار نہیں ہے، ہم ذات برادری میں الجھے ہوئے ہیں۔ حد تو یہاں تک ہوگئی ہے کہ خود کو ذیادہ ثابت کرنے کی خاطر بیاض خوروں نے براریوں کا سہارا لے لیاہے، برادریوں کی کمیٹیاں بنائی جارہی ہے جو مسلمانوں کو جوڑنے والی نہیں بلکہ توڑنے والی بات ہے، مسلمانوں کو سمجھنا اور سدھرنا ضروری ہے۔ آج ہی سے تمہیں اپنے دواخانے کھڑے کرنے ہوں گے، اپنے ڈاکٹرس تیار کرنے ہوں گے، اپنے سائنسدان بنانے ہوں گے جو جھوٹی بیماریوں کی پول کھول سکے، تمہیں معاشی طور پرمضبوط ہونا پڑیں گا، کمزوروں کو طاقت دینا ہوگی، مسجد مدرسہ جو ہے انہیں مضبوط کرنا پڑے گا، انہیں طاقت فراہم کرنا ہوگی، اپنی مرضی اور فائدے کی خاطر مسجد اور مدرسہ کھولنے والوں کو روکنا ہوگا۔ جہاں ضرورت ہے وہاں بنائی جائے لیکن رنگ و روغن ، توسیع کے نام پر قوم کے پیسوں کا غلط استعمال بند کرنا ہوگا کیونکہ سنگین ہونے والے ہیں اور تمام حالات مسلمانوں کے خلاف ہی ہے۔ آپ مانو یا مت مانو ہم دجال کے دور میں داخل ہوچکے ہیں، غزوۂ ہند ہمارے قریب ہے، این آر سی سے لے کر کورونا یہ سب چیزیں اس کی دلیل ہے۔ فیس بک پر بیٹھ کر فلسطین کے لئے دعا کرنے کے بجائے ہمیں خود کے لئے دعا کرنی ہوگی، کیونکہ مصلحت پسندی، قومی یکجہتی اور جمہوریت کے نام پر ہم بزدل ہوچکے ہیں ہم نے و ہ شجاعت و ہمت باقی نہیں رہی جو دجال کے فتنے کے دور میں اور غزوۂ ہند کے وقت ہم میں ہونی چاہئے ہم نشہ کے نام پر کھوکھلے ہوچکے ہیں ، ہماری نسلیں تباہ ہوچکی ہے، جو خود اپنی مدد نہیں کرسکتا وہ دوسروں کے لئے دعا کررہاہے، اور وہ بھی کس کے لئے جو جیالے ہیں جو دن رات موت کو اپنے ساتھ لئے پھرتے ہیں، بڑے تو چھوڑو وہاں کے بچے بھی ٹینک کو تباہ کرنے کی طاقت رکھتے ہیں، ایک پتھر میں ٹینک برباد کرنے والی نسل کو فلسیطن نے پیدا کیا ہے، میں تو دعا کروں گا کہ اﷲ مجھے یا میری نسل کو فلسطین کے لئے قبول کرلے۔ فلسطین کے ایک بچے کی فوٹو اس آرٹیکل کے ساتھ دے رہاہوں آپ خود سوچئیے کہ وہ فلسطین ہے جہاں پر اﷲ کیسے کیسے جیالے پیدا کررہاہے۔ فلسطین والوں کو دعاؤں کی ضرورت نہیں ہے، دعاؤں کی ضرورت تمہیں ہے۔ دفاع کے تعلق سے تمہیں سوچنا ہے فلسطین والوں کو نہیں جو سینکڑوں اور ہزاروں کی بندوق دھاری فوج کا سامنا پتھر سے کرتاہے اسے اپنی موت کی فکر نہیں ، موت کی فکر تو تمہیں کرنی چاہئے جو مصلحت پسندی قومی یکجہتی اور ذہبی رواداری کے نام پر بزدلی لئے پھرتے ہیں۔ جب تک تم متحد نہیں ہوں گے آپ میں تمہارا تھینک ٹینک نہیں بنیں گا ، قرآن و حدیث کی روشنی میں تم جب تک دفاع تیار نہیں کروں گے، مساجد میں بیٹھ کر سیاسی فتویٰ قرآن و حدیث کی روشنی میں (انّا، بھیا، یا خود کی دوکان چلانے کی خاطر نہیں) تیار نہیں کروں گے اس پر عمل آوری نہیں کروں گے لیڈر شپ تیار کرتے ہوئے کسی ایک کو لیڈر تسلیم نہیں کروں گے ،تو تمہارے حال پر رونے والا بھی نہیں بچیں گا ہمیشہ کی طرح پھر یہی کہنا پڑے گا کہ
متحد ہو تو بدل ڈالو نظام گلشن
منتشر ہو تو مرو شور مچاتے کیوں ہو

Muhammad Qamar Ul Eman
About the Author: Muhammad Qamar Ul Eman Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.