افغانستان سے غیر ملکی افواج کا انخلا شروع ہوچکا اور ہر گذرتے وقت کے ساتھ
غیر یقینی صورت حال میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ امریکہ کے دفاعی امور سے
تعلق رکھنے والے ہوں یا غنی انتظامیہ سے ، امریکہ انخلا کو بڑی غلطی قرار
دینے کی کوشش کی جا رہی ہے ، تاہم صدر جو بائیڈن کے افواج کے انخلا کے حتمی
اعلان کے بعد صدر اشرف غنی اور افغان سیکورٹی فورسز نئی صور ت حال کا سامنا
کرنے کے لئے خود انحصاری کا دعویٰ تو کرتے نظر آرہے تاہم زمینی حقائق اس کے
برعکس ہیں، آسٹریلیا کا اپنا سفارت خانہ بند کرنے کا فیصلہ نہایت اہمیت کا
حامل ہے ، افغان طالبان نے بھی موسم گرما کی مناسبت سے اپنے آپریشنز میں
تیزی لانی شروع کردی ہے اور دفاعی نوعیت کے اہم علاقوں پر قبضے شروع کردیئے
ہیں۔ حال ہی میں مختلف علاقوں کے علاوہ کابل سے صرف چالیس کلو میٹر دور،
وردک صوبے کے ضلع نرخ پر افغان طالبان کے قبضے کے بعد غنی مخالف جنگی حکمت
عملی واضح ہورہی ہے کہ کابل کی جانب پیش قدمی کے لئے ضلع نرخ کو گیٹ وے کے
طور پر استعمال کیا جاسکتا کیونکہافغانستان کے کئی اہم مرکزی اور جنوبی
علاقوں کو جانے والی متعدد قومی شاہراہیں اسی ضلع نرخ سے ہو کر گزرتی ہیں۔
افغان وزارت داخلہ کے ایک ترجمان طارق آریان کے مطابق ’ افغان سکیورٹی اور
دفاعی فورسز ایک، ''حکمت عملی'' کے تحت نرخ پولیس ہیڈ کوارٹر سے پیچھے ہٹیں‘۔
ویسے تو دونوں فریقین کی جانب سے متضاد بیانات میں میں بڑی ہلاکتوں و
فتوحات کا ذکر کیا جاتا ہے ، لیکن یہ حقیقت ہے کہ افغانستان کی عوام امریکہ
و غیر ملکی افواج کی واپسی پر زیادہ اس لئے متفکر ہیں کیونکہ امریکی افواج
و نیٹو کے انخلا کے بعد کوئی ایسا روٹ میپ طے نہیں کیا جاسکا ، جسے افغا ن
اسٹیک ہولڈرز نے متفقہ طور پر طے کرلیا ہو۔ غنی انتظامیہ کے عہدے داروں کا
غیر ذمے دارانہ رویہ دونوں ممالک کے درمیان تلخی کا موجب بنتا ہے تاہم
پاکستانی سیکورٹی فورسز کی جانب سے 2017سے پاک۔افغان بارڈر منجمنٹ پر کام
جاری ہے ، جسے روکنے کے لئے سرحد پار سے دہشت فرد حملوں میں پاکستانی
سیکورٹی فورسز کو نشانہ بنایا جاتا ہے ، سیکورٹی فورسز سرحد پار حملوں کا
موثر جواب دیتی ہیں تاہم سرحدی قبائل میں قومیت کے نام پر ایک ایسا
پروپیگنڈا بھی شد و مد کے ساتھ کیا جاتا ہے جس کا مقصد پاک۔ افغان سرحد پر
واقع قبائل بد گمانی کا شکار ہوکر سیکورٹی فورسز کے خلاف سرحد پار دہشت
گردی کے واقعات کے حمایت کریں ۔
پاکستانی ریاست نے پشتون قبائل کے حوالے سے ایسے تمام بے بنیاد الزامات کی
سختی سے تردید کی ہے اور قبائل نے بھی پاکستانی ریاست کے ساتھ اتحاد و
اتفاق کا پیغام دے کر وطن دشمن عناصر کے پروپیگنڈوں کو مسترد کیا ہے، عالمی
ذرائع ابلاغ میں ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت امریکی افواج کے انخلا کے عمل میں
پاکستان کی جانب سے مبینہ طور پر ائیر بیس ، امریکی فوجیوں کو دینے کے لئے
خبروں کو خصوصی اہمیت دی جا رہی ہے۔ پاکستان دفتر خارجہ ایسی من گھڑت
اطلاعات کی سختی سے تردید کرچکا ہے اور کسی بھی ائیر بیس امریکہ کو دینے کے
لئے کسی بھی قسم کی تجویز پر غور کرنے سے بھی لاتعلقی کا بیان جاری کرچکا
ہے ۔ غیر ملکی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی فضائیہ نے تصدیق
کی ہے کہ وہ صوبہ بلوچستان میں ایک نیا فضائی اڈہ (ایئر بیس) بنانے پر غور
کر رہی ہے جبکہ ضلع نصیر آباد کے ڈپٹی کمشنر کا کہناہے کہ ایئرفورس نے اس
سلسلے میں اراضی کے حصول کے لیے انتظامیہ سے رابطہ کیا تھا جس کے بعد انھیں
نصیر آباد کے علاقے نوتال میں اراضی کا معائنہ کرایا گیا۔ مبینہ دعویٰ کیا
گیا ہے کہ ضلع نصیر آباد میں تعمیر کیا جانے والا ایئر بیس درحقیقت امریکن
فورسز کی درخواست پر بنایا جا رہا ہے اور یہ کہ یہ ایئر بیس امریکہ کے زیر
استعمال ہو گا۔ تاہم ترجمان پاکستان فضائیہ اور وزارت خارجہ نے اس کی تردید
کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس نوعیت کی کوئی تجویز زیر غور نہیں ہے۔فضائیہ کے
ترجمان کے مطابقبلوچستان میں نیا فضائی اڈہ بنانے کی تجویز ایک معمول کی
چیز ہے اور اس حوالے سے کوئی حتمی فیصلہ فی الحال نہیں ہوا ہے۔ ترجمان کے
مطابق ابھی اس فضائی اڈے کے لیے چار سائٹس (جگہیں) زیر غور ہیں مگر حتمی
فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔دوسری جانب پاکستان کی وزارت خارجہ نے بھی ان
خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں نہ تو امریکن افواج ہیں
اور نہ ہی کوئی ایئر بیس اور نہ ہی کوئی ایسی تجویز زیر غور ہے۔ 'اس حوالے
سے کی جانے والی تمام قیاس آرائیاں بے بنیاد اور غیر ذمہ دارانہ ہیں جن سے
اجتناب کرنا چاہیے۔
واضح رہے کہ پاکستان ماضی میں امریکہ کو غیر اعلانی طور پر ائیر بیس سمیت
زمینی و فضائی حدود دینے میں تعاون کرچکا ہے ، جس کا نتیجہ پاکستان کو دہشت
گردی کے بدترین صورت میں اٹھانا پڑا ۔ امریکہ کی جنگ ، پاکستان میں بھی
منتقل ہوگئی اور انتہا پسندوں نے پاکستان میں دہشت گردی کا بازار گرم کردیا
، اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ملک دشمن عناصر و ممالک نے ایسے حالات کا
بھرپور فائدہ اٹھایا اور اپنے زیر خرید غلاموں کو پاکستانی کی سا لمیت و
بقا کو تباہی سے دوچار کرنے کے ایجنڈے پر سنگین واقعات کو جنم دیا ۔ ریاست
نے امریکہ و عالمی قوتوں کے جانب دارانہ رویئے کو مد نظر رکھتے ہوئے عالمی
طاقتوں کے مفاداتی جنگ کا حصہ بننے سے لاتعلقی کا اعلانکیا اور اپنی سرزمین
سے انتہا پسندوں کا صفایا کرنا شروع کیا ، جس کے نتیجے میں بڑے دہشت گردی
کے بڑے واقعات ختم ہوئے ، تاہم پاک ۔ افغان اور ایران بارڈر کے اب بھی کچھ
حصے ایسے ہیں جنہیں محفوظ بنانے کی ضرورت ہے ، پاکستانی ریاست کا اپنی مدد
آپ کے تحت کام جاری ہے اور سرحد پار دہشت گردی کے واقعات میں قیمتی جانوں
کی قربانیوں کے باوجود اپنے مشن کو جاری رکھا ، اب عالمی سطح پر پاکستان کے
اہم ترین بارڈر منجمنٹ کی افادیت کو تسلیم کیا جارہا ہے کہ افغانستان سے
غیر ملکی فوجوں کے انخلا کے بعد متحارب گروپوں کو محفوظ مقامات پر راہ فرار
سے روکنے کے لئے پاک ۔ افغان و ایران بارڈر کلیدی کردار اداکرے گی۔ خیال
رہے کہ افغانستان کے ساتھ تقریباً 2500 کلو میٹر طویل سرحد پر خاردار باڑ
لگانے کا منصوبہ تکمیل کے مراحل میں ہے. دونوں ممالک کے مابین تقریباً 2500
کلو میٹر طویل سرحد ہے جس کا تقریباً 1229 کلو میٹر پاکستان کے صوبے
خیبرپختونخوا جب کہ بقیہ حصہ صوبہ بلوچستان کے ساتھ لگتا ہے۔کابل میں قائم
'افغانستان انالسٹس نیٹ ورک' نامی تھنک ٹینک کی ایک رپورٹ کے مطابق پاک
افغان سرحد افغانستان کے ایک تہائی صوبوں سے منسلک ہے جب کہ سرحد پر 235
ایسے مقامات ہیں جہاں سے عوام، اسمگلرز اور شدت پسند غیر قانونی طور پر
سرحد پار کرتے رہے ہیں۔وفاقی وزیرِ داخلہ شیخ رشید نے 11 اپریل کو کہا تھا
کہ’’ پاک افغان سرحد پر باڑ 90 فی صد مکمل ہو چکی ہے اور جون میں اس کی
تکمیل متوقع ہے‘‘۔ اطلاعات کے مطابق سرحد پر باڑ لگانے کے ساتھ ساتھ نگرانی
کے لیے سیکڑوں چھوٹے چھوٹے قلعے اور چوکیاں بھی تعمیر کی گئی ہیں۔ ''ان
قلعوں اورچوکیوں میں جدید ترین ٹیکنالوجی جیسے نگرانی کا الیکٹرانک نظام،
کلوز سرکٹ اور ڈرونز کیمروں کا استعمال بھی کیا جا رہا ہے۔'' پاکستان کے
پارلیمانی سیکریٹری برائے داخلہ شوکت علی نے قومی اسمبلی کو آگاہ کیا تھا
کہ افغانستان کے لیے تجارتی مقصد کے لیے چھ باضابطہ سرحدی راستے فعال ہیں
جن میں خیبرپختونخوا میں طورخم (خیبر)، انگور اڈہ (جنوبی وزیرستان)، غلام
خان (شمالی وزیرستان) اور خرلاچی (کرم)۔ اسی طرح بلوچستان میں چمن (قلعہ
عبداﷲ) اور بادینی (قلعہ سیف اﷲ) شامل ہے۔پاک انسٹیوٹ آف پیس اسٹڈیز کی
سالانہ رپورٹ کے مطابق 2020 میں افغانستان سے پاکستان کی حدود میں 11 سرحد
پار حملے ہوئے ہیں جن میں 12 عام شہری اور سات سیکیورٹی اہلکار ہلاک
ہوئے۔البتہ اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی سینکشن مانیٹرنگ ٹیم کی
فروری میں جاری کردہ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ٹی ٹی پی نے 2020 میں
جولائی سے اکتوبر کے دوران سرحد پار سے 100 حملے کیے۔ان حالات کے تناظر میں
دیکھا جائے تو افغانستان کے نئے منظر نامے کے بعد پاکستان پر جہاں پہلے سے
موجود 27لاکھ افغان مہاجرین علاوہ نئی تیسری بڑی لہر آنے کے خدشات ہیں تو
دوسری جانب انتہا پسندی۔
ریاست اس حقیقت سے بخوبی واقف ہے کہ امریکہ و نیٹو افواج کے انخلا کے بعد
پاکستان پر عالمی قوتوں کا دباؤ ’ ڈومور ‘ کی صورت میں بڑھایا جائے گا ،
اسی لئے مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی مودی سرکار کی ریاستی دہشت گردیوں ،
ایف اے ٹی ایف ، یورپی یونین کی جانب سے پاکستان مخالف قرارداد ، اسلام
فوبیا و عالمی اداروں کی کڑی شرائط میں قرضے و سود کی واپسی و سیاسی عدم
استحکام لانے کی تھیوری پر عمل کیا جارہا ہے ، اس لئے بادی ٔ النظر لگتا ہے
کہ پاکستان پر چہار اطراف سے دباؤ میں اضافے کے لئے شمال مغربی و مشرقی
سرحدوں پر اشتعال انگیز کاروائیوں میں اشتعال انگیز اضافہ بھی خارج از
امکان نہیں ، ان حالات میں سیاسی و عسکری قیادت کو وطن عزیز کے لئے سنجیدہ
و ٹھوس حکمت عملی اپناتے ہوئے ماضی میں پاکستان کے تعاون و امریکہ کے رویئے
سمیت عالمی قوتوں کے دہرے معیار کے مطابق فیصلے لانا ہوں گے ۔ پاکستان ، ان
حالات میں کسی قسم سیکورٹی رسک کا متحمل نہیں ہوسکتا ، مبینہ طور پر ائیر
بیس ، زمینی و فضائی اسٹریجک کولیشن پالیسی سمیت افغان مہاجرین کی تیسری
لہر کی ممکنہ آمد پر مقتدور اداروں کو منصوبہ بندی کرتے ہوئے ماضی کی
غلطیوں کو دیکھنا ہوگا ، کیونکہ جن عالمی طاقتوں کے لئے پاکستان نے انتہائی
سیکورٹی رسک لئے ا، انہوں نے پاکستان کے ساتھ دہرا معیار رکھتے ہوئے ، وطن
دشمنوں پر نوازشات کی بارش کی او ر اپنی ناکامی کا ملبہ ریاست پر ڈالنے کی
ناکام کوشش کی۔ پاک۔ افغان اور ایران بارڈر منجمنٹ خطے میں دہشت گردی اور
انتہا پسندوں کے مذموم عزائم کو ناکام بنانے کی موثر کوشش ہے، ان منصوبوں
کو ناکام بنانے کے لئے امن دشمن قوتیں لسانیت ، صوبائیت اور قومیت کا سہارا
لے کر عوام کو گمراہ کرنے کی سازشیں بھی کرتی رہتی ہے ، لہذا ففٹھ جنریشن
وار کے خلاف ہر محب الوطن اپنی سرزمین کو امن کا گہوارہ بنانے کے لئے ریاست
کے شانہ بہ شانہ ہے ۔ کیونکہ یہی ہم سب کے حق میں بہتر ہے۔
|