73 سالوں بعد مفلسی و پسماندگی کے اندھیروں میں گھری ہوئی
قوم کو عمران خان کے روپ میں ایک مسیحا ملا ہے کہ اگر سیا سی مخالفین اپنی
سیاست چمکانے کے لئے موجودہ حکومت کی ترقی کی راہ میں روڑے نہ اٹکائے تو
وطن عزیز کو آگے بڑھنے سے کوئی نہیں روک سکتا ، اس میں کسی شک وشبہ کی
گنجائش نہیں کہ کہ تحریک انصاف کی حکومت وطن عزیز کی معیشت کو گرداب سے
نکالنے اور عام آدمی کے حالات سنوارنے میں پوری تندہی سے مصروف ہے۔
وزیراعظم نے جس نئے پاکستان کا وعدہ کیا تھا اس کی انہوں نے بنیاد اپنی
حکومت کے پہلے 100 دن میں رکھ دی تھی وہ دن دور نہیں جب پی ٹی آئی کی ا
حکومت کی غریب دوست پالیسیوں سے پاکستان ریاست مدینہ کا نمونہ بن کر ابھرے
گا ۔ اب تک کے اقدامات سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ عمران خان ’احتساب‘ کے وعدے
پر پختگی کے ساتھ قائم ہیں اور وہ اس حوالے سے کسی بھی سیاسی بلیک میلنگ سے
ہراساں بھی نہیں۔ کیونکہ انہوں نے اقتدار سے قبل اور وزارت عظمیٰ کے عہدے
پر فائز ہونے کے بعد پہلے خطاب میں قوم سے لٹیروں اور ٹیکس چوروں کو سزا
دینے کا وعدہ کیا تھا اور آج بھی قوم سے کیے گئے قول کو نبھا رہے ہیں یہ
وزیر اعظم عمران خان کے عزم و ارادے کی پختگی کی اعلی ٰ و روشن مثال ہے کہ
کرپشن کیخلاف شروع کی گئی جنگ ہم جیت چکے ہیں اور کرپٹ ٹولے کو ملنے والی
سزاؤں نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اگر حکمران کا جذبہ سچا ہو اورصحیح معنوں
میں اپنے وعدوں کو ایفاء کرنے کا ارادہ کر لے تو یقیناً اس ملک کی اور وہاں
رہنے والے شہریوں کی زندگیوں میں خوشحالی آجاتی ہیں ۔ اب تک کے اقدامات سے
یہ ثابت ہو چکا ہے کہ عمران خان ’احتساب‘ کے وعدے پر پختگی کے ساتھ قائم
ہیں اور وہ اس حوالے سے کسی بھی سیاسی بلیک میلنگ سے ہراساں بھی نہیں۔
کیونکہ انہوں نے اقتدار سے قبل اور وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز ہونے کے
بعد پہلے خطاب میں قوم سے لٹیروں اور ٹیکس چوروں کو سزا دینے کا وعدہ کیا
تھا اور آج بھی قوم سے کیے گئے قول کو نبھا رہے ہیں وزیر اعظم عمران خان
مہاتیر محمد ثانی ہیں جو پاکستان کو ملائشیا کی طرح اسلامی دنیا کا لیڈر
بنانے کیلئے مسلسل سرگرم ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے ملائیشین ماڈل کو
اپناتے ہوئے عوام تک تعلیم و صحت اور دیگر بنیادی سہولیات پہنچانے کیلئے
عملی قدم اٹھا رہے ہیں کیونکہ اسی ماڈل کے ذریعے ہی ملائیشیا کی پسماندہ
معیشت میں بہتری آئی اور اسی کا شمار ترقی یافتہ ملکوں میں ہونے لگا اور
عمران خان ان سے ہمیشہ متاثر رہے ہیں ۔ ہمارے وزیر اعظم عمران خان کی غریب
دوست پالیسیوں سے 70فیصد پر مشتمل غریب طبقے کے حالات سنور جائیں گے ۔عمران
خان کے شروع کیے گیے چند بڑے منصوبے جن میں ’پاکستان سیٹیزن پورٹل‘، ’صحت
انصاف کارڈ‘، ’احساس پروگرام‘ اور ’ کامیاب نوجوان پروگرام اور نیا پاکستان
ہاوسنگ سکیم‘ شامل ہیں، میں قابل ذکر پیش رفت ہوئی ہے۔بالخصوص پاکستان
سیٹیزن پورٹل پر کی جانیوالی شکایات کے ازالے کے حوالے سے مثبت عوامی رد
عمل پایا جاتا ہے اور اس ایپلی کیشن کے ذریعے کی جانیوالی بیشترشکایات کا
حل کم سے کم وقت میں مہیا کر دیا جاتا ہے۔حکومتی احساس پروگرام کے تحت
غریبوں، خاص کر غریب خواتین کے لیے شروع کیے گیے خوراک، صحت، تعلیم، روزگار
اور رہائش کی لازمی فراہمی کے منصوبوں کو گیم چینجرکا درجہ دیا جائے تو غلط
نہیں ہوگا ۔ تاہم اپوزیشن کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ بینظیرانکم سپورٹ
پروگرام کی مستعار لی گئی ایک شکل ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ حکومت کی کارکردگی
جاننے کے لیے ایک ڈیڑھ سال کا عرصہ کافی نہیں ہوتا۔ اگر ہمیں عمران خان کے
ویژن پر عملدرآمد کا جائزہ لینا ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم ان کی
حکومت کے پانچ سال پورے ہونے کا انتظار کریں اور اس کے بعد دیکھیں ۔
پاکستان تحریک انصاف کی عوام دوست پالیسیوں کی وجہ سے اب عوام کے مسائل ان
کی دہلیز پر حل ہورہے ہیں۔ موجودہ حکومت کی تمام ترجیحات اور پالیسیاں غریب
عوام کیلئے ہیں۔ قبل ازیں عوام حقیقی تبدیلی کی ایک جھلک خیبر پختونخوا میں
بھی دیکھ چکی ہے اور انشاء اﷲ تبدیلی اور کامیابی کا یہ سفرپورے ملک میں
جاری رہے گا۔
قیام پاکستان سے لیکر اب تک گزشتہ سالوں میں بہت سی حکومتیں آئیں اور متعدد
وزرائے اعظم نے عوامی فلاح و بہبود کے دعوے و وعدے بھی کئے لیکن ان میں سے
کم ہی ایفاء ہوسکے۔وزیر اعظم عمران خان نے حکومت سنبھالنے کے پہلے روز سے
ہی مستحق، نادار اور کمزور طبقات کو سہولیات کی فراہمی کے عزم کا اعادہ کر
رکھا ہے کہ نیا پاکستان ایک فلاحی ریاست کا قیام ہوگا، نچلے طبقے کو اٹھانے
کے لئے ہر ممکن اقدامات کریں گے، امیروں سے ٹیکس وصول کرکے غریبوں پر خرچ
کئے جائیں گے۔ ملک بھر میں لنگر خانے ان علاقوں میں کھولے گئے جہاں محنت کش
و مزدور طبقہ بیروزگاری اور بھوک کا شکار ہے۔ چونکہ ریاست مدینہ میں کمزور
طبقہ کی ذمہ داری ریاست لیتی ہے اور یہ فلاحی ریاست ہوتی ہے، ریاست مدینہ
قرآن و سنت کی عملی تصویر تھی اور وزیر اعظم ریاست مدینہ کے تصور کی عملی
تعبیر کے لئے اقدامات کر رہے ہیں۔آج تک کسی حکمران نے بھی ان مسافروں کا
بھی نہیں سوچا کہ وہ بے یارومددگار اپنے گھر سے دورکسی دوسرے اجنبی شہر میں
جو کسی ہوٹل میں قیام کی سکت نہ رکھتے ہوں اوراگر کسی مشکل سے دوچار ہو
جائے تو وہ رات کہاں ٹھہرے گے، اگر بھوکے ہوں تو اپنا پیٹ کیسے بھریں
گے؟۔بلاشبہ مفلسوں اور غریب مسافروں کے سرکاری قیام گاہیں کسی نعمت سے کم
نہیں۔ عارضی پناہ گاہیں بلاشبہ ان کی انسان دوستی کا مظہر ہے۔ بے گھر افراد
کیلئے بالخصوص جو راتیں فٹ پاتھ پر گزارتے ہیں شیلٹر ہومز کا منصوبہ پورے
ملک میں بنایا گیا اور ان پناہ گاہوں میں سے ہر ایک میں 300 افراد کی
گنجائش رکھی گئی ہے جنہیں دو وقت کا کھانا بھی دیا جا رہا ہے اور یہ شیلٹر
ہومز مخیر حضرات کے تعاون سے چلائے جا رہے ہیں۔ اسے بلاشبہ ایک فلاحی ریاست
کی سوچ لائق تحسین اور قابل تقلید انسان دوست قوم قرار دیا جا سکتا ہے۔
|