صدیوں کی جہاں گردی کے بعد یہودیوں نے بیت المقدس اور
فلسطین پر قبضہ کرنے کی غرض سے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کام کیا۔ 1897ء
’’میں صہیونی تحریک‘‘ معرض وجود میں آئی، جس کا بنیادی نصب العین فلسطین پر
قبضہ کرنا اور ’’ہیکل سلیمانی‘‘ کو نئے سِرے سے تعمیر کرنے کے لیے عملی
جدوجہد کرنا تھا، بڑے بڑے یہودی مالداروں نے اس تحریک کی پشت پناہی کی اور
فلسطین کی زمینیں خریدنے اور وہاں یہودی بستیاں تعمیر کرنے کی غرض سے ان کی
امداد کی۔
(1)یہودی سازش سے سلطنت ِ عثمانیہ کا خاتمہ:اس کے بعد1901ء میں ہٹلر نے
ترکی خلیفہ سلطان عبدالحمیدؒ کو لالچ دینا چاہا کہ اگر وہ سرزمین ِفلسطین
پر یہودی مملکت کے قیام کی اجازت دے دیں، تو یہودی ترکی کے تمام قرضے ادا
کرنے کو تیار ہیں، لیکن سلطان نے اس پیشکش کو انتہائی حقارت کے ساتھ ٹھکرا
دیا اور کہا: ’’اس وطن کی سرزمین کو، جسے ہمارے آباؤاجداد نے خون دے کر
حاصل کیا تھا، چند درہموں کے بدلے نہیں بیچیں گے، ہم اس وطن کی ایک بالشت
برابر زمین بھی اس وقت تک نہیں دیں گے جب تک اس پر ہمارا خون نہ بہہ
جائے۔‘‘
اس بات پر یہودی، سلطان کے خلاف سرگرم ِعمل ہوگئے او ربالآخر1908ء میں
انہیں خلافت سے معزول کردیا گیا اور سلطنتِ عثمانیہ کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا
گیا۔
ء میں اسرائیلی وزیردفاع نے بیان دیاتھا:سلطان عبدالحمیدکی حکومت کا خاتمہ
ہم نے کیا تھا۔یہ سلطنت عثمانیہ کے واحد غیور حکم ران تھے،جو یہودی عزائم
کی راہ میں رکاوٹ تھے،چناں چہ اسی جرم میں یہودیوں نے ان کی حکومت کا خاتمہ
کردیا۔اس کے لیے یہودیوں نے اپنا روایتی’ پروپیگنڈے کا ہتھیار‘ استعمال
کیا،عوام کو خلیفہ کے خلاف اکسایا،سول نافرمانی کی سی صورتِ حال پید کی،جس
کے نتیجے میں سلطان کی حکومت کاخاتمہ ہوگیا۔اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ:اس
وقت تک فلسطین خلافت عثمانیہ کاایک صوبہ تھا۔پورے فلسطین میں کسی جگہ کوئی
یہودی بستی موجود نہیں تھی۔سلطنتِ عثمانیہ نے پابندی لگا رکھی تھی کہ دنیا
کے کسی بھی حصے میں رہنے والے یہودی اپنے مقدس مقامات کی زیارت کے لیے وزٹ
ویزے پر فلسطین آ اور چند روز قیام کرسکتے ہیں، لیکن انھیں فلسطین میں زمین
خریدنے اور آباد ہونے کی اجازت نہیں ہوگی،کیوں کہ خلافت کے علم میں یہ بات
تھی کہ یہودی فلسطین میں بتدریج آباد ہونے اور اس پر قبضہ جمانے کی منصوبہ
بندی کر رہے ہیں، تاکہ وہ اسرائیل کے نام سے اپنی ریاست قائم کر سکیں۔
سلطان عبدالحمید ثانی مرحوم ؒنے ،خلافت سے دست برداری کے بعد جو اپنی یاد
داشیں مرتب کیں،ان میں لکھا ہے : یہودیوں کی عالمی تنظیم کے سربراہ ہر تزل
نے متعدد بارمجھ سے خود ملاقات کر کے خواہش ظاہر کی کہ وہ فلسطین میں زمین
خرید کر محدود تعداد میں یہودیوں کو آباد کرنا چاہتے ہیں، مگر میں نے اس کی
اجازت دینے سے انکار کر دیا۔پھر کہا کہ آپ ہمیں ایک اعلیٰ سطحی یونی ورسٹی
قائم کرنے کی اجازت دیں،میں نے کہا کہ اس کی بھی صرف ایک صورت میں اجازت
ہے،کہ یہ یونی ورسٹی فلسطین کے علاوہ کہیں بھی بنائی جائے،کیوں کہ مجھے
اندازہ تھا کہ وہ اس یونی ورسٹی کو بھی یہودی آباد کاری کے لیے وسیلے کے
طور پر استعمال کریں گے۔سلطان نے لکھا ہے : ایک بار ہرتزل نے میرے سامنے
چیک بک رکھ کر منہ مانگی رقم دینے کی پیشکش بھی کی، جس کے جواب میں مَیں نے
انتہائی تلخ لہجے میں ہرتزل کو ڈانٹ دیا اور اس سے کہا کہ میری زندگی میں
ایسا نہیں ہو سکتا۔یہی تھا وہ جرم،جس کی پاداش میں سلطان کو خلافت سے معزول
کر کے نظر بند کر دیا گیا۔ ان کو خلافت سے معزولی کا پروانہ پہنچانے والوں
میں ترکی کی پارلیمنٹ کا یہودی ممبر بھی شامل تھا۔ سلطان کے بعد جو بھی
عثمانی امرا آئے،وہ نرم روی سے چلتے رہے،یہاں تک کہ1920 ء میں خلافت
عثمانیہ کا خاتمہ ہوگیا۔
خلافت ِ عثمانیہ کے سقوط کے بعدفلسطین کوبرطانیہ نے اپنے کنٹرول میں لے لیا
اور برطانوی گورنر کی زیر نگرانی یہودیوں کو فلسطین میں آباد کرنے کا سلسلہ
شروع ہو گیا، دنیا کے مختلف حصوں سے یہودی آتے اور فلسطین میں زمین خرید کر
آباد ہو جاتے۔ اس موقع پر سرکردہ علمائے کرام نے صورت ِ حال کی سنگینی کو
محسوس کرتے ہوئے یہ فتویٰ دیا کہ چونکہ یہودی فلسطین میں آباد ہو کر بیت
المقدس پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں اور اپنی ریاست قائم کرنے کے خواہش مند ہیں،
اس لیے یہودیوں پر فلسطین کی زمین فروخت کرنا شرعا ًجائز نہیں
،لہٰذافلسطینیوں کو چاہیے کہ وہ اپنی اراضی یہودیوں کو فروخت نہ کریں۔
(حضرت مولانا محمداشرف علی تھانوی ؒ کی کتاب ’’بوادر النوادر‘‘میں اس موضوع
پر خود ان کا تفصیلی فتویٰ بھی موجود ہے)۔
علما ئے کرام کی یہ مہم کارگر نہ ہوئی ۔اس کی جوہری وجوہ یہ تھیں:اول:حکومت
کے ہم نوا علمانے عوام کو باور کرایا کہ حضرت مہدیؓ کے آنے کا زمانہ قریب
ہے اوروہ یہودیوں کو ویسے بھی فلسطین سے بے دخل کرکے تمھاری اراضی تمھارے
حوالے کردیں گے،اس لیے انھیں اپنی اراضی فروخت کرنے میں کوئی حرج نہیں،چند
دن کی بات ہے،تمھیں یہودیوں سے رقم تو مل ہی رہی ہے،زمین بھی واپس تمھیں مل
جائے گی۔دوسری وجہ یہ تھی کہ یہودی دگنی تگنی قیمتوں پر زمینیں خرید رہے
تھے۔
اب مسلم اکثریتی فلسطین کے بیشتر علاقوں پر یہودی قابض ہیں۔مسجد اقصیٰ،جو
انبیائے بنی اسرائیل کے سجدوں کی گواہ ہے،یہودبے بہبود کے پنجۂ استبداد میں
ہے،وہاں مسلمانوں کو داخلے اور دینی رسوم تک ادا کرنے کی اجازت نہیں۔ستم
بالائے ستم،اب وہاں امریکی سفارت خانہ بھی قائم ہونے جارہا ہے۔جس کے بعد
مسلمانوں پر عرصۂ حیات مزید تنگ کیا جاسکتا ہے۔کوئی بعید نہیں کہ ہمارے
مسلم حکم ران انکل سام کے اشارۂ ابرو پر اسرائیل کی حمایت کرنے لگ
جائیں۔اگر ایسا ہوا ،تو یہ بہت بڑا المیہ ہوگا۔شاہ فیصل شہیدؒ اور بھٹو
مرحوم نے مسلم اقوام متحدہ اور مالیاتی اداروں،نیز مسلم کرنسی کے لیے تحریک
چلائی،جس کے جرم میں وہ اپنوں کی تیغ ستم کا نشانہ بنے۔صدام حسین ،معمر
قذافی نے ان کا انجام دیکھ کر راستے بدلے،مگر انھیں بھی نہیں بخشا گیا۔
(2)یہودی سازش سے مسلمان باہم برسر پیکار:1914ء میں پہلی جنگ عظیم برپا
ہوئی، تو برطانویوں کی سازش سے ترک اور عرب ایک دوسرے کے آمنے سامنے آگئے۔
ترکی، جرمنی اور عرب برطانیہ کے حلیف تھے،یوں یہودی سازش کامیاب ہوئی اور
مسلمان،اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے خلاف بر سر پیکار ہوگئے۔
(3)اعلانِ بالفور: اسی دوران میں ’’وائزمین‘‘ نامی ایک یہودی نے انگریزوں
کو پیشکش کی، کہ اگر وہ جرمنی پر فتح حاصل کرنے کے بعد فلسطین کی سرزمین کو
یہودیوں کا قومی وطن قرار دیں تو اس جنگ میں یہودیوں کے سارے خزانے ان کے
قدموں تلے قربان کردئیے جائیں گے۔ ’’وائزمین‘‘ اس یہودی تحریک کا لیڈر تھا،
جو فلسطین پر یہودی مملکت کے قیام کے لیے سرگرم تھی، آخرکار وہ ۱۹۱۷ء میں
انگریزوں سے وعدہ لینے میں کامیاب ہوگیا کہ فتح کی صورت میں وہ فلسطین کو
ایک آزادیہودی وطن بنادیں گے۔ یہ وعدہ ’’اعلان بالفور‘‘ کے نام سے مشہور
تھا، ’’بالفور ‘‘اس وقت کے برطانوی سیکرٹری خارجہ کانام تھا،اسی کے نام سے
اس اعلان کو موسوم کیا گیا۔’’معاہدہ بالفور‘‘کے مطابق انگریزوں نے ولدالزنا
لارس کی قیادت میں سازش کا جال پھیلایا۔ گورنر مکہ شریف حسین لارس کے فریب
میں آکر ترکوں سے غداری پر آمادہ ہوگیا۔ جس سے سلطنتِ عثمانیہ کی فوجی قوت
کو بڑا نقصان پہنچا اور اس کے نتیجے میں فلسطین اور عراق پر برطانیہ کا
قبضہ ہوگیا۔
فلسطین میں یہودیوں کی آباد کاری
دسمبر 1917ء برطانوی جرنیل ’’ایلن بی‘‘ فاتحانہ طور پر بیت المقدس میں
داخل ہوا ،تب اس نے فخر سے کہا :میں آخری صلیبی ہوں۔ اس جملے کا مفہوم یہ
تھا کہ بیت المقدس پر قبضے کے لیے یورپی مسیحیوں نے 1096ء میں صلیبی جنگوں
کے جس سلسلے کا آغاز کیا تھا، اس کا اختتام اب ہُوا ہے۔1917ء میں فلسطین
کی یہودی آبادی محض چھپن ہزار تھی، لیکن پہلی جنگ عظیم میں برطانیہ کی فتح
کے ساتھ ’’اعلان بالفور‘‘ پر عمل درآمد شروع کردیا گیا، او ریہودیوں نے
فلسطین کی طرف ہجرت شروع کردی، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ1922ء تک فلسطین میں
یہودیوں کی آبادی 83ہزار تک جاپہنچی۔ 1922ء میں مجلسِ اقوم (لیگ آف نیشنز)
نے فلسطین پر حکومت کرنے کا عارضی اختیار برطانیہ کو سونپ دیا، اور اسے
ہدایت کی کہ فلسطین کے حکومتی نظم و نسق میں یہودی تنظیموں کو باقاعدہ طور
پر شریک کیا جائے۔برطانوی انقلاب کے زمانے میں یہودیوں کو فلسطین میں بسانے
کا کام منظم انداز میں کیا گیا، اور فلسطین کی زمینیں حاصل کرنے کے لیے
یہودیوں نے خزانوں کے منہ کھول دئیے، عربوں پر ٹیکس لگائے گئے، او رٹیکسوں
کے بہانے بناکر ان کی زمینیں ضبط کرکے انہیں یہودیوں کی جھولی میں ڈال دیا
گیا۔دوسری جنگ عظیم کے دوران بھی یہودی فوج در فوج، فلسطین میں داخل ہوئے،
اور انگریز انہیں تمام تر سہولتیں مہیا کرتا رہا، او ریوں ۱۹۴۷ء تک
یہودیوں کی تعداد ۸۳ہزار سے بڑھ کر ساڑھے چار لاکھ تک جاپہنچی۔
مسئلہ ٔ فلسطین اقوام متحدہ میں:1947ء میں برطانیہ نے مسئلہ فلسطین اقوام
متحدہ میں پیش کردیا، چنانچہ نومبر 1947ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی
نے فلسطین کو عربوں اور یہودیوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ صادر کیا، اس
فیصلے کے مطابق فلسطین کا 55%فیصد رقبہ یہودیوں کو اور 45%فیصد رقبہ عربوں
کو دیا گیا، یہ تقسیم انتہائی ظالمانہ اور بدنیتی پر مبنی تھی، کیوں کہ
فلسطین میں عرب آبادی 67% فیصد اور یہودی آبادی 33% تھی، لیکن یہودی اس
تقسیم پر بھی راضی نہ ہوئے اور مار دھاڑ کرکے عربوں کو ان کی زمینوں سے
نکالنا شروع کردیا۔
اسرائیل کا قیام:14 مئی 1948ء کو یہودیوں نے اپنے قومی وطن ’’اسرائیل‘‘ کے
ناجائز وجود کے قیام کا اعلان کردیا ،جسے امریکہ، روس اور برطانیہ نے سب سے
پہلے تسلیم کیا۔ نومبر 1948ء میں جب اقوام متحدہ نے جنگ بندی کا اعلان
کیا، تو اس وقت تک اسرائیل فلسطین کے78%فیصد رقبے پر قبضہ کرچکا تھا۔ اردن
نے مشرقی بیت المقدس کو یہودیوں کے قبضے میں جانے سے بچالیا جہاں مسجد
اقصیٰ واقع تھی۔
قبلہ ٔ اول یہود کے تسلط میں:جون1967ء کی عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیل نے
باقی ماندہ بیت المقدس اور مصری صحرائے سینا اور شام کی جولان پہاڑیوں پر
بھی قبضہ کرلیا۔ یوں مسلمانوں کا قبلۂ اوّل بیت المقدس بھی غیر مسلموں کے
تسلط میں چلا گیا۔
جب سے یہودیوں نے ’’بیت المقدس‘‘ پر قبضہ کیا ہے، تب سے اسے یہودی شہر
منظور کرانے کی غرض سے متعدد اقدامات کیے گئے ہیں۔بیت المقدس کی سڑکوں کے
اسلامی نام یہودی ناموں سے تبدیل کردئیے گئے ہیں اور اسرئیل نے بیت المقدس
کو اپنا دارالحکومت قرار دے کر بڑے بڑے سرکاری محکموں کو بیت المقدس میں
منتقل کردیا ہے۔اس کے علاوہ یہودی اسلامی آثار کے خاتمے کے لیے جو اقدامات
کررہے ہیں،ذیل میں اس کا مختصر نقشہ کھینچا جاتا ہے:
اسلامی آثار کے خاتمے کے لیے یہودی اقدامات
(1)مساجدکے خلاف یہودی اقدام :کسی بھی جگہ کے اسلامی ہونے کی سب سے بڑی
دلیل ’’مسجد‘‘ ہوتی ہے، جہاں سے روز انہ پانچ مرتبہ اﷲ اکبر کی صدائیں بلند
ہوتی ہیں، اور مسلمان بارگاہِ الٰہی میں سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ مسلمانوں کے
ہاں مسجد کی اسی اہمیت کے پیش نظر یہودیوں نے اب تک بیت المقدس کی بیسیوں
اور پورے فلسطین کی سینکڑوں مساجد کو شہید،کئی مساجد کو یہودی عبادت خانوں،
شراب خانوں، کلبوں اور ہوٹلوں میں تبدیل کردیاہے۔
(2)حیّ المغاربۃ:کئی جگہوں کو یہودیوں نے جھوٹے دعوے کی بنا پر یہ باور
کروایا کہ یہ جگہیں یہودیوں کی تاریخی، روحانی اور قابلِ احترام جگہیں ہیں۔
اور مسلمانوں کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے، انہی جگہوں میں ایک جگہ’’حی
المغاربہ‘‘ بھی ہے ،جسے یہودیوں نے ۱۹۶۷ء میں یہ دعویٰ کرتے ہوئے مکمل طور
پر گرا دیا تھا، کہ اس کے پڑوس میں واقع دیوار گریہ (حائط المبکیٰ) ہیکل
سلیمانی کا بقیہ حصہ ہے۔حقیقت یہ ہے کہ ’’حی المغاربہ‘‘ نامی اس پورے محلے
کو اہل مغرب (مراکشیوں) نے تعمیر کیا تھا، اور اِسے ان مسلمانوں کے لیے وقف
کردیا تھا، جو مسجد اقصیٰ میں طلبِ علم کی خاطر بیت المقدس آیا کرتے تھے۔
جب یہودیوں نے اسے گرایا تو اُس وقت اس محلے میں مسلمانوں کے 135 خاندان
آباد تھے، جو بعد میں بے گھر ہوگئے۔یہاں چار عدد مسجدیں بھی تھیں، جنہیں
نیست و نابود کردیا گیا اور ایک دینی درسگاہ جو مدرسہ افضلیہ کے نام سے
تھی، اسے بھی گرا دیا گیا جسے ’’سلطان الملک الافضل‘‘ نے چھٹی صدی ہجری میں
تعمیر کرکے مسلمانوں کے لیے وقف کردیا تھا۔
(3)مسجد اقصیٰ:مسجد اقصیٰ میں آئے دن سَر پِھرے اور مسلح یہودی داخل ہوجاتے
ہیں، اس کے تقدس کو پامال کرتے ہیں اور اس میں غیر اخلاقی حرکتیں اور شراب
نوشی کرتے ہیں تاکہ مسلمان مشتعل ہوں،جس کے نتیجے میں فوج کو انہیں قتل
کرنے اور مسجد اقصیٰ کو نقصان پہنچانے کے مواقع میسر آسکیں۔ اسرائیلی
یونیورسٹیوں، کالجوں اور اسکولوں میں نوجوان طالب علموں کو ہیکلِ سلیمانی
کی اہمیت اور مسجدِ اقصیٰ کے خلاف قدم اٹھانے پر ابھارا جارہا ہے کہ مسلمان
ظالم قوم ہیں کہ انہوں نے ہیکل کی جگہ پر مسجد اقصیٰ کو تعمیر کردیا ہے، اس
لیے اسے گرانا اور اس کی جگہ پر ہیکل کو دوبارہ تعمیر کرنا ہر اسرائیلی
یہودی پر فرض ہے۔حالاں کہ یہودیوں کا یہ دعویٰ بالکل غلط ہے۔قبلہ اول
مسلمانوں کی میراث ہے اور اس کی تعمیر مسلمانوں کے ہاتھوں ہوتی رہی ہے۔
’اب یا کبھی نہیں؟!‘
آج مسلم حکمران ’’اب یا کبھی نہیں‘‘کے دوراہے پر کھڑے ہیں۔کوئی یہودی عزائم
کے آگے’ شیطانِ اخرس ‘بنے یابھیگی بلی،یا لوہے کا چنا ثابت ہو،یہود کی نظر
میں وہ دشمن ہی ہے۔یہ ہر ایک کے اپنے نصیب کی بات ہے کہ وہ شریف حسین مکہ
کی صف میں جگہ پانا چاہتا ہے ،یاحضرت عمرؓ اور سلطان صلاح الدین ایوبیؒ
ونورالدین زنگی کے ساتھ اپنا حشر چاہتا ہے۔جہاں تک یہودی عزائم کا تعلق
ہے،تو یہ اَن مٹ لکیر ہے کہ انھیں دنیا میں خودمختار ریاست کبھی نصیب نہیں
ہوگی،یہ خلاق عالم کا فیصلہ ہے،جسے کوئی تبدیل نہیں کرسکتا۔
مولاناڈاکٹرمحمدجہان یعقوب
ڈپٹی ڈائریکٹرریسرچ سینٹر،بنوریہ یونیورسٹی انٹرنیشنل۔ڈائریکٹرشعبہ ٔ
صحافت،عربک اوپن یونیورسٹی
|