سیاسی مبصرین نے پیش گوئی کرتے ہوئے کہاہے کہ شیخ
رشید درست کہتے تھے کیونکہ ن لیگ سے شین نکلنے کا عمل شروع ہوگیاہے اب
پارٹی پر کنٹرول کی جنگ کاآ غاز ہوچکاہے بیانیہ کس کا چلے گا؟ مریم نواز کا
سیاسی مستقبل کیاہوگا یہ سب سوالیہ نشان بنتا نظر آرہاہے ، ایک نجی ٹی وی
چینل کے میزبان نے تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ن لیگ میں بیانیہ کس کا چلے
گا اور پارٹی کو اب کون لیڈ کرے گا، ن لیگ میں اختلافات سنگین ہوتے جارہے
ہیں ،پارٹی پر کنٹرول کی جنگ شروع ہوچکی ہے ، مسلم لیگ ن میں واضح طور پر
دو گروپس ہوگئے ہیں ،ایک مریم نواز کا گروپ ہے جو نواز شریف کا بیانیہ آگے
لے کر چلنے کا حامی ہے۔ یہ لوگ عمران خان حکومت کو ٹف ٹائم دیکر سیاسی ہلچل
پیدا کرناچاہتے ہیں جبکہ دوسرا شہباز شریف کا گروپ ہے جو چاہتا ہے کہ ٹکراؤ
سے پرہیز اور مفاہمت سے کام لیتے ہوئے 2023ء کا الیکشن جیتنے پر فوکس کیا
جائے، ن لیگ کی سینئر قیادت چاہتی ہے کہ نواز شریف اس حوالے سے واضح فیصلہ
لیں ورنہ خدشہ ہے کہ میاں نواز شریف نے پارٹی قیادت اور بیانیہ کے حوالے سے
فیصلہ نہ کیا تو پارٹی تقسیم ہوسکتی ہے، ن لیگ کی نائب صدر مریم نواز کا
موقف ہے کہ نواز شریف کے بیانیہ کی وجہ سے ن لیگ ضمنی انتخابات جیتی، میں
اداروں سے بات چیت کی مخالف نہیں ہوں،پارٹی میں کوئی گروپ نہ شہباز شریف سے
اختلاف ہے اسی تناظرمیں ن لیگ کے سیکریٹری جنرل احسن اقبال نے کہا ہے کہ
موجودہ حکومت نے نواز شریف کی کردارکشی کیلئے اربوں روپے خرچ کئے، اس کے
باوجود ن لیگ کی عوام میں مقبولیت کم نہیں ہوئی پارٹی میں توکوئی جھگڑا
نہیں چائے کی پیالی میں طوفان اٹھایا جارہا ہے۔ لیکن سیاسی مبصرین کاتجزیہ
ہے ن لیگ کے بیشتر سینئر رہنماؤں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ شہباز شریف کو
فری ہینڈ دیا جائے، عمران خان کی حکومت کو ہدف بنایا جائے، اداروں سے محاذ
آرائی نہ کی جائے، اداروں سے ڈائیلاگ کر کے معاہدہ کیا جائے جس میں حدود کا
تعین کیا جائے۔ کیونکہ پی ڈی ایم میں پیپلز پارٹی کی شمولیت کے حوالے سے
بھی دونوں گروپس میں واضح اختلاف ہے میاں شہباز شریف نے پیپلز پارٹی کے
حوالے سے مریم نواز اور شاہد خاقان عباسی کے سخت موقف پر ناراضی کا اظہار
کیا ہے۔جبکہ میاں شہباز شریف چاہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی پی ڈی ایم میں واپس
آجائے، شہباز شریف کو پیپلز پارٹی کو شوکاز نوٹس دینے پر بھی اعتراض ہے اس
کے علاوہ بھی بہت سے امور توجہ طلب ہیں مسلم لیگ ن کے د ونوں گروپس میں
اختلاف کی وجہ سے ن لیگ کی سینئر قیادت میں بے چینی ہے، شہباز شریف نواز
شریف سے آمنے سامنے بات کرنے کیلئے لندن جاناچاہتے تھے، شہباز شریف چاہتے
تھے کہ نواز شریف فیصلہ کریں بیانیہ کیا ہوگا اور پارٹی کون لیڈ کرے گا؟،
مریم نواز لیڈ کریں گی یا وہ خود لیڈ کریں گے اور بغیر مداخلت کے لیڈ کریں
گے، آئندہ کا وزیراعظم کون ہوگا؟ اس لئے میاں شہباز شریف چاہتے ہیں کہ نواز
شریف اور مریم نواز اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ بند کریں، خاموشی اختیار کرلیں
اور سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہ لیں، شہباز شریف سمجھتے ہیں کہ اگر نواز
شریف انہیں پارٹی کا مکمل کنٹرول دیدیتے ہیں تو پھر وہ اپوزیشن کی دوسری
جماعتوں اور اداروں کے ساتھ ڈائیلاگ کریں گے، اگر نواز شریف نہیں مانتے تو
وہ سیاست چھوڑ دیں گے۔ ذرائع کا کہنا ہے پارٹی کی سینئر لیڈرشپ شہباز شریف
کے موقف کی حامی ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ بے شک مریم نواز کراؤڈ پلر پرسنیلٹی
ہیں مگر ابھی شہباز شریف کو معاملات حل کرنے دیئے جائیں کیونکہ اداروں سے
ٹکراؤکی پالیسی سے مسلم لیگ ن کو مزید نقصان پہنچ سکتاہے مگر مزاحمتی سیاست
ترک کرنے کے لئے مریم نواز متفق نہیں ہیں۔ باخبرسیاستدانوں کا خیال ہے کہ
میاں شہباز شریف کی رہائی کے بعد اختلاف میں مزید شدت آئی ہے، شہباز شریف
نے جیل سے رہا ہونے کے بعد واضح پیغام دیا کہ وہ پارٹی صدر ہیں ان کی مرضی
کے بغیر جلسے جلوس اور کوئی میٹنگ نہیں ہوگی۔ اس صورت ِ حال پر تبصرہ کرتے
ہوئے پارٹی کے سینئررہنما احسن اقبال نے کہا ہے کہ مسلم لیگ ن میں کوئی
گروپ یا دھڑے بندی ہے نہ شہباز شریف سے اختلاف،مریم، کوئی جھگڑا نہیں، چائے
کی پیالی میں طوفان اٹھایا جارہا ہے۔بہرحال مسلم لیگ ن ن کے زیادہ
تررہنمامیاں شہبازشریف کے موقف کے حامی ہیں کیونکہ محاذ آرائی سے کچھ حاصل
نہیں ہونے والا اس لئے مریم نواز نے اپنی سرگرمیاں محدود کردینی چاہیے،
شہباز شریف گروپ سمجھتا ہے کہ مریم نواز انتخابی سیاست کو نہیں سمجھتیں اس
لئے آئندہ انتخابات کی مہم شہباز شریف کو لیڈ کرنے دی جائے، انہیں اداروں
سے بھی معاملات طے کرنے دیئے جائیں، گراؤنڈ پر بھی شہباز شریف اور حمزہ
شہباز کو کسی دباؤ کے بغیرآگے سیاست کرنے دی جائے۔ لیکن مریم نواز کا کہنا
ہے کہ ن لیگ میں دو کیمپس نہیں ہیں رائے کا اختلاف ضرور ہے، انہوں نے بتایا
کہ بیانیہ میرا نہیں نواز شریف کا ہے، اگر مجھے خاموش کروابھی دیا جائے تب
بھی نواز شریف کا ہی بیانیہ چلے گا۔ کیونکہ ووٹ بنک میاں نوازشریف کا ہے
نواز شریف کے بیانیہ کی وجہ سے ن لیگ ضمنی انتخابات جیتی، عوام میں پذیرائی
ہوئی توا داروں کو بھی نرمی اختیار کرنا پڑی۔ شہباز شریف کی اپنی رائے ہے
مگر وہ کرتے وہی ہیں جونواز شریف کہتے ہیں، اب بھی وہی ہوگا جو نواز شریف
کہیں گے، وہ اپنے بھائی کے خلاف نہیں جائیں گے، میرا شہباز شریف سے کوئی
اختلاف نہیں ہے نہ ہی کوئی گروپ ہے، میں وہی کرتی ہوں جو نواز شریف مجھے
کہتے ہیں، وہ جہاں جانے کا کہتے ہیں میں وہاں چلی جاتی ہوں، وہ جہاں جانے
سے منع کرتے ہیں میں رک جاتی ہوں۔ اب بھی وہ جو کہیں گے میں وہی کروں گی،
میں اداروں سے بات چیت کی بالکل مخالف نہیں ہوں اور نہ ہی تصادم کی حامی
ہوں لیکن میں کسی ڈیل کی حامی نہیں ہوں، بات چیت ہونی چاہئے لیکن صرف شفاف
انتخابات کے انعقاد کیلئے ہونی چاہئے۔ ن لیگ میں بہت سے لوگ چوہدری نثار کے
خلاف ہیں، وہ مشکل وقت میں پارٹی کو چھوڑ کر گئے اب ان کی جگہ نہیں ہونی
چاہئے۔ وزیر اعظم کے معاون خصوصی شہباز گِل نے کہا ہے کہ نون لیگ سے ش نکل
چکا ہے۔ شہباز شریف کے کھلے عام مریم صفدر اور شاہد خاقان کے پی ڈی ایم کے
بارے میں فیصلوں سے لاتعلقی سے ایک بات واضح ہو گئی کہ ن سے ش نکل چکی۔ جس
کا مطلب ہے میاں شہباز شریف نے مریم نواز کے فیصلوں کو غلط قرار دے
دیا۔اْنہوں نے یہ بھی کہا کہ آخر کار چچا کھل کر میدان میں آگئے اب مریم
خود بولنے کی بجائے اپنی کنیزوں سے شہباز شریف پر حملہ آور ہو رہی ہیں۔
قیادت کی جنگ میں کون کامیاب ہوتاہے فی الحال کچھ نہیں کہا جاسکتا لیکن ایک
بات ضرور ہے میاں نوازشریف کی آشیربادکے بغیر کوئی ن لیگ کی سیاست میں
کامیاب نہیں ہوسکتا اور یہ بات میاں شہبازشریف بھی جانتے ہیں۔
|