حال ہی میں امریکی صدر جو بائیڈن کا یہ اعلان کہ ہم
افغانستان سے انخلاء کے آخری مراحل میں داخل ہو رہے ہیں یقینا افغان عوام
کے لیے خوش آئند ہے۔ مختلف حلقے اس پر اپنی آراء رکھتے ہیں کسی کے نزدیک یہ
امریکی فوج کی شکست ہے تو کوئی اسے امریکہ کی بدلتی خارجہ پالیسی قرار دے
رہا ہے ۔
یہ اعلان ایک بہت بڑی تبدیلی ہے۔ 19 سال تک طالبان کے خلاف لڑنے کے بعد
امریکہ مذاکرات ، جنگ بندی اور اب بالآخر انخلا کی طرف جا رہا ہے ۔ فروری
2019 میں شروع ہونے والے مذاکرات کے نتیجے میں 29 فروری 2020 کو دونوں
فریقین کے مابین امن معاہدے پر دستخط ہوئے ۔ اس جنگ میں جہاں امریکہ کو
لاکھوں ڑالر اور جدید ہتھیار پھونکے پڑے وہی ہزاروں افغان قتل جبکہ لاکھوں
بےگھر ہونے پر مجبور ہوئے ۔امریکی انخلاء کے بعد افغانستان ہی نہیں بلکہ اس
سے جڑے ممالک بھی پرامن حالات سے مستفید ہونگے۔ بالخصوص پاکستان کونکہ
افغانستان میں امن سے پاکستان کو مغربی سرحد پر موجود چیلنجز سے چھٹکارا
حاصل ہوسکتا ہے ۔
لیکن جو بائیڈن کے اعلان کے بعد یہ مسئلہ ختم نہیں کیونکہ آب اس کے بعد
افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا مرحلہ باقی ہے ۔ طالبان اور
افغان حکومت کے مابین تنازعہ 22 سال سے چلتا آرہا ہے۔جو کہ اسامہ بن لادن
کے ایشو پر سامنے آیا تھا۔امریکہ اور طالبان کے تعلقات اس سے قبل بہترین
تھے۔ اسامہ بن لادن نے مجاہدین کے دور میں افغانستان کو القاعدہ کا
ہیڈکوارٹر بنایا تھا۔اسے افغان شہریت اس دور کے صدر برہان الدین ربانی نے
دی تھی ۔کابل پر قبضے کے بعد طالبان نے انہیں اپنا مہمان بنا لیا امریکہ نے
اسے انتہائی مطلوب قرار دے کر حوالگی کا مطالبہ کیا ۔ اسامہ بن لادن کی
حوالگی پر طالبان کی جانب سے انکار کے بعد سلامتی کونسل نے طالبان حکومت کے
خلاف اقتصادی پابندیاں عائد کیں ۔
9 ستمبر کو القاعدہ نے طالبان کے سب سے بڑے حریف احمد شاہ مسعود کو قتل کیا
اور 2 روز کے بعد نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور پینٹاگون کی عمارت سے
جہاز ٹکرائے جن میں 3 ہزار سے زائد لوگ ہلاک ہو گئے۔ امریکہ نے نائن
الیون11/9 کی خوفناک کارروائی کے بعد سلامتی کونسل سے منظوری لے کر 7
اکتوبر کو اپنے اتحادیوں کی مدد سے طالبان حکومت کے خلاف کارروائی شروع کی
جس کے چند روز بعد ہی طالبان حکومت کا خاتمہ ہوا اس کے بعد حامد کرزئی
افغانستان کے نئے صدر بنے،آئین بنا ،اور پارلیمنٹ وجود میں آیا۔
طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد امریکہ نے عراق میں جنگ چھیڑ دی جبکہ اسی
دوران طالبان پھر سے اپنے پیر جمانے کی کوشش کر رہے تھے ۔امریکہ نے پھر
طاقت کا استعمال کرکے طالبان کے خاتمے کی کوشش شروع کر دی جو بے سود رہی۔۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت بھی جارحانہ اندازاپنانا چاہتی تھی تاہم بعد میں اس کی
پالیسی تبدیل ہوئی اور زلمی خلیل زاد کو نمائندہ برائے افغان امور منتحب
کیا درمیان میں کئی بار اتار چڑھاؤ سامنے آئے۔ایک موقعہ پر سابقہ امریکی
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے باقائدہ طور پر مذاکرات منسوخی کا اعلان کیا۔یہ
وہ۔وقت۔تھا جب افغان طالبان اور امریکہ حکومت باقاعدہ طور پر مذاکرات پر
دستخط کرنے جا رہے تھے۔ تاہم زلمے خلیل زاد اور پاکستان حکومت نے ہمت نہیں
ہاری اور باوجود اس کے اپنے کردار کو جاری رکھا۔ ایک بار پھر مذاکرات کی
بحالی پر امریکی حکومت بھی پاکستان کی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکی ساتھ ہی
میں پوری دنیا نے بھی پاکستان کے افغانستان میں امن کے حوالے سے کردار کو
سراہا ۔ یقینا ان مذاکرات میں کامیابی کا سہرا پاکستان کو جاتا ہے۔
اس جنگ میں طرفین کا بے شمار جانی و مالی نقصان ہوا لیکن آخر میں دونوں
فریقین کو مذاکرات پر ہی اکتفا کرنا پڑا۔جو کہ افغانستان کے ساتھ ساتھ اس
خطے کےلئے بھی امن کی نوید ہے۔موجودہ حکومت اور طالبان پر لازم ہے کہ وہ
سود مند مذاکرات کے ذریعے افغان عوام کو مسائل کے انبار سے نجات دلائے ۔
|