مودی جی کا رونا دھونا بڑا پرانا ہے۔ جنوری 2004 میں
گجرات کے سابق وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے نریندر مودی کو پہلی مرتبہ کیمرے نے
روتے ہوئے دیکھا تھا ۔ اس وقت وہ سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے ساتھ
زلزلہ زدہ بھج میں ایک اسپتال کے افتتاح میں شریک تھے ۔ زلزلہ کے بعد تین
سال کا وقفہ گزر چکا تھا ۔ اس درمیان گجرات میں دل دہلا دینے والے فرقہ
وارانہ فسادات ہوئے۔ دوہزار مسلمانوں کی نسل کشی کی گئی لیکن مودی جی
آنکھیں نمناک نہیں ہوئیں۔ ان کے وزیر داخلہ ہرین پنڈیا کو قتل کردیا گیا ۔
اس کے باوجود ان کا دل نہیں پگھلا مگر اسپتال کے افتتاح میں وہ نامعلوم
زلزلہ زدگان کی یاد میں آنسو بہانے لگے تاکہ اگلے انتخاب میں ان کی مدد سے
ووٹ مانگے جائیں ۔ اس موقع پر مودی جی پر فلم ’گھر کا چراغ‘ کایہ نغمہ صادق
آتا ہے جسے کیفی اعظمی نے لکھا تھا؎
جال ہر راستے میں بچھاتا رہا ، ظلم ڈھاتا رہا مسکراتا رہا
پھنس گیا خود تو بے چین ہوتا ہے کیوں ، آج روتا ہے کیوں؟
گجرات کا زلزلے سے متاثر ہونے والا سوراشٹر دراصل سابق وزیر اعلیٰ کیشو
بھائی پٹیل کا علاقہ ہے۔ ان کو بدانتظامی کے سبب ہاتھ آنے والی مقبولیت کے
پیش نظر ہٹا کر نریندر مودی کو وزیر اعلیٰ بنایا گیا تھا ۔ اس لیے وہاں کے
لوگ کیشو بھائی کو ہٹائے جانے کی وجہ سے ناراض تھے ۔ وزیر اعلیٰ مودی نے اس
موقع کا فائدہ اٹھا کر مقامی آبادی کی ہمدردیاں بٹورنے کی کوشش کی۔
وارانسی میں یہی صورتحال تھی کہ کورونا کی وبا کےعروج پر ہے۔ اس سنگین
صورتحال کے لیے سارا عالم مودی جی کی بد انتظامی کو موردِ الزام ٹھہرا رہا
ہے۔ بی جے پی کی مقبولیت کا گراف دن بہ دن گر تا جارہا ہے ایسے میں مودی جی
کواپنے حلقۂ انتخاب کے رائے دہندگان کا خیال آیا ۔ وہ وارانسی کے ڈاکٹروں
سے ہمدردی جتاتے ہوئے روپڑے ۔ ان ۱۷ سالوں میں یہ فرق ضرور ہوا کہ اس بار
ان کےآنسو ڈھلک کر رخسار پر نہیں آئے ممکن ہے وقت کے ساتھ مودی جی
کےآنسو خشک ہوگئےہوں اور خون سفید ہوگیا ہو۔
ان دو واقعات کے درمیان وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے کے بعد مودی جی کم ازکم
۷ ؍ مرتبہ آنسو بہانے کا ڈرامہ کرچکے ہیں ۔ وہ ہنستے کھیلتے قومی انتخاب
تو جیت گئے لیکن اس کے بعد حلف برداری سے قبل ان کے گرو نےجب کہا کہ انہوں
نے پارٹی کو کامیاب کرکے اس پر احسان کیا ہے تو مودی جی جذباتی ہوگئے ۔ اس
کے جواب میں نمناک مودی بولے ہندوستان کی مانند بی جے پی بھی میری ماں ہے ۔
کوئی بیٹا اپنی ماں پر احسان کیسے کرسکتا ہے؟ انہوں ایک ’غریب لڑکے‘ کو اس
مقام پر پہنچانے کے لیے پارٹی کو سراہا۔ انتخابی نتائج کے بعد اڈوانی جی یہ
کہہ کر مودی جی کو ناراض کرچکے تھے کہ بی جے پی کی کامیابی کا سہرا کسی فرد
کے نہیں بلکہ منموہن سرکار کی ناکامی کے سر ہے ۔ انہیں اپنی اس غلطی کا
احساس بعد میں ہوا اور اس کا کفارہ ادا کرنے کی خاطر مودی کی تعریف کردی ۔
حلف برداری کے وقت چونکہ مودی جی نے اپنی اہلیہ کی حق تلفی کی تھی اس لیے
اس کی پردہ پوشی کی خاطراس دن ان کی ماں ہیرا بین کی خوشی کے آنسوٹیلی
ویژن پر دکھلا کر جسودھا بین کے آنسو چھپا دئیے گئے۔
مودی جی نے دہلی میں ہندوستان کو ماں کہا لیکن اپنی والدہ کو یاد کرکے رونے
کا ناٹک ملک کے باہر بھی کیا ۔ ستمبر 2015 کو فیس بک کے دفتر میں انہیں
اپنی والدہ کی یاد آگئی۔ اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں ہے لیکن اس کے بعد
انہوں نے جو کچھ کہا اس سے سارا کھیل بگڑ گیا۔ ایک سال پہلے جو ’غریب لڑکا‘
وزیر اعظم بن گیا تھا اب وہ اپنی والدہ کے متعلق بتا رہا تھا کہ 90 سال کی
عمر میں وہ اپنے سارے کام خود کرتی ہیں۔ اس کے بعد آبدیدہ ہوکر وہ بولے(
والدہ ) نے ان کی پرورش کے لیے پڑوسیوں کے برتن مانجھے۔ یہ چونکانے والا
انکشاف تھا اس لیے واشنگٹن پوسٹ کے صحافی نلنجن مکھو پادھیائے سے اس تصدیق
کے لیے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے اس کے ثبوت سے انکار کردیا۔ نلنجن نے
چونکہ تحقیق کرکے مودی جی سوانح لکھی ہے اس لیے ان کی تردید کو رد کرنا
آسان نہیں ہے۔ ویسے مودی جی جس خیالی پلیٹ فارم پر چائے بیچتے تھے وہاں
مسافر نہیں بلکہ صرف مال گاڑی آتی تھی ۔ چائے کون پیتا تھا کسی کو نہیں
معلوم۔ ایک سال بعد اگست 2016 بعدسوامی نارائن تنظیم کے سربراہ بوچاسنوانی
کے انتقال پر مودی نے روتے ہوئے کہا کہ انہیں مندر کے افتتاح میں بلایا گیا
تو سوامی جی نے شاگرد سے پیسے بھجوائے ۔ انہیں پتہ تھا کہ میری جیب خالی
ہےیعنی غریب لڑکا اب بھی کڑکا تھا۔
اس مسکین لڑکے نے پوری قوم کو غربت میں جھونکنے کی خاطر نوٹ بندی کروادی ۔
سارے ملک میں ہنگامہ مچ گیا تو وزیر اعظم نے نومبر 2016 کو روندھی ہوئی
آواز میں احسان جتایا ’’میں یہاں کرسی کے لیے نہیں آیا ۔ میں نے ملک کے
لیے اپنا گھر اور خاندان چھوڑ دیا ہے‘‘۔ کاش کے وہ ملک بھی چھوڑ دیتے خیر
لوگ اتنے خوش قسمت نہیں تھے۔ انہوں 50 دن کا وقت مانگ کر کہا تھا میں نے جن
لوگوں کو للکارہ ہے وہ مجھے جینے نہیں دیں گے۔ ویسے مودی جی کی مہربانی
سےگوتم اڈانی ایشیا کا دوسرا سب سے امیر بن چکا ہے اور وبا کے باوجود مکیش
امبانی پہلے نمبر پر ہے ۔ سیاست میں امیت شاہ اور معیشت میں امبانی اور
اڈانی کے کرم فرما کو گجرات کے صوبائی الیکشن میں راہل گاندھی نے دوڑا دیا۔
بڑی مشکل سے فتح حاصل ہوئی تو دسمبر 2017 میں اپنے وزیر اعظم تک کے سفر کو
بیان کرتے ہوئے مودی جی تین بار روئے لیکن یہ بھی کہا کہ ان سے قبل کسی
وزیر اعظم نے اتنے انتخابات نہیں جیتے ۔ یہ بالکل درست بات ہے کیونکہ پہلے
والے وزیر اعظم قوم کی فلاح بہبود میں وقت صرف کرتے تھے مودی جی تو صرف
انتخاب میں مصروف رہتے ہیں۔
سن 2018 پھر سے جب مودی جی پولس کی قومی یادگار بناتے ہوئے روئے تو لوگوں
کو ہنسی آنے لگی ۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے عام آدمی پارٹی کی خاص خاتون
الکا لامبا نے ٹویٹ کیا پہلے لوگ کہتے تھے ’عورتوں کی طرح بار بار کیوں
روتے ہو۔ اب کہتے ہیں بار بار مودی کی مانند کیوں روتے ہو‘۔ اس بیچاری نے
شاید یہ نغمہ نہیں سناتھا ’کبھی خود پہ کبھی حالات پہ رونا آیا ، بات نکلی
تو ہر ایک بات پہ رونا آیا‘۔ ویسے اس تنقید سے بے نیاز مودی جی نےروتے
ہوئے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا کہ ان کے اقتدار سنبھالنے سے قبل پچھلے
70 سالوں میں یہ یادگار کیوں تعمیر نہیں ہوئی ؟ یعنی یہاں بھی سیاست
کارفرما تھی۔ 2019 میں دوبارہ انتخاب جیتنے کے باوجود رونے دھونے کا
کاروبار جاری رہا ۔ فروری 2021میں غلام نبی آزاد کی جدائی پر مودی جی
ایوان پارلیمان میں اتنا روئے کہ درمیان میں پانی پینا پڑا۔ یہ آنسو دراصل
کشمیر میں گجرات کے سیاحوں کے قتل پر بہائے گئے تھے۔ اس کے جواب میں آزاد
بھی روئے اور اس مشہور نغمے کی یاد دلادی ’ نہ اب آنسو رکے تو دیکھنا پھر
ہم بھی رودیں گے ، ہم اپنے آنسووں میں چاند تاروں کو ڈوبو دیں گے ۔ فنا
ہوجائے گی ساری خدائی آپ کیوں روئے‘۔ مودی کے رونے دھونے نے قوم کو تباہی
کے دہانے پر پہنچا دیا ۔
وزیر اعظم سے اگر پوچھا جائے کہ وہ بار بار روتے کیوں ہیں تو ممکن ہے یہ
نغمہ سننے کو ملے ’یہ آنسو میرے دل کی زبان ہیں ، میں ہنس دوں تو ہنس دیں
آنسو، میں رو دوں تو رودیں آنسو ‘ لیکن ان کے رونے کی داستان میں جھوٹ کا
عنصر مشترک ہے ۔ حالیہ ماتم میں انہوں یوگی ادیتیہ ناتھ کے ایوان پارلیمان
میں پھوٹ پھوٹ کر رونے کی یاد دلاتے ہوئے کہا کہ وہ اترپردیش میں بچوں کے
دماغی بخار میں مبتلا ہونے سے روئے تھے۔ یہ سراسر جھوٹ ہے۔ یوگی کی ویڈیو
یو ٹیوب پر موجود ہے۔ وہ رو رو کر اپنی جان کو خطرے کا گلہ کررہے تھے اور
اسپیکر سومناتھ چٹرجی انہیں دلاسہ دے رہے تھے کہ ایسا نہیں ہوگا ۔ ان کو
تحفظ فراہم کیا جائے گا۔ یعنی مودی جی روتے ہوئے نہ صرف اپنے بارے میں بلکہ
دوسروں سے متعلق بھی جھوٹ موٹ کہانی سناتے ہیں۔ اس لیے ان کے گھڑیالی
آنسووں پر یقین کرنا مشکل ہوجاتا ہے ۔ پہلے پہل عوام جب ان کو روتا دیکھتی
تھی تو قدرے جذباتی ہوجاتی تھی لیکن اب حالات بدل چکے ہیں ۔ لوگ جانتے ہیں
کہ یہ آنسو پنچایت چناو میں شکست کا ماتم ہیں ۔ اب تو وزیر اعظم کو روتا
دیکھ کر عوام کو فلم مغل اعظم کا یہ نغمہ مع ترمیم یاد آتا ہے؎
سیاست کی جھوٹی کہانی پہ روئے
الیکشن میں ہارے بڑھاپے میں روئے
|