حکومت پاکستان نے سپریم کورٹ کے سنیئر ترین جسٹس قاضی
فائز عیسیٰ ریفرنس کے نظر ثانی شدہ فیصلہ کے خلاف ایک مرتبہ پھر نظر ثانی
کی درخواست دائر کردی، جس کو نظر ثانی کی بجائے ”نظر سوئم“ کہنا زیادہ
مناسب ہوگا۔ جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر نئی
درخواستوں پر سپریم کورٹ رجسٹرار آفس نے اعتراض لگاکر درخواستیں واپس
کردیں، رجسٹرار آفس نے اعتراض کیا کہ ایک کیس میں دو مرتبہ نظرثانی نہیں
ہوسکتی۔رجسٹرار آفس کے اعتراض میں کہا گیا ہے کہ درخواست کا عنوان ازخود
نوٹس کیس لکھا گیا، درخواست میں ’کیوریٹو ری ریویو لکھا گیا جبکہ درخواست
کا جائزہ لینے پر نظرثانی فیصلے پر نظرثانی درخواست لگتی ہے۔میڈیا رپورٹس
کے مطابق رجسٹرار آفس کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ رولز میں حتمی فیصلے کے
بعد نظر ثانی کی گنجائش نہیں۔ اعتراض میں کہا گیا ہے کہ درخواست کا موضوع
قانونی طور پر غلط فہمی پر مبنی ہے جس کی سپریم کورٹ رولز میں گنجائش
نہیں۔اسکے بعدمیڈیا کو انٹرویو کے دوران وفاقی وزیر قانون بیرسٹر ڈاکٹر
فروغ نسیم نے کہا کہ ہمیں محسوس ہوا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نظرثانی کیس
میں چھ ججوں کا فیصلہ درست نہیں ہے، ہم نے ایف بی آر کی رپورٹ تو نہیں
دیکھی لیکن FBR کا assessment order ضرور دیکھا ہے، ایسی پیشرفت بھی ہوسکتی
ہے کہ ہم دوبارہ اپیل فائل نہ کریں، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہم اعتراضات دور
کر کے اسے فائل کردیں۔یہ تو تھیں میڈیا رپورٹس کا تذکرہ جن کا چرچہ 26 مئی
کی رات گئے تک رہا اور ابھی تک جاری و ساری ہے۔آیئے جائزہ لیتے ہیں کہ
سپریم کورٹ کے رجسٹرار آفس نے کن قوانین اور قوائد کی روشنی میں حکومت وقت
کی صدر پاکستان کی وساطت سے سپریم کورٹ میں دائر درخواست کو مسترد
کردیا۔یاد رہے کہ پاکستان کی عدالت عظمی Supreme Court Rules 1980 کے تحت
اپنے عدالتی معاملات کو چلاتی ہے۔یہ قوائد سپریم کورٹ کی آفیشل ویب سائٹ پر
بھی موجود ہیں۔ انہی قوائد کے PART IV اور ORDER XXVI جوکہ REVIEW یعنی
نظرثانی کے متعلق ہے اسکے point number 9 میں واضح طور پر درج ہے کہ:
After the final disposal of the first application for review no
subsequent application for review shall lie to the Court and
consequently shall not be entertained by the Registry
سپریم کورٹ کے ان قوائد کا ترجمہ اور تشریح انتہائی سادہ اور اک عام شہری
کے لئے بھی قابل فہم ہے کہ: ”کسی بھی نظر ثانی درخواست کے حتمی فیصلہ کے
بعد کوئی نئی نظر ثانی کی درخواست عدالت میں دائر نہیں کی جائے گی اور
نتیجے کے طور پر رجسٹرار آفس اس نئی درخواست کو قبول نہیں کرے گا۔“ یاد رہے
صدر پاکستان اور حکومت پاکستان کی جانب سے بنایا گیا کوئی بھی ریفرنس یا
آئینی درخواست وزارت قانون کے اعلی ترین مشیروں اور قانونی ماہرین کی نظروں
سے گزرنے کے بعد سپریم کورٹ یا سپریم جوڈیشل کمیشن میں دائرکی جاتی ہے۔ اک
عام پاکستانی شہری کے ناطے یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوں کہ کیا وزرات قانون
میں کوئی ایک بندہ بھی عقل سلیم نہیں رکھتا ہوگا (حالانکہ وزرات قانون پر
براجمان وزیر بیرسٹر ڈاکٹر فروغ نسیم خود بہت بڑے قانون دان ہیں) کہ جس کو
Supreme Court Rules 1980 کے درج بالا point number 9 کا علم نہیں تھا۔ آج
کے جدید انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور میں جہاں معلومات کی رسائی انتہائی
آسان ہوچکی ہے،اور بہت سے قانونی معاملات، قواعد، قوانین، آئین کے آرٹیکلز
کے بارے میں معلومات اکٹھا کرنے کے لئے لازمی نہیں کہ آپکو کسی وکیل کے
چیمبر کا چکر ہی لگانا پڑے، سپریم کورٹ کی آفیشل ویب سائٹ پر انتہائی اہم
اور واضح ترین سوالات کے جوابات موجود ہیں۔
https://www.supremecourt.gov.pk/frequently-asked-questions/، اس لنک پر
کلک کرکے درج ذیل سوال کو دیکھاجاسکتا ہے:
Q.16.Does after decision of Review Petition the aggrieved party has any
other remedy before this Court?
اسی سوال کے نیچے جواب بھی موجود ہے کہ: No such remedy is available یعنی
نظر ثانی درخواست پر فیصلہ ہونے کے بعد سپریم کورٹ میں مزید دادرسی ممکن
نہیں ہے۔حکومت وقت کی سپریم کورٹ پاکستان کے سنیئر ترین جج قاضی فائز عیسیٰ
کے خلاف مسلسل صف آرا رہنے کی منطق اک عام پاکستان شہری ہونے کے ناطے سمجھ
سے بالاتر ہے۔ کہ آخر قاضی فائز عیسیٰ حکوت وقت کے عصاب پر سوار کیوں ہیں؟
رہی بات قاضی فائز عیسیٰ کے احتساب کی تو گزشتہ دو سالوں سے چلنے والے
احتساب ڈرامہ کا ڈراپ سین پچھلے سال سپریم کورٹ کے فیصلہ میں ہوچکا ہے، اور
اس سال نظر ثانی کیس میں بھی حکومت کی جانب سے نام نہاد احتساب کے نعرہ کی
دھجیاں پھر اُڑ گئی تھی۔ مزے کی بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے پچھلے سال کے
فیصلہ کے خلاف نظرثانی کی درخواست خود قاضی فائز عیسیٰ نے دائر کی اور جس
میں بالآخر وہ سرخرو بھی ہوئے۔سپریم کورٹ کے فیصلوں سے یہ بات بھی ثابت
ہوچکی تھی کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف بنایا گیا ریفرنس ہی غلط
تھا۔کیونکہ نہ تو حکومت وقت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف کرپشن ثابت
کرپائی اور نہ ہی بیگم قاضی کی جائیداد کا براہ راست تعلق انکے خاوند سے
ثابت کرپائی۔ دوسری طرف بیگم قاضی فائز عیسیٰ نے نا صرف اپنی لندن جائیداد
کی منی ٹریل بھی عدالت میں پیش کی بلکہ سپریم کورٹ کے پہلے فیصلہ جس میں
مزید تحقیقات کے لئے FBR کو کہا گیا تھا اس فیصلہ کو بھی نظر ثانی فیصلہ
میں کالعدم قرار دلوایا۔ حکومت وقت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف بنائے گئے
ریفرنس کے فیصلہ پر شرمندگی کا مظاہرہ کرنے کی بجائے انتہائی ہٹ دھرمی کا
مظاہرہ کرتی ہوئی دیکھائی دے رہی ہے۔ یاپھر شاید حکومت وقت اس پالیسی پر
عمل پیرا ہونے کی کوشش کررہی ہے کہ عوام الناس کو یہ دیکھانے کی کوشش کررہی
ہے کہ دیکھیں جی حکومت تو کرپشن کے الزام پر جج صاحب کے خلاف بھرپور کوشش
کرتے ہوئے انصاف کے لئے بار بار سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹا رہی ہے مگر
سپریم کورٹ کے ججز اپنے ساتھی ججز کے خلاف احتساب ہونے نہیں دے رہے۔ یا پھر
جھوٹ اتنا بولا جائے کہ بالکل سچ لگنے لگے۔حکومت وقت کی جانب سے احتساب کا
نعرہ بہت ہی بُڑی طرح پٹ چکا ہے، نئے پاکستان میں اکثر وزارتوں میں منظر
عام پر آنے والے مالی اسکینڈلز چاہے وہ ادویات کرپشن ہو، پٹرول، گندم، آٹا،
چینی اسکینڈلز ہوں چشم فلک نے یہی دیکھا کہ ان تمام اسیکنڈلز پر مٹی پاؤ
پالیسی کے تحت مٹی ڈال کر متنازعہ وزیر کو دوسری وزارت سپرد کردی گئی یا
پھر وہ وزیر یا مشیر موصوف استعفیٰ دیکر چلے گئے۔چینی اسکینڈلز میں جہانگیر
ترین کے خلاف ہونے والااحتساب کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔پاکستانی قوم سب
دیکھ رہی کہ جس کے خلاف احتساب کیا جارہا ہے اسی کی شوگر فیکٹری سے یوٹیلٹی
اسٹورز کے لئے چینی پھرخریدی جارہی ہے۔دوسری طرف پاکستانی وکلاء کی سب سے
بڑی تنظیم پاکستان بار کونسل نے بھی حکومت کی جانب سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
کے نظرثانی شدہ فیصلہ کے خلاف دوبارہ اپیل دائر کرنے کو عدلیہ کی آزادی کو
کمزور کرنے کے مترادف قرار دیا ہے، اسی طرح پاکستان بار کونسل نے حکومت وقت
کو خبردار کیا ہے کہ اگر حکومت نظرثانی شدہ فیصلہ کے خلاف دوبارہ اپیل دائر
کرنے سے باز نہ آئی تو وکلاء تنظیمیں حکومت وقت کے خلاف تحریک چلانے سے بھی
گریز نہیں کریں گی۔حکومت وقت کو چاہئے کہ وہ اداروں کے درمیان ہونے والی
ممکنہ محاذ آرائی سے خود بھی بچے اور دوسرے اداروں کو بھی اس سے محفوظ
رکھے۔ اسی میں مملکت پاکستان کی بھلائی ہے۔ اس وقت پاکستان کے بڑے مسائل
میں سے سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی ہے، جس کی طرف حکومت وقت کو دھیان دینے کی
اشد ضرورت ہے۔لیکن بظاہر یہی لگ رہا ہے کہ حکومت وقت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
کے احتساب محاذ پر(روز روشن کی طرح) پسپائی و شکست کھانے کے باوجوو نئے
محاذ کھولے گی، کیونکہ لگ تو ایسے ہی رہا کہ حکومت نے قاضی فائزعیسیٰ کیس
کو اپنے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ بنا لیا ہے۔
|