ہرمتمدن اورمتمول ریاست اپنی ترجیحات کومشعل راہ بناتے
ہوئے شاہراہ ترقی پرگامزن ہوتی ہے ۔کسی بھی قوم کی کامیابی وکامرانی اورنیک
نامی کیلئے منتخب قیادت کی نیت ،ترجیحات اورسمت کادرست ہوناانتہائی اہم
ہے۔ہمارے ہاں آمریت اورجمہوریت کے درمیان آنکھ مچولی کے دوران جوبھی
اقتدارمیں آیا وہ اپنی کھچڑی پکاتا ،اپناچورن بیچتا اورمادروطن کومقروض
کرتارہا ۔ پاکستان میں بار بار قیادت کاانتخاب ہوا لیکن آج تک احتساب نہیں
ہوا جس سے معیشت آسیب زدہ ہوگئی۔احتساب کے نام پرگرفتاریاں ،رہائیاں
اورنظام کی رسوائیاں ہوتی رہیں۔ ہماری بیمار معیشت کے ساتھ ہرآنیوالے نے
اپنے انداز سے تجربات کئے اوراسے وارڈ سے آئی سی یومیں پہنچادیا ۔کسی نے
بدعنوانی ،کچھ نے بدزبانی اورکسی نے بدانتظامی کے ہنٹر سے پاکستان
اورپاکستانیوں کومارا ۔حکمرانوں کے ناقص فیصلے ا نہیں ہم وطنوں سے مزید
فاصلے پر لے جاتے ہیں ۔آج بھی بدانتظامی قومی بحرانوں کی روٹ کاز ہے۔جہاں
تک تحریک لبیک کے حالیہ دھرنوں کامعاملہ ہے توتبدیلی سرکار کی
بدعہدی،بدانتظامی اورسیاسی ناکامی سے ریاست اورسکیورٹی فورسزکی بدنامی
ہوئی۔اگرحکمران جماعت اسرائیل کیخلاف احتجاج کرسکتی ہے توتحریک لبیک فرانس
کیخلاف دھرنے کیوں نہیں دے سکتی۔تحریک لبیک نے جوکیا اسے ہرگز انتہاپسندی
قرارنہیں دیاجاسکتا کیونکہ تشدد اورتوڑ پھوڑ میں ملوث شرپسندعناصر گلی محلے
کے آوارہ ،ناکارہ، اوباش اوربدقماش لوگ تھے۔اس گمراہ ہجوم کاتحریک لبیک
اوراس کے کاز سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ حکمران پرامن مظاہرین اورپرتشدد"
جاہلین " کے درمیان فرق کر یں۔میں کئی افراد کوجانتا ہوں جوحالیہ دھرنوں
میں شریک اور پرتشدد واقعات میں ملوث نہیں تھے لیکن وہ مقدمات میں نامز د
ہیں ،اُن کیلئے اِن مقدمات سے جان چھڑاناانتہائی دشوار کام ہے۔سیاسی بصیرت
سے محروم حکومت ہرکسی کو ریاست کا"باغی" جبکہ مقدمات کی سیاہی اورقیدوبند
کی صعوبتوں سے"داغی" نہ بنائے۔
حکومت دشمن دار افراد اورسماج دشمن عناصرکوایک لاٹھی سے نہیں ہانک سکتی۔
قبضہ گروپ کی فہرست بنوانے والے قصہ پارینہ بن گئے لیکن متنازعہ فہرست کے
تحت گرفتاریاں جاری ہیں ،فہرست میں شامل کئی کرداروں کاانتقال ہوئے
اورمتعدد کوراہ راست پرآئے زمانہ ہوگیالہٰذاء اس فہرست کودوبارہ تیار کرنے
کی اشدضرورت ہے جبکہ خواجہ عقیل احمدبٹ (گوگی بٹ)سے کرداروں کانام قبضہ
گروپ نہیں دشمن داروں والی فہرست میں درج کیا جاسکتا ہے۔عمران خان کی
ابتدائی جدوجہد میں گوگی بٹ ان کے ساتھ ساتھ تھے ، کپتان نے لاہورمیں ان
کاسہارالیااوراقتدارمیں آنے کے بعد جہانگیر ترین کی طرح اپنے اس دیرینہ
ساتھی کا ہاتھ بھی جھٹک دیا ۔یہ لوگ بھی مادروطن پاکستان کی طرح" دشمن
دار"ہیں،جس طرح پاکستان ایک مقروض ملک ہوتے ہوئے بھارت سے بزدل دشمن
کامقابلہ اوراپنادفاع کرنے کیلئے جوہری ریاست بنااورمتعدد میزائل بنائے اس
طرح خواجہ عقیل احمدبٹ سے لوگ بھی اپنے دشمن سے بچاؤکیلئے باامرمجبوری مسلح
محافظ رکھتے اورزندگی بھر معمول کی زندگی سے محروم ہوجاتے ہیں ۔ان کی
گرفتاری ،رسوائی اورپھررہائی سے امن وامان کاکوئی تعلق نہیں،امن وآشتی
اوریکجہتی کیلئے شہروں اورقصبوں میں نسل درنسل چلی آنیوالی آدم خور دشمنی
کودوستی میں تبدیل کرنا ہوگا۔جب دوبچے جھگڑنے کے بعدروتے ہوئے ماں کی عدالت
میں انصاف کیلئے فریاد کرتے ہیں تووہ انہیں سزا نہیں سناتی بلکہ ان کے
درمیان مفاہمت کیلئے راستہ ہموار کرتی ہے ۔دشمن دار دوسروں کاحق غصب نہیں
کرتے کیونکہ انہیں بددعاؤں نہیں دعاؤں کی ضرورت ہوتی ہے، خواجہ عقیل احمدبٹ
کی گرفتاری کے بعد مساجد میں اعلانات کی مدد سے ان کیخلاف سائلین تلاش
کرنااورانہیں ضمانت کے حق سے محروم رکھناایک سوالیہ نشان ہے۔ آج تک کسی
قومی چور کیخلاف اس طرح مساجد میں اعلانات نہیں ہوئے توپھردشمن داروں
کیخلاف ایساکیوں کیاگیا ۔پولیس ان دشمن داروں کوزندانوں میں مقیدکرکے
معاشرے سے دشمنی مٹا اورانتقام کی آگ بجھانہیں سکتی ، دشمن داروں کی اصلاح
اورفلاح کیلئے صلح سے بہتر کوئی راستہ نہیں ۔ جس طرح کوئی ڈاکٹراپنے مریض
کی چندماہ پرانی میڈیکل رپورٹ پرانحصار نہیں کرتااس طرح پولیس حکام بھی
قبضہ مافیا کی متنازعہ فہرست پر اعتماد نہ کریں،جس نے یہ کام چھوڑدیااس
کاپیچھا چھوڑدیں۔اگرفہرست میں شامل شخصیات کی گرفتاریاں جائز ہوں تواس میں
کوئی قباحت نہیں لیکن رسوائیاں ناقابل برداشت ہیں۔پچھلے دنوں ایک اے سی
مبینہ طورپررشوت وصول کرتے ہوئے گرفتار ہوئے جبکہ رشوت کی رقم برآمدکرتے
وقت اس واقعہ کی ویڈیوبنائی اور وائرل کی گئی،راقم کاایک دانشور دوست"
اینٹی کرپشن" کو"آنٹی کرپشن "کہتا ہے ۔اے سی کی ویڈیووائرل اور انہیں رسوا
کرنیوالے سوشل میڈیا کے شتربے مہارکرداروں میں سے کوئی بھی پارسا نہیں
کیونکہ کوئی نیک نام دوسروں کوبدنام نہیں کرتا ۔مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث
عناصر کو سخت سزادی جائے لیکن انہیں رسوا کرنا ظلم ہے کیونکہ ایک فرد کی
رسوائی سے خاندان کے باقی بیگناہ افرادکی زندگی بھی جہنم بن جاتی ہے ۔
دھرنوں کے پرامن شرکاء شفقت ،نصیحت اورنرمی جبکہ توڑ پھوڑ میں ملوث فتنہ
پرور فسادی سخت سزا کے مستحق ہیں۔تحریک لبیک کاراستہ" بارود" نہیں "درود"
سے ہوکرگزرتا ہے لہٰذاء اس نظریاتی جماعت پرانتہاپسندی کا "ٹیگ" چسپاں
اوراس کاباب بند نہیں کیا جاسکتا۔تحریک لبیک کی قیادت نے کسی مرحلے
پرمذاکرات سے انکار یاراہ فراراختیارنہیں کیا جبکہ شدت پسند طبقہ تومکالمے
کواپنی سیاسی موت سمجھتا ہے۔شدت پسندی تو جنوبی پنجاب میں بدنام زمانہ ڈاکو
کے ہاتھوں ایک نوجوان کے اعضاء کاٹنا اوراسے بہیمانہ انداز سے قتل کرنا ہے۔
ریاست کے اندرریاست بنانابغاوت اورشدت پسندی ہے ، انتہاپسندی توصوبہ سندھ
میں ڈاکوؤں کے ہاتھوں پولیس اہلکاروں کااغواء اوران کی شہادت ہے۔زندہ
معاشرے اس قسم کے سانحات کوبرداشت اورفراموش نہیں کرتے ۔ وزیراعظم کی
ڈکٹیشن پر سکیورٹی فورسز نے ریاستی رٹ منوانے کیلئے آپریشن کاآغاز کیا
توڈاکوؤں نے سرنڈر کرنے کی بجائے الٹا اپنے ویڈیوپیغا م میں سکیورٹی فورسز
کوڈرانادھمکانا شروع کردیاتاہم اب پاک سرزمین سے اِن ناپاک اورسفاک درندوں
کاصفایا اٹل ہے۔ ہماری ریاست اورسیاست ڈاکوؤں کی متحمل نہیں ہوسکتی۔اسلحہ
کی نوک پرلوٹ مارکرنیوالے ڈاکوؤں اورووٹ کے بل پرقومی وسائل میں نقب
لگانیوالے قومی چوروں کیخلاف ایک ساتھ آپریشن کلین اپ کرناہوگا۔جس وقت تک
منتخب ایوانوں میں قومی چوروں کاآناجانالگارہے گااس وقت تک ڈاکو ؤں
کوزندانوں تک محدودنہیں کیاجاسکتا ۔زندہ نوجوان کے اعضاء کا ٹ کراسے قتل
کرناقیامت کامنظرتھا،پنجاب حکومت کی ناکامی سے ریاست کی بدنامی ہوئی ۔ لگتا
ہے اگرزندہ انسان کے اعضاء کاٹنے کاواقعہ منظرعام پرنہ آتا تووزیراعظم
ڈاکوراج کیخلاف ایکشن اورآپریشن کے احکامات صادر نہ کرتے۔افسوس حکمران اپنے
سرکاری قصر میں بیٹھ کر حادثات اورسانحات رونماہونے کاانتظار کرتے ہیں جبکہ
اس دوران کئی بیگناہ انسانوں کوناحق ماردیاجاتا ہے ۔ ڈاکوؤں کیخلاف آپریشن
کیلئے ان کے نڈر، زورآور اوربے لگام ہونے کاانتظار کیوں کیاجاتاہے، ان کے
ہاتھوں میں خطرناک اورخودکاراسلحہ کہاں سے آتا ہے ۔ ملک میں پائیدارامن
کیلئے ڈاکوؤں کو اپناسراوراپنے ہاتھوں میں خودکار ہتھیار اٹھانے کی مہلت
ہرگز نہ دی جائے۔ ڈاکوؤں کی پرورش اورپشت بانی کرنیوالے بااثر عناصر
کامحاسبہ بھی کرناہوگا۔افسوس وفاق سے صوبوں تک مسند اقتدار پر"بزدار"
براجمان ہیں ،اگرحکمران" بردبار" ہوتے توملک میں ڈاکو نہ دندناتے پھرتے
جبکہ پاکستان کے قومی وسائل بار بار چوری اوربیرون ملک منتقل نہ ہوتے ۔ یوں
تو یہ ڈاکو بھی تبدیلی سرکار کوورثہ میں ملے ہیں لیکن سابقہ ادوار میں
ڈاکوؤں نے اس قدر "اَت" نہیں مچائی تھی ،کپتان کے پیشرووزرائے اعظم کے
ادوار میں سندھ اور پنجاب کے اندر ڈاکوراج نہیں تھا۔ سندھ سے پنجاب تک
ڈاکویقینا کسی کے آشیر باد سے دندناتے اوربیگناہ شہریوں کے خون سے ہولی
کھیلتے پھررہے ہیں۔ چوراورکمزور سیاستدان ملک سے ڈاکوؤں کاصفایانہیں
کرسکتے،پولیس کوبھرپوراختیار اورجدیداسلحہ دیاجائے۔
میں تومعاشرے کے ایک عام" نائی "کی "دانائی" اور"ملاح" کی مسیحائی کا"مداح"
ہوں کیونکہ اس دورمیں کسی کی صفائی کرنااوردوسروں کو دریا پارکروانا عبادت
اورسعادت ہے،دوسروں کے زخموں اورگھروں کی گندگی صرف وہ صاف کرسکتا ہے جس نے
اپنے ہاتھوں سے اپنی" انا"کو"فنا"کردیا ہو۔ میں نے تبدیلی سرکار کے اندر
کوئی دانائی کاداعی اورکسی کوہم وطنوں کی اشک شوئی کرتے ہوئے نہیں دیکھا
۔اگر ہم نائی کی دانائی پرغورکریں تو وہ اپنی پیشہ ورانہ خدمات انجام دیتے
ہوئے اپنے پاس حجامت کیلئے آنیوالے شہریوں کوکئی مفت لیکن مفیدمشوروں سے
نوازتا ہے ۔دانائی نیلی چھتری والے سچے داتا کی دین ہے ،ایک انتھک کسان بھی
اپنے زرعی تجربات ،مشاہدات اوران کے ثمرات سے دوسروں کو ورطہ حیرت میں ڈال
سکتا ہے۔داناؤں کی صحبت میں ہرانسان دانائی سیکھتا ہے جبکہ احمقوں کی مجلس
میں بیٹھنے والے بھی احمق بن جاتے ہیں۔"دانا"کسان کے نزدیک فصل کا ہرایک
"دانا"قیمتی ہے ۔وہ اپنی فصل کی بروقت اور بھرپور کاشت یقینی بنانے کیلئے
مختلف بوٹیاں اورفصل دشمن حشرات تلف کرنے کیلئے کھاد کے ساتھ ساتھ دوسری
ضرور ی ادویات کا چھڑکاؤبھی کر تے ہیں۔ جو کسان بر وقت خودرو بوٹیوں
اورکیڑوں مکوڑوں کاصفایا نہیں کر تے ان کی تو صرف "فصلیں" برباد ہو تی ہیں
لیکن جس ر یاست میں چوروں اورڈاکوؤں کوبروقت ان کے منطقی انجام تک نہیں
پہنچایاجاتا وہاں" نسلیں "تباہ ہوجاتی ہیں ۔
|