کرونا وبا کی آمد کے بعد پوری دنیا پریشان تھی کہ اس
وائرس سے کیسے جائے۔لاک ڈاؤن کی وجہ سے معاشی نقصان تو ہوا ساتھ ہی لاکھوں
لوگ اس وائرس کا شکار بنے۔بعدازاں سائنسدان ایک سال بعد ویکسین بنانے میں
کامیاب ہوئے۔ جو کہ امید کی کرن ثابت ہوئی جس سے کیسز میں کمی آ رہی ہے۔
لیکن ایک ایسے وقت میں جب پوری دنیا میں ویکسین لگائی جارہی ہے اتنے میں
فرانسیسی نوبل انعام یافتہ سائنسدان لک منٹاگنئیر نے ایک انٹرویو میں یہ
دعوی کیا کہ ویکسین لگوانے والے 2 سال بعد مرجائینگے۔یقینا نوبل انعام ایک
تگڑے سائینسدان کو دیا جاتا ہے۔اسے سن کر ویکسین لگوانے والے لوگ پریشانی
کا شکار ہوگئے۔لک منٹاگنئیر جو کہ وائرولجسٹ ہے۔وائرولوجی کے ہروفیسر ہے۔88
سال ان کی عمر ہے۔لک منٹاگنئیر کی طرف سے یہ دعوی اس وقت سامنے آیا جب وہ
امریکی جریدے کو انٹرویو دے رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ان لوگوں کے بچ جانے
کا کوئی چانس نہیں جنہوں نے ویکسین کو کسی بھی شکل میں لگوایا ہے۔ ان کی
زندگی محض 2 سال ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمیں لاشوں کے آخری انتظام کے
لئے تیار ہو جانا چاہیے۔ انہوں نے یہ دعوی کیا کہ مزید سائنسدان بھی اس کے
اس ریسرچ کی حمایت کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنی ریسرچ کے بارے میں بتایا کہ
ویکسین لگوانے کے بعد وائرس شکل تبدیل کر رہا ہے۔مزید سائنسدان بھی اس
وبائی مرض کے بارے میں جانتے ہیں لیکن وہ خاموش ہے۔
اس انٹرویو کو سننے کے بعد لوگ پریشان ہوگئےتاہم اب تک اس حوالے سے کوئی
تردید یا تصدیق سامنے نہیں آئی۔ اگر ہم سائنسدان کی ذاتی زندگی کا جائزہ
لیں جو کہ 88 برس کے ہیں۔فرانس سے ان کا تعلق ہے۔ نوبل انعام کے ساتھ ساتھ
مزید 3 بڑے انعام بھی حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ایک 1986 دوسرا انعام
1988 میں جاپان پرائز 2008 میں نوبل پرائز میڈیسن کے میدان میں اہم کردار
ادا کرنے پر دیا گیا۔اہم کارنامہ (ایچ -آئی-وی) وائرس کو دریافت کرنے کا ہے۔
ایک طرف کامیابیوں کا یہ سفر لیکن دوسری طرف کافی متنازع بھی رہے ہیں۔ دنیا
کی دو بڑی یونیورسٹیوں میں اپنے فرائض بھی سرانجام دیتے رہے ہیں جن میں
چائنہ کی یونیورسٹی بھی شامل ہے۔ شروع میں بھی ان کا یہ بیان کافی متنازع
رہا جب انہوں نے کرونا وائرس کے بارے میں یہ انکشاف کیا کہ یہ لیبارٹری میں
تیار کردہ وائرس ہے۔جسے چائنہ نے ووہان شہر میں تیار کیا۔ اس بیان کے بعد
دنیا ایک نئی جنگ میں داخل ہونے لگی تھی جب امریکہ اور چائنا نے براہ راست
ایک دوسرے کو اس وائرس کا ذمہ دار قرار دیا تھا۔
اب لک منٹاگنئیر کے اس دعوے کے بعد ویکسین لگوانے والے 2 سال کے اندر اندر
مرجائینگے۔ اگر اس بات میں واقعی حقیقت ہے تو پھر تو ان لوگوں کو مر جانا
چاہیے جنہوں نے 1 سال قبل ویکسین لگائی۔ بہت سارے ایسے لوگ ہیں جن پر
باقاعدہ طور پر ویکسین ٹیسٹ ہوئے تھے جو کہ دورانیہ ایک سال سے زیادہ بنتا
ہے ان کو اب تک مر جانا چاہیے تھا لیکن اب تک ایسی کوئی بات سامنے نہیں آئی
کہ وہ لوگ جن پر باقاعدہ طور پر ویکسین تیار کیا گیا اور ٹیسٹ کیا گیا وہ
مر گئے ہیں۔
اگر ہم مزید پروفیسر لک منٹاگنئیر کی انٹرویو کا جائزہ لے جو امریکی جریدے
میں شائع ہوئی ہے۔ اس میں باقاعدہ طور پر دل2 سال کا ذکر تو نہیں تاہم
انہوں نے کچھ نشانیاں ضرور بتائیں ہیں جو ان سے متعلق ہے اب پروفیسر کی بات
کو اسلئے بھی اہمیت دی جارہی ہے کیونکہ وہ نوبل انعام یافتہ ہے۔مگر دوسری
طرف ان کے خلاف 106 نامور سائنٹسٹ باقاعدہ طور پر ایک خط لکھ چکے ہیں کہ ان
کی زیادہ تر ریسرچ حقیقت پرمبنی نہیں ہے۔ وہ اس فیلڈ کی بات کرتے ہیں جن سے
ان کا تعلق ہی نہیں اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 2 سال کا ٹائم ہی کیوں دیا
گیا۔جب کہ دوسری طرف پوری دنیا کے سائنسدانوں ویکسین لگوانے پر زور دے رہے
ہیں کہ وبا سے نمٹنے کا واحد حل ویکسین ہے۔پروفیسر لک منٹاگنئیر کے اس دعوے
کو زیادہ اہمیت بھی نہیں دی جارہی کونکہ ماضی میں ریسیرچ کے میدان میں وہ
متنازع رہے ہے۔لہذا افواہوں پر دھیان نہ۔ویکسین لگوا کر اپنے اور اپنے
پیاروں کی جان پچائے۔ |