سقوط خلافت اور امت پر اس کے اثرات

ستاسی سال قبل امت مسلمہ کو مرکزیت اور وحدت سے محروم کیا گیا جس کی وجوہات مغرب کی طویل متعصبانہ کوششیں اور کچھ غدار مسلمانوں کا مغرب کے ساتھ گہرا تعاون تھا۔

مغرب کی کوششیوں کا باقاعدہ آغاز اس وقت سے ہوا جب انیسویں صدی میں یہودی وفد ،سلطان عبدالحمید سے بیت المقدس اور فلسطین کے ارد گرد کچھ علاقوں کے حصول کا مطالبہ منوانے میں ناکام رہے،مادی دولت کا لالچ دینے کے باوجودیہودی وفد کامیابی حاصل نہ کر سکا۔

اس ناکامی کے بعد امت کے اتحاد کے خاتمہ کے لیے ان کی کوششیں شروع ہوئیں ،عربوں اور ترکوں میں نسلی امتیازات اور تفاخرو برتری کا بیج بونے لگے،مسلمان امت کے وحدت کی جڑیں کھوکھلی ہوتی گئیں، عربوں کا احساس برتری ترکوں کے خلاف محاذ بنانے کا موقع فراہم کرتا رہا ،مسلم ولایات ایک ایک کر کے مرکزی خلافت سے الگ ہوتے گئے یہاں تک کی ۱۹۲۴ میں یونینسٹ پارٹی ،مصطفی کمال پاشابرسر اقتدار آنے سے خلافت کا خاتمہ ہوگیا۔

اس کے ساتھ ہی اسلامی تہذیب و ثقافت کا زوال شروع ہوا،خلافت کی جگہ جمہوری نطام کاقیام عمل میں لایا گیا،وطنیت اور قومیت کا بیچ بویا گیا،اسلامی لباس و شعائر پر جمہوری نظام نے پابندی لگا کر مغربی طرز زندگی کا نفاذ کیا،جس کے اثرات ہم آج تک دیکھ سکتے ہیں۔

گزرے ہوئے سالوں میں امت کو کیا عظیم نقصانات ہوئے،یہ ایک لمبی فہرست ہے وہ ارض مقدس جس پر غیور خلیفہ سلطان عبدالحمید نے یہودیوں کو نامراد لوٹا دیا تھا،۱۹۴۸ میں بڑے آرام سے یہودیوں کے حوالے کر دیا گیا ،نصف صدی سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود قبلہ اول آج تک غاصب یہودیوں کے قبضے میں ہے۔

خلافت کا خاتمہ ہوتے ہی باطل کی منصوبہ بندی کامیاب رہی اور امت کو متعدد ریاستوں میں تقسیم کر کے وحدت کا خاتمہ کیا اور اس تقسیم کے بعد اپنی مرضی کے آمروں کو مسلم ممالک پر مسلط کیا جو صرف اپنے ذاتی مفادات کے لیے کام کر رہے ہیں،ان کا ہر کام مغربی آقاوؤں کی خوشی کا حصول ہے جنکی بدولت ان کا اقتدار قائم ہے،عوام پر ڈرون حملے ہو رہے ہو یا ریاست کے اندرونی علاقوں میں آپریشنز،حکمران کو صرف اپنی حکومت کے طویل عرصے تک اس کے قیام سے غرض ہے،نہ محاسبے کا خوف اور نہ ہی قوانین شریعت میں ترمیم پر کوئی پرواہ ہے۔

آج کا مسلمان NATIONALISM کا شکار ہو کر اتحاد کا درس بھلا چکاہے،محدود سوچ نے اس کو صرف اپنے آپ تک محدود کر دیا ہے،امت کے مسائل کیا ہیں،کہاں کہاں ہیں اور ان کا حل کیا ہے؟ قومیت اور نسلی و جغرافیائی حدود و قیود نےہمیں اس سوچ سے محروم کر دیا ہے،قوم پرستی اور عصبیت امت میں اخوت کا جڑیں کمزور کر چکی ہے،خلافت کے خاتمے سے باطل طاقتوں کا اصل ہدف ہی یہی تھا ۔

آج ہر مسلم ملک انتشار کا شکارہے،جسکی نہ تو خارجہ اور داخلہ پالیسیز ہیں نہ ہی کوئی عزت و احترام،مسلمان کی مالی اور جانی نقصانات پر سمجھوتے کیے جاتے ہیں،ان کی قیمتیں تک مقرر کی جاتی ہیں،دہشت گردی کے نام پر باطل کی اپنے مفادات کے حصول کے لیے شروع کی گئی جنگوں میں اپنی ہی فوج کو اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے خلاف لڑوا جا رہا ہے،مغربی طاقتوں کا دل جب چاہے مسلمان علاقوں میں آپریشنز کے نام قوانین کی خلاف ورزی معمول بن چکا ہے۔

جہاد،جو عروج کا راستہ ہے،آج مسلمان یہ فراموش کر چکے ہیں یہاں تک کہ باطل کی خوشی کے لیے اپنے نصاب تعلیم سے بھی اس کے عنوانات کو خارج کرنا عار نہیں سمجھتے۔

قومیت نے امت کی وحدت کی بنیادیں کھوکھلی کر دی ہیں،مذہبی تہواریں تین تین دن کے تاخیر سے منائی جا رہی ہے،تعصبات نے امت کے اندر آفاقیت کے تصورات کا خاتمہ کر دیا ہے،باطل طاقتوں نے امت کو ریاستوں میں تقسیم کر کے ہماری روحانی اور جسمانی مرکزیت کا خاتمہ کر دیا،بد قسمت مسلمان اپنے مفادات کے لیے صوبوں کو بھی نسلی بنیادوں پر تقسیم کرنے کا آغاز کر چکے ہیں۔

آج شام لہولہان ہے،پاکستان پرائی جنگ میں اپنی جانی و مالی قوتیں ضائع کر رہا ہے،افریقہ انقلاب کے نام پر انتشار کا شکار ہے،افغانستان اور عراق سپر پاور کے مظالم کے نتیجےمیں ٹوٹ چکے ہیں،ظلوم فلسطین غاصب یہودیوں کے قبضے میں ہے،ہر طرف امت کا خون پامال ہو رہا ہے۔

بیشک یہ خلافت ہی کا نظام تھا جس نے امت کو اتحاد کی لڑی میں مظبوطی سے پرویا تھا،جس نے جہاد کا راستہ اپنا کر مغرب تک فتوحات کا سلسلہ وسیع کیا تھا،جو امت کی بیٹیوں کی ایک پکار پر اپنی فوجوں کو منظم کر کے باطل سے لڑنے کو تیار ہوتے،خلیفہ معتصم ،سلطان محمد فاتح ،سلطان صلاح الدین ایوبی اور محمد قاسم ،طارق بن زیاد نظام خلافت ہی سے جنم لینے والے مسلمان ہیروز تھے۔

سترویں صدی میں عیسویں میں بیشک یہ خلافت ہی کا نظام تھا جس نے آج کے سپر پاور امریکہ کے بحری بیڑوں پر بین الاقوامی پانی میں اتارنے پر عثمانی خلافاء کو ٹیکس دینے پر مجبور کیا تھا جو Barbary Treaty کے نام سے مشہور ہے۔

وہ مسلمان جسکے بہترین سلوک کے آج بھی یہود گواہ ہیں کہ جب عثمانی خلفاء نے ۱۴۹۲ میں ان کو ترکی بلا کر ان کو احترام کے ساتھ ترکی میں بسایاجبکہ وہ سپین میں عیسائیوں کے مظالم کا شکار -----تھے،آج مسلمان لیڈرز اپنے ریاستوں کا تحفظ کرنے میں ناکام ہیں تو اقلیتوں کا تحفظ کیسے کریں گے؟اسی طرح سلطان صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس کو عیسائیوں کے قبضے سے نکالنے کے بعد اپنے مخلف فریق کے ساتھ جس عدل و انصاف کا برتاو کیا،وہ آج بھی تاریخ میں محفوظ ہے۔ موسی بن نصیر نے711ء میں اپنی افواج کو صرف اندلس کے ایک حاکم کاونٹ جولین کے کہنے پر سپین کے بادشاہ راڈرک کے خلاف متحرک کیا تھا۔

اسی نظام کی بدولت مسلمان آٹھ سو سال تک شاندارعلمی ترقی کے کے ساتھ اندلس پر حکومت کرتے رہے آج امت کے حکمران نہ تو خلفائے سابقہ کی طرح توہین رسالت کا منہ توڑ جواب دینے کے لیےسنجیدہ ہیں اور نہ مظلوم مسلمانوں کی نصرت کے لیے جہاد کا راستہ اپناتے ہیں ، ایک کے ایک تقریبا ہر ایک مسلمان ریاست مغربی تسلط میں ہیں ،اپنی ریاستوں کے اندرونی اور بیرونی مسائل کے ذ مہ دار یہ حکمران خود ہیں،امت کے مسائل اور ان کے اوپر ہونے والے مظالم میں اضافہ انہیں حکمرانوں اور نظام کی بدولت ہے کیونکہ وہ امت کی مفاد کی بجائے صرف ذاتی مفادات کے لیے اپنی حکمرانیوں کے دن پورے کرتے ہیں۔

خلاصہ یہ کہ گزری ہوئی ایک صدی سے بھی کم عرصے میں امت کو جن سانحات کا سامنا کرنا پڑا اس کی مثال گزری ہوئی تیرہ صدیوں میں نہیں ملتی،حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم اپنا کھویا ہوا مقام واپس لانا چاہتے ہیں تو ہمیں صحیح معنوں میں اللہ سبحانہ و تعالٰی کے دیئے ہوئے نظام،خلافت کے دوبارہ قیام کے لیے متحد ہو کر مخلص جدوجہد شروع کرنی ہوگی،وہ نظام جو امت مسلمہ کو ایک پلیٹ فارم پر اکھٹا کر کے امت کو صحیح معنوں میں سپر پاور بنا کر دنیا میں عدل و انصاف کا قیام کرے گی۔

و عن ابي ذر رضي الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من فارق الجماعة شبرا فقد خلع ربقة الاسلام من عنقه. ( رواه احمد و ابو داود)
حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے جو شخص جماعت سے ایک بالشت علیحدہ ہوا اس نے اسلام کا پٹہ اپنی گردن سے نکال دیا۔
fatima saba
About the Author: fatima saba Read More Articles by fatima saba: 5 Articles with 15252 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.